( ملفوظ 22 )تعلیم کے شرائط

ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ ایک صاحب نے مجھ سے بیعت کا تعلق پیدا کرنا چاہا میں نے انکار کردیا مگر تعلیم سے عذر نہیں کیا اور بیعت اس لئے نہیں کیا کہ مجھ کو ان کی حالت سے ابدازہ ہوچکا تھا کہ اس وقت جوش سے اگر ہوش میں آجائیں اور پھر بھی یہی رائے رہے تب ٹھیک ہے ان کا اصرار تھا میں نے کہا آپ تو بیعت پر مصر ہیں جو طبعا وعرفا بہت قوی تلعق ہے میں تعلیم میں بھی یہ شرط لگاتا ہوں کہ اگر مجھ کو شبہ پیدا ہوجائے گا کہ تو میں خط واکتابت کو بھی قطعا بند کردوں گا وہ اس کو منظور نہ کرتے تھے مگر اب وہ اعتقاد وغیرہ سب غائب ہوگیا خط و کتابت میں گڑ بڑ شروع کی میں نے منع کردیا کہ آئندہ خط و کتابت کی جازت نہیں مجھ کو اپنی رائے کے صائب ہونے پر مسرت ہوئی اب بتلایئے کہ جو صاحب مشورے دیتے ہیں کہ نرمی کرو اور یہ کرو میں ان کے کہنے سے اپنے ان تجربات کو کیسے چھوڑ دوں –

( ملفوظ 21 )جواب دینے کے لئے قیود وشرائط

ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ مجھ کو علماء کا طرز ناپسند ہے کہ سائل کے ہر سوال کے جواب دینے کی کوشش کرتے ہیں – جواب دینے کے بھی تو کچھ شرائط ہیں – آخر نماز اتنا بڑا رکن ہے دین کا بڑامگر وہ بھی قیود اور شرائط سے خالی نہیں ان شرائط کا حاصل یہ ہے اول یہ دیکھ لینا چایئے وہ سوال ضروری ہے یا غیر ضروری پھر اگر یہ بھی معلوم ہو جائے کہ فی نفسہ ضروری ہے تو پھر یہ دیکھنا چایئے کہ مشغلہ کے طور پر سوال کر رہا ہے یا واقع میں بھی اس کو ضرورت ہے – اگر محض مقصود ہے اور عمل وغیرہ مقصود نہیں تو ایسے شخص کو ہر گز نہ جواب دیا جائے البتہ علم کا جو حصہ فرض عین ہے وہ اس سے مستثنی ہے – غرض اس قسم کی باتوں کا خیال رکھنا علماء کو بہت ضروری ہے – علماء نے جو ان اصول کو چھوڑ دیا اس سے بہت مخلوق فضول میں مبتلا ہوگی یہی وجہ ہے کہ عوام الناس جاہل تک علماء کو اپنا تختہ مشق بنالیتے ہیں اور مسائل دینیہ میں اپنے منصب کے خلاف دخل دیتے ہیں اور بلا ضرورت خواہ مخواہ عملاء کو پریشان کرتے اور جھگڑوں میں پھنساتے اور عملاء کے ایسا کرنے کا سبب اکثر جاہ ہے کہ جواب دینے زیادہ معتقد ہوجائے گا یا اور اغراض فاسدہ مثلا یہ کہ ہم کو بدنام کریں گے یا اپنے دل میں سمجھیں گے کہ انہیں کچھ آتا جاتا نہیں یامدرسہ کا چندہ بند کردیں گے اس لئے سوال کا جواب دینے کو تیار ہوتے ہیں سو یہ بھی اچھی خاص مصیبت ہے معلوم بھی ہے کہ مجھے بڑے سے بڑے عالم محقق امام اور مجتھد کو بھی بعض مسائل پر لاادری ( مجھے معلوم نہیں ) کہنے کے سوا کچھ نہیں بن پڑا یہ ہے کہ علماء کو کا تابع نہ ہونا چاہیئے بلکہ سائل کو اپنا تابع بنانا چاہہئے جہاں سوال ضروری ہو اور طالب کو بھی فی الحقیقت ضرورت ہو وہاں اپنے اور کاموں کو چھوڑ کر بھی جواب دینا چاہئے اس لئے وہاں دین کی ضرورت ہو وہاں اپنے کاموں کو چھوڑ کر بھی جواب دینا چاہئے اس لئے وہاں دین کی ضرورت ہے حاصل یہ ہے کہ دین کے تابع خود بھی بنو اور دوسروں کو بھی بناؤ – دین کو کھیل تفریح مت بناؤ جیسا کہ ہو رہا ہے مولانا عبدالقیوم صاحب مقیم بھوپال کا معمول تھا کہ فضول سوال جواب نہ دیا کرتے تھے اگر سوال کرتا یہ مسئلہ کس حدیث میں ہے تو فرمایا کرتے کہ میں نو مسلم ہوں جو حدیث تلاش کرنے کو اپنے ان بڑوں سے دین پہنچا ہے مطلب یہ تھا کہ یہ بتلانا چاہئے تھے کہ سوال تیرا فضول ہے تو علماء کو یہ طرز احتیار کرنا چاہئے اور اس وقت کا جو طرز ہے وہ مفر ہے اور اس میں بڑے بفاسد ہیں –

