ملفوظ 391: ہبوط آدم سے متعلق کچھ تفسیری نکات

ہبوط آدم سے متعلق کچھ تفسیری نکات ایک مولوی صاحب کے کسی سوال کے جواب میں فرمایا کہ اگر بالفرض آدم علیہ السلام سے بھی لغزش نہ ہوتی تب بھی چونکہ مادہ تو ایسی لغزش کا ان میں تھا ہی جس سے بلزوم عادی ان کی اولاد میں سے جنت میں کوئی نہ کوئی گڑبڑ کرتا اور اس کو نکالا جاتا اس وقت وہ کسی کا بیٹا ہوتا کسی کا پوتا کسی کا بھتیجا کسی کا بھانجا کسی کا بھائی ـ تو روزانہ جنت میں کہرام مچا رہتا ـ اس وجہ سے باپ ہی آگئے ـ ایک مولوی صاحب نے عرض کیا کہ حضرت جنت میں رنج کیسے ہوتا فرمایا کیوں شبہ کیا ہے آخر آدم علیہ السلام کو حکم ہوا کہ جنت سے نکو اس وقت آدم علیہ السلام کو رنج ہوا ہوگا یا نہیں گو وہ رنج طبعی سہی عقلی نہ سہی اس وقت وہ دنیا میں تھے یا جنت میں عرض کیا کہ جنت میں فرمایا پس ثابت ہو گیا کہ جنت میں بھی رنج ہو سکتا ہے ـ اور یہ تو پیشتر ہی حق تعالی نے فرشتوں سے ظاہر فرما دیا تھا کہ انی جاعل فی الارض خلیفۃ اس سے بھی یہ معلوم ہو گیا تھا کہ یہ ارض میں خلیفہ ہو نگے جنت سے نکل جانا آدم علیہ السلام کا ـ اسی وقت فرشتوں کو معلوم ہو چکا تھا اسی سلسلہ میں فرمایا کہ اتجعل فیھا من یفسد فیھا کی تفسیر جو حضرت مولانا محمد یعقوب صاحبؒ نے فرمائی عجیب و غریب ہے بہت سی تفسیریں دیکھیں مگر وہاں تک کسی مصنف کی رسائی نہیں ہوئی ـ وہ یہ کہ یہ امر فطری ہے کہ اپنی بنی ہوئی چیز کے بگڑنے سے رنج ہوتا ہے اور خلافت کے لیے تصرف لازم ہوگا اور تصرف کا حاصل یہی تحلیل و ترکیب ہے اور تحلیل یہی توڑ پھوڑ ہے پس فساد سے یہی تحلیل مراد ہے فساد بمعنی معصیت مراد ہونا ضروری نہیں اس طرح سفک دماء (خون بہانا ) سے سفک محرم (حرام طریقہ سے خون بہانا 12) مراد ہونا ضروری نہیں چونکہ فرشتوں کا کام تھا پرورش کرنا شجر کو مویشی وغیرہ کو اور یہ آدمی کسی درخت کو کاٹے کسی میں کڑیاں بنائے گا کسی میں تختے جانوروں میں کسی پر سواری کریگا کسی سے کیھتی کا کام لے گا کسی کو ذبح کریگا فرشتوں کو یہ گراں ہوا ـ اب یہ شبہ بھی نہ رہا کہ فرشتوں نے بی آدم کی طرف معصیت کو کیسے منسوب کر دیا عجیب تحقیق ہے ـ یہ ہیں علوم اور حقائق و معارف یہ حضرات ہیں ( محقق) پھر باوجود ان کمالات کے نہ دعوے ہے نہ ناز ہے نہایت مسکین لہجہ نہایت نرم سیدھے سادھے الفاظ اور خود بھی نہایت سادی وضع میں رہنے والے ـ مگر بات وہ کہتے ہیں کہ ہر شخص نہ کہہ سکے ـ پیدا تو بعد میں ہو ئے مگر ان میں

