ملفوظ 411: سب مسلمان ولی ہیں

ملفوظ 411: سب مسلمان ولی ہیں ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ میرا مذہب یہ ہے کہ سب مسلمان بزرگ ہیں اور ولی ہیں اللہ ولی الذین امنوا سے تمام اہل ایمان کی ولایت عامہ ثابت ہوتی ہے اور بڑا گروہ یہی ہے ان کا نور ایمان اگر ذرہ برابر بھی متمثل ہو جائے تو چاند اور سورج ایک دم اس کے سامنے ماند ہو جائیں ـ

ملفوظ 410: ایک مصیبت پر تین شکر

ایک مصیبت پر تین شکر فرمایا کہ آج ایک جگہ سے افطار کی دعوت آئی ہے مگر میں معذور ہوں کہیں آنے جانے سے اس آنت کی تکلیف کیوجہ سے ایک صاحب نے عرض کیا کہ حضرت یہ تو بڑی تکلیف ہے فرمایا اس سے زائد نہیں یہی محل شکر ہے ـ ایک مولوی صاحب نے عرض کیا کہ حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کا ارشاد ہے کہ جب مجھ پر کوئی مصیبت آتی ہے تو تین وجہ سے شکر واجب سمجھتا ہوں ایک تو یہ کہ اس سے زائد نہ ہوئی دوسرے یہ کہ دین پر کوئی آفت نہ آئی تیسرے یہ کہ جزع فزع نہ کیا اللہ تعالی نے صبر عطا فرمایا ـ سبحان اللہ ! بالکل صحیح ہے ـ

ملفوظ 409: “” منظوم مناجات ،،

“” منظوم مناجات ،، میری بارکیوں دیر اتنی کرے ایک صاحب نے عرض کیا کہ حضرت ایک مناجات منظوم ہے چھپی ہوئی جس میں جگہ جگہ یہ مصرعہ ہے کہ میری بارکیوں دیر اتنی کرے فرمایا کہ جی ہاں ! سنا ہے نہایت گستاخی کا طرز ہے اور جناب اس کا تو کوئی جاہل مصنف معلوم ہوتا ہے بعض کو اہل علم ہونے کا دعوے ہے ان کی تصانیف میں ایسی خرافات ہیں جن کو دیکھنے اور پڑھنے سے رونگٹا کھڑا ہوتا ہے ـ اور ایسے مضامین اکثر فضائل نبویہ میں بیان کئے جاتے ہیں جو دوسرے انبیاء علیہم السلام کی تنقیص کے موہم ہو جاتے ہیں ـ اور حضور کو اور انبیاء پر فضیلت دینے میں اکثر عنوان نہایت گستاخانہ ہو جاتا ہے بات یہ ہے کہ انبیاء میں اور حضور میں کامل اور اکمل بلکہ اکمل اور اکمل الکاملین کا تفاوت ہے ـ کامل اور ناقض کا تفاوت نہیں بات یہ ہے کہ ایک فضائل تو ہیں منصوص ان کے بیان کرنے میں کوئی حرج نہیں اور ایک ہیں مستنبط اس میں سخت احتیاط کی حاجت ہے انبیاء علیہم السلام کے تفاضل کا مسئلہ نہایت ہی نازک ہے اور مصنفین اسی کو بڑے زور سے قیاس کی بناء پر بگھارتے ہیں ـ میں اس کے متعلق ایک معیار بیان کیا کرتا ہوں کہ اگر فرضا تمام انبیاء علیہم السلام مع حضورؐ کے سب ایک جگہ جمع ہوں تم یہ سوچو کہ وہ اپنے مضامین تفاضل کے متعلق اس مجلس میں بھی سب حضرات کے سامنے پڑھ سکتے ہو یا کہہ سکتے ہو ـ اس معیار کو مستحضر کر کے وہی کلام منہ سے نکلا لو جس کو سب کے سامنے بلکہ حساب کے روز حق تعالی کے سامنے بھی عرض کر سکو یہ ایک مراقبہ ہے یہ میں نہیں کہتا کہ نیت بھی تنقیص کی ہے مگر دیکھ لیجئے کہ اس کا مدلول کیا ہے ـ اسی سلسلہ میں فرمایا کہ ہمارے حضرت حاجی صاحبؒ فرمایا کرتے تھے کہ ایک چشتی اور ایک قادری میں جھگڑا ہوا کہ حضرت غوث پاک کا مرتبہ افضل ہے یا خواجہ اجمیری صاحب کا حضرت نے فیصلہ فرمایا کہ بھائی یہ جھگڑے کی بات نہیں قادریوں کے تو حضرت غوث پاک باپ ہیں اور خواجہ صاحب چچا ـ اور چشتیوں کے حضرت خواجہ صاحب باپ ہیں اور حضرت غوث صاحب چچا تعلق خواہ باپ سے زیادہ ہو مگر تنقیص چچا کی بھی جائز نہیں ـ ان قادری صاحب نے کہا کہ جب حضرت غوث پاک نے فرمایا قدمی ھذہ علی رقاب اولیاء اللہ ( میرا یہ قدم اولیاء اللہ کی گردنوں پر ہے ) تو حضرت خواجہ صاحب نے گردن جھکا دی اور فرمایا بل علی راسی و عینی (بلکہ میرے سر آنکھوں پر 12) تو اس میں خود خواجہ صاحب نے اقرار فرمایا ان کی فضیلت کا ـ حضرت نے جواب میں فرمایا کہ اس سے تو اس کے عکس پر بھی استدلال ہو سکتا ہے کہ ان کا عروج بڑھا ہوا تھا اور ان کا نزول اور طریق میں اور نزول افضل ہے عروج سے پھر فرمایا ( یعنی صاحب ملفوظ نے ) کہ اگر ان بزرگوں میں کسی وجہ سے لڑائی بھی ہو تو ایسا ہے جیسے دو شیر لڑتے ہیں اور گیدڑ صاحب فیصلہ کے لیے بیچ میں کودیں ـ اسی تفاضل کے سلسلہ میں فرمایا کہ ایک شخص حضرت حافظ صاحبؒ سے مرید تھے اور حضرت حاجی صاحب کی مجلس میں حاضر تھے ان کے دل میں خطرہ ہوا کہ معلوم نہیں حضرت حاجی صاحبؒ اور حضرت حافظ صاحبؒ میں سے بڑا کون ہے اللہ کے نزدیک حضرت حاجی صاحبؒ اس خطرہ پر مطلع ہوئے فرمایا کہ میاں ایسا خیال بہت بری بات ہے تمہیں سیراب کرنے کے لیے تو دونوں کافی ہیں تمہیں اس کی کیا ضرورت ہے کون بادل بڑا ہے اور کس میں پانی زیادہ ہے ـ

