حلاج کی وجہ تسمیہ ایک مولوی صاحب کے سوال کے جواب میں فرمایا کہ حسین بن منصور حلاج جو ایک مشہور بزرگ تھے ان کے حلاج کہنے کی وجہ یہ ہوئی کہ ان کی ایک نداف سے دوستی تھی اس کے یہاں کپڑا بھرائی کے واسطے بہت زیادہ آ گئے روئی زیادہ جمع ہو جانے کی وجہ سے یہ پر یشان تھا اتفاق سے یہ بزرگ تشریف لے آ ئے دریافت فرمایا کہ پریشان کیوں ہو عرض کیا کہ حضرت کپڑے بھرائی کے لیے بہت آ گئے ہیں روئی اس قدر دھنکنا مشکل ہے اس وجہ سے پریشان ہوں یہ سن کر آپ نے ایک نظر اس روئی کے ڈھیر کی طرف کی تمام روئی دھنکی گئی اس وجہ سے حلاج مشہور ہو گئے ـ
ملفوظاتِ حکیم الامت جلد نمبر 1
ملفوظ 379: حسین بن مصور حلاج پر غلبہ حال
حسین بن مصور حلاج پر غلبہ حال ایک مولوی صاحب نے عرض کیا کہ حضرت غلام احمد قادیانی کو نبوت کا دعوی کرتے ہوئے ذرا بھی تو خیال نہیں ہوا کہ میری عاقبت خراب ہو گی خدا کو کیا منہ دکھلاؤں گا فرمایا کہ آپ تو نبوت کے دعوے پر اس قدر تعجب کر رہے ہیں لوگوں نے خدائی کے دعوے کئے ہیں مگر حسین بن منصور پر شبہ نہ کیا جائے کہ انہوں نے اناالحق میں خدائی کا دعوے کیا کیونکہ ان پر ایک حالت تھی ورنہ وہ عبدیت کے بھی معترف تھے چنانچہ وہ نماز بھی پڑھتے تھے کسی نے پوچھا کہ جب تم خدا ہو نماز کس کی پڑھتے ہو ؟ جواب دیا کہ میری دو حیثیتیں ہیں ایک ظاہر اور ایک باطن ـ میرا ظاہر میرے باطن کو سجدہ کرتا ہے یہ بھی رمز غامض ہے ـ
ملفوظ 378: حضرت علی ؒ کے ساتھ کرم اللہ وجہہ
حضرت علی ؒ کے ساتھ کرم اللہ وجہہ ، لکھنے کی وجہ ایک مولوی صاحب نے عرض کیا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ ، کے نام کے ساتھ کرم اللہ وجہہ کیوں مخصوص ہے فرمایا کہ عمر بن عبدالعزیز نے جو عمر ثانی سے ملقب ہیں یہ صیغہ حضرت علی رضی اللہ عنہ ، کے نام کے ساتھ شائع کرایا تھا اسلئے کہ خوارج آپ کے نام کے ساتھ سود اللہ وجہہ ، کہا کرتے تھے میں نے بعض اہل علم سے سنا ہے ـ 21 رمضان المبارک 1350ھ مجلس بعد نماز ظہر یوم شنبہ
ملفوظ 377: ہندوستان میں شیعوں کا اثر
ملفوظ 377: ہندوستان میں شیعوں کا اثر ایک مولوی صاحب نے عرض کیا کہ حضرت ! علی کے نام پر ہندوستان میں بہت نام رکھے جاتے ہیں اس کی کیا وجہ ہے فرمایا کہ میرے ایک دوست مولوی صاحب اس کی وجہ یہ فرماتے تھے کہ ہندوستان پر شیعوں کا اثر زیادہ ہے اس وجہ سے علی پر نام زیادہ رکھتے جاتے ہیں واللہ اعلم ـ
