عمل میں سہولت پسندی اور فضول تدقیقات سے تنفر ایک مولوی صاحب نے عرض کیا کہ حضرت استغفار میں جو سب سے سہل صیغہ ہے وہ کون ہے فرمایا کہ میرا تو یہ معمول ہے اللھم اغفرلی پڑھ لیتا ہوں اور کبھی اللھم ارحمنی ملا لیتا ہوں اور اس میں اپنی کھانسی اور ضعف سب کی نیت کر لیتا ہوں ـ عرض کیا کہ یہاں تو بڑی ہی رحمت ہے بڑی سہولت ہے فرمایا جی ہاں ! طبیعت کو پسند کرتی ہے کہ کام کم اور مقصود سب حاصل ! عرض کیا کہ اگر یہ پڑھ لیا جایا کرے رب اغفر ور حم وانت خیرالراحمین – فرمایا بالکل مناسب ہے ہمارے حضرت مولانا محمد یعقوب صاحبؒ نے فرمایا تھا کی جس عرضی کا مضمون حاکم خود بتلائے اس کی منظوری میں کوئی شبہ نہیں ہو سکتا – تو جو صیغے منصوص ہیں ان پر عمل کرنے میں عدم قبول کا احتمال ہی نہیں وہ بتلائے ہی گئے ہیں قبول کے لئے ! ایک مولوی صاحب نے اس پر کوئی اشکال پیش کیا اس پر فرمایا کہ اجی کام کرنا چاہئیے ان تدقیقات میں کیا رکھا ہے کیوں وقت ضائع کیا جائے ـ بعضے علماء ان تحقیقات اور تدقیقات ہی میں اپنی ساری عمر دے بیٹھتے ہیں اور جب نتیجہ کا وقت آتا ہے اس وقت خالی رہ جاتے ہیں اس وقت ان سے وہ عامل اچھا نظر آتا ہے جو عالم نہیں مگر اپنے کام میں لگا ہوا تھا – خلاصہ یہ ہے کہ اس کے علم نے کیا نفع پہنچایا جب عمل ہی نہیں کیا اور ان تحقیقات ہی میں عمر گزار دی اگر محض تحقیقات ہی مقصود ہوتیں تو حضورؐ مسئلہ قدر میں گفتگو کرنے کو کیوں صحابہ کو منع فرما دیتے حضورؐ جیسے سمجھانے والے اور صحابہ جیسے سمجھنے والے وہ سمجھا سکتے تھے وہ سمجھ سکتے تھے مقصود اس سے تعلیم تھی صحابہ کو ـ کہ غیر ضروری چیزوں کی طرف متوجہ نہ ہونا چاہئیے کام میں لگنا چاہئیے – آج کل کی تحقیقات کی بالکل ایسی مثال ہے جیسے میں نے سنا ہے کہ دہلی کی جامع مسجد میں جو حوض ہے یہ ایک ہی پتھر کا ہے اس میں دوسرے پتھروں کو جوڑ کر نہیں بنایا گیا – بلکہ ایک ہی پتھر کو کھودا گیا ہے تو اب ایک شخص اس کی تحقیقات شروع کرے کہ اس وقت ریل نہ تھی تو اتنا بھاری پتھر جو پورا اور بیکار نیر سے کس طرح آیا ہو گا – یہ تحقیقات یہیں رہ جائیں گی اور یہ حضرت ختم ہو جائیں گے کام میں لگنا چاہئیے فضولیات کو چھوڑ دینا چاہئیے – ہاں کام میں لگ جانے کے بعد یہ سب چیزیں بھی انشاء اللہ تعالی بقدر کافی منکشف ہو جائیں گی – گو مقصود اس وقت بھی نہ ہوں گی – کہاں کی تحقیقات اور تدقیقات یہ کوئی چیز نہیں کام کرنا چاہئیے بڑی چیز کام ہے فرماتے ہیں ؎ کارکن کار بگذار از گفتار اندیں راہ کار باید کار ( باتیں چھوڑ کر کام میں لگو کہ راہ حق میں عمل ہی کام کام آتا ہے ـ 12) شیخ سعدی ؒ فرماتے ہیں ؎ قدم باید اندر طریقت نہ دم کہ اصلے ندارد دم بے قدم ( طریعت میں عمل کی ضرورت ہے باتوں کی ضرورت نہیں کہ بے عمل کے باتوں کی کوئی وقعت نہیں 12)
