ریت سے حروف خشک کرنا فرمایا کہ ریت سے حروف خشک کرنیکی پرانی رسم ہے اور مجھ کو بھی یہی پسند ہے اس سے حروف پھیکے نہیں پڑتے جاذب سے حروف پھیکے پڑ جاتے ہیں اور بھی کھاتے اب تک بھی ریت ہی سے خشک کئے جاتے ہیں اس سے حروف کی حفاظت رہتی ہے ـ
ملفوظاتِ حکیم الامت جلد نمبر 1
ملفوظ 400: ایک رئیس کے لڑکے ختنہ کی تقریب میں
ملفوظ 400: ایک رئیس کے لڑکے ختنہ کی تقریب میں حضرت کی عدم شرکت فرمایا کہ قصبہ رامپور میں ایک رئیس مولوی صاحب کے لڑکے کی ختنہ تھی اپنے سب حضرات بھی اس میں مدعو تھے مجھ کو بھی بلایا گیا تھا میں بھی چلا گیا اصلاح الرسوم اس سے پہلے لکھ چکا تھا میں نے پہلے سے طے کر لیا تھا کہ میں قاضی انعال الحق صاحب کے مکان پر ٹھہروں گا اور وجہ میں نے یہ بیان کی تھی کہ مجمع میں بعضے بڑے ہو نگے میں ان کے ادب میں رہوں گا اور بعضے چھوٹے ہونگے وہ میرے ادب میں رہیں گے نہ مجھ کو راحت ملے گی نہ ان کو اور اس تقریب میں حضرت مولانا محمود حسن صاحبؒ اور حضرت مولانا خلیل احمد صاحبؒ بھی تشریف لائے تھے قاضی انعام الحق صاحب کے مکان پر ٹھہرا عشاء کے وقت میں نے دیکھا کہ نائی عام بلاوا دیتا پھرتا ہے ـ میں دریافت کیا کہ یہ بلاوا کیسا ہے اس نے کہا کہ تمام برادری کی دعوت ہے میں کھٹک گیا کہ گڑبڑ معاملہ ہے اور ظاہر تفاخر ہے ساتھ ہی اس کے یہ خیال ہوا کہ تو اصلاح الرسوم لکھ چکا ہے اگر شرکت کی تو کتاب کا خاک اثر نہ رہیگا میں نے قاضی انعام الحق صاحب سے مشورہ کیا کہ یہ معاملہ کی صورت ہے اس میں کیا کرنا چاہئے انہوں نے جواب دیا کہ برادری کا معاملہ ہے میں اس میں کوئی مشورہ نہیں دے سکتا مجھ پر الزام آ پڑے گا ـ میں نے خود سوچ کر تجویذ کیا کہ میں آپ کے باغ میں جاتا ہوں وہاں کسی کا خیال بھی نہ جائے گا اور میں شریک ہونے سے بچ جاؤنگا نہ ہونگا نہ شریک ہونگا گو اس میں مجھ کو بعض کلفتیں ہونگی مگر کچھ بھی ہو شرکت مناسب نہیں میں اس زمانہ میں تصانیف کا کام کر رہا تھا سفر میں سامان تصنیف کا بھی ساتھ رکھتا تھا اس وقت بھی ضروری سامان ساتھ تھا اس کو لیکر اخیر شب میں مشروط باغ میں پہنچ گیا یہ باغ قصبہ سے قدرے فاصلے پر ہے بڑی فضا کی جگہ ہے نہر بھی اس کے قریب ہے ایک کنواں بھی اس میں ہے ـ غرضیکہ بڑی تفریح کی جگہ ہے وہاں بیٹھا ہوا لکھتا رہا ( یہ باغ (عہدہ ) قضاء کی وجہ سے شاہی عطیہ تھا اصل میں اس کا نام تھا مشروط بالقضاء اب صرف مشروط رہ گیا ) اب صبح کو میری تلاش ہوئی قاضی انعام الحق صاحب سے دریافت کیا کہ وہ کہاں ہے انہوں نے جواب دیا مجھ کو معلوم ہے مگر بتلانے کی اجازت نہیں ان پر بے حد زور دیا کہ بتلاؤ انہوں نے کہا کہ اس سے میرا تعلق دین کا ہے بتلا نہیں سکتا چاہے کچھ بھی ہو لیکن یہ اطمینان رکھئے کہ میری شرکت مشورہ وغیرہ کی کچھ نہیں ـ لوگ کہنے لگے کہ گھر میں ہے انہوں نے کہا کہ میں پردہ کرائے دیتا ہوں آپ خود دیکھ لیں مگر وہ مکان میں نہیں ہے خواہ مخواہ خود بھی تکلیف اٹھاؤ گے اور مجھے بھی تکلیف دو گے مختلف سڑکوں پر بھی ڈھونڈا گیا مگر میں کہاں ملتا جھلا کر رہ گئے ـ میں ریل کے وقت باغ ہی سے باہر اسٹیشن پر پہنچ گیا اسٹیشن پر مولوی معین الدین صاحب نانوتوی ملے وہ بھی اس ہی تقریب کی شرکت کے لیے آ ئے تھے کہنے لگے کہ میں تو تم سے لڑنے آیا تھا ـ یہ انہوں نے اس وجہ سے کہا کہ انہوں نے بھی ایک مرتبہ ایک تقریب میں مدعو کیا تھا ـ میں نے انکار کر دیا تھا کہنے لگے کہ یہ سوچ کر چلا تھا یہ کہوں گا کہ غریب آدمیوں کے یہاں شرکت سے انکار کرتے ہو اور امیروں کے یہاں شرکت کرتے ہو مگر جب تم کو نہ پایا اب لڑائی کی گنجائش نہ رہی اور کہنے لگے کہ اب میں بھی شریک نہ ہونگا جب تم ہی شریک نہ ہوئے ـ غرضیکہ گاڑی آ گئی میں تو اس میں بیٹھ کر یہاں