ملفوظ 482: شیخ سے عقیدت میں کمی پر نفع میں کمی ایک مولوی صاحب کے سوال کے جواب میں فرمایا کہ یہ بالکل صحیح ہے شیخ کے ساتھ جس قدر عقیدت کم ہو گی اسی قدر نفع کم ہوگا
ملفوظاتِ حکیم الامت جلد نمبر 1
ملفوظ 481: کچھ کرو خالی مت رہو
کچھ کرو خالی مت رہو ایک مولوی صاحب کے سوال کے جواب میں فرمایا کہ جو آپ فرما رہے ہیں یہ تو بڑے لوگوں کی باتیں ہیں ہم نے تو یہ سیکھا ہے کہ بھائی کچھ کرو خالی مت رہو – اور جو لوگ کچھ نہ کریں وہ کم از کم سمجھتے رہیں کہ ہم کچھ نہیں کر رہے ہیں یہ بھی ایک درجہ ہے اس پر فرمایا کہ میں نے تو اپنے جیسے کم ہمتوں کے لئے ڈھونڈ ڈھانڈ کر حضرت سعید ابن المسیب تابعی کا ایک قول نکالا ہے وہ فرماتے ہیں کہ عشاء کی نماز جماعت سے پڑھنے پر شب قدر کی فضیلت میسر ہو جاتی ہے ( کذافی جمع الفوائد بروایتہ مالک ) پھر فرمایا کہ صاحب ہم جیسے ضعیفوں کے لیے تو یہ بڑی نعمت ہے پھر قوت و ضعف کے تفاوت سے اعمال کی کثرت و قلت کے مناسب یہ واقعہ بیان فرمایا کہ یہ روایت سنی ہے مولوی محمد یسین صاحب یعنی مولوی محمد شفیع صاحب کے والد نفل روزے بہت رکھا کرتے تھے اور حضرت مولانا محمد یعقوب صاحب رحمتہ اللہ علیہ کے یہاں جا کر افطار کیا کرتے تھے – ایک روز مولانا نے فرمایا کہ مولوی صاحب یہ نہ سمجھنا کہ میں روزے رکھتا ہوں اور یہ نہیں رکھتے ہم نے بھی بہت روزے رکھے ہیں –
ملفوظ 480: فن تصوف خواجہ صاحب نے عرض کیا
ملفوظ 480: فن تصوف خواجہ صاحب نے عرض کیا کہ حضرت والا نے تو اصلاح کے کام کو از سر نو زندہ فرما دیا – مدت سے کسی نے اس کی ایسی خدمت نہ کی – صدیوں سے فن تصوف مردہ ہو چکا تھا فرمایا کہ میں نے قاعدہ بغدادی لے لیا ہے جو سب میں چھوٹا کام ہے بڑے بڑے حضرات بڑے بڑے کام کر رہے ہیں اور میں نے سب سے چھوٹی چیز لی ہے جس کو سب چھوٹا سمجھتے ہیں فرمایا کہ لوگ بے وضوء نماز پڑھنا چاہتے تھے – وضوء کروا کر نماز پڑھوانا چاہتا ہوں –
ملفوظ 479: حضرت مولانا عبدالحی لکھنوی کا علمی کمال
حضرت مولانا عبدالحی لکھنوی کا علمی کمال ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ غیر مقلدوں کے متعلق مولوی عبدالحی صاحب لکھنوی کی رائے اول نرم تھی مگر مناظرہ سے جو نواب صدیق حسن خان صاحب سے انکا خود ہوا سخت ہو گئے تھے ورنہ بہت ہی نرم تھے بڑے صاحب کمال تھے عمر تقریبا 38 یا 40 سال کی ہوئی کسی نے جادو کرا دیا تھا – مولوی صاحب کے سرہانے سے ایک شیشی خون کی دبی ہوئی نکلی تھی اس سے شبہ ہوتا ہے کہ کسی نے سحر کیا – اس میں انتقال ہو گیا – اس تھوڑی سی عمر میں بہت کام کیا سمجھ میں نہیں آتا – وقت میں بہت ہی برکت تھی ہر فن سے مناسبت تھی اور ہر فن کی خدمت کی –
