ملفوظ 462: محبت اور مناسبت میں فرق

محبت اور مناسبت میں فرق ایک مولوی صاحب نے عرض کیا کہ حضرت محبت اور مناسبت میں تو کوئی فرق نہیں ہوتا فرمایا کہ فرق ہے بعض کو محبت ہوتی ہے مناسبت نہیں ہوتی – مناسبت سے مراد ہے کہ نانبین سے ایسا تعلق ہو کہ ہر بات ایک دوسرے کے مذاق کے موافق ہو –

ملفوظ 461: آج کل اجازت شیخ کی حیثیت

آج کل اجازت شیخ کی حیثیت ایک مولوی صاحب نے عرض کیا کہ حضرت یہ جو اجازت شیخ کی طرف سے ہوتی ہے یہ کس وقت ہوتی ہے فرمایا کہ جیسے ایک سند تو جب دی جاتی ہے طالب علم کو جب پوری مہارت ہو جائے – حدیث میں – اور ایک توقع پر دی جاتی ہے کہ اگر آئندہ خیال رکھا اور مطالعہ کیا تو مہارت ہو جائیگی – اس طرح اجازت شیخ میں دونوں طریق ہیں آجکل اکثر دوسرا طریق مستعمل ہے مگر ضروری مناسبت ہر حال میں شرط ہے –

ملفوظ 460: فن تصوف کا مجتہد

فن تصوف کا مجتہد ایک مولوی صاحب نے عرض کیا کہ حضرت والا نے صبح کی مجلس میں فرمایا تھا کہ اس فن میں مجتہد کی ضرورت ہے بدوں اس کے اصلاح طالبین کا کام نہیں چل سکتا تو پہلے وہ مجتہد ہو کر اس کام کو کرے یا کام کو شروع کر دے پھر مجتہد ہو جائے گا فرمایا کہ پہلے مجتہد ہو چکے اب اس کو شروع کرے – البتہ خود مجتہد ہونے کی شرط یہ ہے کہ اپنی اصلاح بانقیاد شیخ شروع کر دے کبھی اس سے اجتہاد کا درجہ بھی میسر ہو جاتا ہے لیکن شرط علت نہیں کیونکہ اس سے اجتہاد میسر ہونا ضروری نہیں –

ملفوظ 459: علماء بھی کم مجاہدہ نہیں کرتے

علماء بھی کم مجاہدہ نہیں کرتے ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ میں نے زامانہ نو عمری میں ماموں امداد علی صاحب سے عرض کیا کہ کیا بات ہے طریق میں علماء کو مجاہدہ کم کرنا پڑتا ہے فرمایا نہیں بھائی وہ جو آنکھیں سینکتے ہیں برسوں اور دھواں کھاتے ہیں اس کو ملا کر دیکھوں یہ سب مجاہدہ ہی تو ہے تو بے مجاہدہ کسی کو کچھ نہیں ملتا واقعی صحیح فرمایا ـ 25 رمضان المبارک 1350ھ مجلس بعد نماز ظہر یوم چہار شنبہ

ملفوظ 458; گورنمعنٹ اور صوفیہ کی نگرانی

ملفوظ 458; گورنمعنٹ اور صوفیہ کی نگرانی ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ ایک عیسائی نے لکھا تھا گورنمنٹ کو کہ سب کی نگرانی کی جاتی ہے خصوص علماء کی مگر ان صوفیوں کی کوئی نگرانی نہیں ہوتی حالانکہ یہ زیادہ نگرانی کے قابل ہیں کیونکہ نہ معلوم چپکے چپکے کیا تعلیم کرتے ہیں وہ یہ سمجھا ہو گا کہ جہاد کی تعلیم کرتے ہونگے جس سے گھبراتے ہیں ـ اس غریب کو یہی خبر نہیں کہ تعلیم خفیہ ہونے کی کیا مصلحت ہے –