پر آ گیا وہاں پر بڑی گڑبڑ ہوئی اسلئیے کہ ایک جماعت وہاں بدعتوں کی بھی ہے (یہ سنا ہے کہ جہاں جہاں حضرت سید صاحب کے قدم پہنچ گئے وہاں پر بدعت کا زور نہیں رہا اور جہاں پر نہیں پہنچے وہاں پر بدعت کا زور نہیں ہےواللہ اعلم) یہاں پر تھانہ بھون میں بھی حضرت سید صاحب تشریف لائے ہیں بحمداللہ یہاں پر کوئی جماعت بدعتیوں کی نہیں ہے ویسے ہی لوگ کچھ معمولی طریق پر اس خیال کے ہیں باقی کوئی خاص جماعت نہیں قصبہ رامپور میں بدعت کا قدرے زور ہے سو بد عتیوں نےایک مضمون تیار کیا اس مضمون کا خلاصہ یہ تھا کہ مصنف اصلاح الرسوم نے اپنی رائے سے رجوع کر لیا ہے اور رسوم میں شرکت کی ہے اور مشورہ یہ ہوا کہ اس کی دستی نقلیں کر کے کوچہ برزن میں جابجا چسپاں کر دو ـ بوڑھوں نے منع کیا بوڑھوں میں عقل ہوتی ہے تجربہ ہوتا ہے کہ جلدی مت کرو رات درمیان میں ہے صبح کو دیکھ لو کہ شرکت کرتے ہیں یا نہیں کبھی قبل از وقت کوئی کام کر گزرو پھر ذلت اٹھانی پڑے صبح کو دیکھا جائے گا صبح کو ان کو یہ معلوم ہوا کہ اس نے شرکت نہیں کی کہنے لگے کہ بات رکھ لی ( یعنی میں نے ) یہاں کے بھی بعض حضرات تقریب میں شریک تھے انہوں نے بھی میرے متعلق بڑے بڑے لیکچر دیئے یہاں ایک لطیفہ ہوا ـ میں قرآن شریف سورہ نمل پڑھ رہا تھا ـ اس میں ہد ہد کا قصہ آیا ـ میں نے ایک دوست کو بلا کر کہا کہ دیکھو قرآں شریف میں میرے اس واقعہ کی نظیر اور تائید موجود ہے ان آیات میں وتفقد الطیر فقال مالی لا اری الھد ھد ام کان من الغائبین لا عذبنہ عذابا شدیدا اولا ذبحنہ اولیا تینی بسلطن مبین فمکث غیر بعید فقال احطت بمالم تحط بہ وجئتک من سبا بنبا یقین انی وجدت امراۃ تملکھم واوتیت من کل شیء ولھا عرش عظیم وجدتھا وقومھا یسجدون للشمس من دون اللہ وزین لھم الشیطن اعمالھم فصدھم عن السبیل فھم لا یھتدون ـ (اور ایک بار یہ قصہ ہوا کہ سلیمانؑ نے پرندوں کی حاضری لی تو ہد ہد کو نہ دیکھا فرمانے لگے کہ یہ کیا بات ہے کہ میں ہد ہد کو نہیں دیکھتا کیا کہیں غائب ہو گیا ـ میں اس کو غیر حاضری پر سخت سزادوں گا یا اس کو ذبح کر ڈالونگا یا وہ کوئی صاف حجت اور عذر غیر حاضری کا میرے سامنے پیش کرے – سو تھوڑی دیر میں وہ آ گیا اور سلیمانؑ سے کہنے لگا کہ میں ایسی بات معلوم کر کے آیا ہوں جو آپ کو معلون نہیں ہوئی اور اجمالی بیان اس کا یہ ہے کہ میں آپ کے پاس قبیلہ سبا کی ایک تحقیق خبر لایا ہوں ـ میں نے ایک عورت کو دیکھا کہ وہ ان لوگوں پر بادشاہی کر رہی ہے اور اس کو سلطنت کے لوازم میں سے ہر قسم کا سامان میسر ہے اور اس کے پاس ایک بڑا اور قیمتی تخت ہے میں نے اسکو اور اس عورت کی قوم کو دیکھا کہ وہ خدا کی عبادت کو چھوڑ کر آفتاب کو سجدہ کرتے ہیں اور شیطان نے ان کے ان اعمال کفریہ کو ان کی نظر میں مرغوب کر رکھا ہے اور ان کو راہ حق سے روک رکھا ہے سو وہ راہ حق پر نہیں چلتے 12) ہد ہد سلیمان علیہ السلام کے لشکر سے غائب ہوا میں بھی اس مجمع تقریب سے غائب ہو گیا تھا اس کی سزا الاعذبنہ اولاذبحنہ تجویذ کی گئی تھی مجھ کو بھی برا بھلا کہا گیا ملامت کی گئی کہ یہ بھی ذبح نفس ہے ہد ہد نے ایک ایسی چیز کی خبر دی جس کا علم حضرت سلیمانؑ کو نہ تھا اس سے معلوم ہوا کہ کسی واقعہ حسیہ کا علم اگر ناقص کو ہو کامل کو نہ ہو ممکن ہے اسی طرح مفاسد عوام کی مجھ کو خبر ہو اور اکابر کو نہ ہو تو مستبعد نہیں اور جیسے وہاں بلقیس عورت کی سلطنت تھی ایسے ہی یہاں پر بھی عورتوں کی حکومت تھی ـ جس کی وجہ سے یہ رسوم ہوئیں اور حسیات میں کسی کے علم کا زائد ہونا یہ کوئی کمال نہیں واقعات جزئیہ میں ممکن ہے کہ چھوٹوں کا علم بڑوں سے بڑھا ہوا ہو ـ جیسے ایک جانور ہد ہد کا علم ایک نبی سے جزئی خاص میں بڑھا ہوا تھا ـ سو جیسے اس علم