ملفوظ 390: مسلمانوں کی دنیوی ترقی سے بھی خوشی ہونا

مسلمانوں کی دنیوی ترقی سے بھی خوشی ہونا ایک صاحب نے عرض کیا کہ حضرت آج صبح جو ذکر تھا کہ تیسرے درجہ میں سفر کرنا مناسب ہے تو ڈاکٹر صاحب آج بجائے کنڈ کلاس کے انٹر کلاس ہی میں سوار ہوئے فرمایا چلو کچھ تو نفع ہوا یہ تو سکنڈ کلاس میں سفر کرتے تھے اس پر فرمایا کہ ایسے مسلمانوں کی بھی ضرورت ہے تاکہ کفار کو یہ تو معلوم ہو کہ مسلمانوں میں بھی ایسے موجود ہیں ـ میں محض مسلمانوں کی عظمت دیکھنے کے لیے حیدر آباد دکن کا پہلا سفر اس ہی نیت سے کیا تھا یہاں تو جس عالی شان عمارت کو دیکھو اور پوچھو کس کا ہے کسی چند کا کسی داس کا ـ وہاں پر پہنچ کر یہ تو کانوں میں پڑ گیا کہ یہ محل فلاں جنگ کا یہ عمارت فلاح دولہ کی یہ بڑے لوگوں کے وہاں پر لقب ہیں گو دنیا کو میں مسلمانوں کے لیے پسند نہیں کرتا اور نہ اچھا سمجھتا ہوں لیکن کفار کے مقابلہ میں جی چاہتا ہے کہ مسلمانوں کے پاس ان سے بھی زائد ہوا اور مسلمانوں میں بھی ایسے لوگ ہوں ان کے مقابلہ کی وجہ سے پسند کرتا ہوں بشرطیکہ حدود میں رہیں ـ

ملفوظ 389: حق کی حمائیت سے جان چرانا

ملفوظ 389: حق کی حمائیت سے جان چرانا ایک مولوی صاحب نے ایک پرچہ پیش کر کے حضرت والا سے عرض کیا کہ حضرت “” مبالہ ،، اخبار کے ایڈیٹر نے دعا کے لیے لکھا ہے فرمایا دل سے دعا کرتا ہوں دریاف فرمایا کہ اب کیا حالت ہے بے چاروں کی جان وغیرہ کا تو خطرہ نہیں عرض کیا کہ بہت زیادہ خطرہ ہے فرمایا کہ آجکل اگر کوئی دین کی خدمت کے لیے کھڑا ہو جاتا ہے تو اس کا کوئی ساتھ نہیں دیتا ـ بلکہ یہ کہتے ہیں کہ کہا تھا کس نے ؟ کہ تم ایسا کرنا ـ یہ تعلق لوگوں کو دین سے رہ گیا ہے ایسی باتیں سن کر بے حد دل دکھتا ہے حق کی نصرت پر کوئی آمادہ نہیں ہوتا ـ ویسے شور و غل کرنے کو فتنہ فساد پھیلانے کو سب تیار ہیں خالص حق کی حمایت سے جان چراتے نظر آتے ہیں جو کام کرنے کے ہیں ان کے لیے کوئی بھی آمادہ نہیں وہاں تو یہ کہنا بالکل حسب حال ہوتا ہے کہ آمادہ ـ

