حق میں اطمینان قلب ہے ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ حق میں اطمینان ہی اطمینان ہے اہل باطل اس دولت سے قیامت تک کے لیے محروم ہیں یہ تو اللہ نے حق ہی میں خاصیت رکھی ہے کہ اس میں اطمینان اور سکون حاصل ہو جاتا ہے –
ملفوظاتِ حکیم الامت جلد نمبر 1
ملفوظ 491: ایک مولوی صاحب کے تعریفی کلمات پر حضرت کا جواب
ملفوظ 491: ایک مولوی صاحب کے تعریفی کلمات پر حضرت کا جواب مولوی صاحب نے عرض کیا کہ اب کی مرتبہ حضرت کے یہاں آ کر اس قدر اطمینان ہوا ہے میں بیان نہیں کر سکتا – بہت سے شبہات کا ازالہ ہو گیا اور بہت سے افکار سے نجات ہو گئی حق تعالی حضرت کو جزائے خیر عطا فرمائیں وہ باتیں معلوم ہوئیں جو سوچنے سے بھی قیامت تک سمجھ میں نہ آتیں فرمایا کہ میری کیا معلومات اور کیا تحقیقات – آپ خود اللہ کے فضل سے عالم ہیں مفسر ہیں محدث ہیں فقیہ ہیں – مناظر ہیں مجھ کو تو کتابیں تک مستحضر نہیں رہیں اور میں سچ عرض کرتا ہوں کہ میں تو خادم ہوں اور خادم ہی بن کر رہنے کو جی چاہتا ہے اور آپ نے جو کچھ فرمایا یہ سب آپ کی محبت کا اقتضاء ہے –
ملفوظ 490: حضرت گنگوہیؒ کی ادا خانقاہ تھانہ بھون میں
حضرت گنگوہیؒ کی ادا خانقاہ تھانہ بھون میں مولوی صاحب نے عرض کیا کہ حضرت میں حضرت مولانا گنگوہیؒ کے یہاں حاضر ہوتا تھا وہاں پر جو بات معلوم ہوتی تھی اب حضرت کے یہاں وہ بات میسر ہے فرمایا یہ آپ کا حسن ظن ہے ورنہ چراغ مردہ کجا نور آفتاب کجا –
ملفوظ 489: توجہ کے طالب
ملفوظ 489: توجہ کے طالب ایک مولوی صاحب کی درخواست معافی ایک صاحب نے عرض کیا کہ حضرت مولوی صاحب بہت ہی پریشان ہیں – مجھ سے فرماتے تھے کہ میں نے حضرت سے یہ عرض کیا تھا کہ توجہ وغیرہ کا جو بزرگوں میں معمول ہے وہ ہم جیسے ضعفاء کے لیے بہت ہی مناسب ہے حضرت نے اس پر یہ فرمایا کہ اگر آپ کی رائے میں یہ ایسی نافع چیز ہے اور مجھ میں یہ قوت نہیں – تو کسی اور جگہ سے حاصل کریں –
اب مولوی صاحب میرے ذریعے سے معافی کے خوستگار ہیں اور یہ عرض کر رہے ہیں کہ مجھ سے غلطی ہوئی – میں نے ایسی بات حضرت سے کیوں عرض کی فرمایا آپ نے ہی گر ماری ہے آپ ہی نکالیں میری طرف سے کہہ دیجئے گا کہ مجھ پر ذرہ برابر ان کے اس کہنے سے گراں نہیں ہوئی انکو مطمئن فرما دیجئے گا کہ اس کا قلب میں وسوسہ بھی نہ لائیں کہ مجھ پر کوئی خلاف کا اثر ہوا توبہ توبہ مگر جب ان پر اس کا قدر اثر ہے تو ان کو ایسی بات کہنی ہی نہیں چاہیے تھی اور جب جب کہی گئی تو جو میرے ذہن میں جواب آیا عرض کر دیا مجھ سے مصالح پرستی تو آتی نہیں – بلکہ مصر کے متعلق تو میرا یہ مذہب ہے کہ جس قدر ان کو پیسا جائے ہنڈیا مزے دار ہو گی – میں