ملفوظ 478: ایک صاحب کی بد فہمی اور وعدہ کی مخالفت کا واقعہ
ایک صاحب کی بد فہمی اور وعدہ کی مخالفت کا واقعہ فرمایا کہ میں چاہتا ہوں کہ کسی کو کچھ نہ کہوں اور نہ کوئی ایسی بات جس سے بے لطفی پیدا ہو – مگر کیا کیا جائے دوسرے بالکل ہی بے فکر ہیں اسلیے کوئی نہ کوئی واقعہ نا قابل تسامح ہو جاتا ہے – ایک صاحب آج صبح ہی آ کر میرے پاس بیٹھ گئے میں اس وقت مشغول تھا – اپنا کام چھوڑ کر انکی طرف متوجہ ہوا – اب پوچھتا ہوں کہ جو کہنا ہو کہہ لیجئے – میں تنگی نہیں کرتا کہ ا س وقت فرصت نہیں پھر آنا اسلئیے کہ ممکن ہے کہ کوئی فوری اور ضروری ضرورت ہو کچھ بولے نہیں ـ آخر چند بار کے دریافت کرنے پر ایک پرچہ نکال کر میرے آ گے کر دیا – اور زبان سے اب بھی کچھ نہ کہا حالانکہ آ گے معلوم ہو گا کہ پرچہ ہی پیش کرنا مخالفت تھی – اور تماشہ یہ ہے کہ اس کے متعلق دو شخصوں سے مشورہ بھی لیا تھا انہوں نے واقعہ معلوم کر کے منع بھی کیا تھا – اب بتلایئے کیا تاویل کروں اور اگر ہر بات میں تاویل ہو سکتی ہے تو پھر اصلاح کیسے ہو – اب سوائے اسکے اور کیا کہوں کہ میں ایسے لوگوں کی خدمت سے معذور ہوں ان لوگوں میں نہ رحم نہ انصاف کچھ نہیں – ایک یہ شخص دھوکا دینا چاہتے تھے اور ابہام کے ذریعہ سے پرچہ کا جواب حاصل کرنا چاہتے تھے حالانکہ بعد میں معلوم ہوا کہ ان کو پرچہ لکھنے ہی کی اجازت نہ تھی – یہ بھانڈا یوں پھوٹا کہ میں نے ان سے یہ سوال کیا کہ کیا تم نے مکاتبت کی اجازت حاصل کر لی ہے – یہ خیال اسلیے پیدا ہوا کہ ایسے بد فہم کو مکاتبت کی کیسے اجازت دیدی گئی ہو – جو بار بار پوچھنے پر بھی کچھ جواب نہ دے اس پر انہوں نے سب پرچے ایک جگہ جمع کر کے مجھ کو دیدیئے – اتفاق سے ان میں وہ پرچہ بھی تھا جس میں مکاتبت اور مخاطبت کی ممانعت تھی تب بات کھلی – اللہ تعالی نے معلوم کرا دیا – خواجہ صاحب نے عرض کیا کہ پرچہ دکھلانے کا بڑا ہی اچھا دستور العمل ہے کہ جس کی وجہ سے چور بکڑا گیا فرمایا کہ جیسے انہوں نے مکاتبت کی ممانعت پر پرچہ دیا – اسی طرح بعضے مخاطبت کی مخالفت زبانی شروع کر دیتے ہیں اور یہ یوں سمجھتے ہیں کہ بدوں بولے نفع نہیں ہو سکتا ممانعت پر مخالفت کرنا کس قدر بد فہمی کی بات ہے ان لوگوں کو یہ معلوم نہیں کہ بعضا بول بول ہوتا ہے جب نکل جاتا ہے بسترہ بھی نا پاک ، کپڑے بھی نا پاک خود بھی نا پاک ، چار پائی بھی نا پاک – پھر اس پر یہ حالت ہے کہ لوگوں نے صرف ایک سبق سیکھ لیا ہے یعنی مجھ کو بد نام کرنے کا – اور ان لوگوں کی حرکتوں کو کوئی نہیں دیکھتا – ظالم کے افعال کی تو تاویلیں کی جاتی ہیں مگر مظلقوم کی پرواہ نہیں – ایک صاحب نے سوال کیا کہ حضرت اس کی کیا وجہ ہے فرمایا کہ خود طبیعت میں ظلم اور بے انصافی کا مادہ ہے –
