(ملفوظ ۱۳۳) مسئلہ بتلانے سے ڈر معلوم ہونا

ایک سلسلۂ گفتگو میں فرمایا کہ میں سب میں زیادہ آسان تصوف کو سمجھتا ہوں اور سب میں زیادہ مشکل فقہ کو سمجھتا ہوں مگر آجکل اکثر لوگوں کو فقہ ہی میں زیادہ دلیری ہے۔ اس کا سبب جہل یا کم علمی ہے مجھ کو تو مسئلہ بتلانے سے ڈر معلوم ہوتا ہے۔

( ملفوظ 13 )تقویٰ سے نور فہم پیدا ہونا

ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ علم کے ساتھ تقویٰ کی سخت ضرورت ہے تقویٰ سے نو فہم پیدا ہوتا ہے جو غیر متقی کو نصیب نہیں ہوتا دیکھئے کہ حضرت صحابہ میں اکثر وہ حضرات تھے جو نہ لکھنا جانتے تھے نہ پڑھنا مگر بڑے بڑے شاہان دنیا سے جب مخاطب کا اتفاق ہوا وہ تو ان کی گفتگو سن کر دنگ رہ جاتے یہ ضرور ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان میں اسلام کے قبل بھی ایک استعداد خاص پیدا کردی تھی مگر ظہور تو اس کا اتباع اور تقویٰ ہی کی بدولت ہوا – اس استعداد پر ایک قصہ یاد آیا کہ حضرت مولانا محمود حسن صاحب رحمتہ اللہ علیہ ایک واقعہ بیان فرماتے تھے کہ دو چچا زاد بھائی سفر میں چلے آپس میں کوئی نزاع پیش آیا ایک بھائی نے دوسرے بھائی کو قتل کردیا قاتل کا چچا مقتول کا باپ تھا لوگ قاتل کو پکڑ کر اس کے پاس لائے اور واقعہ بیان کیا غائت وقار سے اس شخص کی نشست کی ہیئت تک نہیں بدلی اور بیساختہ کہا کہ میری دوہاتھ تھے ایک ہاتھ نے ایک ہاتھ کو کاٹ ڈالا تو کیا اس ہاتھ کو میں کاٹ ڈالوں مگر مقتول کی ماں کو صبر نہ آویگا اس لئے سو اونٹ ہمارے اصطبل سے کھول کر مقتول کی ماں کو دیتے – ایک حبط اس انگریزی داں طبقہ میں اکثر یہ ہو جاتا ہے کہ پڑھتے تو ہیں اور دخل دیتے ہیں دین میں باقی اللہ کے بندے بعضے ایسے بھی ہیں جو اس کا احساس بہی رکھتے ہیں اور اپنی غلطی کا اقرار بھی کر لیتے ہیںـ چناچہ ایک مرتبہ مولوی شاہ سلامت اللہ صاحب کا نپوری وعظ بیان کیا وعظ میں ایک صدر اعلی صاحب بھی شریک تھے کسی شخص نے شاہ صاحب سے مسلئہ پوچھا شاہ صاحب نے مسلئہ کا جواب دیدیا ایک شخص نے کہا کہ صدر اعلی صاحب اس طرح بتلاتے ہیں مولوی صاحب نے بید ہڑک کہا کہ صدراعلی گوہ کھاتے ہیں اب ان تہذیب اور اہلیت دیکھئےـ کھڑے ہو کر کہا کہ مولانا واقعی سود کی ڈگری دینے والے کو یہ منصب نہیں کہ دین میں دخل دے اور میں توبہ کرتا ہوں انشا اللہ آئندہ ایسا کبھی نہ ہو گا اوریہ تمام شغف انگریزی سے صرف دینوی عزت کے لئے ہے سو خود عزت دینوی ہی کوئ چیز نہیں اصل عزت آخرت کی ہے حتی کہ اگر ساری دنیا کسی کو حقیر سمجھے چاروں طرف سے اس کو دھولیں تھپڑیں لگیں ذلت ہو رسوائ ہو تب بھی کوئ چیز نہیں اگر خدا کے نزدیک پیارا اور محبوب ہوـ حضرت ابرا ھیم ابن ادھم بلخی رحمتہ اللہ علیہ ایک مرتبہ جہاز میں سفر کر رہے تھے اس جہاز میں ایک ریئس بھی سوار تھا اس کو تفریح کی ضرورت ہوئ چند مسخرے ہمراہ تھے اب تلاش ہوئ کہ ایسا شخص ملے جس کو تختحہ مشق بنایا جاۓ تو تفریح مکمل ہو سو ایسی حقیر اور پست حالت میں حضرت ابراھیم ابن ادہم بلخی رحمتہ اللہ علیہ ملے انہوں نے ان ہی کو اپنے مزاق کا تختہ مشق بنایا یہ کوچھ نہیں بولے جب دیر ہو گئ تو غیرت خدا وندی جوش میں آئ الہام ہوا کہ اے ابراھیم اگر کہو تو ان سب کو ڈبو دوں عرض کیا کہ اے للہ ان کی آنکھیں نہیں یہ مجھ کو پہچانتے نہیں جیسے آپ میری بدعا ان کے حق میں قبول فرماسکتے ہی میری دعا ان کے حق میں قبول فرمالیجئے میں دعا کرتا ہو ں کہ ان کو صاحب بصیرت بنا دیجئے تاکہ مجھ کو پہچان سکیں حضرت ابراہیم کی دعا قبول ہوگئی اور سب کے سب صاحب بصیرت ہوگئے قدموں میں جا پڑے صاحب نسبت ہو گئے ـ ان کے نزدیک حضرت ابراہیم صاحب ذلت تھے اور اللہ کے نزدیک صاحب عزت تھے یہ کتنی بڑی عزت ہے کہ مالک دو جہاں مشورہ کریں کہ اگر کہو تو سب کو ڈبودوں بس عزت یہ ہے باقی یہاں کی عزت سو اسکی کیفیت تو خواب کی سی ہے اگر کوئی خواب میں دیکھے کہ مجھ کو پکڑ کر حاکم کے سامنے لے گئے اور مجھ کو سزا کا حکم ملاذلت کے تمام اسباب جمع ہیں مگر جب آنکھ کھلی تو کچھ بھی نہیں یا یہ دیکھے کہ میں ہفت اقلیم کا بادشاہ ہوگیا اور چشم خدم ساتھ ہیں عزت کے تمام اسباب جمع ہیں مگر جب آنکھ کھلی تو کچھ بھی نہیں تو کیا ان دو خوابوآں کا کچھ میں دید واس تحمل کی کیا حد ہے اور واقعی اہل عرب میں کوئی بات تو تھی جب تو جنات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان میں بھیجا ان کے جذبات بڑے اچھے تھے بس قوت کے فعل میں آنے کی ضرورت حضور پر ایمان لاتے ہی تمام کمالات اہل پڑے ـ
2ذیقعدہ1350 ہجری مجلس بعد نماز جمعہ