نے اس لئے یہ عرض کر دیا تھا کہ حضرت حاجی صاحبؒ فرمایا کرتے تھے کہ بھائی جو کچھ میرے پاس ہے دوستوں کے سامنے پیش کر دیتا ہوں اگر کسی کو اس سے زائد کی ضرورت اور طلب ہو کہیں اور سے حاصل کر لیا جائے – میں اپنا بندہ نہیں بناتا ہوں خدا کا بندہ بناتا ہوں اگر کوئی چیز یہاں سے حاصل نہ ہو کہیں اور سے سہی کام ہونا چاہئیے – حضرت یہ فرمایا کرتے تھے اس ہی قبیل سے میں نے عرض کر دیا تھا – میرے یہاں اس قسم کی باتیں ہیں ہی نہیں آپ کو تو معلوم ہے یہ بھی کہہ دیجئے گا کہ آئندہ ایسی بات سے احتیاط رکھیں اور میرا مسلک تو کھلا ہے اس میں نہ ابہام ہے نہ اخفاء – اس پر اگر کوئی طلب کرے خدمت کرنے کو تیار ہوں –
ملفوظ 488: کام میں لگا ہوا دیکھ کر خوش ہونا
کام میں لگا ہوا دیکھ کر خوش ہونا ایک صاحب نے عرض کیا کہ حضرت جن صاحب سے غلطی ہو گئی تھی وہ میرے واسطہ سے معافی کی درخواست کرتے ہیں فرمایا کہ جناب ان کا قصور معاف ہونا ذرا مشکل ہے وہ تو بہت ہی بد فہم واقع ہوئے ہیں اور واقع میں معاف ہونا کچھ مشکل بھی نہیں جب ان کو کام میں لگا ہوا دیکھوں گا آپ ہی خوش ہو جاؤں گا – میری طبیعت تو اس قسم کی واقع ہوئی ہے کہ کسی کو راہ پر لگے ہوئے دیکھتا ہوں جی خوش ہوتا ہے اور بے راہی پر دیکھ کر رنج ہوتا ہے ان سے کہہ دیجئے کہ وہ کام میں لگیں خوشی نا خوشی کا بعد میں فیصلہ ہوتا رہے گا – میں اپنی غرض سے تھوڑا ہی مؤاخذہ یا روک ٹوک کرتا ہوں انہی لوگوں کی مصلحت سے ایسا کرتا ہوں کہ ان میں آدمیت پیدا ہو –
ملفوظ 487: فضولیات میں پڑنے سے فہم مسخ ہو جاتا ہے
فضولیات میں پڑنے سے فہم مسخ ہو جاتا ہے ایک صاحب نے اپنی غلطی کی معذرت چاہی کہ حضرت کو میری وجہ سے تکلیف پہنچی اور حضرت مجھ سے ناراض ہو گئے فرمایا کیوں ناراض کیا کون سی پیچیدہ بات پوچھی تھی – صرف یہی تو پوچھا تھا کہ جو کچھ اس خط میں لکھا ہے یہ آپ کو منظور ہے اتنی ہوٹی بات کا آپ جواب نہ دے سکے اور نہ سمجھ سکے یوں تو معاف ہے مگر آدمی کو سمجھ سے کام لینا چاہئیے اور کام میں لگنا چاہئیے – فضولیات میں پڑنے سے آدمی کا فہم بھی مسخ ہو جاتا ہے ضروری کاموں سے رہ جاتا ہے –
ملفوظ 486: حضرت حاجی صاحبؒ کی نظر میں پیری مریدی کا فائدہ
حضرت حاجی صاحبؒ کی نظر میں پیری مریدی کا فائدہ ایک مولوی صاحب کے سوال کے جواب میں فرمایا کہ اس دینی تعلق میں دونوں کا فائدہ ہے اگر مرید گڑبڑ میں پھنس گیا تو پیر مدد کریگا اور اگر پیر پھنس گیا تو مرید مدد کریگا – ہمارے حضرت حاجی صاحبؒ اس تعلق کی مصلحت میں فرمایا کرتے تھے کہ اگر پیر مرحوم ہو گا تو مرید کو جنت میں لے جائیگا اگر مرید مرحوم ہوگا تو پیر کو جنت میں لے جائیگا اور