(ملفوظ 126) کامل کی صحبت اکسیر ہے

 ایک صاحب کے سوال کے جواب میں فرمایا کہ میرے یہاں تو الحمدللہ طالب کی حالت کو دیکھ کر اور اس کی ہر بات اور مصلحت پر نظر کر کے تعلیم ہوتی ہے یہی وجہ ہے کہ بعض بدفہم سمجھتے ہیں کہ ٹالتا ہے اور یہ اس لیے کہ خوگر تو دوسرے طرز کے ہیں وہ رنگ نہیں دیکھتے ہیں تو شبہات کرتے ہیں۔ آج تک بے چاروں نے بزرگی کی اور قسمیں سنی ہیں جو باتیں یہاں ہیں وہ کہاں کانوں میں پڑی ہیں۔ یہاں عرفی بزرگی اور ڈھونگ اور کود پھاند شور وغل اینٹھ مروڑ اچھلنا کودنا کچھ نہیں صرف دو ہی چیزیں ہیں یعنی اعمالِ واجبہ کی ظاہری اور انکی باطنی (اصلاح)  بس یہاں صرف یہی ہے اور یہی اصل بھی ہے اور اس کی تحصیل کے لیے مجاہدات اور ریاضات کئے جاتے ہیں کہ اعمالِ واجبہ کاقلب میں رسوخ ہوجائے بس صرف یہی مقصود ہے اسی کیلئے ضرورت ہے شیخ کامل کی تاکہ اس کی صحبت اور تعلیم پر عمل کرنے سے یہ اعمالِ واجبہ راسخ ہوجائیں ۔ کامل ہی کی صحبت اس کیےلئے شرط اور اکسیر ہے کیونکہ وہ اس راہ سے گزر چکا ہے وہ اس راہ کا واقف کار ہے اسکے پاس جاؤ اس سے تعلق پیدا کرو ان شاءاللہ لوہے سے سونا بن جاؤ گے پتھر سے لعل ہوجاؤ گے مولانا اسی کو فرماتے ہیں۔

گرتو سنگ خارہ ومرمر شوی – چوں بصا حبدل رسی گوہر شوی
نفس نتواں کشت الاظل پیر – دامن آن نفس کش راسخت گیر
(اگر تم سنگ خارا یا سنگ مرمر بھی ہو۔ اگر صاحب دل کے پاس پہنچ جاؤگے تو موتی بن جاؤگے پیر کے سایہ کے بغیر نفس نہیں مرتا۔لہذا اس نفس کو مارنے والے کا دامن خوب مضبوط پکڑلو)

لیکن اس اثر کیلئے ایک اور بھی شرط ہے وہ یہ کہ اس صحبت کے کچھ آداب ہیں ان کو پورا کرو جن کا خلاصہ مولانا فرماتے ہیں۔

قال رابگذار مرد حال شو – پیش مردے کاملے پامال شو

پامالی کی تفسیر یہ ہے کہ تم اپنے حالات سے اس کو آگاہ کرو اور اپنا کچا چٹھا بیان کرڈالو اس پر وہ مناسب تعلیم دےگا کبھی آپریشن کی ضرورت بھی ہوگی۔ڈانٹ ڈپٹ بھی ہوگی سب کچھ سننا پڑے گا اور اگر کہیں اس پر دل میں کدورت اور ناگواری پیدا ہوئی تو بس محرومی رہے گی اسی کو مولانا فرماتے ہیں۔

گر بہتر زخمے تو پر کینہ شوی –  پس کچا بے صیقل آئینہ شوی

اس راہ میں قدم رکھنے سے قبل سب باتوں کے لئے تیار رہنے کی ضرورت ہے اس طریق میں فنا و ذلت کو سر رکھ کر ہر قسم کی جاہ اور عزت کو خیرباد کہہ کر آنا چاہیے پھر کامیابی ہی کامیابی ہےاور یہ سب اس راہ میں قدم رکھنے سے پہلے ہونے کی ضرورت ہے جس کو فرماتےہیں

