ملفوظ 443: بزرگ شاعر بھی ہو سکتے ہیں

بزرگ شاعر بھی ہو سکتے ہیں خواجہ صاحب نے عرض کیا کہ حضرت کیا شاعر بھی بزرگ ہو سکتے ہیں فرمایا کہ عنوان کو بد لئیے یوں کہئیے کہ کیا بزرگ بھی شاعر ہو سکتے ہیں فرق یہ ہے کہ پہلے جملہ کے معنی یہ ہیں کہ جس پر شاعری کا غلبہ ہو گیا وہ بزرگ ہو سکتا ہے سو اس کا جواب خود سوال سے ظاہر ہے کہ نفی میں ہے دوسرے جملہ کے معنی یہ ہیں کہ جس کی اصلی صفت بزرگی ہو کیا اس سے شاعری کا صدور ہو سکتا ہے سو ظاہر ہے کہ یہاں کوئی امر مانع نہیں یہ تفاوت ایسا ہے کہ جیسے ایک طالب علم نے مدرسہ کانپور میں دوسرے طالب علم کی کتابیں کپڑے چوری کر کے نکال لیے پولیس میں اطلاع کر دی سب انسپکٹر آ پہنچے اور مجھ سے کہنے لگے کہ طالب علم بھی چوری کرتے ہیں میں نے کہا ہرگز نہیں کہنے لگے کہ یہاں تو مشاہد ہے میں نے کہا کہ مشاہدہ تو صحیح ہے لیکن حقیقت اس کی آپ نہیں سمجھے – کہنے لگے وہ کیا میں نے کہا حقیقت اس کی یہ ہے کہ چور کبھی طالب علمی کرنے لگتے ہیں – حاصل یہ کہ جو اصل میں طالب علم ہوگا وہ چوری نہیں کریگا البتہ چور طالب علم بن سکتا ہے تاکہ مدرسہ میں چوری آسانی سے کر سکے اسلئے یہ کہنا غلط ہے کہ طالب علم چوری کرنے لگے -ان سے کوئی جواب نہ بن پڑا ہنس کر کہنے لگے کہ صاحب مولویوں کے گھر کی بات ہے جس طرح چاہیں بنا سکتے ہیں – اسی طرح شاعر تو بزرگ نہیں ہو سکتے ہاں بزرگ شاعر ہو سکتے ہیں –

ملفوظ 442: کتابوں کا زبانی یاد کر لینا

کتابوں کا زبانی یاد کر لینا ایک صاحب نے اس گزشتہ ملفوظ پر عرض کیا کہ اتنی حدیثیں زبانی یاد تھیں فرمایا اور کیا کتاب میں دیکھ کر آپ بھی عجیب ہیں – عرض کیا کہ قرآن شریف کے متعلق تو یہ خیال تھا کہ زبانی یاد ہو جاتا ہے مگر حدیث شریف کے متعلق یہ خیال نہ تھا فرمایا کیوں؟ عرض کیا کہ پھر قرآن شریف کی یاد میں کیا امتیاز رہا فرمایا یہی امتیاز ہے کہ بچوں تک کو یاد ہو جاتا ہے اس میں زیادہ فہم اور حافظہ کی ضرورت نہیں یہ اس کی ممتاز برکت ہے اور یہ کہاں لکھا ہے کہ علاوہ قرآن شریف کے اور کوئی چیز یاد نہیں ہو سکتی یہ تو محض آپ اپنا خیال ظاہر فرما رہے ہیں یہ کوئی بات نہیں – حضرت سلطان جی نے مقامات حریری حفظ یاد کر لی تھی یہ عالم بھی تھے مقامات حفظ کرنے کے بعد فرمایا کہ یوں ہی عمر برباد کی پھر اس کے کفارہ میں مشارق الانوار حفظ یاد فرما لی اس پر حضرت والا نے ظرافت سے فرمایا کہ دونوں طرح صاحب مقامات تھے – پھر اپنی نسبت فرمایا میں نے بھی سراجی یاد کی تھی اس خیال سے کہ سخت ضرورت کی چیز ہے اور درس میں ایک ہی کتاب ہے مگر ایسی یاد ہوئی تھیں کہ مدرسہ سے چھتہ والی مسجد تک پہنچنے میں تو سبق حفظ پڑھ لیتا تھا مگر جہاں فجر کی نماز پڑھی سب غائب –