( ملفوظ 20 ) خانقاہ میں قیام کے شرائط

ایک صاحب کے سوال جواب میں فرمایا اگر نفس کے ضروری حقوق ہیں یا عیاں کے حقوق میں کسی قسم کی بھی کوتاہی ہو اس حالت میں یہاں قیام کرنا نافع نہیں اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے اپنے بزرگوں کی دعا کی برکت سے میرے یہاں ہر چیز اپنی حد پر ہے وہ معاملہ نہیں جیسے آجکل دکاندار مشائخ رسم پرستی کرتے ہیں اور دوسروں سے کراتے ہیں مجھ کو یہ باتیں پسند نہیں ہر بات صاف اور اپنی حد پر رہنی چایئے –

( ملفوظ 19 )بلا ضرورت سوال کا جواب نہ فرمانا

ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ جب کوئ مجھ سے علمی سوال کرتا ہے تو میرا معمول ہے کہ میں جواب سے پہلے دو امر کی تحقیق کر لیتا ہوں پھر جواب دیتا ہوں ایک تو یہ کہ سائل کو علم کس قدر ہے ـ دوسرے یہ اطمینان ہوجائے کہ واقعی خلوص سے پوچھ رہا ہے اگر کوئی طالب سوال کرتا ہے تو اس کو یہ دیکھنا ہوں کہ اپنے استادوں سے کیوں نہیں پوچھتے بعض ایسے ذہین ہوتے ہیں کہ اساتذہ سے پوچھا تھا مگر شفاء نہیں ہوئی میں لکھتا ہوں کہ ان کی تقریر لکھو کہ انھوں نے کیا بیان کیا اور جو تم اس کا مطلب سمجھتے ہو وہ لکھو پھر جو شبہ ہو وہ لکھو تاکہ میں واقعہ اور فہم کا اندازہ کروں مگر پھر کوئی کچھ نہیں لکھتا اگر واقعی تحقیق کیا تھا تردد رہا اور شفا نہ ہوئی تو لکھنا چاہیئے تھا محض ایک مشغلہ ہے کہ لاؤ بیٹھے ہوئے بلا ضرورت یہ بھی سہی سو یہاں باتیں نہیں چلتیں پھر اس پر خفا ہوتے ہیں جی یوں چاہتا ہے کہ ضرورت کے موافق دوسرے کو تکلیف دی جائے فضول باتو ں سے خود بھی اجتناب رکھیں اور دوسرے کو بھی پرشان نہ کریں پھر ضرورت میں بھی استادوں کا وجود بھی عبث نہیں ان سے استفادہ کرنا چایئے –
3 ذیقعدہ 1350 ھ مجلس خاص بوقت صبح یوم شنبہ

( ملفوظ 18 )طریق اور اس کا مقصود

ایک صاحب کے سوال کے جواب میں فرمایا کہ اس طریق میں نکات اور لطائف ہیچ ہیں یہ سب باتیں طریق کی حقیقت سے بیخبری کی بدولت ہو رہی ہیں طریق تو اعمال ہے اور مقصود رضاء حق ہے یہ حقیقت ہے اس طریق کی ایسے ہی طالب میں صدق اور خلوص کی ضرورت ہے اگر یہ نہیں تو محروم رہیگا ـ

