(ملفوظ۹۴) ایک مولوی صاحب کے سوال کے جواب میں فرمایا کہ طریق میں بعد تصحیح عقائد و اعمال ضروریہ کے سب سے بڑی چیز محبت ہے اسکی بڑی سخت ضرورت ہے مراقبات سے بھی زیادہ تر یہی مقصود ہے کہ ان سے یکسوئی ہو اور یکسوئی سے محبت اور سماع میں بھی یہی ہوتا ہے کہ اس سے یکسوئی ہوجاتی ہے اور یکسوئی کے ساتھ ایک ہیجان بھی ہوتا ہے مگر یہجان اسی محبت کا ہوتا ہے جو پہلے سے ہو اگر خدا کی محبت ہے تو اس کا ہیجان ہوتا ہے اور اگر مخلوق کی محبت ہے تو اس کا ہیجان۔ اسی لئے سماع کی ہر شخص کو اجازت نہیں۔
Author: حبیب اللہ
(ملفوظ 93)امام مہدی علیہ السلام کا طرز صحابہ سا ہوگا
(ملفوظ ۹۳) ایک صاحب نے عرض کیا کہ حضرت بعض لوگوں نے یہ مشہور کیا ہے کہ امام مہدی نقشبندی ہوں گے فرمایا کہ یہ تو میں نے نہیں سنا البتہ بعض حنفیوں نے لکھا ہے کہ وہ حنفی ہوں گے مگر یہ غلو ہے غالباً یہ ہوگا کہ امام مہدی کا اجتہاد امام صاحب کے اجتہاد پر منطبق ہوجائے گا باتیں دعوے کی دل کو نہیں لگتیں اس میں تو ایک گونہ اہانت ہے امام مہدی علیہ السلام کی. ان کا طرز صحابہ کا سا ہوگا وہ نہ نقشبندي ہوں گے نہ چشتی نہ حنفی وہ تو دین کے ہر شعبہ میں خود مستقل شان رکھتے ہوں گے
(ملفوظ 92)چشتیہ کے یہاں اول قدم فنا ہے
(ملفوظ۹۲) ایک مولوی صاحب کے سوال کے جواب میں فرمایا کہ چشتیہ پر سب معترضین دلیر ہیں اس وجہ سے کہ یہ جواب نہیں دیتے جیسے فلا نے خان صاحب کہ مجھ سے تو لڑنے کو ہر وقت تیار تھے مگر مولوی مرتضی حسن صاحب سے کبھی نہ لڑے اس لئے کہ وہ بولتے ہیں۔ سو چشتیہ اسی لئے لوگوں کے زیادہ تختہ مشق رہے کہ یہ بولتے نہیں اور بولیں ہی کیا ان کے اندر ایک چیز ایسی ہے جو کسی کے اندر اس شان کی نہیں اور وہ شان فنا ہے ان کے یہاں طریق میں یہ پہلا قدم ہے جو دوسروں کا منتہی ہے
(ملفوظ 91)چشتیہ کے یہاں کوئی غیر منقول جزو وطریق نہیں
( ملفوظ۹۱ تمتہ سابق) ایک صاحب کے سوال کے جواب میں فرمایا کہ نقشبندیہ کے یہاں ذکر حنفی ہے لطائف کے ساتھ اور ایک مسئلہ ان کے یہاں تصور شیخ کا ہے اور یہ تصور اور لطائف مثل جزو طریق کے ہیں اور دونوں منقول نہیں مگر کسی منقول کے مزاحم بھی نہیں اور چشتیہ کے یہاں کوئی غیر منقول جزو طریق کے نہیں ۔ ایک تفادت اصول کا اس سے بھی معلوم ہو سکتا ہے۔
(ملفوظ 90)مذہب حنفی اقرب الی الحدیث ہے
(ملفوظ ۹۰) ایک مولوی صاحب کا ذکر فرماتے ہوئے فرمایا کہ یہ حنفیت میں بہت ہی ڈھیلےتھے مگر اب یہ کہنے لگے ہیں کہ کتابوں کے دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ جہاں تک امام صاحب پہنچے وہاں تک کوئی بھی نہیں پہنچا ابن تیمیہ وابن القیم کے اب بھی بےحد معتقد ہیں مگر اب اس تغیر مذکور کے بعد ان کی بھی کچھ زیادہ رعایت نہیں کرتے چنانچہ ابن القیم نے حنفیہ کے بعض فروع پر جو اعتراض کئے ہیں ان ہی مولوی صاحب نے ان کا بڑے شد و مد سے جواب لکھا ہے اور واقعی بات یہ ہے کہ حنفیہ پر اکثر خواہ مخواہ کی بدگمانی کرلی گئی ہے ورنہ بےغبار مسائل پر اعتراض عجیب بات ہے مذہب حنفی کو بعضے نادان حدیث سے بعید سمجھتے ہیں مگر مذہب میں اصل چیز اصول ہیں سو ان کے اصول کو دیکھا جائے تو سب مذاہب سے زیادہ اقرب الی الحدیث ہیں ان