ملفوظ 472: چھوٹی چھوٹی باتوں میں احتیاط

چھوٹی چھوٹی باتوں میں احتیاط پختہ گڑھی سے ایک مخلص نے کچھ پکی ہوئی اشیاء حضرت والا کی خدمت میں بطور ہدیہ ایک شخص کے ہاتھ بھیجیں حضرت والا نے اپنے خادم سلیمان سے فرمایا کہ دیکھو بڑے گھر ان چیزوں کو پہنچا دو اور یہ کہہ دینا کہ یہ بٹی ہوئی نہیں ہیں اور جن برتنوں میں یہ چیزیں ہیں لا نے والے کے سامنے گن کر اور دکھلا کر لے جانا اور واپس لا کر پھر گنوا دینا – تا کہ گڑ بڑ نہ ہو – پھر حضرت والا نے دریافت فرمایا کہ گن لیا عرض کیا جی گن لیا – چار برتن ہیں مزاحا فرمایا کہ اچھی طرح پھر دیکھ لو ورنہ کبھی تمہارا اچار بنے فرمایا کہ میں ایسی چیزوں میں ضرور مداخلت کرتا ہوں اور وہ اسلئے کہ لوگوں کے مزاج میں احتیاط نہیں – اسلئے ہر شخص پر اعتماد نہیں ہوتا – ایک مولوی صاحب نے عرض کیا کہ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ صحابی ہیں فاتح فارس ہیں جب غلام کو کھانا پکانے کے لیے اشیاء دیتے تو سب کا وزن فرما کر اور گوشت کی بوٹیاں گن کر دیتے تھے وجہ معلوم کرنے پر فرمایا کہ میں کسی مسلمان کی طرف سے کیوں بد گمانی کروں اسلئے گن کر دیتا ہوں اور گن کر لیتا ہوں – ورنہ یہ وسوسہ ہو سکتا ہے کہ نہ معلوم کس قدر رکھا اور کس قدر لایا – اس پر حضرت والا نے فرمایا کہ یہ ہے مغز تصوف اور یہ ہیں علوم دقیقہ یہ علوم تو ہم کو نصیب بھی نہیں کہاں تک ان حضرات کی نظر پہنچتی تھی کیسی دقیق بات ہے یہ ہیں اعمال باطنہ کیوں نہ ہو صاحب ! آخر صحبت کس کی تھی اگر ان حضرات کے ایسے علوم نہ ہوتے تو اور کس کے ہوتے – عجیب حضرات تھے دینی حدود کی حفاظت میں اس کی بھی پرواہ نہ تھی کہ لوگ کیا کہیں گے لا یخافون فی اللہ لومۃ لائم پر عمل کر کے دکھلا دیا – سبحان اللہ فرمایا ان ہی چیزوں کے لیے شیخ کی ضرورت ہے اور شیخ بھی کامل جو جامع بین الاضداد ہو علماء ظاہر محض اعمال ظاہرہ کی اصلاح کرتے ہیں اور شیخ کامل ظاہر اور باطن دونوں کی اصلاح کرتا ہے اور ویسے تو کتابوں میں سب ہی کچھ ہے مگر ایسا ہی جیسے کتابوں میں تو نسخے بھی ہیں پھر خود کیوں نہیں علاج کر لیتے بس جو ضرورت طبیب کی ہے وہی ضرورت شیخ کی ہے –