فرمایا ایک اور بات بھی ایسی ہی ہے مثلا امام حسین علیہ السلام امام حسن علیہ السلام امام جعفر صادق علیہ السلام کہتے ہیں مگر یہ کوئی نہیں کہتا کہ امام ابوبکر صدیق علیہ السلام امام عمر فاروق علیہ السلام حتی کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے نام کے ساتھ بھی امام کا لقب نہیں استعمال کرتے ـ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ حضرات اہل بیت کے ساتھ اس کو مخصوص سمجھتے ہیں اور حضرت علی اس میں دوسرے صحابہ کے شریک رہے اس شرکت پر ایک قصہ یاد آ گیا کہ ایک جاہل شیعی نے مسجد کے محراب پر لکھا دیکھا ـ چراغ و مسجد و محراب و ممبر ٭ ابوبکر و عمر و عثمان و حیدر غصہ میں آ کر کہا کہ ہم تو تمہاری وجہ سے لڑتے پھرتے ہیں اور تم کو جب دیکھتے ہیں ان ہی کے ساتھ بیٹھا دیکھتے ہیں یہ کہہ کہ غصہ میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے نام مبارک کو چھری سے چھیل ڈالا ـ
ملفوظ 376: (حضرت مولانا ) اشرف علی “”خاں ،، فرمایا
(حضرت مولانا ) اشرف علی “”خاں ،، فرمایا کہ ایک خط آیا تھا پتہ لکھا تھا اشرف علی خاں ـ بعض خطوط پر میرے نام کے ساتھ خاں لکھا ہوا آتا ہے اور واقع میں مزاج بھی میرا پٹھانوں ہی کا سا ہے ـ ایک مولوی صاحب نے عرض کیا کہ مزاج تو پٹھانوں جیسا نہیں ہاں ہمت پٹھانوں جیسی ہے فرمایا کہ ہمت ہی سہی اور ہمت تابع مزاج کے تب بھی مزاج پٹھانوں جیسا رہا فرمایا ایسے مزاج کی وجہ یہ معلوم ہوتی ہے کہ مجذوب صاحب کی دعاء سے پیدا ہوا ہوں ان ہی کی روحانی توجہ سے وہی رنگ میرے مزاج کا بھی ہو گیا ـ اور اتفاقی بات کہ انہوں نے اول میرا نام اشرف علی خاں ہی رکھا تھا بطور پیشین گوئی کے یہ فرمایا تھا کہ دو لڑکے پیدا ہوں گے ایک کا نام اشرف علی خاں اور دوسرے کا نام اکبر علی خاں رکھنا ایک میرا ہوگا وہ مولوی حافظ ہوگا اور دوسرا تمہارا ـ مجذوب صاحب سے عرض کیا گیا کہ اشرف علی خان آپ نے نام تجویز کیا وہ پٹھان ہوگا ہنس کر فرمایا نہیں نہیں اشرف علی اکبر علی ـ
ملفوظ 375: تقویتہ الایمان کی ایک عبارت
ملفوظ 375: تقویتہ الایمان کی ایک عبارت مولوی صاحب نے عرض کیا کہ حضرت ایک صاحب نے ایک رسالہ لکھا ہے اس میں لکھا ہے کہ تقویتہ الایمان مولانا محمد اسمعیل صاحب شہیدؒ کی کتاب نہیں اور وہ مصنف یہ بھی کہتے ہیں کہ تقویتہ الایمان کے مضامین صحیح ہیں لیکن عنوان سخت ہے ـ اس پر حضرت والا نے فرمایا کہ بھائی عنوان تم بدل دو ہم تمہارے ساتھ متفق ہو جائیں گے جیسے حضرت مولانا محمد قاسم صاحبؒ نے شاہ جہان پور میں ابطال الوہیت مسیح پر یہ کہا تھا کہ وہ خدا کیسے ہو جس کو کھانے کی ضرورت ہو ہگنے موتنے کا محتاج ہو ـ اس پر پادری نے اعتراض کیا کہ گوہ موت کہنا بے ادبی ہے ـ مولانا نے فرمایا گوہ موت نہ سہی بول و براز سہی بات ایک ہی ہے ـ پھر فرمایا کہ یہ بھی علٰی سبیل التنزل میں