سے سلیمان علیہ السلام پر ہد ہد کو فضیلت نہیں ہو سکتی ایسی ہی مجھ کو بھی اپنے اکابر پر فضیلت نہیں ہو سکتی ـ البتہ ہمارے حضرات علوم مقصودہ میں بڑھے ہوئے ہیں اور یہ علوم مقصودہ میں سے نہ تھا ـ ایک مولوی صاحب محض اصلاح الرسوم کے متعلق گفتگو کرنے کے لیے تشریف لائے بڑے جوش میں تھے کہنے لگے مجھ کو اصلاح الرسوم کے بعض مقامات پر شبہات ہیں ان میں گفتگو کرنا چاہتا ہوں ـ میں نے کہا کہ بڑی خوشی سے مگر معاف کیجئے گا میری بے ادبی اور بے تہذیبی آپ کو تین باتوں پر قسم کھانا ہو گی ـ ایک تو یہ کہ واقعی میرے دل میں شبہ ہے محض تصنیف نہیں کیا گیا دوسرے یہ کہ اس شبہ کا جواب میرے ذہن میں نہیں تیسرے یہ کہ صرف تحقیق مقصود ہے اپنے کسی بڑے کی نصرت مقصود نہیں ان تینوں باتوں پر قسم کھا لیجئے گا پھر جو شبہ ہو فرمایئے ـ حضرت اس سے سب شبہات ختم ہو گئے سمجھے کہ یہ قسم بڑی ٹھیڑی کھیر ہے اپنی ہی جماعت کے ایک بزرگ نے بذریعہ خط مشورہ دیا کہ آپ اصلاح الرسوم پر نظر ثانی فرمائیں میں نے جواب لکھا کہ میں نظر ثانی نظر ثالث نظر رابع سب کر چکا ہر نظر کا وہی نتیجہ نکلا جو نظر اول کا تھا اب آپ اصلاح فرمائیں میں اسکو شائع کر دوں گا لیکن اگر اس سے لوگوں کو ان رسوم میں ابتلاء ہو گیا تو آپ ذمہ دار ہوں گے پھر ان بزرگ نے اس کا کوئی جواب نہیں دیا ـ حضرت مولانا خلیل احمد صاحب ؒ سے کسی نے عرض کیا کہ حضرت آپ نے تو اس تقریب میں شرکت فرمائی اور فلاح شخص نے ( یعنی میں نے ) شرکت نہیں کی یہ کیا بات ہے جواب میں فرمایا کہ بھائی ہم نے فتوے پر عمل کیا اس نے تقوے پر عمل کیا یہ تو تواضع کا جواب تھا مگر اسی طرح کا ایک صاحب نے حضرت مولانا محمود حسن صاحبؒ سے سوال کیا حضرت نے محققانہ جواب دیا کہ عوام الناس کے مفاسد کی جیسی اس کو خبر ہے ہم کو خبر نہیں ـ حضرت نے حقیقت ہی کو ظاہر فرما دیا ـ ایک صاحب نے آ کر مجھ سے بھی کہا کہ فلاح صاحب نے تمہاری نسبت ایسے ویسے الفاظ بھی کہے اگر آپ چاہیں تو میں نام بھی بتلا سکتا ہوں ـ میں نے کہا کہ نہیں بھائی ! مجھ کو کیوں لوگوں سے بد گمان کرتے ہو اور ایسے موقع پر اکثر یہ شعر پڑھ دیا کرتا ہوں ؎ تو بھلا ہے تو برا ہو نہیں سکتا اے ذوق ہے برا وہی کہ جو تجھ کو برا جانتا ہے اور اگر تو ہی برا تو وہ سچ کہتا ہے پھر برا کہنے سے کیوں اس کے برا مانتا ہے اور ایسے موقع پر یہ شعر بھی پڑھا کرتا ہوں ؎ دوست کرتےہیں ملامت غیر کرتے ہیں گلہ کیا قیامت ہے مجھ کو سب برا کہنے کو ہیں
اور فرمایا کہ میری تو یہ حالت ہے ؎ خود گلہ کرتا ہوں اپنا تو نہ سن غیروں کی بات ہیں یہی کہنے کو وہ بھی اور کیا کہنے کو ہیں یعنی جب میں خود اپنی دری حالت کو لوگوں پر کھولتا رہتا ہوں اور کسی بات کو مخفی نہیں رکھتا تو دوسروں کو کہنے سننے کی تکلیف اٹھانے کی کون سی ضرورت ہے یہ تو عیب گوئی کے متعلق میرا مذاق ہے باقی عیب شوئی اور جواب دہی کے متعلق یہ مذاق ہے کہ میں تو اپنے دوستوں سے بھی اپنی نصرت کا خواہاں نہیں یہ سب غیر ضروری چیزیں ہیں ان سے بچ کر آدمی ضروری کام میں لگے ـ 23 رمضان المبارک 1350ھ مجلس خاص بوقت صبح یون دو شنبہ
ملفوظ 399: حضرت کا اپنی علاتی ہمشیرہ کی شادی میں شرکت نہ کرنا