( ملفوظ 17 )لوگوں کے ہنسنے پر آپکا ضرر نہیں

ایک صاحب نے عرض کیا کہ حضرت فلاں مقام پر جو جدید مدرسہ بچوں کی تعلیم قرآن و دینیات کے لۓ ہم لوگوں نے جاری کیا ہے اس پر لوگ ہنستے ہیں کہ یہ تو چھے مہینے کا ہے پھر نہ مدرسہ رہے گا نہ مدرسی فرمایا کہ ہنسنے دیجیے آپ کا کیا ضرر ہے اگر ایک شخص کو ایک وقت کی نماز پڑھنے کی توفیق ہو جاہۓ تو ایک ہی وقت کی سہی ایک وقت کا تو قرض ادا ہوا نہ پڑھنے سے تو بہتر ہے مولا نا جامی رحمتہ اللہ علیہ سے کسی نے کہا تھا کہ فلاں شخص ریا سے ذکر کرتا ہے فرمایا کرتا تو ہے تم کو تو ریا سے بھی کبھی توفیق نہ ہوئ تمہارا کیا منہ ہے اعتراض کا حاصل جواب یہ ہے کہ اول تو ریا ہی کا ثبوت نہیں دوسرے ممکن ہے ریاء ہی سے عادت ہو جاۓ پھر عمل بلا ریا ہونے لگے ایک مجتہد شیعی نے ایک مولوی صاحب سے نانوتہ میں کہا تھا آپ حضرات نے فلاں کام کیا تھا جس میں خطرات بھی تھے آخر کیا نتیجہ نکلا بجز پریشانی کے جواب میں مولوی صاحب نے یہ قطعہ پڑھ دیا ـ سود اقمار عشق میں شیریں سے کوہکن بازی اگرچہ پا نہ سکا سر تو کھو سکا کس منہ سے اپنے آپ کو کہتا ہے عشق باز اے رو سپاہ تجھ سے تو یہ بھی نہ ہو سکا اگر کوئ شخص تبلیغ کرے اور سو برس کی کوشش میں ایک شخص بے نمازی سے نمازی ہو جاۓ تو کو شش بیکا ر نہیں گئ کار آمد ہوئ کچھ تو ہوا کچھ نہ ہونے سے نہتر ہوا بلکہ میں تو توسع کر کے کہتا ہوں کہ اگر ساری عمر کی کوشش کا بھی بظاہر کوئ نتیجہ نہ نکلے مثلا ایک نمازی بھی نا ہوا تب بھی کوشش بیکار نہیں کار آمد ہے ظاہر کی قید میں نے اس لیۓ لگائ کہ باطن میں اس کا نفع ہو ہی رہا ہے یعنی ثواب مل رہا ہے مگر آج کل لوگوں کی عجیب حالت ہے جس کو ماموں صاحب فرمایا کرتے تھے کہ یہ وہ زمانہ ہے کہ نہ آپ چلیں نہ دوسرے کو چلنے دیں حتی کہ کام کرنے والے کو بد دل کر دیتے ہیں ـاس پر ایک حکایت بیان فرمایا کرتے تھے کہ غدر کے زمانہ میں ایک میدان میں کچھ لاشیں پڑی ہوئ تھیں ان میں ایک زخمی سپاہی بھی پڑا ہوا تھا اس سپاہی کو خیال ہوا کہ دن تو جس طرح بھی ہو گا گزر جاۓ گا مگر تنہا شب کا کاٹنا مشکل پڑے گا مزاحا فرمایا اس سپاہی کو تنہائ کی ضرورت نہ تھی تنہا کی ضرورت نہ تھی ـ ( یعنی کئ تن کی) ایک لالہ جی اس طرف سےگزر رہے تھے سپاہی نے آواز دی ـ لالہ جی آواز سن کر گبھراۓ ہ لاشوں میں کیسی آواز ہے اس سپاہی نے کہا کہ ڈر مت مرا نہیں زخمی ہو گیا ہوں اور میری کمر میں ایک ہمیانی بندھی ہے اگر میں مر گیا یونہی بیکار جاۓ گئ تم کھول کر لے جاؤ تمہارے ہی کام آۓ گی لالہ جی کے روپیہ کا نام سن کر منہ میں پانی بھر آیا اور ڈرتے ڈرتے سپاہی کے قریب پہنچے سپاہی نے کہا کہ مجھ میں تو کھول کر دینے کی قوت نہیں ہے تم خود کھول لو جب لالہ جی بالکل قریب ہو گۓ سپاہی نے برابر سے تلوار اٹھا کر لالہ جی کے پیروں پر رسید کی ، گر پڑے پھر بھی ہمیانی ٹٹولی مگر وہاں کچھ بھی نہیں تھا تب سپاہی سے پوچھا کہ یہ کیا کیا سپاہی نے کہا لالہ جی بیوقوف ہوۓ ہوۓ ہو میدان جنگ میں کوئ ہمیانی روپوں کی بھی باندھ کر آیا کرتا ہے ـ یہ تو ایک تدبیر تھی تم کو اپنے پاس رکھنے کی شام قریب ہونے کو تھی خیال ہوا کہ رات کو دل گھبراویگا کسی کو پاس رکھوں تم نظر آگۓ اب بات چیت میں رات گزرے گی ـ تب لالہ جی نے کہا کہ اوت کا اوت نہ آپ چلے نہ اور کو چلنے دے تو یہ زمانہ وہی ہے کہ نہ خد کوئ کام کریں ـ نہ دوسروں کو کرنے دیں اگر خاموش ہی رہیں تو اچھا ہے نہیں خاموش نہیں بیٹھا جاتا بلکہ اور کام میں روڑے اٹکاتے ہیں ـ