ملفوظ 457: تجدید تصوف و سلوک

ملفوظ 457: تجدید تصوف و سلوک ایک مولوی صاحب کے سوال کے جواب میں فرمایا کہ تصوف کو جاہل صوفیوں نے بدنام کیا ہے ورنہ تصوف تو وہ چیز ہےکہ بدوں اس کے نجات ہی مشکل معلوم ہوتی ہے جس کے ایک جزو میں تو یہ حکم ظاہر ہے یعنی اعمال مقصودہ ایک میں شبہ ہو سکتا ہے یعنی مجاہدات غیر مقصود سو حقیقت میں ایسے مجاہدات عبادات نہیں بلکہ معالجہ ہے اور ظاہر ہے کہ عادۃ بدون معالجہ بدنی کے جیسے ظاہری زندگی مشکل ہے ایسے ہی باطنی زندگی بدوں باطنی معالجہ کے دشوار ہے معالجہ کے جس قدر طرق ہیں وہ سب تدابیر کا درجہ رکھتے ہیں خود قربات نہیں ان تدابیر سے داعی الی الشر کو منکسر کرنا اور مطیع بنانا ہے – جب یہ معلوم ہو گیا تو اب بتلائیے ان کے متعلق کیا اعتراض رہا کیا جو چیزیں داعی الشر نہیں ان کے توڑنے اور کم کرنے کی ضرورت نہیں تدابیر کو خود بلا واسطہ قرب میں دخل نہیں ہاں بواسطہ قرب کے اسباب ہیں سو ان کو عبادت مقصودہ سمجھنا بے شک بدعت ہے اور جو معالجہ سمجھ کر کرے وہ بدعت کیسے ہو سکتا ہے اس کی مثال مسہل کی مثال ہے دیکھو اس میں طبیب چلنے پھرنے بولنے سونے کھانے پینے کی ممانعت کر دیتا ہے تو کیا ان تدابیر طبیہ کو کوئی بدعت کہہ سکتا ہے ایسے ہی طریق میں بھی ان مجاہدات کا درجہ تدابیر ہی کا ہے مثلا تقلیل الطعام تقلیل الکلام تقلیل المنام تدابیر طبیہ میں اور ان مجاہدات میں فرق کیا ہے – اگر ایک شخص نے مجاہدہ کر کے ملکات کو راسخ کر لیا کیا حرج ہوا – یہی تدابیر جاننا فن ہے جس سے اہل فن اور غیر اہل فن میں فرق ہو جاتا ہے اہل فن کی مثال فن داں کشتی گیر کی ہے جو ذرا سے پیچ میں گرا دیتا ہے اس طرح فن داں نفس اور شیطان کا مقالبہ داؤ سے کرتا ہے اور دوسرا شخص جو فن داں نہیں وہ گھونسوں سے دھکوں سے گراتا ہے جس میں مشقت ہوتی ہے تو اس صورت میں فن داں پر اعتراض ہی کیا ہے اور میں توسع کر کے کہتا ہوں کہ اللہ تعالی صاحب مجاہدہ کو جو تدابیر ہی کے درجہ میں لگا ہوا ہے گو وہ تدابیر فی نفسہ موجب اجر نہیں لیکن اس کی نیت پر وہی عبادت کا ثواب عطا فرمائیں گے اسلیے کہ گو وہ عبادت نہیں مگر عبادت کا مقدمہ تو ہے اور وہ عبادت کے کامل کرنے کی نیت سے اس میں لگا ہوا ہے تو عبادت لغیرہ تو ہوئیں اور اس پر بھی ثواب ملنا معلوم ہے – حضرت اعتراض کر دینا تو آسان ہے کہ مجاہدات غیر منقول ہیں اسلیئے بدعت ہیں مگر ذرا ان کو کر کے دیکھو انشاء اللہ آنکھیں کھل جائیں گی کہ ان سے دین میں سہولت کتنی ہوتی ہے اور بدوں ان کے عادۃ کامیابی نہیں ہوتی لیکن ان میں بھی خودرائی نہ کی جائے کسی کا اتباع ضروری ہے مولانا رحمتہ اللہ علیہ اسی کو فرماتے ہیں – چند خوانی حکمت یونانیاں حکمت ایمانیاں را ہم بخواں صحت ایں حس بجوئید از طبیب صحت آں حس بجوئید از حبیب صحت ایں