ملفوظ 408: جنت کی طلب ماموربہ ہے

جنت کی طلب ماموربہ ہے ایک صاحب کے سوال کے جواب میں فرمایا کہ جنت سے استغناء نہیں ہو سکتا اس کی تمنا بھی جائز اسکی طلب بھی جائز ـ بلکہ ماموربہ ـ

ملفوظ 407: جاہل صوفیوں کا جنت سے استغناء

ملفوظ 407: جاہل صوفیوں کا جنت سے استغناء ایک مولوی صاحب نے عرض کیا کہ حضرت آجکل جاہل صوفی کہا کرتے ہیں کہ نہ ہم کو جنت کی خواہش نہ دوزخ سے ڈر فرمایا کہ حقیقت سے بے خبری اس کا سبب ہے اور صریح مخالفت ہے نصوص کے احکام کی یہ یہیں باتیں بگھارتے ہیں مر جانے کے بعد اگر جنت نہ ملے تب حقیقت معلوم ہو گی باقی مغلوبین کے کلام میں اگر ایسا مضمون پایا جائے اس کا منشاء دوسرا ہے –

ملفوظ 406: حضرت حاجی صاحبؒ کی تعلیم و تسلی

حضرت حاجی صاحبؒ کی تعلیم و تسلی ایک مولوی صاحب کے سوال کے جواب میں فرمایا کہ حضرت حاجی صاحبؒ کا مذاق اس قدر محققانہ اور مربیانہ ہے کہ کبھی کسی کو پریشانی ہو ہی نہیں سکتی حضرت اس فن کے مجدد تھے امام تھے کیسی پاکیزہ اور تسلی بخش تعلیم ہے جو اوپر کے ملفوظ میں گذری ہے کہ کیا یہ نفع نہیں ہے کہ اللہ تعالی کا نام لیتے ہو – اس کا حاصل یہ ہوا کہ یہ سوال کہ اللہ کا نام لینے سے کیا نفع ہوا جب کرو جب کہ ذکراللہ مقصود بالغیر ہو ـ اب بتلایئے کہ جو شخص ذکر کو مقصود سمجھے گا اس کو کیا پریشانی ہو گی اس لئے پریشانی تو مقصود حاصل نہ ہونے پر ہوا کرتی ہے ـ

ملفوظ 405: حضرت حاجی صاحبؒ کی شان

ملفوظ 405: حضرت حاجی صاحبؒ کی شان تحقیق فرمایا کہ جو شان تحقیق کی حضرت حاجی صاحبؒ میں دیکھی وہ کسی میں نہیں دیکھی ـ مولوی شاہ بہاؤالدین صاحب امروہی نے طائف میں چلہ کھینچا حضرت حاجی صاحبؒ سے شکایت کی کہ کوئی نفع نہیں ہوا ـ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ناراض ہیں فرمایا کہ اگر ہم ناراض ہوتے تو تمہیں چلہ ہی کی توفیق نہ ہوتی اس میں حضرت نے یہ مسئلہ بتلا دیا کہ شیخ کی کدورت موجب خذلان ہوتی ہے ـ ایک صاحب ذاکر شاغل تھے اپنے حالات پیش کر کے حضرت حاجی صاحب سے عرض کیا کہ یہ حضرت ہی کا فیض ہے فرمایا نہ بھائی ! میں کچھ نہیں دیتا یہ سب تمہارے ہی اندر ہے اسی کا ظہور ہو جاتا ہے اور اس پر مثال فرمائی کہ جیسے کے سر پر خوان ہوتا ہے اور اس میں ہر چیز ہوتی ہے جس کے پاس وہ خوان ہوتا ہے وہ اس سے کوئی چیز اٹھا کر نائی کو دیدیتا ہے تو وہ اپنے پاس سے دینا تھوڑا ہی ہے بلکہ سب کچھ اس کے ہی پاس تھا اس کو خبر نہ تھی اب خبر ہو گئی ـ حضرت کی یہ شان تو تھی عرفان کی ـ اب شان شخیت سنئے کہ اسی کے ساتھ یہ بھی فرمایا مگر تم ایسا نہ سمجھنا ایک اور واقعہ بیان فرمایا کہ ایک شخص نے حضرت سے کہا کہ اللہ اللہ کرنے سے کوئی نفع نہیں ہوا فرمایا کہ یہ کیا تھوڑا نفع ہے کہ اللہ اللہ کرتے ہو ـ عجیب بات فرمائی ـ اسی سلسلہ میں صاحب ملفوظات نے فرمایا کہ ایک شخص اپنی بیوی سے کرتا تھا کہ تو بہت نماز پڑھتی ہے نماز پڑھنے سے تجھ کو ملا مجھ سے اگر کہتا تو میں جواب میں کہتا کہ نماز ملتی ہے ـ سودا بڑا گستاخ تھا اپنی بیوی سے کہا کرتا کہ تم نماز پڑھتی ہو کیا ملے گا وہ کہتی کہ جنت ملے گی اس پر کہتا کہ اچھا وہاں بھی ان ہی ملانوں کے اور مؤذنوں کے غریبوں ہی کے ساتھ رہے گی دیکھ ہم دوزخ میں جائیں گے وہاں پر بڑے بڑے رئیس ہونگے بڑے بڑے لوگ ہو نگے شداد نمرود فرعون ، قارون ہم ان کے ساتھ ہونگے مسخرہ پن تھا کوئی عقیدہ تھوڑا ہی تھا مگر ایسا تمسخر بھی سخت بیہودگی ہے ـ
ایک مولوی صاحب نے کسی بات پر عرض کیا کہ حضرت کفر کا اندیشہ ہے اس پر فرمایا کہ کفر بڑی مشکل سے آتا ہے ہاں اندیشہ کفر میں میں بھی متفق ہوں باقی کفر کو تو کوئی ہاتھ جوڑ جوڑ کر بلائے تب بھی مشکل ہی سے آتا ہے ـ