حضرت کا اپنی علاتی ہمشیرہ کی شادی میں شرکت نہ کرنا فرمایا کہ میری علاتی ہمشیرہ کی جو شادی ہوئی تھی اس میں سب رسوم مروجہ ہوئیں تھیں اس کا قصد یہ ہے کہ اس کی والدہ کو عورتوں نے بہکایا اور یہ سمجھایا کہ تمہاری ایک ہی تو بچی ہے دل کھول کر شادی کرو ـ باقی اگر یہ اندیشہ ہے کہ وہ ( یعنی میں ) شرکت نہ کریگا تو نکاح میں تو شرکت ہو ہی جائیگی اور جن رسموں کو برا کہتے ہیں اس میں شرکت نہ کریں گے نکاح تو سنت ہے اس میں تو ضرور ہی شریک ہوں گے والدہ بیچاری بہکائے میں آ گئیں ـ برات آنے کا دن جمعہ کا تھا میں نے بھینسانی ( ایک گاؤں ہے) والوں سے کہلا بھیجا کہ جب جمعہ پڑھنے آؤ ایک بہلی لیتے آنا اور قصبہ سے باہر کھڑی کر دینا ـ میں بعد جمعہ تمہارے یہاں آؤں گا وہ لوگ جمعہ کی نماز کو آتے ہی تھے تو ایک بہلی ہمراہ لیتے آئے میں نے نماز جمعہ کی جامع مسجد میں پڑھی اور باہر ہی باہر بہلی میں بیٹھ کر بھینسانی پہنچ گیا یہاں پر کسی سے ذکر نہیں کیا حتی کہ گھر والوں تک کو بھی خبر نہ کی ـ برات آ گئی دن ختم ہوا یہی خیال رہا سب کو کہ ہوگا یہیں مسجد وغیرہ میں جب مغرب کا بعد ہو گیا تب نکاح پڑھانے کے لیے تلاش ہوئی ـ میں نہ ملا تو بھائی صاحب نے مختلف اطراف میں آدمی بھیجے ایک آدمی بھینسانی بھی آیا میں عشاء کی نماز پڑھ کر لیٹ گیا تھا ـ جس مقام پر میں ٹھہرا ہوا تھا ایک آںے والے کی آہٹ معلوم ہوئی میں نے کہا کہ غالبا تھانہ بھون کا آدمی آیا اسلئے کہ خیال تو تھا ہی وہ آدمی آیا مجھ سے ملا ـ میں نے کہا وہاں جا کر کہہ دینا کہ میں زندہ ہوں اطمینان رکھو اور اگر اوروں پر اختیار نہ تھا اپنے نفس پر تو اختیار تھا خود اپنے کو بچا لیا اور میں صبح کو آ جاؤں گا ـ انشاءاللہ تعالی شب کو وہیں رہا ـ صبح کو بھی دیر کر کے چلا اس خیال سے کہ ایک براتی کی بھی صورت نہ دیکھوں پھر تو میری شرکت نہ کرنےکی وجہ سے سارے خاندان نے توبہ کی کہ بڑی واہیات ہوئی اب آئندہ کبھی ایسا نہ کریں گے جب سے اللہ کا فضل ہے خاندان میں کبھی کوئی رسم نہیں ہوتی ـ گاؤں والوں کا خیال سنیے یہاں سے بھینسانی دو سو روپیہ گھی خریدنے کے لیے بھیجے گئے تھے وہ لوگ کہتے تھے کہ ہم لوگوں کو خیال ہوا تھا جب مولویوں کے گھر دو سو روپیہ کا گھی ایک گا ؤں سے جا رہا ہے اور دوسری جگہ سے بھی ضرور آیا ہو گا جب گھی کا اتنا صرفہ ہے اور اجناس میں نہ معلوم کس قدر صرفہ ہو گا تو اب ہم بھی دل کھول کر شادیاں کیا کریں گے ـ چاہے گھر کی جائدادیں فروخت ہو جائیں سو اگر اس وقت آپ یہاں نہ آتے تو ہمارے یہاں بھی شادیوں میں ایسا ہی ہوتا جس کا انجام گھر کی بربادی ہوتی آپ نے یہاں آ کر ہمارا گاؤں بچا لیا اور ایسا ہو گیا جیسے اپنے پاس سے گاؤں ہم کو دیا ہو ـ واقعی اگر میں وہاں نہ جاتا اور یہاں پر رہتا گو شریک نہ ہوتا مگر کس کو معلوم ہوتا کہ شرکت کی یا نہیں کی ـ عوام پر بہت برا اثر ہوتا ـ اب یہاں پر قصبہ میں یہ حالت ہے کہ کسی کو ان رسوم کی پابندی نہیں رہی ـ اب اگر کوئی صرف بھی زائد کرے تو اس کا نام نہیں نہ کرے کچھ ملامت نہیں اور رسوم مباحہ کے متعلق یہی درجہ مقصود ہے ـ
ملفوظ 398: حضرت کے چھوٹے بھائی کی شادی کا حال
ملفوظ 398: حضرت کے چھوٹے بھائی کی شادی کا حال فرمایا کہ میاں محمد مظہر ( سب سے چھوٹے بھائی ) کی شادی بالکل سادی ہوئی تھی صرف ایک بہلی تھی اس میں ایک میں ایک مظہر ایک مولوی شبیر علی جو اس وقت بچے تھے ان کو اس لئے ساتھ لے لیا تھا کہ شاید گھر میں آنے جانے یا کسی بات کے کہلانے کی ضرورت ہو ـ وہاں پر پہنچ کر معلوم ہوا کہ وہاں بھی کوئی گڑبڑ نہیں صرف خاص خاص عزیزوں کو دعوت ہے جن کی تعداد چھ سات سے زائد نہ تھی اور یہ لوگ بھی وہ تھے جو خاندان میں شمار تھے مگر یہ لوگ بھی خفا تھے محض اس وجہ سے کہ رسوم کیوں نہیں کی گئیں مجھ کو جب یہ معلوم ہوا میں نے لڑکی والوں سے کہا کہ صاف کہہ دو اگر جی چاہے شریک ہو جائیں ورنہ اپنے گھر بیٹھے رہیں ہمیں ضرورت نہیں شریک کرنے کی ان لوگوں نے دعوت ہی قبول نہ کی تھی مگر میرا یہ صفائی کا جواب سن کر سیدھے ہو گئے اور سب ہاتھ دھو دھو کر دسترخوان پر آ بیٹھے بعد میں معلوم ہوا کہ لڑکی کی ماں اس اختصار سے بڑی ہی شکر گزار ہوئیں اور کہنے لگیں کہ اگر زیادہ بکھیڑا ہوتا تو ایک سونے کا ہار تھا میرے پاس وہ بھی جاتا اور قرض لینا پڑتا ـ