ملفوظ 441: شاہان اسلام کو مؤرخین نے بدنام کیا ہے

شاہان اسلام کو مؤرخین نے بدنام کیا ہے فرمایا کہ بعض مؤرخین نے جھوٹی جھوٹی تواریخ لکھ کر شاہان اسلام کو بدنام کیا ہے – محض اپنے مصالح کی غرض سے ورنہ شاہان اسلام کی مراعات عدل آب زر سے لکھنے کے قابل ہے – حضرت مولانا شیخ محمد صاحبؒ حضرت عالمگیر کے نام کے ساتھ رحمتہ اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے جیسے بہت ہی بڑے بزرگ کا نام لیا کرتے ہیں ـ
حضرت مولانا محمد یعقوب صاحبؒ عالمگیر رحمتہ اللہ علیہ کی نسبت شاہ جہان کے زیادہ معتقد تھے فرمایا کرتے تھے شاہ جہاں سلطنت کے زیادہ مناسب تھے – ایک صاحب کو حضرت عالمگیرؒ پر کچھ تاریخی شبہات تھے وہ حضرت مولانا شیخ محمد صاحبؒ کے سامنے پیش کئے مولانا نے سب شبہات کا جواب دیا اور فرمایا کہ حضرت عالمگیرؒ کو بارہ ہزار احادیث کے متن یاد تھے – اور حضرت شاہ عبدالعزیز صاحبؒ کی نسبت فرمایا کہ انکو چھ ہزار متن یاد تھے – ایک صاحب تھے متولی عبدالرحمن صاحب انہوں نے مولانا سے عرض کیا کہ حضرت کو کس قدر یاد ہیں فرمایا پھر جواب دونگا یہ مزید احتیاط کی بناء پر فرمایا ایک ماہ کہ بعد فرمایا کہ مجھ کو تین ہزار حدیث کے متن یاد ہیں اس سے عالمگیر کے کمال کا اندازہ کر لیجئے –

ملفوظ 440: حضرت خواجہ معین الدین چشتیؒ کی عظمت

حضرت خواجہ معین الدین چشتیؒ کی عظمت خواجہ صاحب نے عرض کیا کہ حضرت خواجہ معین الدینؒ چشتیوں کے بادشاہ ہیں چشتیت تو ہند میں وہیں سے جاری ہوئی فرمایا کہ ہندوستان میں تو سلطنت ہی چشتیوں کی حضرت کی وجہ سے ہے ایک انگریز نے ہندوستان سے انگلستان میں جا کر کہا تھا کہ ہندوستان کے تمام سفر میں ایک بات عجائبات میں سے دیکھی کہ ایک مردہ اجمیر کی سر زمین میں پڑا ہوا تمام ہندوستان پر حکومت کر رہا ہے فرمایا کہ لوگوں کے قلوب میں حضرت خواجہ صاحب کی بڑی عظمت ہے حتی کہ ہندؤوں تک کے کے قلوب میں عظمت ہے اجمیر میں تو اکثر ہندو حضرت کے نام کی قسم کھاتے ہیں – سلاطین اسلام کے قلوب میں عظمت کا یہی حال تھا اکبر بادشاہ نے کئی بار دارالخلافہ سے اجمیر تک پیدل سفر کیا ہے – یہ عظمت نہ تھی تو اور کیا تھی اور یہ جو اکبر بادشاہ کے بد دینی کی باتیں مشہور ہیں یہ سب اس کی پالیسی کی باتیں تھیں ورنہ اس کے قلب میں اہل علم اور اہل دین کی عظمت اور محبت ضرور تھی اور مرنے کے وقت تو اہل علم کو بلا کر توبہ کی ہے اگر توبہ کے بعد بضرورت پھر کوئی دنیا کے متلعق بات کی تو دوبارہ علماء کو بلا کر توبہ کی اس کو بھی پسند نہ کیا کہ دنیا کی بات پر جان دوں – ذکراللہ میں مشغول ہو کر جان دی ہے کیا خبر ہے ، کسی کو کوئی کیسا ہے اسلئے میری ہمیشہ سے رائے ہے کہ سلاطین اسلام کی شان میں گستاخی نہیں کرنی چاہیئے –