ملفوظ 388: رفاعی اور مداری کی نسبت

ملفوظ 388: رفاعی اور مداری کی نسبت ایک مولوی صاحب نے صاحب نے عرض کیا کہ حضرت عرب میں ایک قوم ہے رفاعی وہ لوگ سانپ کو کھاتے ہیں فرمایا کہ جی ہاں یہ لوگ حضرت سید احمد کبیر رفاعی رحمتہ اللہ علیہ کی طرف اپنی نسبت کرتے ہیں بگڑ گئے ہیں جیسے مداری لوگ بگڑ گئے یہ بھی حضرت شاہ بدیع الدینؒ مدار کی طرف اپنی نسبت کرتے ہیں یہ بہت بڑے بزرگ گزرے ہیں مدار ایک لقب ہے جیسے قطب غوث وغیرہ.
حضرت شاہ رفع الدین شامی ہیں ہندوستان تشریف لے آئے تھے ان کے چہرے پر نقاب رہتا تھا اسکی وجہ یہ تھی کہ جو شخص ان کا چہرا یکھتا اس کی آنکھوں کی روشنی مسلوب ہو جاتی تھی مشہور یہ ہے کہ ان پر تجلی موسوی تھی مگر یہ سنا ہی ہے کسی کتاب میں نہیں دیکھا واللہ اعلم ـ حضرت شیخ نجم الدین کبری کے متعلق بھی ایک بزرگ سے سنا ہے کہ ان کی نسبت موسوی تھی مگر خود ان کواپنی نسبت کا علم نہ تھا ان کے کسی معاصر بزرگ کے پاس ان کے ایک مرید زیارت کے لیے جا رہے تھے آپ نے چلتے وقت فرمایا کہ ان حضرت سے میرا بھی سلام عرض کرنا مرید نے جا کر پیر کا سلام پہنچایا انہوں نے جواب میں فرمایا کہ اپنے یہودی پیر سے ہمارا بھی سلام کہنا ان مرید صاحب کو بے حد ناگوار ہوا کہ پیر صاحب نے تو یہ احترام کیا کہ سلام بھیجا اور انہوں نے یہ قدر کی کیسی بری طرح یاد کیا جب واپس پیر کی خدمت میں حاضر ہوئے پیر نے دریافت کیا کہ میرا اسلام بھی پہنچایا تھا عرض کیا کہ پہنچایا تھا پھر کیا جواب ملا عرض کیا کہ عرض کرنے کے قابل نہیں بہت ہی ثقیل کلمہ تھا اعادہ نہیں کر سکتا فرمایا کہ تم کہو جو کچھ فرمایا عرض کیا کہ یہ فرمایا ہے کہ اپنے یہودی پیر سے ہمارا بھی سلام کہہ دینا یہ سن کر حضرت شیخ نجم الدین کبری پر وجد طاری ہو گیا اور فرمایا کہ الحمداللہ مجھے اپنی نسبت معلوم ہو گئی کہ موسوی ہے اس پر حضرت والا نے فرمایا کہ کسی کو حق نہیں کسی کی نسبت کچھ اعتراض کرنے کا ـ کیونکہ بعض اوقات ایسی نسبت والے سے بعض ایسے اقوال صادر ہو جاتے ہیں کہ جو یہودیت کے موہم ہوتے ہیں مثلا مرتے وقت لاالہ الا اللہ موسی کلیم اللہ پڑھنے لگتا ہے اور در حقیقت وہ معنی محمد رسول اللہ کی ایک تعبیر ہوتی ہے کیونکہ یہ نسبتیں موسوی و عیسوی وغیرہ ھما سب حضورؐ ہی کی نسبتیں ہیں حضور جامع ہیں ـ حضور میں شان موسوی بھی ہے اور شان عیسوی بھی ہے پس یہ سب القاب حکما حضور ہی کے ہیں یعنی موسی کلیم اللہ بھی آپ کا لقب ہے عیسی روح اللہ بھی آپ کا لقب ہے ابراہیم خلیل اللہ بھی آپ کا لقب ہے پس جو شخص محمدی موسے کلیم اللہ کہتا ہے وہ آپ کی اس خاص شان کے اعتبار سے آپکو اس لقب سے ذکر کرتا ہے پس یہ سب شانیں آپ ہی کی شان جامعیت کے مظاہر اور شعبے ہیں ـ جیسے سو کا عدد ہے تو اٹھانوے بھی اسی کا جزء ہے اور ستانوے بھی اسی کا جزء ہے آخر تک سب اس کے ہی اجزاء ہیں ـ

