(ملفوظ 473) ایک صاحب کی اعانت کی حد :

ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ بعض لوگ رحم دلی کی وجہ سے نئے آنے والوں کو یہاں کے معمولات و قواعد کے متعلق مشورہ دیتے ہیں مگر ان میں بعض ایسے بدفہم ہوتے ہیں کہ ان پرمشورہ سے برا اثرہوتا ہے اب اس میں انتخاب بڑا مشکل ہے کہ کون اہل ہے مشورہ کا اور کون نہیں اس لئے اصلح یہی ہے کہ خود کسی کو مشورہ نہ دیا جاوے البتہ اگرکوئی خود پوچھے اس کو اطلاع کردی جاوے ۔ خواجہ صاحب نے عرض کیا کہ ایک مرتبہ حضرت نے فرمایا تھا کہ مشورہ دے دینے میں مسلمان کی اعانت ہے فرمایا کہ اس اعانت کی بھی ایک حد ہے وہ یہ کہ اگر کوئی خود پوچھے اس کو اطلاع کردی جاوے ۔ خواجہ صاحب نے عرض کیا کہ ایک مرتبہ حضرت نے فرمایا تھا کہ مشورہ دے دینے میں مسلمان کی اعانت ہے فرمایا کہ اس اعانت کی بھی ایک حد ہے وہ اگر نااہل کو مشورہ دیا تو وہ اعانت کہاں وہ تو مضرت کا سبب ہوگا ۔ اور بعض احوال میں مشہور دینے والے کے لئے بھی مضرت سمجھتا ہوں یعنی اگر اس کو یہ گمان ہوجائے کہ مجھ کو مشورہ دینے کے لئے واسطہ بنانے کے لئے منتخب کیا گیا ہے تو اس کا دماغ خراب ہوگا کہ اپنے کو مقرب سمجھنے لگے گا اس لئے اسلم یہی ہے کہ سب کہ اپنے اپنے خیال پر چھوڑ دینا چاہئے کوئی کسی کے معاملہ میں دخل ہی نہ دے باقی سفارش جو مشورہ سے بھی زیادہ بحمداللہ میرے یہاں ہے ہی نہیں اس کا بلکل ہی سد باب ہے اور سمھنے کی بات ہے کہ سفارش کی تو وہاں ضرورت ہے جہاں مواخذہ سے انتقام مقصود ہو یہاں انتقام تھوڑا ہی مقصود ہے محض اصلاح مقصود ہے وہاں سفارش کے کیا معانی کیا یہ مقصود ہے کہ اصلاح نہ کرو اصلاح میں سفارش نہ ہونے کی دلیل ایک حدیث ہے وہ یہ ایک عورت نے چوری کی تھی اس پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حد جاری کرنے کا حکم فرمایا اس کے متعلقین نے حضرت اسامہ سے سفارش کرنے کے لئے کہا حضرت اسامہ کو ایک خصوصیت تھی انہوں نے حضور کی خدمت میں عرض کردیا حضور صلی اللہ علیہ وسلم نہایت ناخوش ہوئے اور فرمایا کہ کیا تم حدود میں سفارش کرتے ہیں اگر فاطمہ بنت محمد صلی اللہ علیہ وسلم بھی چوری کرتیں تو ان کا بھی ہاتھ کٹوا دیتا ۔
اس عورت کا نام بھی فاطمہ تھا ، اس لئے حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا چونکہ حدود سے مقصود اصلاح ہوتی ہے قیاس سے ہر اصلاح کا حکم اس سے ثابت ہوگیا تو اصلاح میں کسی کی کیا رعایت ۔

(ملفوظ 472)مدارس میں تہذیب کی تعلیم نہیں

ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ یہاں پر ایک بی ۔ اے آئے تھے انہوں نے اس قدر ستایا اور پریشان کیا جس کا کوئی حد وحساب نہیں پھر فرمایا کہ تہذیب جد فن ہے مدارس میں کتابوں کی تعلیم تو ہوتی ہے مگر تہذیب نہیں سکھلائی جاتی ۔

(ملفوظ 471)حکماء کی دو جماعتیں

ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ یہ تو ایسی باریک باتیں نہیں طبعی امور ہیں کوئی توجہ ہی نہ کرے اس کا کیا علاج ۔ حدیث شریف میں اس کے متعلق بھی تعلیم ہے کہ مریض کے پاس جا کردیر تک مت بیٹھو فلیخفف الجلوس تاکہ اس کوتنگی نہ ہو ۔ وہ ہرایک کی طرف پشت نہیں کرسکتا پیر پھیلا کر لیٹ نہیں سکتا خود مریض کے لئے بھی آداب ہیں ۔ فقہاء نے اس راز کو سمجھا ہے ان امور کو اسی طرح بیان کیا ہے اور شرح کی ہے کہ دوسرا نہیں کرسکتا ۔ اگر فقہاء نہ ہوتے تو دوسرے علماء کا قیامت تک بھی وہاں تک ذہن نہ پہنچتا بس حکما کی دو ہی جماعتیں ہیں ایک فقہاء اورایک محققین صوفیہ گو محدثین ان دونوں کی حکمت کی اساس ہیں کیونکہ روایات ہی تو سب حکمتوں کا ماخذ ہہں ۔