ملفوظ439: ماہوار رسالہ کے نام رکھنے کا مشورہ

ماہوار رسالہ کے نام رکھنے کا مشورہ ایک مولوی صاحب نے ( جن کا خیال غالبا کوئی ماہواری رسالہ جاری کرنیکا تھا ) عرض کیا کہ حضرت رسالہ ماہواری کا نام تجویذ فرمائیں جس میں حضرت کے مفوظات اور وہ تصنیفات شائع ہوا کریں جو کم یاب ہو گئیں ہیں ـ فرمایا کہ اکثر پہلے سے آج تک یہ معمول رہا ہے کہ رسالوں کے نام اپنے بزرگوں کے نام پر رکھے گئے ہیں مثلا القاسم ، النور ،الامداد، الرشید، الہادی، سو اس کا نام المعین مناسب معلوم ہوتا ہے یا معین الدین اس میں حضرت خواجہ معین الدین رحمتہ اللہ علیہ کے نام کی بھی رعایت ہے اور ہے بھی بامعنی ـ دین کا معین – عرض کیا کہ حضرت کے نام سے اگر جاری کیا جائے فرمایا کہ میرا نام رسالہ کے اعتبار سے بامعنی نہیں – اگر بامعنی کہا جائے تو اس کے معنی یہ ہونگے کہ سب سے افضل و اشرف رسالہ اور یہ اچھا معلوم نہیں ہوتا کہ اس کے مضامین کو سب مؤلفات پر ترجیح دی جائے اور پھر میں ہی خود تجویذ بھی کروں اس سے تو زبان میں گد گدی سی اٹھے گی یہ ہی المعین یا معین الدین نام مناسب ہے ، بہت پاکیزہ نام ہے اور بامعنی ہے عرض کیا کہ المعین اور معین الدین ان دونوں میں سے کون سا بہتر ہے فرمایا کہ جو مناسب خیال فرمایا جائے اچھا تو مفرد ہی معلوم ہوتا ہے جیسے “” النور،، “”الامداد،، ایسے ہی المعین اور اس نام میں ایک قسم کی تواضع بھی معلوم ہوتی ہے کوئی دعوے نہیں معلوم ہوتا – کیونکہ اعانت تو ایک خدمت ہے کوئی کمال نہیں – دوسرا نکتہ اسمیں یہ ہے کہ اوپر کی طرف بڑھنا چاہیئے الامداد ، النور، الھادی، المعین ، یہ سب اوپر ہی کی طرف کو سلسلہ ہے عروج ہی مناسب ہے – غرض یہ نام جامع اور بامعنی ہے اور اس کو ظاہر بھی کر دیا جائے کہ اس نام سے حضرت کے نام کی برکت لینا بھی مقصود ہے تاکہ لوگوں کو اس نام کی وجہ بھی معلوم ہو جائے – عرض کیا گیا کہ اپنے نام پر حضرت تجویذ نہ فرمائیں خود ہی حضرت کا نام تجویذ کر لیا جائے گا فرمایا کہ میں تو المعین ہی کے نام سے ذکر کیا کرونگا یا میرے لیے کچھ اور تجویذ کر دیا جائے کہ وہ نام لیا کروں ـ