ملفوظ 477: غیر مقلدین اور ہم
غیر مقلدین اور ہم ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ ابن تیمیہ نے بعض مسائل میں بہت ہی تشدد سے کام لیا ہے جیسے توسل وغیرہ کے مسئلہ میں – اسی طرح اہل ظاہر نے بھی – مثلا انہوں نے قیاس کو حرام کہا ہے اور ہم پھر بھی ان کے اقوال کی تاویل کرتے ہیں – مگر وہ ہمارے اقوال جو ان کے خلاف ہوں – بلا تاویل رد کر دیتے ہیں – غرض ہم تو ان کی رعایت کرتے ہیں اور وہ ہماری رعایت نہیں کرتے – چنانچہ ہم ترک تقلید کو مطلقا حرام نہیں کہتے اور وہ تقلید کو علی الاطلاق حرام کہتے ہیں اس سے وہ اس درجہ میں آ گئے ہیں تحبونھم ولا یحبونکم – ہاں بعض قیاس کو حرام کہا جا سکتا ہے جیسا ابلیس نے کیا تھا یعنی نص کے مقابلہ میں ورنہ قیاس شرعی کو حرام کہنا تمام امت کی تضلیل ہے کیونکہ ائمہ مجتہدین کے تمام فتاوٰے کو جمع کر کے دیکھئے اس میں زیادہ حصہ قیاسات و اجتہادات ہی کا ہے ان کو گمراہ کہنا تمام امت کو گمراہ کہنا ہے – خود صحابہ کو دیکھئے زیادہ تر فتوٰے قیاس ہی پر مبنی ہیں البتہ وہ قیاس نصوص پر مبنی ہے – آجکل تارکین تقلید میں بھی اس رنگ کے لوگ ہیں اور بکثرت دیکھا جاتا ہے کہ ان لوگوں میں بڑی جرات ہوتی ہے بے ڈھڑک بدوں سوچے سمجھے جو چاہتے ہیں فتوے دے بیٹھتے ہیں خود ان کے بعضے مقتداؤں کی باوجود تبحر کے یہ حالت ہے کہ جس وقت قلم ہاتھ میں لے کر چلتے ہیں دوسری طرف نہیں دیکھتے –
سب سے عجیب بات یہ ہے کہ مخالف کے ادلہ کو نقل کرتے ہیں مگر ان کا جواب تک نہیں دیتے – بعض کے وسیع النظر ہونے میں شک نہیں مگر نطر میں عمق نہیں – ایک ظریف نے بیان کیا تھا ایک مرتبہ کہ متبحر کی دو قسمیں ایک کدو متبحر اور ایک مچھلی متبحر – کدو متبحر سارے دریا میں پھرتا ہے مگر اوپر اوپر اور مچھلی عمق میں پہنچتی ہے – تو ان لوگوں کا تبحر ایسا ہے جیسے کدو متبحر کہ اوپر اوپر پھرتے ہیں اندر کی کچھ خبر نہیں –
ملفوظ 476: مہتمم دارالعلوم دیوبند