ملفوظاتِ حکیم الامت جلد نمبر 1
ملفوظ 431: اپنے بارے میں کسی خاص معمول کا پابند نہ ہونا
اپنے بارے میں کسی خاص معمول کا پابند نہ ہونا ایک مولوی صاحب کے سوال کے جواب میں فرمایا کہ میرے یہ معمولات جو اپنے متعلق ہیں ان میں تو میں بہت ڈھیلا ہوں کوئی پابندی نہیں اور یہ جو انتظام کی صورت نطر آتی ہے ـ یہ ان امور میں ہے کہ جن کا تعلق دوسروں سے ہے باقی اپنے متعلق تو یہ ہے کہ جہاں دونوں شقیں مباح ہوں کبھی اس پر عمل کر لیا کبھی اس پر عمل کر لیا ـ حاصل یہ ہے کہ کبھی کر لیا کبھی نہیں ـ ہاں اس کی ضرور کوشش کرتا ہوں کہ مباح کی حد تک عمل رہے شریعت کے خلاف نہ ہو اور میں اپنی حالت صاف صاف اسلئے بتلا دیتا ہوں کہ کسی کو دھوکہ نہ ہو ـ
ملفوظ 430: حضرت شیخ الہندؒ کی تواضع اور حضرتؒ کی فنائیت
حضرت شیخ الہندؒ کی تواضع اور حضرتؒ کی فنائیت فرمایا کہ تصنع تو بڑی چیز ہے اس کو تو کیا اختیار کرتے ہمارے حضرات تو تواضع کا بھی پتہ نہ چلنے دیتے تھے ہنس کر ٹال دیا کرتے تھے ایک مرتبہ کا واقعہ ہے کہ میں مراد آباد کے جلسہ میں گیا تھا ـ حضرت مولانا محمود حسن صاحبؒ بھی لے گئے تھے واپسی میں اسٹیشن پر سیوہارہ والوں نے حضرت سے دوخواست کی کہ ایک وقت کی دعوت حضرت قبول فرمالیں حضرت نے قبول فرمالی پھر سیوہارہ والوں نے مجھ سے بھی درخواست کی میں نے عذر کر دیا کہ میری طبیعت اچھی نہیں ہے اسلئے میں معذور ہوں لوگ یہ سمجھے کہ وعظ کی وجہ سے کہہ رہا ہے طبیعت جو اچھی نہیں وعظ نہیں کہہ سکتا ـ لوگوں نے کہا کہ ہم وعظ نہ کہلائیں گے – میں نے کہا کہ جہاں وعظ نہ ہو وہاں کی تو روٹیاں کھاتے ہوئے بھی شرم معلوم ہوتی ہے تو حضرت مولانا کیا فرماتے ہیں کہ ہاں بھائی ایسے بے شرم تو ہم ہی ہیں مفت کی روٹیاں کھاتے ہیں – بس حضرت میں تو پانی پانی ہو گیا اور اس قدر شرم دامن گیر ہوئی کہ معافی کی بھی دوخواست نہ کر سکا اور یہی خیال کیا کہ خوموشی ہی بہتر ہے – ایک صاحب نے عرض کیا کہ حضرت تو جواب دے سکتے تھے فرمایا کہ بقاء کا ظہور تو برابر والوں کے ساتھ ہوتا ہے بڑوں کے ساتھ تو فنا ہی میں خیر ہے اور یہی ادب ہے
ملفوظ 429: معتقدین کی افسانہ طرازیاں
ملفوظ 429: معتقدین کی افسانہ طرازیاں فرمایا کہ آج کل تو وہ زمانہ ہے کہ مردہ بزرگوں کو بھی اپنی بیہودگی سے بدنام کرتے ہیں اور یہ ساری بدنامی معتقدین کی بدولت ہوتی ہے مولانا نعیم صاحب لکھنوی نہایت متبع سنت سادہ صاحب نسبت صاحب برکت تھے خود غرض لوگوں نے ان کی قبر کے متعلق مشہور کر دیا کہ یہاں پر پھوت پریت جن اترتے ہیں اب ان کی قبر پر خوب مٹھائی پھول پتاشے چڑھتے ہیں ـ جیسے کچھوچھہ میں یہ ڈھنگ اچھا نہیں معلوم ہوتا سیدھا سادھا رہنا چاہئیے ایسی باتوں میں پڑ کر آدمی مقصود سے رہ جاتا ہے اور وہ مقصود ہے تعلق مع اللہ !
