کلیات سے سوال کافی نہیں ایک صاحب نے عرض کیا کہ حضرت کیا یہ بھی تواضع ہے کہ سب سے اخلاق سے ملنا چاہئیے فرمایا کہ گو سوال ہے جزئیات کا سوال کیجئے کلیات کا سوال کر کے کیا رسالہ تصنیف کرنا ہے جب بہت سی جزءیات کا علم ہو جائیگا کلیات خود سمجھ میں آ جائیں گی اور کلیات تو آپ کو معلوم ہیں ہی جس کی بیٹھے بیٹھے کلیاں کر رہے ہو –
ملفوظاتِ حکیم الامت جلد نمبر 1
ملفوظ 451: انجام کا کسی کو علم نہیں
انجام کا کسی کو علم نہیں اسی سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ خدا کے یہاں اس کا پسندیدہ ہونا ضروری نہیں جو بندوں کو پسندیدہ ہے کسی کو کیا خبر ہے کہ میرے ساتھ کیا معاملہ کیا جائے پھر فرمایا کہ اگر کسی کے دل میں یہ امر احتمال کے درجہ میں بھی ہو کہ شاید اس کا انجام میرے انجام سے بہتر ہو تو تکبر اور بڑائی کے علاج کے لیے کافی ہے اور ظاہر ہے کہ اتنا خیال رکھنا اختیاری ہے اور واقع بھی ایسا ہوگا کہ جن کو یہاں پر لوگ بے وقوف سمجھتے ہیں وہاں انکو وہ چیں ملیں گی کہا عقلاء منہ تکتے ہی رہ جائیں گے عجیب دربار ہے کسی کی سمجھ میں ان کی حکمتیں آ نہیں سکتیں –
ملفوظ 450: اپنے متکبر ہونے کا خیال
اپنے متکبر ہونے کا خیال ایک مولوی صاحب نے عرض کیا کہ حضرت اگر کسی شخص کو اپنی نسبت یہ خیال ہو کہ میں متکب ہوں تو کیا کرے فرمایا کہ مصلح سے رجوع کرے وہ آثار سے معلوم کر کے بتلا دیگا کہ تکبر ہے یا نہیں باقی اجمالی جواب یہ ہے کہ یہ چیزیں تو تکبر وغیرہ تو بلانے سے آتی ہیں خود نہیں چمٹتی پھرتیں ـ یہ تردد خود دلیل ہے متواضع ہونے کی اور اس کی کہ وہ متکبر نہیں مگر یہ دلیل اکثری ہے –
ملفوظ 449: شرع کی جگہ شرح
شرع کی جگہ شرح فرمایا کہ ایک صاحب کا خط آیا ہے لکھا ہے کہ امام صاحب سید ہیں مگر حالات یہ ہے کہ سر پر انگریزی بال داڑھی خلاف شرع مگر شرع کو شرح لکھا ہے اس پر فرمایا کہ متن تو ہے مگر شرح نہیں –
ملفوظ 448: فکر و اہتمام نظر آ ئے تو ناگواری نہیں ہوتی
فکر و اہتمام نظر آ ئے تو ناگواری نہیں ہوتی فرمایا کہ اگر مجھ کو یہ معلوم ہو جائے کہ اس کو اہتمام ہے راحت پہنچانے کا اور پھر اس سے کوئی فروگذاشت ہو جائے اس پر نا گواری نہیں ہوتی ـ ہاں اگر راحت پہنچانے کا اور فکر ہی نہ ہو تو بے شک نا گواری ہوتی ہے اس پر میں مؤاخذہ کرتا ہوں کہ یہ حرکت کیوں ہوئی پھر لوگوں نے ایک آسان سبق نکال رکھا ہے جواب میں کہتے ہیں کہ غلطی ہوئی اس پر میں یہ پوچھتا ہوں کہ سبب اس غلطی کا کیا ہے آیا بے فکری سبب ہے بعضے تو کہتے ہیں کہ بد فہمی اور یہ اس وجہ سے کہتے