ملفوظ 387: ایک ابن الوقت شخص کی شاگردی

ایک ابن الوقت شخص کی شاگردی فرمایا کہ مولوی رضی الحسن صاحب کاندھلوی نے مجھ سے کہا کہ فلاں شخص نے مولوی محمد یحیٰ صاحب مرحوم سے پڑھا تھا بہت دنوں تک یہ شخص گنگوہ رہا ہے میں نے خود دیکھا ہے اب اپنے بزرگوں کے مسلک کے بالکل خلاف طرز اختیار کر رکھا ہے دنیا کمانے میں اس شخص کو خاص ملکہ ہے دین رہے یا جائے اس کی کچھ پرواہ نہیں ابن الوقت ہے جدھر کی ہوا دیکھتا ہے اسی طرف ہو جاتا ہے اگر ہندوؤں کے ساتھ مل کر نفع کی امید دیکھتا ہے ان کے ساتھ ہو جاتا ہے انگریزوں کے ساتھ دیکھتا ہے ان کے ساتھ ہو جاتا ہے کہنے لگے کہ اس نے مجھ سے بھی پڑھا ہے ـ میں نے بطور مزاح کے کہا کہ آہا آپ ان کے بھی استاد ہیں ـ بہت محجوب ہوئے کچھ بولے نہیں حالانکہ ان کے پاس جواب تھا کہ اس سے یہ تو لازم نہیں آیا ـ بلکہ یہ لازم آیا کہ آپ بھی ان کے استاد ہیں

ملفوظ 386: اللہ کر کے ،، کا مفہوم حضرت گنگوہیؒ سے

اللہ کر کے ،، کا مفہوم حضرت گنگوہیؒ سے ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ حضرت مولانا رشید احمدصاحبؒ نے ایک بار مولانا محمد یحی صاحب سے فرمایا کہ یہ جو لڑکی کوس رہی ہے اللہ کر کے اس کا بھائی مرے اس میں کر کے کا کیا مطلب ہے پھر خود ہی فرمایا اللہ منادی ہے اور کر دعا کا صیغہ اور کہ بیانیہ اس کو بڑھا کر کے کر دیا آ گے اس دعا کا بیان ہے یعنی اے اللہ !تو یہ کر کے اس کا بھائی مرے فرمایا کہ چھوٹی بات بھی بڑوں کے پاس جا کر بڑی بن جاتی ہے ـ

ملفوظ 384: کون سا مزاج ممنوع ہے

ملفوظ 384: کون سا مزاج ممنوع ہے ایک مولوی صاحب نے عرض کیا کہ حضرت کتب اخلاق میں یہ لکھا ہے کہ لسان کی مزاح سے بھی حفاظت کرو فرمایا ٹھیک تو ہے مگر وہ مزاح مراد ہے کہ جس میں انہماک کا درجہ ہو یا کسی کی تحقیر ہو ـ ملفوظ 385: تمسخر اور استھزاء برابر ہیں ایک مولوی صاحب نے عرض کیا کہ حضرت تمسخر اور استہزاء میں کیا فرق ہے فرمایا کہ بظاہر تو کوئی ایسا فرق نہیں معلوم ہوتا ـ