ملفوظ 16 ) الحرص علی الجاہ

(( مقلب بہ الحرص علی الجاہ ) ایک صاحب کے سوال کے جواب میں فرمایا لہ جی ہاں آجکل تو بعض علماء بھی لیڈوں کے ہم خیال بن کر سلطنت کے خواہشمند ہیں اور زیادہ حیرت تو اس پر ہے کہ اس اخواہش میں احکام کی مطلق پرواہ نہیں کرتے – زمانہ تحریکات میں جو کچھ کیاگیا وہ اظہر من الشمس ہے اور احکام کے سامنے سلطنت تو کیا چیز ہے جن جٓکے قلوب میں حق تعالیٰ کی اور اس کے احکام کی محبت پیداہوچکی ہے ان کی نظر میں تمام دنیا کا وجود مچھر کے برابر بھی نہیں ان کے نزدیک تو اسکی بالکل ایسی مثال ہے کہ جیسے چھوٹے چھوٹے بچے مٹی یا ریت کے گھر بنالیتے ہیں اور وہ اس میں سے کسی کا نام دیوان خانہ اور کسی کا بالا خانہ رکھتے ہیں تو عقلاٰٰء ان بچوں پر ہنستے ہوئے گزرتے ہیں اور ان سے کہتے ہیں کہ ہم تم کو حقیقی دیوان خانہ اور بالاخانہ دکھائیں ان کو دیکھو –
اسی طرح خاصان حق اہل اللہ آپ کے ان محلوں اور کوٹھی بنگوں کو دیکھ کر ہمٓنستے ہیں اور آخرت کی تر غیب دیتے ہیں اور تمہاری اس فانی سلطنت کی حقیقت وہ جو ایک بزرگ نے ایک بادشاہ کو بتلائی تھی یعنی بادشاہ دریافت کیا کہ اگر کسی موقع پر آپ جارہے ہوں – اور پانی پاس نہ ہو اور شدت پیاس سے جانپر بن رہی ہو ایسے وقت کوئی شخص ایک کٹورا پانی لے کر آئے اور یہ کہے کہ نصف سلطنت کے بدلے یہ کٹورا پانی کا فروخت کرتا ہوں آپ خرید لیں گے بادشاہ نے کہا ضرور خرید لوں گا پھر ان بزرگ نے کہا کہ اتفاق سے تم پیشاب کا بند لگ جائے اور کوئی علاج مفید نہ ہو اور کوئی شخص یہ کہے کہ اگر بصف سلطنت دو یہ کھول دوں گا کیا کروگے بادشاہ نے کہا کہ نصف سلطنت دیدوں گا ان بزرگوں نے کہ یہ حقیقت ہے تمہارے سلطنت کی کہ آدھی سلطنت کی قیمت ایک کٹورا پانی کا اور آدھی سلطنت کی قیمت ایک کٹورا پیشاب کا بس یہ ہے وہ سلطنت جس کے لئے آجکل عقلاء ان کے ہم خیال بعض مولوی سرگردان اور پر یشان حال ہیں اور آخرت کو بھی گئے ہیں سلطنت حاصل کرنے کو یا ترقی کرنے کو منع کرتا خوب ترقی کرو خوب سلطنت اور حکومت کرو میں خود ترقی کو پسند کرتا ہوں مگر اس میں کچھ شرط بھی تو ہے وہ یہ کہ احکام شریعت کو محفوظ کرتے ہوئے حدود اسلام پر نظر رکھتے ہوئے حاصل کرو البتہ اس کے عکس کے خلاف ہوں کیونکہ ایسی حکومت مسلمانوں کے کام نہیں ہوسکتی جس میں پہلے احکام شرعیہ کو پامال کردیا جائے سو ایسی سلطنت باعث ترقی نہیں ہوسکتی بلکہ باعث نحوست ہوگی کو مقاصد سے اختلاف نہیں طریق کار سے اختلاف ہے میں یوں کہتا ہوں کہ سلطنت ہو یا حکومت مال ہو یا جاہ عزت ہو یا آبرو اگر تم خدا کے احکام کی حفاظت کرتے ہوئے ان پر کار بند رہتے ہوئے حاصل کر سکو تو تم ہزار بار مبارک اس لئے کہ اس صورت میں یہ چیزیں احکام اسلام کی اشاعت کا ذریعہ ہوں گی اور اگر اس کے ساتھ اغراض فاسدہ وابستہ ہیں جیسا آجکل کے واقعات سے بالکل ظاہر ہے تو ایسی سلطنت اور حکومت پر لعنت ہزار بار لعنت ایسی چیز مبغوض ہے منحوس ہے مردود ہے جو خدا کی یاد سے غافل کردے یا احکام سے دور کردے حضرات صحابہ رضی اللہ عنہم کی سلطنت کو پیش کرتے ہیں یہ بھی معلوم ہے کہ اس ساتھ ہی وہ حضرات احکام اسلام پر کس طرح عاشق تھے اور کس سختی سے ان کے پابند تھے عین قتال کے وقت جوش کی حالت میں بھے احکام میں بھی احکام کا ہوش رکھتے تھے مثلا یہ مسئلہ ہے کہ اگر عین قتال کے وقت اس حالت میں کلمہ پڑھ لے تو فورا ہاتھ روک لو کیا اب کوئی ایسا کرسکتا ہے ـ رات دن کے معمولات اور معاملات میں تو حدود اور احکام کی پابندی کی ہی نہیں جاتی ایسے سخت وقت میں تو بھلا کون عایت کرسکتا ہے غرض ہر چیز کے کچھ حدود ہیں قواعد ہیں پہلے طبیعتوں کو ان کا خود گر بناؤ میدان میں آو میں تقسیم عرض ہوں
کہ پھر نصرت خداوندی تمہارے ساتھ ہوگی اور پھر تم
سلف کی طرح تمام پر حکومت کروگے اور بدون
احکام کی پابندی کے اختیار کئے ہوئے حکومت یا سلطنت کا حاصل کرنا ایسا ہے جیسے بلا وضو کے نماز کے پڑھنا یا بدون منتر جانے سانپ پکڑنا جس کا انجام ہلاکت ہے اور اگر بالفرض چندے یہاں حکومت کر بھی لی تو آخرت کی زندگی تو برباد ہوجایئیگی اصل چیز تو وہی ہے جس کہ لئے انبییاء علیہم السلام ہوئی اور وہ ایمان اوع اعمال صاحلہ ہیں ایمان کی حفاظت کرو اور اعمال صالحہ اختیار کرو پھر اس پر خوشخبری بشارت ہے جس کو حق تعالیٰ فرماتے ہیں –