ہیں کہ اگر یہ کہا کہ سبب اس کا بے فکری ہے تو مؤاخذہ بڑھ جائیگا کہ بے فکری کیوں اختیار کی ـ ایسی چیز کا نام لو کہ جو غیر اختیاری ہے اسلئیے بدفہمی کا عذر پیش کرتے ہیں مگر میں اس پر کہتا ہوں کہ اگر بدفہمی اس کا سبب ہے تو مجھ کو اپنے تعلق سے معاف کرو کیونکہ بدفہم آدمی سے مناسبت ہونا اور اس کی اصلاح ہونا اور زیادہ مشکل ہے اسلئے کہ بدفہمی ایک غیر اختیاری چیز ہے – جو تمہارے اختیار سے بھی باہر اور میرے اختیار سے بھی – بس تعلق ہی ختم کرو اور اگر کہے کہ سبب اس کا بے فکری ہے تو میں کہتا ہوں کہ اچھا اب مجھے یہ شکایت ہے کہ بے فکری کیوں اختیار کی – مگر پھر بھی یہ ایسی چیز ہے کہ اگر وہ چاہے تو اس سے بچ سکتا ہے اسلئے کہ حکما اختیاری ہے تو اس وقت معافی چاہ لے اور آئندہ کے لیے عزم کر لے کہ اب ایسا نہ کرونگا چھٹی ہوئی گو یہ ضرور ہے کہ اس وقت اس عذر پر مؤاخذہ میں بظاہر سختی ہو گی کہ اختیار سے کو تاہی کی مگر انجام کے اعتبار سے چونک اختیاری چیز ہے امید ہے کہ آئندہ اگر چاہے گا تو ایسی غلطی نہ کریگا اور اصلاح کی بھی امید ہے اور مجھ کو خدا نخواستہ کینہ تھوڑا ہی ہے ہاں ! یہ ضرور چاہتا ہوں کہ آدمیت پیدا ہو حیوانیت اور جانور پن دور ہو – خلاصہ یہ ہے کہ اگر قرائن حالات سے یہ معلوم ہو جائے کہ دوسروں کو تکلیف نہ دینے کا اہتمام ہے اور راحت کا قصد ہے پھر اگر گڑبڑ بھی ہو جائے تو ایسے کی گڑبڑ بھی ذرہ برابر بھی گرانی نہیں ہوتی ـ گو بغرض اصلاح روک ٹوک اس وقت بھی کی جائے مگر اس وقت کی اصلاح کا طریق جدا ہوگا –
ملفوظ 447: ایک صاحب کی عرض کا لطیف
ایک صاحب کی عرض کا لطیف جواب ایک مولوی صاحب نے عرض کیا کہ حضرت نے جو اس وقت تقریر فرمائی ہے اس سے یہ سمجھ میں آیا کہ حضرت کو تو اللہ تعالی نے ایسا لطیف المزاج بنایا پھر ہم جیسے گدھوں سے واسطہ پڑا پھر کیا ہو فرمایا کہ جواب عرض کرنے کی ضرورت نہیں آپ نے جو کچھ فرمایا اس کو آپ سمجھتے ہیں کہ میں اس کو غلط سمجھتا ہوں یعنی گدھے کی تشبیہ کو – پس اس کے لیے آپ کا اعلم ہی کافی جواب ہے –
ملفوظ : 446: راستہ میں ساتھ ہو جانا
ملفوظ : 446: راستہ میں ساتھ ہو جانا فرمایا کہ ایک اس سے بڑی تکلیف ہوتی ہے بعضے لوگ جو راستہ میں ساتھ ہو جاتے ہیں آزادی بالکل برباد ہو جاتی ہے – بعض مرتبہ استنجے کی ضرورت ہوتی ہے یا آنت اتر جاتی ہے تو اب ان حضرات کے ساتھ ہونے کی وجہ سے چلنے میں رعایت کرنی پڑتی ہے کہ جب تک بات پوری نہ ہو جائے دروازہ پر کھڑا رہنا پڑتا ہے – ایک یہ کہ چلتے وقت طبعا اس کا خیال رہتا ہے کہ یہ اچھی جگہ چلیں