ملفوظ 437: اپنے پیر سے مناسبت اور اس پر اعتقاد

ملفوظ 437: اپنے پیر سے مناسبت اور اس پر اعتقاد ایک مولوی صاحب کے سوال کے جواب میں فرمایا کہ جس سے کچھ حاصل کرنا ہو یہ دیکھ لے کہ میرے کام کا بھی ہے یا نہیں وہ چاہے کامل نہ ہو میرے ایک ماموں صاحب نے اپنے ایک شیخ کی حکایت بیان کی جو کامل تو نہ تھے مگر صادق تھے یعنی دکاندار نہ تھے اور لوگوں میں ان کے متعلق طرح طرح کی بدگمانیاں تھیں بعض کا خیال ان بزرگ کے متعلق یہ تھا کہ ان کے پاس روپیہ بہت آتا ہے حجرہ میں مدفون ہوگا اسی بنا پر ان کے انتقال کے بعد ان کا حجرہ کھودا گیا کہ شاید روپیہ جمع ہو – بعض کا خیال تھا کہ ان کے پاس رات کو رنڈیاں آتی ہیں غرضیکہ اس قسم کے خیالات ان کے متعلق لوگوں کو تھے – ایک شخص نے ماموں صاحب سے جو کہ ان کے مرید تھے کہا کہ پیر کے متعلق کچھ خبر بھی ہے پوچھا کیا کہا کہ شب کو ان کے پاس رنڈیاں آتی ہیں انہوں نے کہا کہ خدا تم کو جزائے خیر دے بڑی عجیب بات سنائی مجھ کو پیر صاحب کے متعلق بہت عرصہ سے ایک شبہ تھا وہ آج آپ کی وجہ سے جاتا رہا وہ شبہ یہ تھا کہ پیر صاحب نے کسی وجہ سے نکاح نہ کیا تھا اس سے میں یہ سمجھتا تھا کہ شاید یہ بزرگ عنین ہوں اور حالت یہ ہے کہ یہ حضرات وارث ہوتے ہیں انبیاء کے اور انبیاء ہر پہلو سے کامل ہوتے ہیں ان کمالات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ مرد ہو – سو نکاح نہ ہونے سے جو شبہ تھا
عنین ہونے کا جو کہ نقص ہے آج آپ نے اس شبہ کو رفع کر دیا – معلوم ہوا کہ پیر کامل ہیں ـ اب رہا یہ کہ رنڈیاں آتی ہیں یہ ایک گناہ ہے تو اس گناہ سے توبہ کر کے پاک صاف ہو جائیں گے – جہاں اس طرف اللھم اغفرلی کہا اس طرف صاف ہوئے وہ معترض بے چارہ تو اپنا سا منہ لے کر رہ گیا – وہ تو یہ سمجھے ہوئے تھا کہ پیر کی ایسی بات سن کو پیر سے الگ ہو جائیں گے – اس حکایت سے میرا یہ مقصود نہیں کہ جو پیر افعال شنیعہ کا مرتکب ہوتے ہوں ان سے دین کا تعلق رکھو اس کا لحاظ تو شرط اعظم ہے طریق کی اور اس حکایت میں جو جواب منقول ہے وہ محض تبکیت ( خاموش کرنا ) ہے معترض کے – ورنہ سیدھا جواب تو یہ تھا کہ اس تہمت کا کیا ثبوت پھر اصل مقصود یہ ہے کہ مصلح کے خفیف افعال پر بشرطیکہ وہ مباح کے درجہ تک ہوں یا احیانا کوئی بات تمہاری سمجھ میں نہ آئے اس سے بداعتقاد نہ ہو جائے بلکہ اپنے فہم اور عقل کا قصور سجھ کر خاموش ہو جائے خصوص جس شخص کی نظر چہار طرف ہو اور معترض کی نظر ایک ہی چیز پر ہے اسلیئے اس کے اقوال وافعال کو سمجھنا بڑے ہی دانش مند کا کام ہے ـ