ان الا رض یرثھا عبای الصالحون
( اس زمین کے مالک میری نیک بندے ہوں گے )
یہ بیان تو ان کے لئے تھا جو جاہ کے لئے حکومت اور سلطنت کے خواہاں اور جویاں ہیں باقی اہل اللہ اور خاصان حق جن کو تم تحقیر سے دیکھتے ہو کہ وہ خستہ حالت میں ہیں میلے کچیلے ہیں بے سروسامانی ان کی رفیق ہے وہ ان چیزوں کی پر واہ نہیں کرتے گو بضرورت سلطنت بھی حاصل کرلیں اور اس میں بھی کوشش کریں کہ اپنے کو اس سے علیحدہ رکھ کر دوسرے کے سپرد کردیں اور بادل ناخواستہ ان کے ذمہ پڑجاوے تو پھر اس کے پورے حقوق ادا کریں – میں بقسم عرض کرتا ہوں یہی حضرات کچھ ساتھ لیجانیوالے ہیں تم نے جن سامان کو قبلہ وکعبہ بنا رکھا ہے وہ تم ہی کو مبارک ہوں وہ تو ان سامانوں کو حجاب اور وبال جان خیال کرتے – حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ جب باہان ارمنی کے دربان میں اپنے اسیروں کو چھڑانے کے لئے تشریف لیگئے تو آپ نے دربار کا فرش دیباراور حریر کا اٹھا کر پھینک دیا اس کے سوال پر جواب میں فرمایا کہ تیرے فرش سے ہمارے اللہ کا فرش افضل ہے حضرت بشر حانی رحمتہ اللہ علیہ کا قصہ مشہوت ہے جب آپ نے یہ آیت قران پاک کی “” سنی والارض فرشنھا “” ( اور ہم نے زمین کو فرش بنایا ہے ) اسی وقت اپنے پاؤں سے جوتے نکال کر پھینک دیئے کہ خدا کے فرش پر جوتے پہن کر چلنا خلاف ادب ہے ؛ (یہ غلبہ ہے حال کاجو خوبی ہے مگر حجت نہیں ) اب سنیئے کہ تمام چرند پرند کو حکم ہوگیا جس جس طرف بشر حانی کا گزر ہو کوئی بیٹ نہ کرنے پاویں – غرض ہماری عزت اس ظاہری سامان سے تھوڑا ہی ہے ـ اگر عزت ہے تو بےسروسامان ہی میں ہے جو عیدت سے مسبب ہوا اسی کو فرناتے ہیں –
زیر بار نددر ختاں کہ ثمر ہادار ند اے خوشاسرو کہ بند از بند غم آزاد آمد
دلفر یباںنہاتی ہمہ زیور بستند دلبر ماست کہ باحسن خداداد آمد
( پھل دار درخت زیر باد رہتے ہیں مبارک ہو سرو کہ وہ تمام غموں سے آزاد حسینان جہاں کو بناؤ سنگھار کی ضرورت ہوتی ہے اور ہمارے محبوب کو حس خداد حاصل )
حضرت غوث پاک رحمتہ علیہ کی خدمت میں بادشاہ سنجر نے ایک مرتبہ لکھ کر بھیجا کہ معلوم ہوا ہے کہ حضرت کیخدمت میں اکثر مجمع خدام کا رہتا ہے اگر اجازت ہو تو ایک حصہ ملک کا خدام کے لئے حضرت کی خدمت میں پیش کردوں حضرت نے جواب میں لکھ بھیجا –
چوں چتر سنجرے رخ سیاہ باد دردل اگر بود ہوس ملک سنجرم
زانگہ کہ یافتم خبر از ملک نیم شب من ملک روز بیک جو نمی خرم
( اگر میرے دل میں ملک سنجر کی ہوس ہوتو جس طرح سنجر کا چتر سیاہ ہے میرا نصیب بھی سیاہ ہو – اور جس وقت سے ملک نیم شب ( یعنی عبادت نیم شبی ) کی مجھے خبر ہوئی ہے میں تو ملک روز کو ایک جو کے بدلے میں بھی نہ خریدوں )
ایک بزرگ کو کسی بادشاہ نے لکھا تھا کہ ہم مرغ کھاتے ہیں اور تم خشک روتی ہم دیبا اور حریر پہنتے ہیں اور تم گرڑھی اوڑھتے ہو تم مصیبت میں اور تکلیف میں ہو تم ہمارے پاس آجاؤ تو ہم تہماری خدمت کریں گے اور یہاں پر تم کو کوئی تکلیف نہ ہوگی ان بزرگ نے جواب میں لکھا کہ
خوردن تو مرغ مسمی دمے طعمہ مانانک جویں ما
پوشش تو اطلس دو یبا حریر بخسیہ زدہ خرقہ پشمین ما
( تیری غزا بھنا ہوا —– مرغ اور شراب ہے ہماری خزاجوکی روٹی تیرا لباس اطلس اور دیبا اور ریشم ہے – اور ہمارا لباس ہماری پیوند زدہ گدڑی ہ )
اور آخر میں فرماتے ہیں
نیک ہمیں است کہ می مگزرد راحت تو محنت دو شیں ما
باش کہ تاطبل قیامت زنند آن تو نیک آیدہ ویاایں ما
عنقریب یہ سب چیزیں گزر جاویں گی تیری راحت بھی اور ہماری تکلیف بھی ذرا انتظار کرو کہ قیامت کا طبل بجاویں پھر دیکھنا ہے کہ تیری حالات درست ہوں یا ہمارے )
مطلب یہ ہے کہ اس روز معلوم ہوگا کہ یہ حالت اچھی تھی یا وہ اور صل بات تو یہ ہے کہ ان بادشاہوں کی یہی رائے ان بزرگوں کو تکیف میں سمجھتے تھے غلط تھی – ان حضرات کے قلوب میں ایک ایسی چیز ہوتی ہے کہ وہ سبب سے مستغنی کردیتی –