دررہ منزل لیلی کہ خطر ہاست بجاں – شرط اول قدم آنست کہ مجنوں باشی

(وصل لیلی کی راہ میں جان کو بہت سے خطرات تو ہیں ہی مگر اول قدم رکھنے کی شرط یہ ہے کہ مجنون بنو)

اور ایک دو دن کے لئے نہیں بلکہ ساری عمر کے تیاری کر کے قدم رکھنے کی ضرورت ہے اسی کو فرماتے

اندریں رہ می تراش ومی خراش – تادم آخردمے فارع مباش

(راہ سلوک میں بہت تراش خراش ہیں لہذا آخر دم تک ایک دم کے لیے فارغ نہ ہو بلکہ کام میں لگے رہو )

اگر کسی قدم پر پہنچ کر بھی بھاگ نکلا اور برداشت نہ کر سکا تو بس ناکامی ہے تو ایسی حالت میں اس راہ میں قدم رکھنا ہی عبث اور فضول ہے اسی کو فرماتے ہیں۔

توبیک زخمے گریزانی زعشق –  توجزنامے چہ میدانی زعشق
(تو ایک زخم کھاکر عشق سے بھاگتا ہے تو بجز نام کے عشق کی حقیقت کو جانتا ہی نہیں )

اور جس نے اس راہ میں صدق اور خلوص سے قدم رکھا تو اس کے لئے سب آسان کر دیا جاتا ہےاگرچہ وہ ہم کو مشکل معلوم ہو کیوں کہ مشکل ہمارے لئے ہے۔ان کے لیے تو سب آسان ہے اور وہ صرف ہمارے صدق خلوص اور طلب کو دیکھتے ہیں پھر سب کا م وہ خود ہی کر دیتے ہیں بس ہمت سے چل کر کھڑے ہونے کی ضرورت ہے اسی کو مولانا فرماتے ہیں

گرچہ رخنہ نیست عالم راپدید – خیرہ یوسف دارمی باید دوید
(اگرچہ بظاہر دنیا کے علائق سے نکلنے کے لیے کوئی راہ نظر نہیں آتی مگر تجھ کو چاہیے کہ حضرت یوسف علیہ الصلاۃ و السلام کی طرح چلنا شروع کر دے ان شاء اللہ مدد خداوندی تیری دستگیری فرمائے گی)

مطلب یہ ہے کہ تمام حجابات اور جو چیزیں اس راہ میں منزل مقصود تک پہنچنے میں موانع ہیں وہ سب کو دفع فرمادیتے ہیں کیونکہ وہ حقیقی موانع ہی نہیں ورنہ ان کے ہوتے ہوئے عبدوصول کا مکلف نہ ہوتا محض خیال ہی خیال ہے اسی کو فرماتے ہیں۔

اے خلیل اینجا شرارودود نیست – جزکہ سحر و خدعہ نمرود نیست
(اے خلیل الله یہاں آگ اور دھواں کچھ نہیں ہے یہ صرف نمرود کا جادو اور دھوکہ ہے)

اور اگر بفرض محال مشکلات بھی ہوں تو وہ ہمارے ہی نزدیک تو مشکلات ہیں ان کے نزدیک کیا مشکل اور کیا دشوار سب آسان ہے اسی فرماتے ہیں

تو مگو مارا بداں شہ بارنیست – باکریماں کارہا دشوار نیست
(یہ مت کہو کہ ہماری اس شان تک رسائی کہاں ہے کیوں کہ کریموںکا کوئی کام دشوار نہیں ہے وہ تو خود تم کو اپنی طرف جذب فرما لیں گے)