ملفوظ 404: اپنے بزرگوں کے متوسلین

ملفوظ 404: اپنے بزرگوں کے متوسلین ایک مولوی صاحب نے عرض کیا کہ حضرت اپنے بزرگوں کے متوسلین میں جس قدر اتباع سنت اور احکام کی پابندی دیکھی یہ بات کسی اور بزرگوں کے متوسلین میں دیکھنے میں نہیں آئی فرمایا کہ اپنے بزرگوں کے متوسلین میں بھی ان ہی میں یہ بات دیکھی جاتی ہے جن کو صحبت میسر ہو گئی ورنہ بہت کم یہ بات پیدا ہوتی ہے یہ ایک رنگ ہے بدوں صحبت کے یہ رنگ ہو نہیں سکتا جیسے مشہور ہے کہ خربوزہ کو دیکھ کر خربوزہ رنگ پکڑتا ہے یہ مقولہ بالکل صحیح ہے دیکھ کر بھی رنگ بدل جاتا ہے ـ

ملفوظ 403: حضرت گنگوہیؒ کی اپنے بارے میں قسم

حضرت گنگوہیؒ کی اپنے بارے میں قسم ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ حضرت مولانا گنگوہی ؒ نے اپنے مکتوبات میں قسم کھا کر لکھا ہے کہ میں کچھ نہیں اس پر بعضے مخالف کہتے ہیں کہ ہم تو حضرت کو سچا سمجھتے ہیں ہمارا بھی یہی عقیدہ ہے کہ وہ کچھ نہ تھے ( استغفراللہ ) ـ ایک مولوی صاحب اپنے ہی مجمع کے اور حضرت گنگوہیؒ کے جانثاروں میں سے ان کو ایک شبہ ہو گیا اعتقاد تو نہیں گیا مگر یہ کہنے لگے کہ ہمارے اعتقاد میں اور حضرت کے فرمانے میں تعارض ہے اگر حضرت کے ارشاد کو صحیح سمجھیں تو ہمارا معتقد ہونا باطل ہے اور اگر معتقد رہتے ہیں تو حضرت کی طرف خلاف واقع کی نسبت لازم آتی ہے ـ میں نے کہا مولوی صاحب ایسی بات آپ جیسے شخص سے تعجب ہے ـ میں اس کی حقیقت آپ سے عرض کرتا ہوں وہ یہ ہے کہ کمالات کی دو قسمیں ہیں ایک کمالات واقعہ اور ایک کمالات متوقعہ ! سو ہم حضرت کے جن کمالات کے معتقد ہیں وہ کمالات واقعہ ہیں اور حضرت جن کمالات کی نفی فرماتے ہیں وہ کمالات متوقعہ ہیں ـ

ملفوظ 402 : دوسروں کی گرانی کی رعایت

دوسروں کی گرانی کی رعایت فرمانا حضرت والا کو کسی دوسری جگہ اپنے ایک عزیز کے یہاں کچھ سامان بھیجنا تھا وہ سامان ایک چھوٹی سی گٹھڑی کی شکل میں بندھا ہوا تھا اتفاق سے ایک صاحب اس مقام پر جانے والے تھے حضرت والا نے اپنے خادم نیاز سے فرمایا کہ یہ صاحب تشریف لے جا رہے ہیں آپ کے وہ سامان سپرد کر دیا جائے بوقت سپرد کرنے کے حضرت والا نے فرمایا کہ اگر آپ پر ذرہ برابر بھی گرانی ہو تو آدمی پہلے سے تجویذ کر لیا گیا ہے وہ اس سامان کو لے کر چلا جائے گا ـ ان صاحب نے نہایت لجاجت کے لہجے میں عرض کیا کہ مجھ پر کوئی گرانی نہ ہو گی اور وہ صاحب سامان اٹھا کر اسٹیشن کے ارادہ سے چل دیئے ـ حضرت والا نے فرمایا کہ اسٹیشن تک اس سامان کو پہنچانے کے لیے نیاز جائیں گے یہی کیا تھوڑا ہے کہ وہاں جانے سے یہ بچے اور کفایت بھی ہوئی ان صاحب نے اس پر اصرار کیا کہ میں خود ہی اسٹیشن تک اس سامان کو لے جاؤں گا کوئی زیادہ وزن نہیں حضرت والا نے فرمایا کہ آپ کو وزن نہیں معلوم ہوتا میرے قلب سے اس وقت پوچھئے کہ اس میں کتنا وزن ہے اور ایسا ہرگز نیہں ہو سکتا کہ اسٹیشن پر پر بھی آپ ہی لے جائیں ریل سے آ گے تو آپ ہی لے جائیں گے مجبوری ہے مگر یہاں تو کوئی مجبوری نہیں وہ صاحب خاموش ہو گئے اور نیاز جا کر اسٹینش پر وہ سامان پہنچا آ ئے ـ