( ملفوظ15 )حکایت مولوی شاہ سلامت اللہ کان پوری

ایک سلسلہ میں گفتگو میں فرمایا کہ انگریزئ کی بدولت آدمیت بھی جاتی رہی حوانیت کا غلبہ ہورہا ہے اور دین بھی بالکل برباد ہوجاتا ہے جن کو اسکا احساس ہوگیا ہے وہ بچ بھی سکتے ہیں چنانچہ ایک شخص نے اپنے لڑکے کو انگریزی تعلیم پڑھانی چاہی اور اور وہ لڑکا پڑھنا نہیں چاہتا تھا اس لڑکے نے مجھ سے کہا میں نے تدبیر بتائی تم فیل ہوجایا کرو وہ دو مرتبہ فیل ہوگیا باپ نے کہا نالائق ہے جا عربی پڑھ ، ملا بن بس پیچھا چھوٹ گیا ـ اعتنٓبار ہوگا ایسے خواب پر ایک حکایت یاد آئی کہ ایک شخص رار کو چار پائی پر پیشاب کرتا تھا بیوی نے کہا تو بڈھا خرانٹ ہو ہو کرچار پائی پر موتتا ہے اس نے کہا کہ شیطان خواب میں کلے جاتا ہے اور کسی جگہ بٹھلا کر کہتا ہے کہ پیشاب کر لے سو وہ ایسا کراتا ہے میاں بیوی مفلس بھی تھے بیوی نے کہا جب شیطان سے تیری دوستی ہے ہو جنوں کا بادشاہ ہے اس سے مال کیوں نہیں مانگتا اس نے کہا آج کہوں گا خرض رات کو بدستور شیطان خواب میں آیا اس نے کہا کہ خالی پھیکھے لیجاتے ہو تم کو یہ خبر نہیں کہ ہم غریب ہیں تو کہیں سے مال دلواؤ تم خزانوں کی خبر ہے شیطان نے کہا کہ پہلے سے تم نے کہا کیوں نہیں چلو میرے ساتھ جس قدر روپیہ کی ضرورت ہولے لو یہ ساتھ ہولیا ایک ایک خزانہ پے لیجا کر کھڑا کیا اور وہاں سے ایک بڑا بھاری روپیہ کا توڑا کندھے پر رکھوا دیا اس میں وزن تھا زیادہ بوجھ کی وجہ سیے پیشاب تو کیا پاخانہ نلکل گیا آنکھ کھلی تو دیکھا کہ نہ خزانہ ہے نہ روپیہ صرف پاخانہ ہے خواب میں تو خزانہ تھا ـ اور بیداری میں پاخانہ ہو گیا ـ اسی طرح جب اس عالم دنیا سے عالم آخرت کی طرف جاؤ گے اور وہاں آنکھ کھلے گی تب معلوم ہو گا وہاں جو خزانہ تھا یہاں پاخانہ ہے پھر اس کی ساتھ ہی یہ حالت کہ بیک بینی دو گوش تن تنہا ـ نہ کوئ یار نہ مددگار یہ تو یہاں کے متاع کی حقیقت نظر آویگی ـ اور جب وہاں کے درجات اور نعماء دیکھو گے تو وہی کہو گے جو حدیث شریف میں آیا ہے کہ اگر نیا میں ہماری کھال قینچیوں سے کاٹی جاتی اور ہم کو یہ درجہ ملتا تو کیا خوب ہوتا مگر اللہ تعالیٰ کی تحمت ہے کہ وہ اپنے اکثر بنوں کو دونو ں کی جگہ راحت دیتے ہیں اگر کسی کو تکیف بھی ہوتی ہے تو وہ محض جسمانی تکلیف ہوتی ہے اور ان کی یاد کرنے والوں کو اس میں روحانی پر یشانی نہیں ہوتی –