عرض کرتا ہوں ـ ورنہ عنوان بھی کوئی سخت نہیں حقیقت میں غور نہ کرنے سے ایسا معلوم ہوتا ہے چنانچہ مثال کے طور پر کہتا ہوں ـ تقویتہ الایمان میں ایک مقام پر اس عنوان کی عبارت ہے کہ اگر خدا چاہے تو محمد جیسے سیکڑوں بنا ڈالے ـ اس پر ایک مولوی صاحب نے حضرت مولانا احمدعلی صاحب محدث سہارنپوریؒ سے عرض کیا کہ حضرت اس میں حضورؐ کی تحقیر ہے کہ بنا ڈالے یہ محاورہ میں تحقیر پر دال ہے مولانا نے جواب میں فرمایا کہ صحیح ہے مگر یہ فعل کی تحقیر ہے مفعول کی تحقیر نہیں یعنی بنانا سہل ہے کہنے لگے کہ حضرت یہ تو تاویل ہے فرمایا بہت اچھا تاویل ہے تو رہنے دیجئے یہ پرانے حضرات زیادہ ردو کد کو پسند نہ فرماتے تھے ـ عجیب اتفاق ہوا کہ ایک روز یہی معترض صاحب مولانا احمد علی صاحبؒ سے عرض کرنے لگے کہ حضرت آپ کے مطبع میں مشکوۃ شریف بھی چھپ چکی ترمذی شریف بھی چھپ چکی اب تو بیضاوی بھی چھاپ ڈالئے اس وقت مولانا نے فرمایا کہ یہ وہی
ڈالنا ہے جس پر مولانا شہیدؒ کی تکفیر کی جاتی ہے اب اس سے تم نے بیضاوی شریف کی تحقیر کی اور اس میں آیات کلام اللہ بھی ہیں اور کل کی تحقیر مستلزم ہے جزو کی تحقیر کو اور قرآن پاک کی تحقیر کفر ہے ـ اس وقت ان مولوی صاحب کی آنکھیں کھلیں اور عرض کیا کہ حضرت واقعی اس کا مطلب تو خود میرے ہی ذہن میں یہی تھا کہ چھپوا دینا آسان ہے تحقیر ہرگز مقصود نہ تھی ـ معلوم ہوا کہ حضرت مولانا محمد اسمعیل صاحبؒ کا مقصود بھی تحقیر نہیں یہ ایک بہت بڑا سخت عنوان ہے جس پر اعتراض ہے اور اس کی یہ حقیقت ہے جو حضرت مولانا احمد علی صاحبؒ کے جواب سے واضح ہوئی ـ
ملفوظ 374: بلا ضرورت اوپر کے درجہ میں سفر نہ کرنا چاہئیے
ملفوظ 374: بلا ضرورت اوپر کے درجہ میں سفر نہ کرنا چاہئیے داکٹر صاحب نے عرض کیا کہ حضرت کیا فرسٹ کلاس سکنڈ کلاس اور انٹر کلاس میں سفر نہ کرنا چاہئیے فرمایا کہ بلا ضرورت کیا ضرورت ہے تیسرے درجہ میں سفر کرنا مناسب ہے البتہ ضرورت کے وقت سفر کیا جاوے تو کوئی حرج نہیں ـ
ملفوظ373: ٹکسال دکھانے پر ایک انگریز کا شکریہ
ٹکسال دکھانے پر ایک انگریز کا شکریہ فرمایا کہ میں حیدر آباد گیا تھا قریب چودہ روز کے وہاں پر قیام رہا چند وعظ بھی ہوئے ایک صاحب وہاں پر ہیں جو ارکان سلطنت میں سے ہیں بڑے عہدے پر ممتاز ہیں انہوں نے مجھ سے کہا کہ دارالضرب (ٹکسال) کی بھی سیر کر لیجئے میں گیا وہاں ایک انگریز نے تمام جگہ کی سیر کرائی جب میں واپس ہونے لگا تو اس انگریز کا میں نے ان لفظوں میں شکریہ ادا کیا کہ آپ کے اخلاق سے بہت جی خوش ہوا آپ کے اخلاق تو ایسے ہیں جیسے مسلمانوں کے ہوتے ہیں ـ میں نے اس سے یہ ظاہر کر دیا کہ یہ سب تم نے ہمارے ہی گھر سے لیا ہے یہ کوئی تمہارا کمال نہیں نہ تمہاری قوم کا یہ بھی مسلمانوں ہی کا صدقہ ہے مسلمانوں جیسے اخلاق کوئی پیدا کر لے حقیقی اخلاق مسلمانوں ہی کے ہیں کیونکہ مسلمانوں کے اخلاق عرف کے تابع نہیں حقیقت کے تابع ہیں اور حقیقت بدلتی نہیں اسلئے اسلامی اخلاق حقیقی اخلاق ہیں ـ