ملفوظ 436: حضرتؒ کی اپنے بارے میں تواضع

حضرتؒ کی اپنے بارے میں تواضع خواجہ صاحب نے عرض کیا کہ حضرت تراویح کے وقت جو مصلے بچھاتے ہیں اس میں سجدہ کی جگہ مصلے سے خالی رہتی ہے پیچھے کو نکلا ہوا رہتا ہے فرمایا کہ نہ معلوم آپ اس پر کیا کیا حاشیہ چڑھائیں گے – میں اس کی حقیقت بیان کئے دیتا ہوں وہ یہ ہے کہ پیچھے کی جانب پٹائیوں کے درمیان جگہ کھلی ہوتی ہے میں رضائی اوڑھ کر کھڑا ہوتا ہوں اس خیال سے مصلے پیچھے ہٹا کر بچھاتا ہوں کہ پیچھے جو حصہ رضائی کا گرے اس پر مٹی نہ لگے یہ حکمت تھی اس میں آپ نہ معلوم کیا خیال کر رہے ہوں گے عرض کیا کہ واقعی میں تو قسم قسم کے خیال کر رہا تھا ( مثلا یہ نکتہ گڑھا ہوگا کہ سجدہ زمین پر ہو فرش پر نہ ہو ) فرمایا کہ حقیقت کے بے خبر ہونے سے ایسا ہی ہوتا ہے پھر امتحان و تحقیق کے بعد قلعی کھل جاتی ہے اس پر حضرت والا نے ایک حکایت فرمائی کہ ایک بادشاہ نے چار سمت کی عورتوں کے جمع کرنے کا اہتمام کیا تھا تاکہ انکے سلیقہ کا امتحان کرے – شب بھر ان کے پاس بسر کی صبح کو سب سے دریافت کیا کہ یہ بتاؤ اب شب کتنی باقی ہے اس پر تو سب کا اتفاق ہوا کہ صبح ہو گئی مگر وجہ مختلف بیان کی چنانچہ ایک بولی نتھ کے موتی ٹھنڈے معلوم ہوتے ہیں یہ اس نے اسلئے کہا کہ صبح صادق کے ساتھ ایک ہوا چلتی ہے اس کی خاصیت ہے کہ ہر چیز میں ٹھنڈ پیدا کر دیتی ہے وہ عجیب و غریب ہوا ہوتی ہے اس سے بڑی فرحت ہوتی ہے – دوسری نے کہا کہ پان کا مزا بدل گیا – تیسری نے کہا کہ شمع پھیکی پڑ گئی چوتھی نے کہا کہ گوہ آ رہا ہے تو ہم تو اس میں سے ہیں کہ گوہ آ رہا ہے تو حضرت کپڑے کی حفاظت مقصود تھی نہ کوئی راز تھا نہ حکمت –

ملفوظ 435: حضرتؒ کا اپنے معمولات کے بارے میں خیال

حضرتؒ کا اپنے معمولات کے بارے میں خیال فرمایا کہ ایک شخص نے ایک جا نماز میرے پاس بھیجی کہ اس پر چالیس روز تہجد پڑھ کر واپس فرماویں – میں نے جواب بھیجا کہ اول تو یہ معلوم کر لیتے کہ مجھ کو دوام و استمرار کی بھی توفیق ہوتی ہے اور معلوم کرنے کا اچھا ذریعہ یہ ہے کہ میرے معمولات فلاں شخص سے ( ایک شخص کا نام جو خوش اعتقادی کے بعد بد اعتقاد ہو گیا تھا ) پوچھ لیے جائیں وہ صحیح بتلا دیگا وہ بتلاوے گا کہ میرا عمل عزائم پر نہیں رخص پر ہے ـ نفلیں کم پڑھتا ہوں کبھی نوافل بیٹھ کر پڑھ لیتا ہوں ـ ایک مولوی صاحب نے عرض کیا کہ حضرت جیسے معمولات تو دوسروں کو نصیب بھی نہیں فرمایا اجی حضرت یہ توجیہات ہیں مجھ کو ہی اپنی حالت خوب معلوم ہے ـ