اور یوں تو دشوار کا آسان ہونا درحقیقت ان کی قدرت اور تصرف سے ہے کسی اسباب ہی کی ضرورت نہیں ۔مگر بظاہر عالم اسباب میں تسلی طالب کے لئے اس کا ایک سبب عادی بھی ہے اور اور وہ عشق و محبت ہے کہ طالب صادق کو اول یہ عطاء ہوتی ہے پھر اس عشق ومحبت کی بدولت سخت سے سخت دشوار کام سہل معلوم ہونے لگتا ہے جو عاشق ہو گا وہ کبھی مایوس ہو کر نہیں بیٹھتا دیکھئے ایک مردار کتیا فاحشہ کے عشق میں انسان کیسے کیسے مشکلات کا مقابلہ کرتا ہے اور وہ تو محبوب حقیقی ہے ان کی تلاش میں ان کی راہ میں تو جس قدر مشکلات کا بھی سامنا ہو اور دشوار گذار گھاٹیوں کو طے کرنا پڑے ان حقیقت ہی کیا ہے مجنون ہی قصہ دیکھ لیجئے کہ لیلیٰ کے عشق میں کیا کچھ گوارا نہیں کیا حضرت ادہم اس عشق ہی کی قوت سے موتی کی تلاش میں سمندر  سینچنے پر تیار ہوگئے تیار کیا معنی سینچنا شروع کر دیا ظاہر ہے کہ اگر اپنی ساری عمر بھی ختم کر دیتے تب بھی سمندر کو نہ سینچ سکتے تھے مگر ہمت کی برکت سے اس طرف سے امداد ہوئی سب آسان ہوگیا تو جب ان مجازی عاشقوں کے ساتھ یہ معاملہ ہے تو کیا اپنے عاشق صادق کی نصرت اور امداد نہ فرمائیں گے یہ کیسے ہو سکتا ہے اور کیا اس عشق حقیقی کا درجہ اس مجازی سے بھی کم ہے اسی لیے فرماتے ہیں

عشق مولے کے کم لیلی بود –  گوئے گشتن بہر او اولی بود
(حق تعالی کا عاشق لیلیٰ کے عاشق سے کب کم ہونا چاہیے مرضی حق کے آگے مثل گیند کے ہو جانا زیادہ اولیٰ ہے کہ بلے نے جدھر پھینک دیا ادھر ہی چلی جاتی ہے )

مگر کامیابی کی شرط وہی ہے جو اوپر عرض کی گئی ہے کہ

دررہ منزل لیلی کہ خطرہاست بجاں – شرط اول قدم آنست کہ مجنوں باشی

اور یہ عشق ہی وہ چیز ہے کہ سب کو فنا کردیتا ہے سوائے محبوب کے اور کسی چیز کو باقی نہیں چھوڑتا اسی کو فرماتے ہیں۔

عشق آں شعلہ است کوچوں بر فروخت – ہرچہ جز معشوق باقی جملہ سوخت

گلزار ابراہیم میں اسی کا ترجمہ ہے۔

عشق کی آتش ہے ایسی بدبلا – دےسوا معشوق کے سب کوجلا

باقی اس محبت کے پیدا کرنے کا طریقہ میں پہلے بیان کر چکا ہوں کے اہل اللہ کی محبت اہل اللہ کی محبت اختیار کرو ان کی محبت و صحبت کی برکت سے ان شاءاللہ دل میں عشق و محبت کی آگ پیدا ہو جائے گی اور بدون اس کے تو کامیابی مشکل ہے ان کی صحبت سے وہ کیفیت قلب میں پیدا ہوجائے گی کہ اس کے بعد بزبان حال یہ کہنے لگو گے

نشود نصیب دشمن کہ شود ہلاک تیغت – سردوستان سلامت کہ توخنجر آزمائی
(آپ کی تلوار سے ہلاک ہونا خدا کرے دشمن کے نصیب میں نہ ہوں دوستوں کا سر سلامت ہے جب چاہیں خنجر آزمائی فرما لیں)