ان کو کوئی تکلیف نہ ہو اس وجہ سے میں خود ایک طرف ہو کر چلتا ہوں غرضیکہ سخت کلفت ہوتی ہے اور ایسے واقعات کلفت کے مختلف پیش آتے ہیں جزئیات کا احاطہ مشکل ہے مسلمان کا مذہب تو یہ ہونا چاہیئے ؎ بہشت آنجا کہ آزارے نباشد کسے رابا کسے کارے نباشد یہ سب آزادی ان مجذوب صاحب کی نظر روحانی کی برکت ہے جن کی دعا سے میں پیدا ہوا ہوں یہی خدا کا فضل ہے کہ حواس گم نہیں ہوئے مگر آزادی ضرور محبوب ہے –
ملفوظ 438: معمولات براہ راست مجھ سے پوچھیں
معمولات براہ راست مجھ سے پوچھیں معمولات پوچھنے والے کے متعلق سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ ان پوچھنے والے کو لکھ دیجئے کہ اس سے معمولات کے سوالات کا ذکر کیا تھا اس نے کہا کہ جو کچھ پوچھنا ہو مجھ سے بلا واسطہ پوچھو اور خود ذکر کرنیکی وجہ وہی لکھ دیجئے گا جو واقعی ہے یعنی ذکر کرنیکی وجہ یہ ہوئی کہ بعض معمولات تو مجھ کو معلوم تھے اور بعض کی مجھ کو خبر نہ تھی خود اسی سے پوچھنے سے معلوم ہو سکتے تھے اسلئے ذکر کیا گیا ـ اس سے انکو یہ بھی معلوم ہو جائیگا کہ اس کو علم ہو گیا اور ناگوار ہوا اور اب وہ ناگوار ہوگیا ( مراد سانپ ہے ) میرے معاملہ کو مجھ ہی سے معلوم کرنا چاہیئے دوسروں کو کیا خبر ! میں اپنی حالت کو خود جس طرح بتلا سکتا ہوں یا ادا کر سکتا ہوں دوسرا بے چارہ کیا بتا سکتا ہے اور کیا ادا کر سکتا ہے اس کو معلوم کب ہے – پھر فرمایا میرے معمولات ہی کیا جلوت کا حال تو سب کو معلوم ہے کہ لوگوں سے لڑتا بھڑتا رہتا ہوں اور خلوت میں میں رہتا ہی نہیں بس یہ معمولات ہیں –
ملفوظ 445: اپنے معمولات میں دوسروں کی راحت کی تدابیر
اپنے معمولات میں دوسروں کی راحت کی تدابیر فرمایا کہ میں نے تو اپنے معمولات میں راحت کی تدابیر اختیار کر رکھی ہیں یہی میرا اصل مذاق ہے کہ دنیا کی بھی راحت اور آخرت کی بھی اور صرف اپنی ہی راحت مقصود نہیں دوسروں کی راحت کا بھی خیال رکھتا ہوں اس سے زیادہ دوسروں کی راحت کا کیا خیال ہوگا کہ راستہ چلنے میں بھی اس کی رعایت رکھتا ہوں کہ اگر پشت کی جانب سے کسی آنے والے کی آہٹ معلوم ہوتی ہے تو میں سڑک کے کنارہ ہو جاتا ہوں تاکہ اس آنیوالے کو راستہ کی کوئی تنگی نہ ہو – آزادی سے چلا جائے حالانکہ بعض مرتبہ وہ آنیوالا بھنگی ہوتا ہے چمار ہوتا ہے مگر میں اس کا انتظار نہیں کرتا کہ وہ بچ کر نکل جائے گا – بلکہ خود ہی بچ جاتا ہوں – میں بحمداللہ ہر امر میں لحاظ رکھتا ہوں کہ میری وجہ سے کسی پر ذرہ برابر گرانی نہ ہو ـ پھر جب میں خود دوسروں کا اس قدر خیال رکھتا ہوں تو