ملفوظ 428: شیخ الاسلام کا لقب معروف ہے
شیخ الاسلام کا لقب معروف ہے ایک مولوی صاحب نے عرض کیا کہ حضرت مولانا محمد قاسم صاحبؒ کے مزار پر جو کتبہ ہے اس پر شیخ الاسلام لکھا ہے فرمایا کہ ہاں یہ لقب ایسا ہے کہ پہلے سے اہل اسلام میں چلا آ رہا ہے مضائقہ نہیں مگر مجھے معلوم نہ تھا کہ حضرت کے مزار پر ایسا کتبہ ہے میں نے آج ہی سنا ہے ـ
ملفوظ 427: دور حاضر کے بڑے بڑے القاب و آداب
دور حاضر کے بڑے بڑے القاب و آداب ایک سلسلہ گفتگو میں بعض مخترع القاب کے متعلق فرمایا خبر نہیں لوگ کس عبث اور فضولیات میں مبتلا ہیں اس سے ان لوگوں کے مذاق کا پتہ چلتا ہے کوئی شیخ الحدیث ہیں کوئی استاد الحدیث کوئی شیخ التفسیر کوئی شیخ الجامعہ ـ یہ اس قسم کے جھگڑے ابھی شروع ہوئے ہیں ہمارے بزرگوں میں تو ان چیزوں کا نام و نشان بھی نہ تھا یہ سب جاہ طلبی ہے – اسی سلسلہ میں فرمایا کہ حضرت مولانا محمود حسن صاحبؒ کو جب کوئی شیخ الہند کہتا ہے تو میرے دل پر ایک تیر سا لگتا ہے اسلئے کہ شیخ العالم کو اور شیخ الاسلام کو شیخ الہند کہتے ہیں بہت ہی برا معلوم ہوتا ہے اس میں حضرت کی تنقیص معلوم ہوتی ہے ان مدعیان محبت نے حضرت کی شان ہی کو نہیں پہچانا ہند کوئی سلطنت اسلامیہ ہے کہ جس کی وجہ سے شیخ الہند کہنے پر فخر ہے اور سب سے زیادہ اچھی اور خوبی کی بات تو وہی ہے جو پہلے اپنے بزرگوں میں تھی سادگی اسی میں برکت ہے ان چیزوں میں برکت کہاں یہ سب نئی روشنی کا اثر ہے ـ
ملفوظ 425: تبرکات میں عوام کا غلو
تبرکات میں عوام کا غلو حضرت والا جلال آباد میں جو جبہ شریف مشہور ہے اس کے متعلق بیان فرما رہے تھے کہ عوام کے غلو کا اندیشہ ہے اس لئے ضرورت ہے کہ عوام کے دین کا تحفظ کیا جائے اس پر ایک مولوی صاحب نے عرض کیا کہ حضرت یہ نعل شریف کا نقشہ یا حلیہ ٹھیک ہے ؟ فرمایا کہ کیا آپ کو بولنا ہی زیادہ آتا ہے اس وقت یہ سوال ہی آپ کا بے جوڑ ہے اب ہندی کی چندی کہاں تک کرو جبکہ میں یہ کہہ رہا ہوں کہ عوام بڑھ نہ جائیں ان کے دین کی حفاظت کی ضرورت ہے اس میں سب کا جواب آ گیا ـ خلاصہ میرے بیان کا یہ ہے کہ اصل بات یہ ہے کہ یہ دیکھنا چاہئیے کہ حضور نے زیادہ کس چیز کا اہتمام کیا اسی کا ہم کو بھی اہتمام چاہئے – یہ سوال تو اس وقت کرنا چاہئیے