مغضوب میں یہ احتمال نہیں کہ وہ مرحوم کو لے جائیگا کیونکہ سبقت رحمتی علی غضبی – مولوی صاحب نے فرمایا کہ حضرت اس بناء پر تو لوگوں کو بیعت خوب کرنا چاہئیے فرمایا کہ اس رسمی بیعت سے کیا ہوتا ہے – یہ برکات روح بیعت کی ہیں جس کی حقیقت اتباع ہے یہ التزام اتباع بڑی چیز ہے بڑی دولت ہے بڑٰی نعمت ہے اور اپنی نسبت فرمایا کہ حضرت ایسے شخص کا کیا مرید ہو جسے یہ بھی نہ معلوم ہو کہ یہ شخص مجھ سے مرید ہے اکثر ایسا ہوتا ہے کہ مجھ سے بیعت ہوتے ہیں میں سمجھتا ہوں کہ کسی اور سے ہیں اور بعض دوسروں سے ہوتے ہیں مجھ سے بیعت کا تعلق نہیں ہوتا مگر میں سمجھتا ہوں کہ مجھ سے ہیں مجھ کو یاد ہی نہیں رہتا مگر یہ مضر نہیں اصل اس طریق میں مناسبت اور تعلق ہے – ایک مولوی صاحب نے عرض کیا کہ حضرت آجکل تو پیروں کے یہاں با قاعدہ رجسٹر اور دفتر ہیں – تبسم فرما کر فرمایا کہ جی ہاں کہیں وہ دفتر علیین ہوتا ہے اور کہیں سجین ہوتا ہے – اسی سلسلہ میں فرمایا کہ ان جاہل پیروں کی عجیب حالت ہے بمبئی میں ایک پیر نے اپنی مریدنی سے کہا کہ سامنے آؤ اس کو کچھ تامل ہوا تو فرمایا کہ اگر تم سامنے نہ آؤ گی تو میں میدان محشر میں پہچانوں گا کس طرح – ایک صاحب نے وہاں ہی جواب دیا کہ میدان محشر میں تو لوگ ننگے ہونگے لہذا ننگے کر کے دیکھنا چاہئیے کبھی یہاں پر کپڑے پہنے دیکھ کر وہاں ننگے ہونے کی ہیئت میں نہ پہچان سکو – اسی طرح تم بھی ننگے ہو کر اپنے کو دکھلاؤ کبھی وہ کپڑوں میں دیکھ کر وہاں ننگا نہ پہچان سکے – کیا واہیات ہے خرفات ! اسغفراللہ ! وہاں تو معرفت تعلقات روحانی سے ہو گی – اس حسی اور بے پردہ دیکھنے دکھلانے سے وہاں کی معرفت کو کیا تعلق وہ عالم ہی دوسرا ہے –
ملفوظ 485: حضرتؒ اور حضرت مولانا محمد یعقوبؒ کی پیشینگوئی
حضرتؒ اور حضرت مولانا محمد یعقوبؒ کی پیشینگوئی ایک سلسلہ گفتگو میں ایک مولوی صاحب کے سوال کا جواب دیتے ہوئے حضرت والا نے فرمایا کہ میرے پاس نہ حشم ہے نہ خدم ہے نہ علم ہے نہ فضل ہے نہ کمال ہے نہ جمال ہے ( اور بطور مزح کے تبسم فرماتے ہوئے فرمایا کہ ہاں جلال ہے مگر جلال بھی وہ حلال ہے حدود سے گذر کر نہیں ) ہاں محض ایک خدا کا فضل ہے – ایک مرتبہ حضرت مولانا محمد یعقوب صاحبؒ نے ایک جماعت کی معیت میں فرمایا تھا کہ تم جہاں جاؤ گے تم ہی تم ہو گے اس وقت کچھ ایسے وثوق اور دل سے فرمایا تھا کہ یہ احتمال ہی نہ ہوتا تھا کہ مولانا کو اس میں کچھ شبہ ہے – یہ سب اسی دعا کی برکت ہے ورنہ میں ایسا ناکارہ ہوں کہ کبھی کوئی کام ہی نہیں کیا – ادنی بات یہ ہے کہ جتنا علم بڑھتا گیا نفس اتنی ہی سہولت ڈھونڈتا گیا پہلے نفلیں پڑھتا تھا – منیتہ المصلی میں یہ دیکھ کر کہ مستحب کے نہ پڑھنے پر کوئی مواخذہ نہیں وہ بھی چھوٹ گئیں – میرے ایک خواب کی تعبیر میں ایک بزرگ نے فرمایا تھا کہ تمہاری روح اور نفس بلا مشقت ہی روشن ہو جائیں گے – اب اس کے وقوع کا انتظار ہے کہ وہ نور کب ہو گا – خواجہ صاحب نے عرض کیا کہ بہت سوں کو منور فرما دیا تو نور کے حصول میں کیا شبہ ہے فرمایا کہ کیا اندھا مشعلچی نہیں ہوتا –
ملفوظ 484 : غیر مقلدوں کا تشدد اور فساد
غیر مقلدوں کا تشدد اور فساد ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ بعضے غیر مقلدوں میں تشدد بہت ہوتا ہے طبیعت میں شر ہوتا ہے اور مجھے تو الا ماشاء اللہ ان کی نیت پر بھی شبہ ہے سنت سمجھ کر شاید ہی کوئی عمل کرتے ہوں مشکل ہی سا معلوم ہوتا ہے اسی لیے عمل کچھ ہو مگر جس نیت سے کیا جاتا ہے اس کا اثر دوسرے پر ضرور ہوتا ہے حاصرین میں سے ایک صاحب نے بیان کیا کہ ایک مقام پر آمین بالجہر پر جھگڑا ہوا – مقدمہ عدالت میں پہنچا ایک ہندو شہر کوتوال اسکی تحقیقات پر تعینات ہوا آدمی سمجھ دار تھا اس نے اپنی رپورٹ میں غیر مقلدین ہی پر فساد کا الزام ثابت کیا اور یہ لکھا کہ یہ جماعت شورش پسند اور مفسد جماعت ہے بلا وجہ ایسی بات کرتے ہیں کہ جس سے لوگوں کو اشتعال ہو – آمین بالجہر محض فساد اور شورش پیدا کرنے کے لیے کہتے ہیں اس رپورٹ پر غیر مقلدوں نے بڑا شور کیا – اور یہ کہا کہ آمین بالجہر مکہ میں بھی ہوتی ہے اس ہندو کوتوال نے جواب دیا کہ آمین مکہ میں محض اللہ کے یاد کی غرض سے اور سنت سمجھ کر کہی جاتی ہو گی فساد کے لیے نہ ہوتی ہو گی یہاں پر محض فساد کے لیے ہوتی ہے ـ دوسرا واقعہ خود فرمایا کہ ایسا ہی ایک اور واقعہ ہے ایک نو عمر طالب علم میرا شریک حجرہ بیان کرتا تھا کہ کسی ریاست میں ایک مقام پر آمین بالجہر کے معاملہ کی تحقیقات ایک انگریز نے کی اور آخر میں رپورٹ کے اندر عجیب و غریب تحقیقات بیان کی گویا کہ حقیقت کا فوٹو ہی کھینچ کر رکھ دیا اس نے یہ لکھا کہ آمین کی تین قسمیں ہیں ایک آمین بالجہر جو مسلمانوں میں ایک فرقہ کا مذہب ہے اور حدیثیں اس میں وارد ہیں اور ایک آمین بالسر یہ بھی مسلمانوں کے ایک فرقہ کا مذہب ہے اور یہ بھی حدیثوں سے ثابت ہے اور ایک آمین بالشر یہ مذہب ہے غیر مقلدوں کی لہذا اس سے روکا جانا چاہئیے – اسی سلسلہ میں فرمایا کہ مولوی سلیمان صاحب پھلواری نے ایک حکایت بیان کی تھی ظریف آدمی ہیں کہ ایک غیر مقلد نے کسی شہر میں پہنچ کر آمین بالجہر پڑھی ایک گاؤں کا شخص بھی اس وقت نماز میں شریک تھا اس نے کہا کہ ہمارے یہاں آؤ تو تم کو مزہ چکھاویں – یہ غیر مقلد صاحب اس گاؤں میں بھی پہنچے نماز میں آمین بالجہر کا کہنا تھا کہ چہار