حس ز معموری تن صحت آں حس ز تخریب بدن ( یونانیوں کی حکمت کب تک پڑھتے رہوگے ایمان والوں کی حکمت بھی پڑھو – بدن کی صحت تو طبیب کے پاس تلاش کرو اور باطن کی صحت محبوب سے حاصل کرو- ظاہری صحت تو بدن کی تیاری اور فربہی سے حاصل ہوتی ہے اور باطن کی صحت ظاہری بدن کو خراب کرنے سے حاصل ہوتی ہے ) صاحبو! اس میں ہرگز شک و شبہ نہ کرو ـ آزمانے ہی کے طریق پر چند روز کر کے دیکھ لو ـ اسی امتحان کو فرماتے ہیں ؎ در بہاراں کے شود سر سبز سنگ خاک شو تا گل بروید رنگ رنگ سالہا تو سنگ بودی دل خراش آزموں رایک زمانے خاک باش ( موسم بہار میں پتھر کب سرسبز ہوتا ہے خاک بن جا – تاکہ رنگ برنگ کے پھول کھلیں – برسوں سے تو دلخراش پتھر تھا آزمائش کے لیے کچھ روز کے لیے خاک ہو جا – 12) آجکل کام کرنے کی طرف تو توجہ ہے نہیں محض بیٹھے ہوئے اعتراض گھڑا کرتے ہیں مگر جن پر تم اعتراض کرتے ہو وہ تو کچھ کرتے بھی ہیں اور تم سے تو یہ بھی نہ ہو سکا کس منہ سے اعتراض کرتے ہو کسی نے خوب کہا ہے اور ایسوں کی حالت کا فوٹو کھینچا ہے کہتے ہیں ؎
سودا قمار عشق میں شریں سے کوہکن بازی اگرچہ پا نہ سکا سر تو کھو سکا کس منہ سے اپنے آپ کو کہتا ہے عشق باز اے رو سیاہ تجھ سے تو یہ بھی نہ ہو سکا مگر اس کے حصول کا طریق صرف یہی ہے کہ اپنی عقلوں کو بالائے طاق رکھ کر کسی کے اتباع میں عمل کر کے معلوم ہو جائیگا کہ قابل اعتراض کون تھا اسی کو مولانا فرماتے ہیں آزمودم عقل دور اندیش را بعد ازیں دیوانہ سازم خوش را ( میں نے عقل دور اندیش کو آمانے کے بعد اپنے کو دیوانہ بنایا ہے 12) آج کل تو بڑی دوڑ یہ ہے کہ رسوائی سے بچنے کے لیے پانچ وقت کی نماز پڑھ لی اور رمضان شریف کے روزے رکھ لیے اگرچہ باطنی حالت یہی ہو جیسا کہا گیا ہے ؎ از بروں چوں گور کافر پر حلل واندروں قہر خدائے عزو جل ازبروں طعنہ زنی بر بایزید وز درونت ننگ میدارد یزید ( ظاہر میں تو کافر قبر کی طرح خوب بنے سنورے ہو اور اندر قہر الہی بھرا ہوا ہے – ظاہری حالت تو ایسی ہے کہ بایزید پر بھی طعن کرتے ہو اور تیرے باطن حالات سے یزید کو بھی شرم آتی ہے 12) اب رہی یہ بات کہ ان تدابیر کو ان امراض کے ازالہ میں دخل کیوں ہے اور اس کی لم کیا ہے – یہ سوال ہی لغو ہے اس لئے کہ ممکن ہے کہ مؤثر بالکیفیت نہ ہو بلکہ اس میں بالخاصہ یہ اثر ہو جیسے مقناطیس میں لوہے کو جذب کر لینے کا اثر ہوتا ہے اور یہ سوال تو ایسا ہے کہ کوئی مریض طبیب سے یہ سوال کرے کہ اس تدبیر خاص کو مرض کے ازالہ میں کیا دخل – میں نے ابھی جو اوپر تفصیل بیان کی ہے اس کے عدم استحضار سے بعض بڑے لوگوں کو شبہات پیدا ہو گئے – چنانچہ ابن تیمیہ نے اللہ اللہ کرنے کو بنا بر عدم نقل بدعت کہہ دیا ہے لیکن اگر میں اس وقت ہوتا یا وہ اس زمانہ میں ہوتے تو میں ان سے عرض کرتا اور وہ انشاء اللہ تسلیم کرتے کہ ایک شخص قرآن شریف حفظ کرتا ہے اور ایک لفظ کا بار بار اعادہ کرتا ہے مثلا اذالسماء انفطرت کو اس طرح یاد کرتا ہے کہ اذالسماء ان اذالسماء ان کو سو سو مرتبہ کہا اور فطرت فطرت کو سو مرتبہ کہا پھر ملا کر کہا تو میں ابن تیمیہ سے پوچھتا ہوں کہ یہ جائز ہے یا محض اسلئے کہ منقول نہیں نا جائز ہے ابن تیمیہ کے پاس سوائے تعلیم جواز کے کوئی جواب نہ ہوتا – کیونکہ حقیقت اس کی صرف یہ ہے کہ مذکور کو حافظہ میں راسخ کرتا ہے اب جس ہیئت سے ہو اور گو وہ ہیئت منقول بھی نہ ہو پس اسی طرح ذاکر کا مقصود قلب میں توجہ الی اللہ کو راسخ کرنا ہے پس مقصود کو قلب میں راسخ کرنے کو کون منع کر سکتا ہے نیز رسوخ اور سہولت کے اثر کا ایک اور راز ہے وہ یہ کہ تجربہ سے اس طریق کا لذت بخش ہونا مشاہد ہے اور الفاظ میں قدر لذت ہوگی اسی قدر جلد اور سہولت سے اس کو مدلول کے متمکن ہونے میں کامیاب ہو گا لفظ اللہ کے تکرار میں بڑی لذت ہوتی ہے ـ توکل شاہ صاحب کا واقعہ ہے قسم کھا کر کہا کرتے تھے پنجابی زبان میں کہ ذکر وقت میرا منہ میٹھا ہو جاتا ہے اور یہ بھی کہا کرتے تھے کہ ویسی بات نہ سمھنا بلکہ ایسا میٹھا ہو جاتا ہے جیسے مٹھائی کھا لینے سے – ایک مولوی صاحب نے عرض کیا کہ حضرت شریعت تو مدون ہے اس کے لیے تو سو سال کے بعد مجدد کی ضرورت ہے اور تصوف کے لیے تو پچاس برس کے بعد ہی ضرورت پڑے گی کیونکہ مدون نہیں اسلئیے اس میں تغیر جلدی ہو سکتا ہے اسلئیے جلدی مجدد کی ضرورت واقع ہو گی ـ فرمایا کہ اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ یہ بھی مدون ہو گیا ـ اب صدیوں کے لیے یہ طریق زندہ ہو گیا- واقعہ یہ ہے کہ طریق اصلاح مردہ ہو چکا تھا اب از سر نو زندہ ہوا ہے مگر غیر مجتہد اس کو انجام نہیں دے سکتا تھا ـ حضرت حاجی صاحبؒ اس فن کے مجتہد تھے ان کے علوم سے اس کی حسب ضرورت تدوین ہو گئی پھر فرمایا کہ یہ جو اسرار پر کتابیں لکھ گئے ہیں ان سے زیادہ گڑ بڑ پھیلی ان حضرات کو کیا خبر تھی کہ ایسے بد فہموں کا بھی زمانہ آںے والا ہے ـ سو واقع میں اہل اسرار کی کتابیں اہل اسرار کے لیے ہیں اشرار کے لیے نہیں – فرمایا کہ اللہ کا شکر ہے کہ یہ فن بالکل صاف ہو گیا لوگوں نے ہوا بنا رکھا تھا حالانکہ آدم ہے اور اس اشاعت کے بعد خواہ تعبیر بھی نہ کر سکے مگر مقصود حاصل ہے کیونکہ مقصود حقائق کا ذہن میں اتر جاتا ہے اگر کوئی شخص اصلاح معدہ کی دوا کھا کر بھول گیا تو بلا سے یاد نہ رہے لیکن عمر کو بھر دو وقت دس روٹیاں کھلانے کا اثر کر گئی – بلکہ میں تو اس یاد نہ رہنے کو حق تعالی کی رحمت سمجھتا ہوں اگر یہ علوم یاد رہتے تو مقصود پر نظر نہ رہتی جیسے نحو کی ضرورت پڑتی ہے مگر عبارت پڑھتے وقت اگر اس کا استحضار کریگا تو عبارت غلط پڑھنا شروع کر دیگا –