ملفوظ 434: حضرت کے ماہ رمضان کے معمولات

حضرت کے ماہ رمضان کے معمولات معلوم کرنےکی خواہش کسی نے یہاں کے ایک مقیم بزرگ کو خط بھیجا تھا کہ مولانا کے معمولات مجھ کو لکھ بھیجو اس اطلاع پر یہ فرمایا کہ معمولات بزرگوں کے ہوتے ہیں میرے کیا معمولات ہوتے نہ میرا کوئی معمول نہ مجھ میں کوئی کمال – البتہ اللہ تعالی کی ایک نعمت ہے اس کو خواہ کمال کہئیے فضیلت کہئیے کرامت کہئیے وہ یہ کہ اللہ تک پہنچنے کا سیدھا راستہ معلوم ہے اور بتلا بھی سکتا ہوں – بس اور مجھے کچھ نہیں آتا نہ کچھ کرتا ہوں رہے معمولات – سو معمولات یہ ہیں کہ کچھ معمولات نہیں البتہ ایک معمول زائد ہے وہ یہ کہ آجکل کھانسی کی تکلیف ہے ساری رات اسی خیال میں گذر جاتی ہے کہ اب نیند آ جائے رات ختم ہو جاتی ہے باقی میرے رمضان المبارک کے معمولات سو وہی معمولات ہیں جو غیر رمضان میں تھے – بعض حضرات کے یہاں روزہ کی افطاری میں خاص معمولات ہیں کہ کھجور سے یا زمزم سے روزہ افطار کرنے کا اہتمام ہے میرا اس کے متعلق یہ معمول ہے کہ جو چیز روزی افطاری کے وقت قریب ہو چاہے وہ کھجور ہو زمزم ہو گرم پانی ہو امرود ہو اس سے روزہ افطار کر لیتا ہوں – پھر فرمایا کہ اگر میں جھوٹ کہدوں کہ میں تمام شب جاگتا ہوں اور تہجد میں پانچ پارہ پڑھتا ہوں اس میرے کہنے کا کوئی مکذب بھی نہ ہوگا – مگر اس سے کیا وہ معمولات ہو جائیں گے – سو ایسی حالت میں خود صاحب معمولات پوچھنا محض بے معنی ہے اور اصل یہ ہے کہ کسی کے معمولات پوچھنا ہی غیر مفید ہے اس کی ایک مثال ہے کہ ایک آم کا درخت ہے اس پر نہایت خوشنما اور خوش ذائقہ آم آ رہے لوگ کھا رہے ہیں اور ایک شخص ہے وہ یہ تحقیق کرتا ہے کہ وہ درخت کس قدر اونچا ہے کتنے فٹ لمبا ہے – شاخیں اس میں کس قدر ہیں رنگ اس آم کا کیسا ہے موٹائی کتنی ہے کس تاریخ اور ماہ و سنہ میں لگایا گیا – آپ ہی بتلائیں ان میں عاقل کون ہے جو تحقیقات میں مصروف یا جو کھا رہا ہے – ظاہر ہے تو کام لگنا چاہئیے ان فضولیات میں کیا رکھا ہے –