اس پر حضرت والا نے ہار کی مناسبت سے مزاحا فرمایا ـ گلوگیر بھی ہوتا اور برادری کی جیت ہوتی اور انکی ہار ـ یہ لڑکی کی ماں میرے بڑے گھر میں کی حقیقی خالہ ہو گئی تھیں اسلئے میں بھی ان کو عرفا خالہ ہی کہتا تھا میں نے ان سے پوچھا کہ لڑکی کو رخصت کس وقت کروگی کہنے لگیں بھائی صبح کو جلدی تو رخصت نہیں ہو سکتی اسلئے کہ جلدی میں نہ کچھ کھاؤ گے اور نہ کچھ ٹھیرو گے میں نے کہا کھانا پکا کر ساتھ کر دو جہاں بھوک لگے گی کھالیں گے اور ٹھہرنے کی کوئی ضرورت نہیں ـ جب انہوں نے پھر اپنی رائے کا اعادہ کیا تب میں نے کہا بہت اچھا جب تم رخصت کرو گی ہم اسی وقت چلے جائیں گے لیکن یہ بات یاد رکھو کہ اگر دیر سے رخصت کیا تو نماز ظہر کا وقت راستہ میں ہوگا اس لئے کہ نو کوس جگہ ہے اور میں اپنے اہتمام میں لڑکی کی نماز قضا ہونے نہ دوں گا اور بلا عذر کے بہلی میں نماز ہو نہیں سکتی تو لڑکی کو بہلی سے اترنا پڑے گا اور یہ بھی تم سمجھتی ہو کہ لڑکی نئی نویلی ہو گی پہنے اوڑھے ہو گی عطر تیل خوشبو وغیرہ بھی لگا ہوگا اور یہ مشہور ہے کہ کیکر وغیرہ کے درخت پر بھتنی وغیرہ رہا کرتی ہیں سو اگر کوئی بھتنی چپٹ گئی تو میں ذمہ دار نہیں چونکہ عورتوں کے مذاق کے موافق گفتگو تھی سمجھ میں آ گئی کہنے لگیں نہ بھائی میں نہیں روکتی جب تمہارا جی چاہے جا سکتے ہو ـ میں نے کہا کہ بعد نماز فجر فورا ہی سوار کر دو انہوں نے قبول کر لیا ـ اب جب صبح ہوئی چلنے کا وقت ہوا تو ایک رسم ہے بکھیر کی دلہن کی رخصت کے وقت بستی کے اندر کچھ روپیہ پیسہ کی بکھیر کی جاتی ہے میں نے یہ کیا کہ کچھ روپیہ مساکین کو تقسیم کر دیا اورکچھ مساجد میں دیا محض اس وجہ سے کہ لوگ بخل و دنائت کا شبہ نہ کریں ـ اس سادگی کے متعلق یہ روایت سنی گئی کہ لوگ کہتے ہیں کہ شادی اس کو کہتے ہیں قلب کے اندر تازگی شگفتگی انشراح معلوم ہوتا ہے یہ دنیا داروں نے کہا واقعی شریعت پر عمل کرنے سے ایک نور پیدا ہوتا ہے ـ اب ولیمہ کا قصہ سنیے میں نے کسی کی دعوت نہیں کی کھانا پکوا کر گھروں پر بھیج دیا ایک بی بی نے کھانا واپس کر دیا کہ یہ کیسا ولیمہ ؟ میں نے کہا نہیں قبول کرتی ان کی قسمت جانے دو ان کا خیال یہ تھا یہ منائیں گے خوشامد کریں گے مگر ہمیں ضرورت ہی کیا تھی گھر سے کھلائیں اور الٹی خوشامد کریں صبح کو وہی بی بی آئیں کہنے لگیں کہ رات کا کھانا لاؤ میں نے کہا کہ وہ تو رات ہی ختم ہو گیا یہ سن کر بڑی دلگیر ہوئیں کہ میری ایسی قسمت کہاں تھی کہ ایسی برکت کا کھانا نصیب ہوتا ان دنیا داروں کا دماغ یونہی درست ہوتا ہے اہل دین کو قدرے استغناء برتنا چاہئیے ان کو جتنا چمٹو یہ زیادہ اینٹھ مروڑ کرتے ہیں ـ
ملفوظ 397: گانے بجانے والوں کا حضرت پر غصہ
گانے بجانے والوں کا حضرت پر غصہ فرمایا کہ دف تر ہونے یاد آیا ایک گروہ ہے عوتوں کا یعنی ڈومنیاں ان کا پیشہ ہی گانے بجانے کا ہے یہ دف بجاتی ہیں آ گ پر سکھا کر بجاتی ہیں یہ بھی ایک عجیب گروہ ہے یہاں پر بحمداللہ اب اس قسم کی رسومات کا بہت کچھ انسداد ہو گیا ہے میں نے سنا ہے کہ یہ گروہ گانے بجانے والی عورتوں کا مجھ کو کوستا ہے کہ جس طرح گانے بجانے سے منع کر کے ہماری جائداد کھودی اسی طرح ان کی بھی جائداد جاتی رہے ـ ایک صاحب نے عرض کیا کہ حضرت ان کے کوسنے کا کوئی اثر ہوتا ہے فرمایا جی نہیں کیا خاک اثر ہوتا کون سا نیک کام تھا کہ جس کی وجہ سے حق تعالی مواخذہ فرمائیں کہ کیوں ان پر ظلم کیا گیا ـ
ملفوظ 396: اپنے مؤاخذہ اور انکی حرکت پر اظہار رنج