ملفوظ 383: نفع عام یا نفع تام

نفع عام یا نفع تام فرمایا کہ بعض احباب رحم دل ہیں منجملہ ان کے ایک مولوی صاحب بھی ہیں ہر شخص کی شفارش اور معافی دلوانے کی سعی کرتے رہتے ہیں بات یہ ہے کہ نفع کی دو قسمیں ہیں ـ نفع عام اور نفع تام ـ احباب نفع عام چاہتے ہیں اور میں نفع تام چاہتا ہوں ـ حضرت مولانا شہید صاحبؒ اور حضرت شاہ عبدالعزیزصاحبؒ کے طرز میں یہی فرق تھا کہ حضرت شاہ صاحب کے یہاں کھلم کھلا روک ٹوک کم تھی اور حضرت شہید صاحبؒ کے یہاں روک ٹوک تھی تو یہاں پر لوگ بہت کم ٹھہرتے تھے مگر جو رہ جاتے وہ ہوتے تھے پکے پختہ تو وہاں نفع عام تھا اور یہاں نفع تام ـ

ملفوظ 382: بیعت کو تعلیم پر ترجیح دینا کم فہمی ہے

بیعت کو تعلیم پر ترجیح دینا کم فہمی ہے ایک صاحب نے شرائط بیعت کا پرچہ مانگا اس پر ایک مولوی صاحب نے عرض کیا کہ حضرت میں بھی پرچہ دیکھنا چاہتا ہوں ـ حضرت والا نے دونوں صاحبوں کو پرچے دیکر فرمایا کہ یہ سب کام کرنے کی تدابیر ہیں اس پر چہ کی بدولت ہلکا پھلکا رہتا ہوں پرچہ کو دیکھ کر اکثر لوگ بیعت تو مجھ سے چاہتے ہیں اور تعلیم دوسروں سے ـ جن کو میں تعلیم کے لیے تجویز کر دوں سو بیعت کو اس قدر مقصود بالذات سمجھتے ہیں کہ تعلیم پر ترجیح دیتےہیں اور بیعت کو تعلیم پر ترجیح دینا یہ مستلزم ہے کم فہمی کو ـ تو اس کی بدولت ایسے کم فہموں سے نجات ہو جاتی ہے ورنہ سوائے پریشان کرنے کے کوئی نتیجہ نہ تھا کیونکہ یہ بھی خبر نہ ہو کہ اصل چیز ہے آ گے ان سے کیا امید کہ یہ فہم سے کام لیں گے اسلیئے میں خوش ہوتا ہوں کہ خوب جان بچی ـ