ملفوظ 471: اول ہی میں تمام مراحل طے کروا دینا

اول ہی میں تمام مراحل طے کروا دینا ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ ایک خط آیا تھا لکھا تھا کہ مجھ کو بیعت کر لو اور خدمت میں حاضری کی اجازت دیدو – خوامخواہ مان نہ مان میں تیرا مہمان – چپڑی اور دو دو یعنی خود ہی اپنی مصلحتیں اور پھر دو دو تجویذ کر لیں اور بجائے دوخواست کے فرمائش کا صیغہ جیسے ایک پیر جی کی حکایت ہے ایک گاؤں میں مرید کے گھر گئے مرید نے کہا پیر جی شکرانہ پکا نے کا ارادہ ہے دودھ سے کھاؤ گے یا گھی سے – پیر جی نے کہا کہ میاں بے سوادوں کا سواد – اول گھی لگا لیں گے اوپر سے دودھ ڈال کر کھا لیں گے – میں نے جواب میں لکھ دیا تھا کہ کیا بیعت ضروری چیز ہے اور کیا بدوں بیعت کے نفع نہیں ہو سکتا اور یہاں پر آ نے کی غرض لکھو – میں اول ہی میں تمام مراحل طے کر لیتا ہوں تاکہ کوئی بات مبہم نہ رہے پھر ساری عمر پریشانی پاس نہیں آتی اسلئے کہ مقصود معلوم ہو جاتا ہے گو وقت صرف ہوتا ہے اور بعض اوقات ٹکٹ وغیرہ میں تھوڑا سا خرچ بھی ہوتا ہے اور قبل تحقیق ایک گو نہ نا گواری بھی ہوتی ہے مگر وہ نا گواری ایسی ہی ہے جس کو فرماتے ہیں ؎ طفل می لرزد نیش احتجام مادر مشفق ازاں غم شاد کام ( بچہ انجکشن لگنے سے کانپتا ہے – اور ماں اس تکلیف سے خوش ہے ( کہ یہ تکلیف موجب صحت ہو گی ) پھر اس کو برادشت کر لینے کے بعد تو یہ حالت ہوتی ہے جیسا فرماتے ہیں ” کوئے نو میدی مرو کامید ہاست سوئے تاریکی مرو خورشید ہاست ( نا امیدی کے کوچہ میں مت جاؤ کہ بہت زیادہ امیدیں ہیں اور تاریکی کی طرف مت جاؤ کہ بہت روشنیاں ہیں 12)

ملفوظ 470: عشق کے لئے ادب لازمی ہے

عشق کے لئے ادب لازمی ہے ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ طریق العشق کلہا آداب – اگر آداب نہیں تو وہ طریق عشق ہی نہیں

ملفوظ 469: فیض شیخ کی کیفیت بیان میں نہیں آ سکتی

فیض شیخ کی کیفیت بیان میں نہیں آ سکتی ایک مولوی صاحب کے سوال کے جواب میں فرمایا کہ فیض شیخ سے جو کیفیت ہوتی ہے اس کو کوئی بیان میں نہیں لا سکتا –

ملفوظ 468: اس طریق کا ادب اپنی رائے کا فنا کرنا ہے

اس طریق کا ادب اپنی رائے کا فنا کرنا ہے ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ انسان اپنی تمنا کو اپنی تجویذ کو باکل فنا کر دے یہ ہے ادب اس طریق کا –

ملفوظ 467: اللہ کا واسطہ دیکر حقیر سوال

ملفوظ 467: اللہ کا واسطہ دیکر حقیر سوال خواجہ صاحب نے عرض کیا کہ حضرت ایک جگہ ایسا ہوا کہ سائل نے اللہ کا واسطہ دیکر دو پیسے مانگے فرمایا کہ بے وقوف تھا بیس روپے نہ مانگے –

ملفوظ 466: رمضان میں بیعت نہ کرنا

رمضان میں بیعت نہ کرنا فرمایا خواجہ صاحب نے عرض کیا کہ حضرت ایک صاحب لوہاری سے آئے ہیں بیعت کے لیے درخواست کرتے ہیں فرمایا کہ رمضان شریف میں اتی فرصت نہیں کہ اس کے متعلق گفتگو بھی کر سکوں بعد رمضان المبارک کے آئیں میں انشاء اللہ تعالی اس کے متعلق گفتگو کرونگا ان سے پوچھیے کہ سمجھ بھی گئے یا نہیں عرض کیا کہ سمجھ گئے اس پر فرمایا کہ رمضان شریف میں تو پہلی ہی بیعت رہ جائے تو غنیمت ہے اس کے ہی حقوق ادا نہیں ہوتے –