(ملفوظ 470) معافی غلطی کی عبارت خود کیوں نہیں لکھی :

ایک صاحب نے بذریعہ تحریر اپنی غلطی کی معافی چاہی دریافت فرمایا کہ ان سے پوچھئے کہ یہ عبارت کسی کی ہے عرض کیا کہ میں بنگلہ زبان جانتا ہوں اردو اچھی طرح نہیں آتی بہت کم کچی پکی آتی ہے فرمایا کہ اب یہ کیوں کراطمینان ہوکہ انہوں نے خود سمجھ کر دوسرے سے لکھوایا ہے ممکن ہے کاتب ہی کا تصرف ہو بس اصلاح اس طرح ہوتی ہے کہ اس پر بھی نظر کی گئی کہ عبارت ان کی ہے یا نہیں اس لئے یہ کام اصلاح کا بڑا مشکل ہے ۔

(ملفوظ 469) خلاف غیرت حرکت پر مواخذہ

ایک صاحب کی غلطی پر مواخذہ فرماتے ہوئے فرمایا کہ یہ حرکت اصول کے بھی خلاف غیر کے بھی خلاف پھراگر میں سوال نہ کروں تو اس کے لئے بھی مضراور جہل میں اعانت کیا اپنے مقصود کو ظاہر کرنا طالب کے ذمہ نہیں یہ ہی تو وہ اصول ہیں کہ جن کی بدولت میں بدنام ہوں اور یہ سب کچھ بدنامی وغیرہ میں نے طریق کی غیرت کے لئے گوار کررکھا ہے تاکہ اس طریق کی شان محفوظ رہے کیونکہ ندنامی کے اندیشہ سے چاپلوسی کرنا اس کا اثر طریق پر پڑتا ہے کہ طریق کا استخفاف ہے جس کو میں ہرگز گوارا نہیں کرسکتا چاہے کسی کو اچھا معلوم ہوا یا برا کوئی بدنام کرے یا نیک نام اس بدنامی میں بھی ایک گونہ لذت معلوم ہوتی ہے ۔ کہ بد فہموں میں بدنامی ہو رہی ہے اور اس بدنامی کے متعلق تو میرا یہ مذہب ہے جس کو حافظ فرماتے ہیں
گرچہ بدنامی ست نزد عاقلاں مانمی خواہیم ننگ و نام را
( ظاہری عقل والوں کے نزدیک اگرچہ یہ باتیں بدنامی کی ہیں مگر ہم اس ظاہری نامور کے طالب ہی نہیں ۔ 12) ۔

(ملفوظ 468)شیخ الحدیث شیخ التفسیر وغیرہ القاب پسند نہیں

ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ اکثر لوگ مولانا کہنے سے بڑے خوش ہوتے ہیں ہمارے بزرگ ایسے ایسے بٹے علامہ گزرے ہیں بہت سے بہت مولوی صاحب کا لقب ہوتا تھا مولانا بہت کم کسی کسی کے لئے اورادب تو اس قدر انقلاب ہوا کہ مولانا سے بڑھ کرکوئی شیخ الحدیث ہے کوئی شیخ التفسیر ہے مجھ کو تو یہ باتیں پسند نہیں ۔ سادگی میں لطف ہے وہ ان تکلفات میں کہاں ، ہمارا اکابر اپنے کو مٹائے ہوئے رکھتے تھے یہ بھی نہیں معلوم ہوتا تھا کہ یہاں پرکوئی ہے یا نہیں زیادہ تر یہ معتقدین حضرت حضرت مولانا مولانا مزاج بگاڑ دیتے ہیں ، ایسے ہی تعظیم وتکریم کی نسبت مولانا رومی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں
نفس از بس مدحما فرعون شد کن ذلیل النفس ہونا لا تسد
( نفس زیادہ تعریفوں سے فرعون ہوگیا ہے کبھی کبھی اس کو ذلیل لرلیا کرو )
حقیقت یہ ہے کہ شہرت ہوجانا اور بڑا بن جانا اکثر دین کے لئے تومضر اور ضررساں ہے ہی دنیا میں بھی اس کی بدولت بہت سی آفات کا سامنا ہوتا ہے مولانا فرماتے ہیں
حشمہا و حشمہا و رشکہا بر سرت ریزد چو آب از مشکہا
( لوگوں کے غصے اور نگاہ تیرے سرپر اس طرح گریں گے جیسے مشک سے پانی گرتا ہے )

(ملفوظ 467)اتباع سنت اور حبرحب شیخ کی برکات :