ملفوظ 396: اپنے مؤاخذہ اور انکی حرکت پر اظہار رنج فرمایا کہ کل مغرب کے وقت ان صاحب نے ایک چھوٹی سی بات پر کس قدر ستایا اور پریشان کیا مجھے اپنے پر بھی تعجب ہے کہ میں نے کیوں ذرا سی بات پر ان سے اس قدر مؤاخذہ کیا اور ان پر بھی ہے کہ ذرا سے مقصود کے لیے اس درجہ مجھ کو اذیت پہنچائی جب مجھے معلوم ہوا کہ بلا ضرورت میرے انتظار میں کھڑے ہیں تو کیا اس پر مجھ کو کلفت اذیت نہ ہوتی اور خیر یہ بے چارے تو نئے آدمی ہیں ان سے ایسا ہو جانا کوئی زیادہ تعجب نہیں پرانے بھی ستاتے ہیں اور بعد میں یہ معلوم کر کے کہ طالب علم نہیں ہیں اور بھی رنج ہوا اس لئے اگر طالب علموں کو کچھ کہہ لوں تو ان پر تو میں اپنا ایک قسم کا حق سمجھتا ہوں اور غیر طالب علم پر ناخوش ہونے سے دل کڑھتا ہے ـ ایک صاحب نے عرض کیا کہ حضرت ان کو اس کا رنج ہو رہا ہے کہ میری وجہ سے حضرت کو تکلیف ہوئی اور اذیت پہنچی حضرت مجھ سے خفا ہو گئے فرمایا کہ واقعہ ختم ہونے کے ساتھ ہی بحمداللہ میرا قلب صاف ہو جاتا ہے میں خفا نہیں ہوں نیز میں خفا تو جب ہوتا کہ اس سے میری کوئی مصلحت فوت ہوتی مگر اس میں کچھ میری مصلحت تھوڑا ہی ہوتی ہے ـ طالب ہی کی مصلحت سے ایسا کرتا ہوں تاکہ آئندہ کو کان ہوں پھر ایسی نالائقی کی حرکت نہ کریں جس سے دوسرے کو اذیت ہو ـ اور میں سچ عرض کرتا ہوں کہ عین غصہ کی حالت میں بھی قلب میں اس کی محبت ہوتی ہے اسی وجہ سے اکثر در گذر کر جاتا ہوں اس کی بناء محبت ہی ہوتی ہے ـ ایک مولوی صاحب نے عرض کیا کہ ڈاکٹر صاحب نے بڑی اچھی بات کہی وہ یہ کہ جب حضرت کی طرف سے کسی کو ذرا تکلیف نہیں پہنچتی تو پھر لوگ کیوں تکلیف پہنچاتے ہیں فرمایا بالکل ٹھیک کہا میں اگر دوسرے کی راحت کی رعایت نہ کرتا تو مجھ کو دوسروں کی عدم رعایت کی بھی بالکل شکایت نہ ہوتی لیکن جب میں ہر طریق اور ہر صورت سے اس کا اہتمام کرتا ہوں کہ میری ذات سے کسی پر ذرہ برابر گرانی اور بار نہ ہو ایسی حالت میں میرا یہ بھی مطالبہ ہوتا ہے اور بحق ہوتا ہے کہ مجھ کو بھی کوئی مت ستائے ـ پھر فرمایا کہ یہ اس قسم کی حرکتیں اور گڑبڑیں خودرائی سے ہوتی ہیں خودرائی بہت ہی بری اور مذموم چیز ہے گو رائی ہی کے برابر ہو ـ صوفیہ کے یہاں اس کے مٹانے اور فنا کرنے کا بڑا اہتمام ہے یہ سب خرابیوں کی جڑ ہے اسی سے تمام امراض روحانی کا نشوونما ہوتا ہے ـ پھر فرمایا کہ یہ باب تو بالکل مسدود بلکہ مفقود ہی ہو گیا کہ اپنے سے کسی کو تکلیف نہ پہنچے میں اپنے ہی لیے نہیں کہتا کہ مجھ کو تکلیف نہ پہنچاؤ مجھ کو اذیت نہ پہنچاؤ سب کے لیے کہتا ہوں کسی کو بھی کسی قسم کی تکلیف کسی سے نہ پہنچے اس کا بڑا اہتمام رکھنا چاہئیے نہ معلوم اس کو دین کی فہرست سے کیوں نکال دیا گیا اس کا اہتمام ہی نہیں اس کو کسی نے لیا ہی نہیں کہ کسی کو تکلیف نہ ہو نہ قول سے نہ فعل سے نہ رفتا سے نہ گفتار سے نہ نشست سے نہ برخاست سے بطور مزاح کے حضرت والا نے فرمایا کہ یہ کلی (مضمضہ) کی ایسی جزئی ہوئی کہ کچھ کھا نہیں جاتا ـ ایک مولوی صاحب نے عرض کیا کہ حضرت وہ صاحب معتکف ہیں شاید اس وجہ سے آ گے نہ بڑھے ہوں فرمایا کہ یہ سب کچھ سہی اگر ایسا تھا تو ان کو اس طریق سے کھڑا ہونا چاہئیے تھا جس سے مجھے شبہ نہ ہوتا کہ یہ میرے انتظار میں کھڑے ہیں میرا گمان یہ ہوا اور یہ میرا گمان قرین قیاس تھا کہ یہ تبرک کے انتظار میں کھڑے ہیں مجھے ایسی باتوں سے گرانی ہوتی ہے میں پیر پرستی کرانا نہیں چاہتا خدا پرستی کرانا چاہتا ہوں پیر پرستی اگر کرنی ہے تو ایسے پیر دنیا میں بکثرت ہیں وہاں جائیں ان کے یہاں نہ تعلیم ہے نہ روک ٹوک ہے نہ محاسبہ ہے نہ مؤاخذہ ہے صرف چونا چاٹی ہے ـ میں نے نہ اپنے بزرگوں کو ایسی باتیں پسند فرماتے ہوئے دیکھا نہ مجھ کو پسند ہے آج صبح یہ معلوم کر کے کہ طالب علم نہیں ہیں اور بھی رنج ہوا بے چارے کسی دفتر میں ملازم ہیں بطور مزاح کے فرماییا کہ اسی وسطے آواز صاف نہ تھی منہ میں پانی تھا دف تر ہو گیا تھا ـ دیکھئے ایک ذرا سی بات خود بھی اتنے پریشان ہوئے کہ اتنی دیر تک منہ میں پانی لئے کھڑے رہے اور مجھ کو بھی پریشان کیا ـ