(ملفوظ 14 )فطری بات بتلانے کی ضرورت نہیں

ایک لڑکے نے آکر تعویز مانگا اور یہ نہیں بتلایا کہ کس چیز کا تعویز حضرت ذالا نے فرمایا کہ ابھی سے بد تمیز کی باتیں سیکھنا شروع کردو اس وقت کے بگڑ ہوئے ساری عمر بھی سیدھے نہ ہوگے ایک صاحب نے عرض کیا معلوم ہوتا کہ گھر والوں نے تعلیم نہیں دی فرمایا کہ بالکل غلط فرمایا گھر والے ضرور کہتے ہیں کہ فلاں چیز کا تعویز لے آو اس سے زیادہ بتلانے کی ضرورت نہیں کیونکہ سیدھی بات ہے اور سیدھی ہی بات فطری ہوتی ہے اس کے بتلانے کی کیا ضرورت ٹیڑھی بات سکھلانے کی ہوتی ہے آج کل اگر تعلیم کرتے ہیں تو الٹی بات کی چنانچہ اکثر ایسا ہوتا ہے ـ ایک شخص مکان سے تعویز لینے چلا اور یہ بھی اس کے زہن میں ہے کہ فلاں چیز کے لئے تعویز کی ضرورت ہے اور فطرت مقتظا ہے وہ آتے ہی خود سب کہ دیتا مگر اب اس کو یہ سکھلایا جاتا ہے کہ جب تک نہ پوچھیں بولنا مت تو یہ بد تمیزیاں البتہ سکھلائی جاتی رہی سیدھی بات ـ وہ اصلی چیز ہے اس میں تعلیم کی کون سی ضرورت ہے غیر اصلی چیز میں تعلیم کی ضرورت ہوتی ہے حضرت والانے اس لڑکے سے فرمایا کہ تم نے اس وقت بد تمیزی کی جس سے سخت طبیعت پرشان ہوئی اس لئے آدھ گنٹھ کے بعد آؤ آکر پوری بات کہو اس میں تعلیم بھی ہے اور دوسرے کی پرشانی بھی کم ہوجاویگی تب تعویز ملیگا اور اگر پوری بات نہ کہو گے پھر بھی تعوہیز نہ ملے گا اس وقت وہ لڑکا چلا گیا اور آدھ گنٹھ کے بعد آکر پوری بات کہی تعویز ٓدیدیاگیا