مہتمم دارالعلوم دیوبند حضرت مولانا رفیع الدینؒ کے کمالات باطنی ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ مجھ کو ثقہ راوی سے پہنچا ہے کہ حضرت مولانا محمد قاسم صاحبؒ نے شاہ رفیع الدین صاحبؒ کی نسبت فرمایا تھا اور غالبا ایک صاحب نے اپنی بعض تحریرات میں لکھا بھی ہے کہ وہ کمالات باطنہ میں مولانا رشید احمد صاحبؒ گنگوہی سے کم نہیں صرف فرق یہ ہے کہ وہ ظاہری عالم بھی ہیں یہ عالم نہیں ـ اسی سلسلہ میں فرمایا کہ ایک مرتبہ دیوبند میں مدرسہ کا بہت بڑے پیمانہ پر جلسہ ہونے والا تھا میرا طالب علمی کا زمانہ تھا میں نے دیکھا کہ مولانا شاہ رفیع الدین صاحبؒ نہایت اطمینان سے ٹہل رہے ہیں ـ میں نے عرض کیا کہ حضرت آپ اس طرح پر اطمینان سے ٹہل رہے ہیں اور اتنا بڑا انتظام درپیش ہے فرمایا کہ یہ انتظام تو کون بڑی چیز ہے اگر سلطنت بھی ہمارے سپرد ہو جائے اسی طرح اطمینان سے اس کا انتظام بھی کر سکتے ہیں ـ
اسی سلسلہ میں فرمایا کہ دہلی میں ایک مرتبہ حضرت شاہ عبدالعزیز صاحبؒ نے وعظ فرمایا – اس میں ایک انگریز بھی شریک تھا بعد وعظ کے اس انگریز نے عام خطاب کی صورت میں مسلمانوں سے دریافت کیا کہ مسلمانوں کی سلطنت کیوں گئی مسلمانوں نے جواب مختلف دیئے مگر اس کی تسلی نہ ہوئی پھر خود اس انگریز نے کہا کہ جو لوگ سلطنت کے اہل تھے وہ تو حجرہ نشین ہو گئے جیسے یہ شاہ صاحب ہیں اور جنہوں نے اس کو ہاتھ میں لیا وہ اہل نہ تھے – 26 رمضان المبارک 1350ھ مجلس خاص بوقت صبح یوم پنجشنبہ
ملفوظ 475: جنت کی امید پر نماز پڑھنا
جنت کی امید پر نماز پڑھنا ایک مولوی صاحب نے عرض کیا کہ حضرت اگر اس خیال سے کوئی شخص نماز پڑھے کہ جنت ملے گی تو اجر میں کوئی کمی نہ ہوگی فرمایا کہ کمی کی کیا وجہ اور میں ایک اور بات بیان کرتا ہوں جو اہل اسرار کے اصول پر ہے کہ ہم نے جو اس امید پر نماز پڑھی کہ جنت ملے گی تو وہ جنت یہی نماز تو ہے تو اس شخص نے نماز سے نماز ہی کو تو طلب کیا
ملفوظ 474: دوسرے کے برتنوں میں کھانا کھانے میں احتیاط
دوسرے کے برتنوں میں کھانا کھانے میں احتیاط ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ اگر کہیں سے کھانا آتا ہے تو جن برتنوں میں کھانا آتا ہے ان میں کھانا کھانے کو علی الاطلاق جائز نہیں سمجھتا کیونکہ اس میں فقہی تفصیل ہے وہ یہ کہ گھر ہیں دو طرح کے – ایک تو ایسے کہ وہاں برتنوں کی واپسی کا اہتمام آسان ہے یعنی ان کو دوسرے پرتن میسر ہیں اور ایک ایسے گھر ہیں کہ اہتمام واپسی کا آسان نہیں یعنی ان کو میسر نہیں اور بھیجنے والوں کو بھی اس کا علم ہے تو جن گھروں میں بالمعنی المذکور اہتمام واپسی کا ہے ان کو تو آ ئے ہوئے برتنوں میں کھانا جائز نہیں صرف ایک صورت مستثنی ہے وہ یہ کہ برتن بدلنے میں کھانے کا لطف جاتا رہے گا اورجن گھروں میں بالمعنی المذکور واپسی کا اہتمام نہیں اور بھیجنے والوں کو علم ہے ان کو جائز ہے کیونکہ ولالتہ اذن ہے اور یہ امور شرعیہ الحمداللہ میرے امور طبعی ہیں اور مجھ کو ان پر امید اجر کی ہے –