ملفوظ 456: دوسرے کے معمولات کی جستجو مناسب نہیں

ملفوظ 456: دوسرے کے معمولات کی جستجو مناسب نہیں فرمایا کہ کل جو ایک مولوی صاحب کا خط آیا تھا جس میں میرے معمولات کو دریافت کیا تھا کل سمجھ میں نہیں آیا تھا اس کے بعد خیال ہوا کہ کل کہوں گا وہ یہ کہ طالبین کی حالت جدا ہوتی ہے تو سب ایک ہی عمل کیسے کر سکتے ہیں – اسلئے اتباع کی غرض سے تو معمولات کا ضبط کرنا غیر مفید ٹھہرا اور اس قسم کی تحقیق کی دو ہی غرض ہو سکتی ہیں ایک تو اتباع اس کا حال تو معوم ہو گیا اور ایک یہ کہ محض مشتہر ہی کرنا ہو یہ بھی محض غیر مفید پہلی غرض کے متعلق مثال عرض کرتا ہوں مثلا ایک شخص بیمار ہے اس نے تمام عمر بیٹھ کر نماز پڑھی اگر مرید کہے کہ میں بھی میٹھ کر نماز پڑھوں تو یہ کیسے پڑھ سکتا ہے جب نہیں پڑھ سکتا – تو شیخ کا معمول معلوم کرنا بیکار ہی تو ہوا – ایک اور بات یاد آئی نئی بات ہے قرآن شریف میں ہے لا تحسبوا – اور یہ بھی ایک قسم کا تجسس تو اس تعلیم قرآنی کے بھی خلاف ہوا اگر کہا جائے کہ یہ عیوب کے باب میں ہے تو سمجھو کہ علت اس کی کیا ہے محض ناگواری – اگر کسی کو اطلاع علی الاعمال ہی مکروہ معلوم ہوتا ہے تو یہ لاتحسبوا – کی نہی میں داخل ہوگا – عیب ہی کے ساتھ خاص نہیں جو بھی اس کی ناگواری کا سبب ہو وہاں یہ علت پائی جائے گی اور بھی بہت سی چیزیں ایسی ہیں کہ اس پر مطلع ہونے میں ناگواری ہوتی ہے یا مطلع کرنا نہیں چاہتا – دیکھئے مالدار ہونا عیب کی بات نہیں مگر مجمع میں مجھ ہی سے کوئی پوچھے کہ تمہارے پاس کس قدر مال ہے میں بتلانے کو تیار نہیں اگر عموم لفظ سے بھی داخل نہ ہو مگر اشتراک علت سے داخل ہو سکتا ہے نیز کبھی کذب بھی لازم ہوگا مثلا کسی کا ایک معمول ہے اکثریت کے ساتھ دائمی نہیں اور کسی نے اس کو دائمی لکھ دیا تو یہ کذب ہو گا –