تھا کہ میں نہی میں غلو کی قید نہ لگاتا تو نفی کا موہم ہو سکتا تھا باقی اس میں کوئی شبہ نہیں کہ حضور کی ہر چیز ایسی ہے کہ اس پر جان قربان کر دی جائے مگر عوام کے دین کی حفاظت بھی تو فرض ہے کہ وہ حدود سے نہ نکل جائیں ایک طرف تو لوگوں کی نظر ہوتی ہے اور دوسری طرف کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے -ملفوظ 426: تصوف کا ہر راز آشکارا کر دیا گیا تصوف کے متعلق ایک مولوی صاحب کے سوال کے جواب میں فرمایا کہ اجی حضرت کسی کا راز اور کس کا اخفا – فن کو تو علی الا علان پکار پکار کر ببانگ دہل ظاہر کرنا اور شائع کرنا چاہئیے اس کی ہر بات صاف ہے میں تو فروع اور اصول سب کھلم کھلا ظاہر کر دیتا ہوں اس کی ضرورت ہے اور سخت ضرورت ہے ہزاروں لاکھوں قسم کی گمراہیوں اور تلبیسوں میں لوگ مبتلا ہو رہے ہیں اور لاکھوں راہ زن اس راہ پر لگے ہوئے ہیں اسلئے اظہار حقیقت کر کے ان کے مصنوعی مسودوں کو خاک میں ملا دینے کی ضرورت ہے انہوں نے گمراہ کیا ہے اللہ کی مخلوق کو – 24 رمضان المبارک 1350ھ مجلس خاص بوقت صبح یوم سہ شنبہ
ملفوظ 424: اہل نجد میں وجد کی کمی اور شاہ سعود کا عذر
ملفوظ 424: اہل نجد میں وجد کی کمی اور شاہ سعود کا عذر ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ ایک صاحب نے مجھ سے سوال کیا کہ اہل نجد کے متعلق آپ کی کیا رائے ہے میں نے کہا کہ رائے یہ ہے کہ وہ نجدی ہیں وجدی نہیں صرف یہی ایک کسر ہے نجدی ہونے کے ساتھ اگر وجدی بھی ہوتے تو اچھا ہوتا اس وقت ان کے پاس آنیوالوں سے میں یوں کہا کرتا ـ
باز گو از نجد واز یاراں نجد تادر و دیوار را آری بوجد ( نجد اور یاران نجد کا قصہ بیان کرو ـ تاکہ درو دیوار کو وجد میں لے آؤ ـ 12) فرمایا کہ ابن سعود اپنی ذات سے بہت غنیمت ہیں اگر کوئی شکایت لوگوں کو ہے تو انکی قوم کی ہے مگر یہ شکایت کرنے والے ہی کون سے پاک صاف ہیں یہ بھی وہاں جا کر گڑبڑ کرتے ہیں وہ انکی حرکات کو تشدد سے روکتے ہیں یہی نا گواری کا سبب ہے
ملفوظ 423: حضرت حاجی صاحبؒ کی مقبولیت