ملفوظ 465: عقلی محبت کی زیادہ ضرورت ہے

ملفوظ 465: عقلی محبت کی زیادہ ضرورت ہے ایک مولوی صاحب کے سوال کے جواب میں فرمایا کہ زیادہ تر عقلی محبت ہی کی ضرورت ہے اس میں دوام ہے ثبات ہے اختیاری ہے عجیب چیز ہے عقلی محبت اورعقلی اور طبعی محبت دونوں بھی جمع ہو سکتی ہیں مگر غلبہ عقلی ہی کو ہونا چاہئیے محبت طبیعہ کے غلبہ میں حدود محفوظ نہیں رہتے – خواجہ صاحب نے عرض کیا کہ ایک مرتبہ حضرت نے یہ فرمایا تھا کہ طبیعت کو عقل پر غالب نہ آ نے دے اورعقل کو شریعت پرغالب نہ آنے دے فرمایا کہ بالکل صحیح ہے ساری دنیا کے عقلاء حقیقت سے بے خبر ہونے کی وجہ سے تو ڈوب ہی رہے ہیں اس بے خبری میں انہوں نے عقل کو دین پر غالب کر دیا البتہ عقل کو طبیعت پر غالب رکھنا ضروری ہے پس ہمیشہ رہنے کی چیز تو صرف عقل ایمان ہی ہیں باقی سب میں آمد ورفت رہتی ہے –

ملفوظ 464: ھدایا کی واپسی اور شان توکل

ھدایا کی واپسی اور شان توکل فرمایا کہ ایک صاحب کا خط آیا ہے لکھا ہے کہ میں پانچ روپیہ بھیجنا چاہتا ہوں اور آ نے کی اجازت چاہتا ہوں اب ملاحظ ہو کہ ناگواری ہو یا نہ ہو دونوں کو جمع کیا ہے اصل میں ہم لوگوں کو طماع اور حریص سمجھتے ہیں یہی وجہ ہے ان حرکات کی – میں بھی ایسا جواب دونگا انشاء اللہ کہ طبیعت خوش ہو جائے گی – اسی طرح ایک صاحب ہیں کسی مقام میں ایک سال کچھ روپیہ مدرسہ میں بھیجا میں نے وصول کر لیا غالبا دو سو روپیہ تھا – اگلے سال لکھتے ہیں کہ معمول کے موافق روپیہ بھیجتا ہوں اگر سال گذشتہ کی طرح امسال بھی رسید نہ آئی تو آئند روپیہ بھیجنا بند کر دو گا – میں نے منی آرڈر وصول نہیں کیا انگار لکھ دیا اور لکھ دیا کہ تم آئندہ سال بند کرو گے ہم امسال ہی بند کرتے ہیں – رسید یہاں سے نہیں روانہ کی جائیگی پھر فرمایا کہ رسید تو وہ بھیجے جو تحریک کرے یا مانگے یہاں پر تو محض توکل پر معاملہ ہے – اگر کسی کو ہم پر اعتماد ہو بھیجو دونہ مانگنے کون جاتا ہے – رہا یہ خیال کہ پھر مدرسہ ایسے چلے گا جیسے اب تک چل رہا ہے اور زائد سے زائد یہ ہوگا کہ نہ چلے گا آمدنی نہ ہو گی بند کر دیں گے کوئی فرض و واجب تو ہے ہی نہیں اور بہت سے دین کے کام ہیں اور بہت سی دین کی خدمتیں ہیں ان میں لگ جائیں گے حساب کتاب آمد و صرف کا نتظام باقاعدہ ہے مگر دوسروں کو کیا حق ہے کہ وہ مطالبہ کریں اگر ہم پر اعتماد نہیں نہ بھیجیں اور رسید ہی سے کیا ہوتا ہے جو کھانے والے ہیں اور گڑ بڑ کرنے والے ہیں وہ حساب ہی میں خوب کھاتے اور گڑ بڑ کرتے ہیں – میں کہا کرتا ہوں کہ میں طامع بھی ہوں حریص بھی ہوں مگر جن کو محبت کا دعوٰے ہے ان کو تو ایسا نہیں سمجھنا چاہئیے اگر میں عیب دار ہوں تو ان کو عیب دار نہ سمجھنا چاہئیے

ملفوظ 463: عامل کی ناقدری نہ کرنا

عامل کی ناقدری نہ کرنا فرمایا کہ ایک خط آیا ہے لکھا ہے کہ ایک تعویذ کی ضرورت ہے جن کا اثر ہے میں نے لکھ دیا ہے کہ میں عامل نہیں ہوں اگر چاہو گے تو عامل کا پتہ لکھ دوں گا خود پتہ اسلئے نہیں لکھا کہ عامل کی بے قدری نہ ہو – پوچھنے کے بعد بتلا نے میں قدر ہوگی –