ملفوظ 372: غیر مسلموں کی نہ تحقیر نہ احترام
غیر مسلموں کی نہ تحقیر نہ احترام فرمایا کہ میں غیر مسلم قوموں کی نہ تحقیر کرتا ہوں اور نہ احترام جی یوں چاہا کرتا ہے کہ ہر چیز اور ہر کام ہر بات اپنی اپنی حد پر رہے اس اصل پر جو عین موقع پر جی میں آتا ہے وہی برتاؤ کرتا ہوں اور وہی مناسب ہوتا ہے ـ
ملفوظ 371: ایک انگریز کے ساتھ سفر کا واقعہ
ایک انگریز کے ساتھ سفر کا واقعہ فرمایا کہ مجھ کو بھی بعض اوقات اتفاق سفر میں ہوا ہے انگریزوں کے ساتھ سفر کرنے کا ـ مگر کبھی کوئی شریر نہیں ملا ـ ایک مرتبہ میں کلکتہ سے ایک دوست کے اصرار سے سکنڈ میں سوار ہوا ایک انگریز آیا جو ریلوے کا افسر تھا اسکو اوپر کا تختہ ملا کہنے لگا کہ ہم کو نیچے کے تختہ پر تھوڑی سی جگہ کھڑکی کی طرف آپ دیدیں ہم کو بار بار ریلوے کے انتظام کے لیے باہر جانا آنا پڑتا ہے میں نے کہا کہ بہت اچھا ہمارا کوئی حرج نہیں آپ بیٹھ جائیں وہ بیٹھ گیا ـ جب کھانے کا وقت آیا میں نے اس دوست کے ذریعہ سے دریافت کیا کہ آپ کھانا کھائیں گے کہا کہ مجھ کو کیا عذر ہے ـ ہم نے کھانا بازار سے خریدا تھا اس میں کچھ کھانا پتوں پر بھی تھا ہم نے اس کو برتن تو دیئے نہیں کہ کون دھوتا پھرے گا پتوں پر ہی رکھ کر دیدیا اس نے بڑی خوشی سے لیکر کھا لیا ـ ایک صاحب نے عرض کیا کہ حضرت برتن میں کھانا کیوں نہیں دیا فرمایا حق جوار ادا کیا ـ پڑوسی تھا حق احترام ادا نہیں کیا اسلئے کہ اسلام سے محروم تھا اسٹیشن بردوان پر آ کر اتر گیا بہت ہی شکریہ ادا کیا کہ آپ کو بہت تکلیف ہوا ہماری وجہ سے اور ہم کو آپ کی وجہ سے بہت آرام ملا ـ ڈاکٹر صاحب نے عرض کیا کہ اگر حضرت برتن میں کھانا دیدیتے تو اور زیادہ شکریہ ادا کرتا فرمایا کہ یہ بھی تو ممکن تھا کہ نہ کرتا ـ برتن میں کھانا دینے سے اپنے کو بڑا سمجھ جاتا کہ ہمارا احترام کیا گیا پھر شکریہ کی ضرورت ہی کیا محسوس ہوتی اس پر حضرت والا نے بطور مزاح کے فرمایا کہ آپ داکٹر ہیں انگریزوں کے بھی دانت بناتے ہیں آپ پیالیوں میں چائے پلایا کرتے ہیں کیونکہ منع تو ہے نہیں ـ ڈاکٹر صاحب نے عرض کیا کہ حضرت کو کیا خبر میں ایسا کرتا ہوں فرمایا کہ میں بھی تو اسی عالم میں ہوں عالم برزخ میں تو نہیں ـ

You must be logged in to post a comment.