ایک صاحب کے سوال کے جواب میں فرمایا کہ اتباع سنت بڑی چیز ہے ۔ مجدد صاحب نے ایک کام کی بات بیان فرمائی کہ کسی شخص میں اگر دوچیزیں نہیں تو وہ بزعم خود کتنے ہی انوار میں محاط ہو وہ انوار نہیں ۔ اور یہ بھی جاننے کی بات ہے کہ اتباع سنت وہ ہے کہ بلا چون وچراہوں اس کے متعلق بھی مجدد صاحب فرماتے ہیں کہ شرائع میں حکمت کا تلاش کرنا گویا یہ مراد ہے انکا ر کا اگر نبی کو نبی سمجھتا ہے تو پھر مصالح کے جاننے کا انتظار کیوں ہے مگرجب انتظار ہے تو یہ شخص اپنی عقل کا متبع ہوا نبی کا متبع نہ ہوا ۔ اور آج کل اس کو فلاسفی قراردے رکھا ہے فرمایا کہ جو برتا ؤ ہم حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کرتے اورآُپ کی طرف سے غلام کو کیا جواب ہوگا تو گویا یہ شخص اپنے غلام کو تو غلام سمجھتا ہے اور اپنےا کو حضور کا غلام نہیں سمجھتا یہی فرق نکل سکتا ہے ۔

(ملفوظ 466)طلب مقصود ہے وصول مقصود نہیں

ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ ہمارے حضرت مولانا محمد یعقوب صاحب رحمتہ اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے کہ وصول مقصود نہیں طلب مقصود ہے اھ کیونکہ اول غیر اختیاری ہے ثانی اختیاری ہے۔

(ملفوظ 465)اکثر معلم کا طبقہ بیوقوف ہی ہوتا ہے

فرمایا کہ ایک معلم صاحب کا خط آیا ہے اکثر یہ طبقہ ہوتا ہی ہے وقوف میں سالہا سال سے تجربہ کررہا ہوں ایک صاحب نے عرض کیا کہ ایسے ہوجاتے ہیں یا اس سلسلہ تعلیم میں آتے ہی ایسے ہیں فرمایا کہ ہوجاتے ہیں جس کی وجہ یہ ہے کہ ان میں تکبرپیدا ہوجاتا ہے ایک جماعت اطاعت گذرارں کی خدمت میں رہتی ہے یہ جو کرتے ہیں وہ بجا اور صحیح کہتے رہتے ہیں ان کا دماغ خراب ہوجاتا ہے ۔

(ملفوظ 464)رنج کا رفع کرنا اختیار نہیں:

فلاں مدرسہ کی سرپرستی کا ذکر فرماتے ہوئے کہ ایک ممبر صاحب نے جو مولوی صاحب بھی ہیں ۔ ایک دل خراش اور فضولیات سے پر تحریر میرے پاس بھیجی مجھ کو اس سے دور رنج ہوئے ایک تویہ کہ ایک دم اس قدر برا انقلاب ہوگیا یہ لوگ تو اپنے پرانے بزرگوں کے دیکھنے والے ہیں ۔ ان میں یہ نیا رنگ کہاں سے آگیا دوسرے یہ تہذیب بھی تو کوئی چیز ہے اور جن کی وہ تحریر ہے ان سے ہمیشہ کے تعلقات ہیں اس کے بعد وہ مولوی صاحب یہاں آئے اور معذرت اور معافی چاہی میں نے صاف کہہ دیا کہ اگر معافی چاہئے سے یہ مقصود ہے کہ انتقام نہ لیا جاوے نہ دنیا میں نہ آخرت میں تو معافی ہے اور اگر یہ مقصود ہے کہ رنج نہ رہے تو رنج تھا اور ہے اور رہے گا ، میں ناراض تھا اور ہوں اور رہوں گا مجھ کو کشیدگی تھی اور ہے اور رہے گی جب تک آپ کا یہ دعوٰی مجھ کو معلوم رہے گا کہ آُپ کو مجھ سے محبت ہے تعلق ہے جس روز یہ ختم ہوجائے گا یہ سب عوارض بھی ختم ہوجاویں گے شکایت اپنوں ہی سے ہوا کرتی اور ویسے تو بریلی کے خاں صاحب نے مجھ کو ساری عمر گالیاں دیں واللہ ذرہ برابر بھی کبھی اثر نہیں ہوا اور یہ جوآج کل رسم ہے معافی کی اس کی حقیقت صرف عدم مواخذہ ہے باقی اثر ضرور رہتا ہے ۔ حضرت وحشی کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا تھا کہ ساری عمر صورت نہ دکھلانا حضرت وحشی نے حالت کفر میں حضوصلی اللہ علیہ وسلم کے چچا کو قتل کیا تھا بعد میں اسلام لے آئے تھے تو کیا اسلام نے آنے پر معافی نہیں ہوگئی مگر حضوصلی اللہ علیہ وسلم کو رنج رہا اس سے بڑی بقاء اثر کی اورکیا دلیل ہوسکتی ہے بات یہ ہے کہ معافی تو اختیاری چیز ہے رنج کا رفع کرنا اختیارہ نہیں و صاحب جرم کے اختیار میں ہے کہ ایسے اسباب جمع کردے جس سے رنج جاتا رہے ۔