ملفوظ 433: مؤکلات کو مسخر کرنے کی خواہش اور حضرت مولانا یعقوبؒ کا جواب

مؤکلات کو مسخر کرنے کی خواہش اور حضرت مولانا یعقوبؒ کا جواب فرمایا کہ حضرت مولانا محمد یعقوبؒ نے ایک بات فرمائی تھی دل میں گڑ گئی از دل خیزد بر دل ریزد کا مصداق ہے – حالانکہ وہ زمانہ بچپن کا تھا کچھ زیادہ ایسی باتوں کا ہوش نہ تھا ـ میں نے عرض کیا تھا کہ حضرت کوئی ایسا بھی عمل ہے کہ جس سے مؤکلات مسخر ہو جائیں فرمایا ہاں ہے اور آسان بھی ہے کر بھی سکتے ہو – میں بتلا بھی سکتا ہوں مگر تم پہلے یہ بتلاؤ کہ تم خدا بننے کو پیدا ہوئے یا بندہ بننے کو – مجھ کو اسی وقت سے ان باتوں سے نفرت ہو گئی اب جو کوئی تعویذ وغیرہ کو آتا ہے لکھ تو دیتا ہوں اور وہ بھی اسلئے کہ حضرت صاجی صاحبؒ نے فرمایا تھا کہ اگر کوئی تعویذ وغیرہ کو آیا کرے لکھ دیا کرنا – لیکن ان چیزوں سے مجھ کو مناسبت قطعا نہیں مثلا کسی کو مسخر کرنا کسی کو تابع بنانا کسی پر زور چلانا حکومت کرنا کیا یہ عبدیت ہے عبدیت تو اسی میں ہے کہ فنا کر دے – عاجزی انکساری اختیار کرے حق تعالی کے یہاں اسی کی قدر ہے حق تعالی کی ذات تو بڑی ہی رحیم اور کریم ہے مخلوق بھی عاجزی ہی کو پسند کرتی ہے – اس پر ایک حکایت یاد آئی – ایک مہاجن کی لڑکی پر ایک جن عاشق تھا بڑے بڑے عامل آئے مگر ناکامیاب رہے بعض جن بڑا ہی سرکش اور قوی ہوتا ہے جو عامل جاتا صحیح سلامت واپس نہ ہوتا اکثر یہ حرکت کرتا کہ ہاتھ پکڑ کر چھت ابھار کر اس میں دبا دیتا – اب بیچارہ عامل ہے کہ لٹکا ہوا ہے ایسا ظالم تھا کسی نے اس مہاجن سے ویسے ہی بطور تمسخر کے کہدیا کہ فلاح مسجد میں جو مؤذن ہیں بہت ہی بڑے عامل ہیں وہ مہاجن ان بے چاروں کو جا لپٹا یہ ہر چند قسم کھاتا ہے مگر مہاجن ہے کہ پیروں پر گرا پڑتا ہے خوشامد کر رہا ہے جب یہ عاجز ہو گیا اس نے کہا کہ اچھا میں چلتا ہوں – یہ بتلاؤ کیا دو گے مہاجن نے کہا کہ جو کہو کہا کہ پانچ سو روپیہ اس نے کہا کہ منظور ! یہ سمجھا کہ دوہی باتیں ہیں یا تو کام بن گیا اور پانچ سو روپیہ مل گیا تو بڑی راحت اور عیش سے گذریگی اور اگر ماردیگا تو اس مصیبت سے اور پریشانی و ناداری کی زندگی سے مر جانا ہی بہتر ہے بے چارہ غریب تھا بسم اللہ پڑھ کر مہاجن کے ساتھ ہو لیا اس کے مکان پر پہنچا اس جن نے نہایت زور سے ڈانٹا کہ کیسے آیا ہے ہاتھ جوڑ کر قدموں میں گر گیا کہ حضور کی رعیت کا جولاہا ہوں حضور نہ میں عامل ہوں نہ عمل چلانے آیا ہوں ایک جاہل اور غریب آدمی ہوں یہ مہاجن جا کر سر ہو گیا ہر چند عذر کیا نہ مانا اس لئے مجبوری کو چلا آیا حضور کی بڑی پرورش ہو گی اگر حضور پانچ منٹ کے لیے اس لڑکی سے جدا ہو جائیں مجھ کو پانچ سو روپیہ مل جائیگا میں غریب آدمی ہوں میرا بھلا ہو جائیگا اور حضور کا کوئی نقصان نہ ہو گا پھر اگر دل چاہے آ جائیے – یہ سن کر جن بڑے زور سے قہقہ مار کر ہنسا اور یہ کہا کہ ہم تیری خاطر سے ہمیشہ کے لیے جاتے ہیں – حضرت اس مؤذن کی شہرت ہو گئی کہ بہت بڑا عامل ہے عمر بھر کی روٹیاں سیدھی ہو گئیں ـ اور عوام کے اعتقاد کا – یہی قاعدہ ہے کہ ایک مرتبہ رجسٹری ہو جائے کسی کے کمال کی پھر تو عقد فسخ ہوتا ہی نہیں یہ بات کا ہے کی بدولت نصیب ہوئی صرف عاجزی کی بدولت ! عاجزی بہت ہی عجیب چیز ہے –