ملفوظ 395: ایک صاحب کے نا مناسب طرز عمل پر مؤاخذہ
ملفوظ 395: ایک صاحب کے نا مناسب طرز عمل پر مؤاخذہ قبل از نماز مغرب حضرت والا نے وضو فرمایا اور بعد اذان مغرب روزہ افطار فرما کر حوض کے کنارے پر کلی فرما رہے تھے ـ ایک صاحب ایسی ہئیت سے جا کر حضرت والا کے پاس کھڑے ہوئے جس سے حضرت والا کو یہ محسوس ہوا کہ یہ میرے ہٹ جانے کے انتظار میں ہیں اور ساتھ ہی یہ بھی حضرت کو شبہ ہوا کہ یہ میرے وضؤ کے بچے ہوئے پانی کو بطور تبرک استعمال کریں گے اس سے حضرت والا کے قلب پر بار اور گرانی ہوئی اور لوٹے کے پانی کو گرا دیا ( اسلیے کہ ایک تو بعض اوقات اپنے سامنے ایسا اظہار عقیدت کرنا حضرت والا کو ناگوار ہوتا ہے ـ دوسرے اس موقع پر خصوصیت سے انتظار کی صورت بنا کر کھڑا ہونا حضرت والا کو موجب اذیت ہوا اس شخص نے محض حصول تبرک کی دھن میں ایذاء کا خیال نہ کیا اسلئے حضرت والا تبرکات وغیرہ میں ایسے شغف کو نا پسند فرمایا کرتے ہیں ـ چنانچہ یہی خیال سبب ہوا لوٹے کے پانی گرانے کا 12جامع ) حضرت والا فارغ ہو کر حوض پر سے تشریف لے آ ئے تو یہ صاحب اس جگہ پر پہچنے اور پہنچ کر لوٹے کو جھانکا حضرت والا انکی اس حرکت کو برابر ملاحظہ فرماتے رہے اور یہ شبہ جو احتمال کے درجہ میں تھا لوٹے کے جھانکنے پر یقین کے درجہ میں ہو گیا ـ اس پر حضرت والا نے مواخذہ فرمایا کہ مجھ کو تمہاری اس حرکت سے اذیت پہنچی تم کیوں وہاں پر کھڑے تھے اور بعد میرے چلے آنے کے لوٹے کو کیوں جھانکا اس پر یہ صاحب خاموش رہے اور بولے بھی تو نہایت آہستہ سے کوئی صاف جواب نہیں دیا جواب میں تاخیر حضرت والا کے زیادہ تکدر کا سبب ہوا دو تین مرتبہ کے مطالبہ کے بعد عرض کیا کہ پانی لینا مقصود نہ تھا بلکہ کلی کرنا مقصود تھا فرمایا کہ بلا پانی کے کلی ہوا کرتی ہے عرض کیا کہ کلی کے لیے پہلے سے منہ میں پانی تھا فرمایا تو پھر لوٹے کو کیوں جھانکا تھا عرض کیا کہ لوٹے کو تو نہیں جھانکا فرمایا کہ مجھ کو اندھا بناتے ہو میں نے خود جھانکتے ہوئے دیکھا جھوٹ بھی بولتے ہو اس پر اور حضرت والا کے لہجے میں تغیر ہو گیا پھر فرمایا کہ کلی کرنے کو وہی جگہ رہ گئی تھی اور جگہ نہ رہی تھی بڑا مدرسہ اور خانقاہ ہے جہاں پر میں کھڑا تھا وہی ایک جگہ تھی ـ عرض کیا کہ مجھ کو کلی کرنا تھی ـ فرمایا بندہ خدا اپنی ہی ہانکے چلے جاتے ہو دوسرے کی سن کر سمجھ کر تو جواب دینا چاہیئے آخر مجھ کو تو تمہاری اس حرکت سے اذیت پہنچی بار ہوا گرانی ہوئی آخر تم کو کیا حق تھا مجھ کو اذیت پہنچانے کا چھنٹ چھنٹ کر تمام احمق میرے ہی حصہ میں آ گئے ہیں دنیا کے بے وقوف میرے پاس آتے ہیں فہم کا نام نہیں ہوتا کھڑا ہے بت کی طرح جواب کیوں نہیں دیتا کیوں مجھ کو ستایا کیا اپنی غلطی کا اقرار کرنا جرم ہے کیا تو نے لوٹوں کو جھانکا نہیں ـ عرض کیا کہ جھانکا تھا فرمایا کیا اس انتظار میں نہیں کھڑا تھا کہ یہ ہٹے تو میں اس جگہ پر کلی وغیرہ کروں عرض کیا جی ! فرمایا کہ اب اقرار کرتا ہے اپنی غلطی کا جب مجھے اچھی طرح پریشان کر چکا بد تمیز بد تہذیب پھر فرمایا کہ خاموش کھڑا ہے خوب تاویلیں سوچ لے اور اپنے ارمان نکال لے ـ اس پر بھی یہ صاحب خاموش رہے فرمایا بندہ خدا معافی تو چاہ لی ہوتی ؟ عرض کیا میں حضور سے معافی چاہتا ہوں فرمایا کہ کہنے ہی سے تو چاہی خود تو معافی چاہنے کی توفیق نہ ہوئی فرمایا کہ بلا کہے معافی کیوں نہیں چاہی اس میں کیا مصلحت تھی عرض کیا کہ ڈر کی وجہ سے فرمایا معافی چاہنے میں تو ڈر تھا اور نہ چاہنے میں ڈرنہ ہو جو بات بھی ہو ہر بات بد تمیزی کی کوئی بات بھی تو عقل کی نہیں بلا وجہ مجھ کو اذیت پہنچائی کیا ہوا تم لوگوں کو کیا ہاتھ میں تسبیح لینا اور تہمد باندھنا ہی آتا ہے آخر انسان میں اور جانور میں کوئی فرق بھی ہونا چاہیئے یا نہیں چپ کیوں ہے نالائق جواب دے نماز کو دیر ہوئی جاتی ہے منہ کھول کر صاف بات کہو اس پر یہ صاحب کچھ بولے جس کو حضرت والا سمجھ نہ سکے فرمایا کہ یہ شخص نا معلوم کیا انگریزی سی بولتا ہے عرض کیا کہ قصور ہوا فرمایا اب کہتا ہے قصور ہوا قصور! جب اچھی طرح ستا لیا کہ جب سے زبان سل گئی تھی فرمایا کہ میں اپنی ضرورت سے کھڑا تھا یہ شخص برابر کھڑا رہا ـ مجھ پر اس قدر بار ہوا اور اذیت پہنچی کہ میں پریشان ہو گیا اسی وجہ سے میں نے لوٹے کا پانی پھینک دیا کہ شاید اس لالچ میں کھڑا ہے اب تو ٹلے گا مگر ٹلا نہیں اس پر یہ کیا کہ لوٹے کو جھانکا اب تاویلیں کرتا ہے اور اگر مان ہی لیا جائے کہ سب تاویلیں صحیح ہیں تو ایہام کا اس کے پاس کیا جواب ہے ایسے ایسے آ تے ہیں ستانے کو عین نماز کے وقت میرے قلب کو پریشان کیا یہ فرماتے ہوئے حضرت والا نماز مغرب پڑھانے کے لیے مصلے پر تشریف لے گئے ـ 22 رمضان المبارک 1350ھ مجلس خاص بوقت صبح یوم یکشبنہ
ملفوظ 394: ایک صاحب کا عجیب بیہودہ
ایک صاحب کا عجیب بیہودہ سوال فرمایا کہ ایک صاحب کا خط آیا ہے عجیب بیہودہ سوال کیا ہے لکھتے ہیں کہ میرے لیے میری اصلاح بہتر ہے یا میرے اہل وعیال کی ـ میں نے لکھ دیا کہ کلیات لکھ کر سوال کرنا خلاف اصول ہے جزئیات ظاہر کر کے اپنی پوری حالت لکھو اور پھر رائے معلوم کرو ـ
ملفوظ 393: تعویذ یا دم کے لیے مریض کو لانا فضول ہے
تعویذ یا دم کے لیے مریض کو لانا فضول ہے ایک شخص شیر خوار لڑکی کو گود میں لیکر حاضر ہوا اور عرض کیا کہ حضرت اس پر دم کر دیجئے فرمایا کہ بندہ خدا ! جہاں جایا کرتے ہیں پہلے وہاں کا قانون تو معلوم کر لیا کرتے ہیں مریض کے لانیکی یہاں پر ضرورت نہیں ـ میں کوئی طبیب تھوڑا ہی ہوں کہ نبض یکھ کر نسخہ لکھوں گا تعویذ لکھ دوں گا ـ پانی لے آنا وہ پڑھ دونگا بچوں کے لانے میں ایک بہت بڑی خرابی یہ ہے کہ اگر پیشاب کر دے یہ تو لیکر چلتے ہونگے اور مصیبت ہم کو پڑے گی تمام فرش اٹھاؤ سامان اٹھاؤ سب چیزیں پاک کرتے پھرو ـ کوئی معمولی کپڑا وغیرہ ہو تب بھی ـ خیر ! بڑا فرش ہے اب اس کو کون پاک کرتا پھر دریافت فرمایا کہ اس کو لایا تھا کیوں ـ عرض کیا گیا کہ لوگ بہکاویں ہیں کہ لے کر جاؤ ـ فرمایا کہ لوگ بھکاویں ہیں اور ہم بھگاویں ہیں – جاؤ اس کو گھر پہنچا کر پھر تعویذ لے جاؤ ـ
ملفوظ392: علماء دیو بند کی شان
علماء دیو بند کی شان ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ میں کم عمری میں جب دیو بند پہلی مرتبہ گیا تو میں نے ان حضرات کو دیکھا اور یہ سمجھا کہ یہ کیا علماء ہونگے محض پڑھنے پڑھانے کے ہونگے اسلئے کہ چھوٹے چھوٹے قد معمولی لباس نہ چوغہ ہے نہ عمامہ ـ ہر طرح پر سادگی یہ خیال اس وجہ سے ہوا تھا کہ میں نے یہاں پر مولانا شیخ محمد صاحبؒ کو دیکھا تھا جو بہت قد آور وجیہ بزرگ تھے مگر پھر رہنے پر معلوم ہوا کہ وہ حضرات کیا چیز تھے کیا ٹھکانہ تھا ان کے علوم ظاہرہ اور علوم باطنہ کا ـ بحمداللہ ایسے بزرگوں کی خدمت میسر ہو گئی یہ اللہ کا فضل اور والد صاحب کا احسان ہے اول تو انہوں نے مجھ کو عربی کے لیے تجویز کیا اور پھر اس پر یہ احسان کہ دیوبند تعلیم کا سلسلہ رکھا ورنہ میرٹھ میں بھی ممکن تھا کیونکہ وہاں پر والد صاحب کا قیام بھی تھا اور ایک مرتبہ میرٹھ ہی میں مجھ کو ایک مدرسہ میں داخل کرنے کے لئے بھی گئے تھے شہر میں ایک مدرسہ بھی تھا مگر نہ معلوم کیا اسباب وہاں پر ہوئے داخل نہیں فرمایا اور پھر دیوبند ہی کو تجویز فرمایا ـ والد مرحوم کے لیے دل سے دعا نکلتی ہے ـ

You must be logged in to post a comment.