ملفوظ 455: ایک غیر مقلد کے خط کا جواب

ایک غیر مقلد کے خط کا جواب فرمایا کہ ایک غیر مقلد کا خط آیا لکھا ہے کہ مذہبا تو اہلحدیث ہوں مگر آپ سے تلقین چاہتا ہوں کچھ ایسے کلمات بتلا دیجئے جس سے خدا تعالی کی محبت ہو اور نماز وغیرہ میں ذوق پیدا ہو – میں نے جواب لکھا ہے کہ کلمات کو اس میں دخل نہیں اس کے کچھ اور طرق ہیں جن کو تدابیر سمجھنا چاہیئے – اور میں نے اس سے یہ بھی پوچھا ہے کہ کیا یہ بات تمہاری سمجھ میں آئی فرمایا کہ یہ معلوم کر کے آ گے چلونگا پہلے ٹٹول تو لوں کبھی آ گے چل کر جھگڑا پڑے – 25 رمضان المبارک 1350ھ مجلس خاص بوقت صبح یوم چہار شنبہ

ملفوظ 454: حضرت کی حالت شکر ورضا

حضرت کی حالت شکر ورضا ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ اپنے دوستوں کے ہجوم اور محبت کی وجہ سے ممکن تھا کہ عجب پیدا ہو جاتا – مگر اس کا علاج غیب سے یہ ہوا کہ کھانسنے کی تکلیف ہو گئی کھانستے کھانستے وقت گذر جاتا ہے – ایک مولوی صاحب نے عرض کیا کہ حضرت کو بہت تکلیف ہے کھانسی کی اور اس کی وجہ سے آںت کی تکلیف بڑھ گئی حضرت والا نے تبسم فرما کر مزاحا فرمایا کہ کمانی موجود ہے اللہ نے قوت دی ہے چڑھانے کی پھر کیا تکلیف اس پر ایک حکایت فرمائی – کہ عرب میں ایک کرایہ کے گھر میں ایک سخی رہتا تھا بڑا ہی مخیر تھا ہزاروں سائل آتے تھے سب کو دیتا تھا وہ جگہ مشہور ہو گئی – اتفاق سے وہ سخی تو مکان چھوڑ کر اور کہیں چلا گیا اور صاحب آ کر رہے وہ بخیل تھے مگر سائل عادت کے موافق برابر آتے تھے اور یہ شخص جواب میں اللہ کریم کہہ دیتا – عرب میں اس تک دستور ہے کہ سائل کے جواب میں جہاں اللہ کریم کہا سائل کوٹ جاتا ہے – ایک روز گھر میں بیٹھ کر کہنے لگا کہ کیا ٹھکانہ ہے اس مکان پر کتنے سائل آتے ہیں اس شخص کی لڑکی نے کہا کہ گھبرانے کی کیا بات ہے جب تک اللہ کریم یاد ہے کیا فکر ہے تو حضرت جب تک کمانی ہے اور اللہ تعالی نے مجھ کو قوت چڑھانیکی دی ہے تب تک کیا فکر – اور کوئی تکلیف نہیں اللہ نے راحت کا سامان عطا فرمایا احباب دل بستگی کو دئیے جو بڑی نعمت ہے کچھ کرنا نہیں پڑتا مزدوری کرنی نہیں پڑتی – بیٹھے بٹھائے کھانے کو دیتے ہیں خواجہ صاحب نے عرض کیا کہ حضرت ان اعمال باطنی کو کوئی نہیں دیکھتا مزاحا فرمایا کہ بطنی کو تو دیکھتے ہیں آنت بطن ہی سے اترتی ہے –

ملفوظ 453: بیعت نہ کرنے پر خود کشی کی دھمکی

بیعت نہ کرنے پر خود کشی کی دھمکی ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ یہاں پر ایک شخص نے خود کشی کر لی تھی ایک میرے عزیز مجھ کو الگ بلا کر لے گئے اور کہنے لگے کہ اب تو بیعت سے انکار نہ کرو گے – میں نے کہا کہ یہ سبق اس واقعہ سے آپ نے غلط سمجھا اول تو اس واقعہ کا یہ سبب نہیں ہوا – یہ تو ایک بزرگ سے بیعت تھا دوسرے اگر یہی سبب ہوتا تب تو اس دروازہ کو اور تنگ کر دینا چاہئیے ورنہ لوگوں کو اچھی دھمکی ہاتھ آ جائے گی کہ خود کشی کر لوں گا – میں ایسی باتوں سے ڈرنے والا نہیں کام قاعدہ ہی سے ہوتا ہے