ملفوظ 381: حقیقت تصوف کا اظہار اور مسئلہ و حدۃ الوجود

ملفوظ 381: حقیقت تصوف کا اظہار اور مسئلہ و حدۃ الوجود ایک مولوی صاحب نے عرض کیا کہ حضرت پنجاب میں ایک بہت بڑے پیر ہیں ان سے کسی نے کہا کہ آجکل تصوف کی خدمت کہیں بھی نہیں ہو رہی مگر باوجود مسلک اورمشرب کے اختلاف کے ان پیر صاحب نے حضرت والا کا نام لیکر فرمایا کہ وہاں کافی خدمت تصوف کی ہو رہی ہے فرمایا کہ یہ ان کی حق پسندی کی بات ہے میں بے چارہ کیا تصوف کی خدمت کر سکتا ہوں ہاں اس کے نام سے جہلاء صوفیہ نے جو مخلوق کو گمراہ کرنے کا بیڑا اٹھا رکھا ہے اس کو اپنے بزرگوں کی دعا ء کی برکت سے اور حق تعالی کے فضل و کرم سے اصل صورت میں مخلوق کے سامنے پیش کر دیا بڑی ہی گمراہی اس کی وجہ سے پھیلی تھی ان جہلاء نے بری طرح تصوف کو عوام کے پیش کیا ـ میں تو کہا کرتا ہوں کہ اگر خشک روٹی بگڑے تو گرم کر کے کام لا سکتا ہے کھا بھی سکتا ہے اور لطیف غذا اگر خراب ہو تو محلہ بھر کو پاس نہ آنے دے روٹی تو زائد سے زائد سوکھ ہی جائیگی اور لطیف غذا بدوں کیڑے پڑے رہ نہیں سکتی ـ اب ایک مسئلہ وحدۃ الوجود ہی کا ہے اس کی وہ گت بنائی ہے ـ الامان الحفیظ ـ مکہ معظمہ میں ایک عالم صاحب تھے ان سے مسئلہ وحدۃ الوجود پر گفتگو ہوئی وہ کہنے لگے کہ جناب وحدۃ الوجود کا مسئلہ ایسا ہے کہ اس کے ماننے سے ایمان سلامت نہیں رہ سکتا میں نے کہا حقیقت سے بے خبر ہو اگر معلوم ہو جائے کہ وحدۃ الوجود یہ ہے اور اس کی حقیقت یہ ہے تو یہ کہو گے کہ بدوں وحدۃ الوجود کے تسلیم کئے ہوئے ایمان کامل نہیں ہو سکتا ـ کہنے لگے میں اس کے متعلق گفتگو سننے کو تیار ہوں اس گفتگو کے لیے جمعہ کا دن تجویز ہوا ـ میں نے اول فن تصوف کے مطابق اصطلاحی الفاظ میں وحدۃ الوجود پر ایک جامع تقریر کی اور ان سے میں نے کہہ دیا تھا کہ میری تقریر کو اچھی طرح آپ سن کر ذہن نشین کرتے رہیں پھر اجازت ہے کہ دل کھول کر آپ کے ذہن میں جو اشکال آویں وہ سنبھل کر بیٹھے اور غور سے سننا شروع کیا بعد ختم اشکالات کئیے مگر اسی تقریر کے اجراء سے سب اشکال ختم ہو گئے اور تمام شبہات رفع ہو گئے کہنے لگے کہ واقعی میں وحدۃ الوجود کی حقیقت ہی سے بے خبر تھا آج اللہ تعالی نے تمہاری بدولت اس کی حقیقت کو منکشف کرا دیا ـ اب کہتا ہوں کہ اسکے بدوں ایمان کی تکمیل ہی مشکل ہے ـ فرمایا کہ لوگ بےسوچے سمجھے جو جی میں آتا ہے اعتراض کر بیٹھتے ہیں پہلے اس چیز کی حقیقت سمجھ لو اگر خود سمجھ میں نہ آئے دوسرے سے سمجھ لو لیکن پھر بھی اگر وہ چیز قالی نہ ہو بلکہ حالی ہو تو کیا علاج ـ ایک حافظ صاحب کی حکایت ہے گو فحش ہے مگر توضیح کے لیے کافی مثال ہے وہ یہ ہے کہ شاگردوں نے کہا کہ حافظ جی نکاح میں بڑا مزاہ ہے ـ حافظ جی نے کوشش کر کے ایک عورت سے نکاح کر لیا شب کو حافظ جی پہنچے اور روٹی لگا لگا کر کھاتے رہے بھلا کیا خاک مزا آتا صبح کو خفا ہوتے ہوئے آئے کہ سسرے کہتے تھے کہ نکاح میں بڑا مزہ ہے ہمیں تو کچھ بھی مزہ نہ آیا ـ لڑکے بڑے شریر ہوتے ہیں ـ کہنے لگے اجی حافظ جی یوں مزہ نہیں آیا کرتا مارا کرتے ہیں تب مزہ آتا ہے ـ اگلے دن حافظ جی نے بیچاری کو خوب ہی زد وکوب کی مارے جوتوں کے بیچاری کا برا حال کر دیا ـ غل مچنے پر اہل محلہ نے حافظ جی کو بہت برا بھلا کہا بڑی رسوائی ہوئی صبح کو پہلے دن سے بھی زیادہ خفا ہوتے آئے ـ اور شاگردوں سے شکایت کی انہوں نے کہا کہ حافظ جی مارنے کے یہ معنی ہیں اسکے موافق عمل کیا تب حافظ کو معلوم ہوا کہ واقعی مزہ ہے ـ حقیقت سے بے خبری کا یہ نتیجہ ہوتا ہے ـ