( ملفوظ 13 )تقویٰ سے نور فہم پیدا ہونا

ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ علم کے ساتھ تقویٰ کی سخت ضرورت ہے تقویٰ سے نو فہم پیدا ہوتا ہے جو غیر متقی کو نصیب نہیں ہوتا دیکھئے کہ حضرت صحابہ میں اکثر وہ حضرات تھے جو نہ لکھنا جانتے تھے نہ پڑھنا مگر بڑے بڑے شاہان دنیا سے جب مخاطب کا اتفاق ہوا وہ تو ان کی گفتگو سن کر دنگ رہ جاتے یہ ضرور ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان میں اسلام کے قبل بھی ایک استعداد خاص پیدا کردی تھی مگر ظہور تو اس کا اتباع اور تقویٰ ہی کی بدولت ہوا – اس استعداد پر ایک قصہ یاد آیا کہ حضرت مولانا محمود حسن صاحب رحمتہ اللہ علیہ ایک واقعہ بیان فرماتے تھے کہ دو چچا زاد بھائی سفر میں چلے آپس میں کوئی نزاع پیش آیا ایک بھائی نے دوسرے بھائی کو قتل کردیا قاتل کا چچا مقتول کا باپ تھا لوگ قاتل کو پکڑ کر اس کے پاس لائے اور واقعہ بیان کیا غائت وقار سے اس شخص کی نشست کی ہیئت تک نہیں بدلی اور بیساختہ کہا کہ میری دوہاتھ تھے ایک ہاتھ نے ایک ہاتھ کو کاٹ ڈالا تو کیا اس ہاتھ کو میں کاٹ ڈالوں مگر مقتول کی ماں کو صبر نہ آویگا اس لئے سو اونٹ ہمارے اصطبل سے کھول کر مقتول کی ماں کو دیتے – ایک حبط اس انگریزی داں طبقہ میں اکثر یہ ہو جاتا ہے کہ پڑھتے تو ہیں اور دخل دیتے ہیں دین میں باقی اللہ کے بندے بعضے ایسے بھی ہیں جو اس کا احساس بہی رکھتے ہیں اور اپنی غلطی کا اقرار بھی کر لیتے ہیںـ چناچہ ایک مرتبہ مولوی شاہ سلامت اللہ صاحب کا نپوری وعظ بیان کیا وعظ میں ایک صدر اعلی صاحب بھی شریک تھے کسی شخص نے شاہ صاحب سے مسلئہ پوچھا شاہ صاحب نے مسلئہ کا جواب دیدیا ایک شخص نے کہا کہ صدر اعلی صاحب اس طرح بتلاتے ہیں مولوی صاحب نے بید ہڑک کہا کہ صدراعلی گوہ کھاتے ہیں اب ان تہذیب اور اہلیت دیکھئےـ کھڑے ہو کر کہا کہ مولانا واقعی سود کی ڈگری دینے والے کو یہ منصب نہیں کہ دین میں دخل دے اور میں توبہ کرتا ہوں انشا اللہ آئندہ ایسا کبھی نہ ہو گا اوریہ تمام شغف انگریزی سے صرف دینوی عزت کے لئے ہے سو خود عزت دینوی ہی کوئ چیز نہیں اصل عزت آخرت کی ہے حتی کہ اگر ساری دنیا کسی کو حقیر سمجھے چاروں طرف سے اس کو دھولیں تھپڑیں لگیں ذلت ہو رسوائ ہو تب بھی کوئ چیز نہیں اگر خدا کے نزدیک پیارا اور محبوب ہوـ حضرت ابرا ھیم ابن ادھم بلخی رحمتہ اللہ علیہ ایک مرتبہ جہاز میں سفر کر رہے تھے اس جہاز میں ایک ریئس بھی سوار تھا اس کو تفریح کی ضرورت ہوئ چند مسخرے ہمراہ تھے اب تلاش ہوئ کہ ایسا شخص ملے جس کو تختحہ مشق بنایا جاۓ تو تفریح مکمل ہو سو ایسی حقیر اور پست حالت میں حضرت ابراھیم ابن ادہم بلخی رحمتہ اللہ علیہ ملے انہوں نے ان ہی کو اپنے مزاق کا تختہ مشق بنایا یہ کوچھ نہیں بولے جب دیر ہو گئ تو غیرت خدا وندی جوش میں آئ الہام ہوا کہ اے ابراھیم اگر کہو تو ان سب کو ڈبو دوں عرض کیا کہ اے للہ ان کی آنکھیں نہیں یہ مجھ کو پہچانتے نہیں جیسے آپ میری بدعا ان کے حق میں قبول فرماسکتے ہی میری دعا ان کے حق میں قبول فرمالیجئے میں دعا کرتا ہو ں کہ ان کو صاحب بصیرت بنا دیجئے تاکہ مجھ کو پہچان سکیں حضرت ابراہیم کی دعا قبول ہوگئی اور سب کے سب صاحب بصیرت ہوگئے قدموں میں جا پڑے صاحب نسبت ہو گئے ـ ان کے نزدیک حضرت ابراہیم صاحب ذلت تھے اور اللہ کے نزدیک صاحب عزت تھے یہ کتنی بڑی عزت ہے کہ مالک دو جہاں مشورہ کریں کہ اگر کہو تو سب کو ڈبودوں بس عزت یہ ہے باقی یہاں کی عزت سو اسکی کیفیت تو خواب کی سی ہے اگر کوئی خواب میں دیکھے کہ مجھ کو پکڑ کر حاکم کے سامنے لے گئے اور مجھ کو سزا کا حکم ملاذلت کے تمام اسباب جمع ہیں مگر جب آنکھ کھلی تو کچھ بھی نہیں یا یہ دیکھے کہ میں ہفت اقلیم کا بادشاہ ہوگیا اور چشم خدم ساتھ ہیں عزت کے تمام اسباب جمع ہیں مگر جب آنکھ کھلی تو کچھ بھی نہیں تو کیا ان دو خوابوآں کا کچھ میں دید واس تحمل کی کیا حد ہے اور واقعی اہل عرب میں کوئی بات تو تھی جب تو جنات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان میں بھیجا ان کے جذبات بڑے اچھے تھے بس قوت کے فعل میں آنے کی ضرورت حضور پر ایمان لاتے ہی تمام کمالات اہل پڑے ـ
2ذیقعدہ1350 ہجری مجلس بعد نماز جمعہ