حضرت حاجی صاحبؒ کی مقبولیت ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ حضرت حاجی صاحبؒ کی مقبولیت اس قدر اظہر من الشمس ہے کہ موافق اور مخالف سب ہی حضرت کے کمالات کے معترف ہیں اور حضرت کی مقبولیت کے ساتھ حضرت کی طرف نسبت رکھنے والی چیزوں کی بھی مقبولیت کا ایک واقعہ بیان کرتا ہوں وہ یہ کہ بھائی اکبر علی مرحوم کے مکان کے اندر حضرت حاجی صاحبؒ کے مکان کا حصہ جزو ہو کر آ گیا ہے مگر عجییب بات ہے کہ وہ جس ہیئت پر تھا جرو ہو کر بھی اسی پر رہا حالانکہ قبل سے اس کا نقشہ آزادی سے بنوایا گیا تھا ـ بلکہ اس وقت اس کی خبر بھی نہ تھی کہ یہ قطعہ حضرت کا مسکن تھا یہ یہ بعد میں معلوم ہوا ـ اسی طرح حضرت کی طرف اور بھی بعض عمارت منسوب ہیں وہ بھی اسی طرح اپنی ہیئت پر باقی ہیں – میں تو یہ شعر پڑھا کرتا ہوں ؎ اگر گیتی سراسر باد گیرد چراغ مقبلاح ہرگز نہ میرد ( اگر ساری زمین میں آندھیاں جئیں مقبلاں الہی کا چراغ ہرگز نہیں بجھ سکتا 12)
ملفوظ 422: فرضی صورتوں کے بارے میں تجویذ کرنا
فرضی صورتوں کے بارے میں تجویذ کرنا فرمایا کہ ایک خط آیا ہے لکھا ہے کہ پچھلے دنوں تخفیف کی خبر تھی آپ نے دعا فرما دی تھی رہ گیا تھا ـ اب پھر تخفیف کی خبر ہے پھر دعا کر دو اور اگر میں تخفیف میں آ گیا تو تھانہ بھون کی اجازت دو وہاں آ کر رہوں میں نے لکھ دیا کہ دعا تو کرتا ہوں باقی یہاں آ نے کے متعلق جو لکھا ہے تو فرضیات پر تجویذیں کرنے کی ایسی مثال ہے کہ اگر لڑکا ہوگا اس کا کیا نام ہو گا اور کس حافظ کے سپرد ہو گا کہاں شادی ہو گی اور لڑکی کے متعلق بھی ایسی ہی شقیں نکل سکتی ہیں ابھی سے کس فکر میں پڑے میاں جو ہوگا ہو ہے گا خواہ مخواہ پہلے سے پہلے ہی خیالی پلاؤ پکانا اس کی ضرورت ہی کیا ہے نیز یہ فرض ایسا ہے جیسے ایک لڑکی کی شادی ہوئی رخصت کے وقت وصیت کر دی کہ بیٹی ساس کے گھر جا کر بولنا مت ـ اب بہو ہے کہ بولتی ہی نہیں ساس نے کہا کہ بہو بولتی کیوں نہیں کہا کہ میری ماں نے منع کر دیا تھا کہ ساس کے گھر بولنا مت ـ ساس نے کہا کہ ماں تیری بے وقوف ہے تو بول کہا کہ بولوں ! ساس نے کہا کہ ضرور بول کہا کہ میں پوچھتی ہوں کہ اگر تمہارا بیٹا مر گیا اور میں بیوہ ہو گئی تو مجھ کو یونہی بٹھلائے رکھو گی یا کہیں نکاح بھی کر دو گی ـ ساس نے کہا کہ تیری ماں نے سچ کہا تھا تو تو خاموش رہ ـ تو صورتیں فرض کر کے حساب کتاب لگانا محض ایک وہم پرستی ہے ـ

You must be logged in to post a comment.