طرف سے رفع یدین شروع ہو گیا دونوں طرف جہالت تھی – اوپر کی حکایت کے سلسلہ میں جس میں ایک انگریز نے تحقیقات کی تھی فرمایا کہ بعضے انگریز بھی سمجھ دار ہوتے ہیں – چنانچہ ایک دوسری حکایت ہے کہ بھوپال میں ایک عورت کے مسلمان کر لینے پر ایک شخص پر مقدمہ چلایا گیا حاکم باوجودیکہ مسلمان تھا مگر اس نے اغواء کے الزام میں مسلمان کو حکم سزا کا دیا اس کا اپیل ایک انگریز حاکم کے یہاں کی گئی اس نے عجیب بات فیصلہ میں لکھی کہ جو شخص ارشاد اور اغواء میں فرق نہ کر سکا وہ قابل حکومت نہیں – ایک شخص نے اپنے مذہب کو حق سمجھ کر اس کی رغبت دلاتا ہے گویا اچھی بات کی طرف دعوت دیتا ہے سو یہ تو ارشاد ارشاد ہے وہ ہرگز مجرم نہیں اگر کوئی زیور کا قصہ ہوتا یا شہوانی معاملہ ہوتا جو کہ ثابت نہیں وہ اغواء ہوتا نو مسلم کو مسلمان کرنے کے سلسلے میں فرمایا کہ مولوی نے بھوپال میں ایک بھنگن کو مسلمان کر لیا مقدمہ دائر ہوا – حاکم نے خلوت میں بلا کر کہا کہ ثبوت تو کوئی ہے نہیں تم انکار کر دینا کہ میں نے مسلمان نہیں کیا انہوں نے کہا جو مناسب ہوگا جواب دوں گا جب با ضابطہ بیان لیا گیا تو انہوں نے کہا کہ مسلمان تو وہ خود ہوئی اس کی درخواست پر میں نے اظہار اسلام کا بتلا دیا اور یہ کوئی جرم نہیں حاکم نے کہا مسلمان کرنا قانونا اس طریقہ اظہار کو کہتے ہیں انہوں نے کہا میں ایسے مہمل قانون ہی کو نہیں مانتا حاکم حیران ہوا اور وزیر ریاست سے پوچھا کہ کیا کیا جائے انہوں نے جواب لکھا کہ جو شخص قانون کی زد میں نہ آ ئے اس کو زبر دستی کیون لاتے ہو مقدمہ خارج ہو گیا – اس پر فرمایا کہ ذہانت بھی خدا کی ایک عجیب نعمت ہے –
ملفوظ 483: ایک صاحب کی خاموشی پر مؤاخذہ
ملفوظ 483: ایک صاحب کی خاموشی پر مؤاخذہ ایک نو وارد شخص سے اس کی غلطی پر حضرت والا نے مواخذہ فرماتے ہوئے فرمایا کہ میں نے صرف یہی تو پوچھا تھا کہ جو میں نے اس پرچہ میں لکھا ہے وہ تم کو منظور ہے یا نہیں جس پر جواب ندارد ہے یہ کون سی ایسی باریک بات اور دقیق سوال تھا جس پر آپ خاموش ہیں اور اگر جواب دینا بھی آپ کو کسر شان معلوم ہوتا ہے یا مجھ کو قابل جواب دینے کے نہیں سمجھا جاتا تو یہاں تشریف لانے کی ضرورت ہی کیا تھی گھر بیٹھے رہے ہوتے کوئی بلانے تھوڑا ہی گیا تھا – اس پر وہ شخص کچھ بو لے مگر نہایت دھیمی آواز سے – اس پر حضرت والا نے فرمایا کہ ارے بھائی ! ہاتھ منہ سے ہٹاؤ ایک تو آواز نہیں اور اس پر ہاتھ منہ پر رکھ لیا کم از کم ایسے طریق سے بولو کہ دوسرا سن کر جواب دے سکے اس شخص نے ہاتھ منہ سے ہٹا لیا مگر آواز میں کوئی تغیر نہ ہوا – اس پر حضرت والا نے فرمایا کہ اب بتلایئے کہ بار بار کے کہنے پر