دوسرے میرے ساتھ ایسا برتاؤ کیوں کرتے ہیں کہ جس سے مجھ کو گرانی ہو یا تکلیف پہنچے پھر فرمایا کہ بعضے بزرگ بھولے پن کے سبب دوسرے کی تکلیف و راحت کی رعایت نہیں کرتے وہ معذور ہیں مگر دوسروں کو تو ضرر پہنچتا ہے اس پر ایک حکایت فرمائی – کہ دیوبند میں ایک بزرگ بہلی میں سوار ہو کر چلے ایک معتقد بھی ساتھ بیٹھے اتفاق سے راستے میں بہلی الٹ گئے اور نقشہ یہ ہوا کہ وہ معتقد صاحب جس طرف بیٹھے تھے اس طرف کو بہلی لوٹی وہ نیچے اور بزرگ صاحب اس کے اوپر – بزرگ ہیں کہ معتقد کی کمر پر بیٹھے اس نے عرض کیا کہ حضرت ہٹئیے میں تو مرا جاتا ہوں وہ فرماتے ہیں نہیں مرو گے ہم جوتہ پہن لیں ہمار جوتہ لاؤ اس نے کہا کہ حضرت اتنے جوتہ آئے گا میرا تو خاتمہ ہو جائیگا فرمایا کہ نہیں ہم ننگے پیر زمین پر نہیں رکھتے مٹی لگ جائیگی ہمیں عادت نہیں ننگے پیر زمین پر رکھنے کی ـ اس بے چارے کی کمر سے نہیں اترے جب گاڑی بان نے جوتہ دیا تب پہن کر اترے مگر اس شخص کے چوٹ بالکل نہیں آئی خیر یہ تو بھولے بزرگوں کی باتیں ہیں ـ باقی بعضے تو مرید کو اپنی ملک سمجھتے ہیں ـ الحمداللہ ! مجھ کو تو حق تعالی نے اس کی توفیق دی ہے جس کی برکت سے مریدوں کے ساتھ تو ایسا برتاؤ کیا کرتا اور حق بھی کیا ہے مجھ کو ایسا کرنے کا جن کے ساتھ اس قسم کا حق بھی ہے اور وہ محکوم بھی ہیں اور محبت کی وجہ سے کسی خدمت پر گرانی کا شبہ بھی نہیں ہو سکتا اور ایسے لوگ گھر والے ہیں میرا تو ان کے ساتھ بھی یہی معمول ہے کہ مثلا کھانا کھا کر کبھی گھر والوں سے یہ نہیں کہتا کہ برتن اٹھا لو اس وقت یہ خیال ہوتا ہے کہ ممکن ہے اپنے کسی کام میں مصروف ہوں اور محض میری وجہ سے ان کو اپنا کام چھوڑ کر اس کام کو کرنا پڑے بلکہ یہ کہتا ہوں کہ اٹھوا لو ـ اب آ گے ان کا کام ہے کہ وہ خود اٹھائیں یا کسی نوکرنی وغیرہ سے اٹھوائیں میں اپنی طرف سے ان پر اتنا بار بھی نہیں ڈالتا – غرضیکہ اپنی راحت اور دوسروں کی راحت یہ میرا معمول ہے – اسی وجہ سے مجھ کو دوسرے کی بے فکری سے نا گواری ہوتی ہے مزاحا فرمایا پھر نا گوار ہو جاتا ہوں ( مراد سانپ ہے ) جب میں اتنی رعایتیں دوسروں کی کرتا ہوں تو میں بھی ان سے صرف یہ چاہتا ہوں کہ تم بھی مجھ کو مت ستاؤ ـ
ملفوظ 444: غیر نبی کا فعل حجت نہیں
غیر نبی کا فعل حجت نہیں ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ عالم ہو کر اتنی موٹی بات نہ سمجھ سکے کہ غیر نبی کا قول حجت ہے جب شرائط پائے جائیں مگر فعل حجت نہیں حالانکہ یہ مسلمات سے ہے –

You must be logged in to post a comment.