ملفوظ 473: سہل علاج کی درخواست پر حضرت کا جواب
سہل علاج کی درخواست پر حضرت کا جواب فرمایا کہ ایک خط آیا ہے کہ کوئی سہل علاج تجویذ فرمائیں اس پر فرمایا کہ یہ تو طبیب کی شفقت ہے کہ وہ سہل علاج تجویذ کر دے یا ایسی دوا تجویذ کر دے کہ وہ تلخ نہ ہو – جیسے حکیم مصطفے صاحب نے کنین کا مزہ بدل دیا ہے لیکن اگر طبیب اس کی رعایت نہ کرے تو مریض کو اس فرمائش کا کیا حق ہے کہ میرے لیے ایسی ایسی دوا تجویذ کر دے کہ وہ تلخ نہ ہو – پھر ضروری مراحل تو انسان طے کر لے پہلے سے پہلے ہی حکم ہوتا ہے کہ سہل علاج تجویذ کر دو – ان نائقوں کے بیگاری ہیں نا حکومت کرتے ہیں – ان خر دماغوں کو یہ معلوم کرانے کی ضرورت ہے کہ ملانوں میں اسپ دماغ ہیں – آخر اس بیہودہ لکھنے سے تو خاموش ہی رہتے تو اچھا ہوتا ممکن ہے کہ اس پر کوئی یہ شبہ کرے (اسلئے کہ آجکل عقلاء سے زمانہ پر ہے ) کہ اگر نہ لکھتے اور خاموش رہتے تو اصلاح کیسے ہوتی پہلے تو یہ معلوم کر لو کہ شیخ کے ذمہ کون سی اصلاح ہے بہت سی چیزیں تو فطری ہیں ان کی اصلاح کا شیخ ذمہ دار نہیں ـ اب یہاں پر لوگ آ تے ہیں ـ میں کسی کوتاہی یا غلطی پر مواخذہ کرتا ہوں تو کہتے ہیں کہ اصلاح ہی کی غرض سے تو حاضر ہوئے ہیں – یہ گویا بڑی ذیانت کا جواب ہے – میں جواب میں کہا کرتا ہوں کہ حوض کے کنارے پر پاجامہ کھول کر پاخانہ پھرنے بیٹھ جانا اور باز پرس کرنے پر کہہ دینا کہ احلاح ہی کی غرض سے تو آ ئے ہیں – سو اس کا کسی کے پاس کوئی جواب نہیں خوب سمجھ لو – شیخ ان چیزوں کی اصلاح کا ذمہ دار ہے جو تمہاری سمجھ میں نہ آئیں اور ایسی موٹی باتوں کی تو اصلاح کر کے آنا چاہئیے – پھر تعلیم سے پہلے شیخ یہ دیکھتا ہے کہ اس میں انقیاد اور طلب بھی ہے یا نہیں اور اس طریق کی حقیقت اس کے ذہن میں کیا ہے ویسے ہی سہل علاج بٹتے پھرتے ہیں – واللہ ! مجھ کو تو چاپلوسی کرتے ہوئے یا ایسا عنوان اختیار کرتے ہوئے جس سے چاپلوسی کا شبہ بھی ہو غیرت آتی ہے اور میں سچ عرض کرتا ہوں کہ اپنی ذات کی وجہ سے نہیں بلکہ طریق کی بے وقعتی اور بے حرمتی سے غیرت آتی ہے کم بخت دکانداروں نے اس طریق کو بدنام کر دیا اور بے وقعت بنایا اب تو اللہ کا شکر ہے کہ اکثر لوگ حقیقت سے باخبر ہو گئے –

You must be logged in to post a comment.