بھی جب اثر نہیں تو کیا تاویل کروں اور ایسی حرت پر مجھ کو تغیر ہو یا نہ ہو – آخر کوئی پتھر کا بت تو ہوں نہیں کہ حس ہی نہ ہو – یہ فرما کر حضرت والا نے نہایت بلند آواز اور تیز لہجے میں فرمایا کہ جاؤ خبر دار ! جو ہمارے پاس آئے ایسے بد فہموں کا یہاں کام نہیں ایسے بولتے ہیں جیسے کوئی نواب صاحب ہیں یا والی ملک ہیں بد نصیب خود بھی پریشان ہوتے ہیں اور مجھ کو بھی پریشان کرتے ہیں پہلے تو میں ایسے بد فہموں کو ہمیشہ کے لیے جدا کر دیتا تھا زیادتی سن کا اثر ہے کہ ضروری رعایت کرتا ہوں اب جاؤ بذریعہ خط کے معاملہ طے کرنا اس وقت تم نے بہت ہی ستایا ہے دل دکھایا ہے اس وقت کام نہیں ہو سکتا وہ شخص اٹھ کر چلا گیا فرمایا کہ میں تو عتاب میں بھی مصالح پر نظر رکھتا ہوں – اس شخص نے سیدھی اور صاف بات کو کس قدر الجھایا ہے لا حول ولا قوۃ الا باللہ اور مجھے تو ایسے برتاؤ سے شرم آتی ہے مگر ان لوگوں کو قطعا احساس نہیں – میں جو کچھ کرتا ہوں سبب سے ! اور یہ کرتے ہیں بلا سبب میں نے اس شخص سے یہی تو پوچھا تھا کہ جو کچھ میں نے اس میں لکھا ہے وہ تم کو منظور ہے یا نہیں – اب انصاف سے فرمایئے یہ کونسی غامض بات ہے جس کا جواب نہ دیا گیا اس حالت میں زیادتی کس کی ہے – تجربہ سے یہ معلوم ہوا کہ اس کا اہتمام ہی نہیں کہ دوسرے کو اپنے سے اذیت نہ پہنچےمیں تو کہا کرتا ہوتا ہوں کہ پیروں کو تو یوں سمجھتے ہیں کہ یہ بت ہیں اپنے کو فنا کر چکے ان کو کسی بات کا احساس نہیں ہوتا چاہے کوئی ڈنڈوت کرے یا پانچ جوتے نکال کر لگا دے دونوں ان کے نزدیک یکساں ہیں اور یہ سب خرابیاں رسمی پیروں ہی کی پیدا کی ہوئی ہیں ان کو اصلاح کی طرف توجہ ہی نہیں ان کے یہاں تو بڑی معراج یہ ہے کہ آ کر مرید ہو جائیں اور چڑھاوے چڑھا جائیں سو اس میں انکا تو بھلا ہو گیا مگر ناس تو ان کم بختوں کا ہوا – ایک مرتبہ ڈھاکہ جانا ہوا وہاں پر میں نے پا کبروں کا علاج کیا دستگیروں کا علاج تو کرتا ہی ہوں – وہ یہ کہ بنگال میں یہ معمول ہے لوگوں کا کہ دوڑے اور پیر پکڑ لیے میں نے منع کیا کہ پاؤں پکڑنا مناسب نہیں مصافحہ کرنا سنت ہے یہی کافی ہے مگر نہ مانے میں نے یہ کیا کہ جو میرے پیر پکڑتا میں اس کے پیر پکڑتا – جب دو چار کے ساتھ یہ معاملہ ہوا تب لوگوں نے چھوڑا – میں نے کہا کہ اب آدمی بنے کہنے سے باز نہیں آ ئے – بعض لوگوں کے جب میں نے پیر پکڑے تو کہنے لگے اجی حضرت یہ کیا ؟ میں کہتا ہوں کہ ! جی حضرت یہ کیا کہنے لگے کہ آپ تو بزرگ ہیں – میں نے کہا کہ آپ کے پاس اس کی کیا دلیل ہے کہ میں تم کو بزرگ نہیں سمجھتا – بڑے گھبرائے کہتے ہونگے کہ کوئی دیہاتی ہے –

You must be logged in to post a comment.