ہی اصول کے توافق کی بناء پر میں اکثر کہا کرتا ہوں کہ حنفیہ کے اصول پر نظر نہ کرنے سے ان کو بھی بدنام کیا گیا ہے ایک مولوی صاحب نے مجھ سے سوال کیا تھا کہ جب حضرات چشتیہ کےاس قدر پاکیزہ اصول ہیں پھر یہ بدنام کیوں ہیں میں نے کہا کہ زیادہ تر سماع کی وجہ سے اگر یہ گانا نہ سنتے تو ان سے زیادہ کوئی بھی نیک نام مشہور نہ ہوتا مگر الحمدللہ کہ ہمارے سلسلہ کے قریب کے حضرات تو بالکل ہی نہ سنتے تھے سو ماشاءاللہ ان سے نفع بھی بہت ہوا۔
(ملفوظ 89)کشیدگی والے میرے دشمن نہیں
(ملفوظ ۸۹) ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ نہایت خوش دلی سے اپنے احباب کو اجازت دیتا ہوں کہ جن حضرات کو مجھ سے کشیدگی ہے ان سے میری وجہ سے اپنے تعلقات کو نہ بدلیں اور نہ چھوڑیں بلکہ ویسے ہی تعلقات رکھیں جیسے کہ پہلے سے آپس میں ہیں میں ہرگز نہیں چاہتا کہ میری وجہ سے میرے احباب کے تعلقات میں بےلطفی ہو اور خدا نخواستہ وہ کشیدگی والے بھی میرے دشمن نہیں نیز پس پشت جو کچھ بھی ہوں یا کہتے ہوں مگر سارے سامنے آکر وہ بھی نیاز مندی ہی کا برتاؤ کرتے ہیں اور میں اپنے اس مذاق کو سب حضرت حاجی صاحب کی برکت سمجھتا ہوں اور یہ اثر بھی ان ہی کی دعاؤں کا ثمرہ ہے کہ مخالف سے مخالف بھی سامنے آکر سرنگوں ہوجاتا ہے ورنہ میرے اندر ایسی کوئی چیز نہیں کہ جس کا یہ اثر ہو نہ مجھ میں کوئی علمی ہی قابلیت ہے نہ مالی ہی وجاہت ہے نہ کوئی جاہی قوت ہے ایک غریب آدمی ہوں غریب شیخ زادہ کا لڑکا ہوں پھر یہ جو کچھ نظر آرہا ہے سب اللہ تعالی کا فضل اور حضرت حاجی صاحب کی برکت اور دعاؤں کا ثمرہ ہے اسی کی فرع ہے کہ میں اپنے دوستوں کو ہمیشہ اس معاملہ میں آزادی دیتا ہوں کہ وہ میری وجہ سے اپنے ایسے دوستوں سے جن کو مجھ سے کشیدگی ہے اور بے لطفی اور بے تعلقی نہ پیدا کریں اگر ان سے تعلقات رکھے جائیں مجھ پر بحمد اللہ ذرا اثر نہ ہوگا البتہ اس کے عکس پر تعجب نہیں کہ اثر ہو۔
(ملفوظ 88)دینی تعلیم کی طرف توجہ کی ضروت
(ملفوظ ۸۸) ایک صاحب نے فرض کیا کہ فلاں قصبہ کے شریف خاندانوں کے لڑکے سرکاری سکولوں میں تعلیم پاتے ہیں اچھی خاصی عمر کے لڑکے ہیں مگر کلمہ تک نہیں پڑھ سکتے نماز روزہ تو بڑی چیز ہے فرمایا ایسی حالت سن کربے حد صدمہ ہوتا ہے آج کل اکثر امراء تعلیم انگریزی تو بچوں کو دیلاتے ہیں مگر تعلیم دین کی طرف قطعاََ توجہ نہیں کرتے یہ سمجھتے ہیں کہ علم دین پڑھ کر سوائے ملا بننے کے اور کیا نتیجہ فرمایا کہ الہ آباد میں ایک لڑکا دیکھا تھا عمر تقریباََ گیارہ بارہ سال کی ہوگی بی اے کی جماعت میں تعلیم پا رہا تھا مجھ سے بڑے فخر سے کہا گیا کہ یہ عمر ہے اور یہ تعلیم ۔ اتفاق سے میرے سامنے اس وقت قرآن مجید کا ایک اشتہار تھا اس میں نمونہ کے لئے ایک طرف الحمد شریف لکھی ہوئے تھی اور ایک طرف اشتتہار کا مضمون تھا میں نے اس لڑکے سے کہا کہ اس کو پڑھو اس نے دیکھ کر صاف انکار کیا کہ میں نہیں پڑھ سکتا میں نے کہا کہ ہجے ہی کر کے پڑھ لووہ یہ بھی نہ کر سکا میں نے کہا کہ اچھا الگ الگ حروف بتلادو اس نے کہا کہ میں یہ بھی نہیں بتلا سکتا اور بیچارہ کیا کرے جب ایک چیز اس کو سکھلائی ہی نہیں گئی تو دنیوی تعلیم کس دینی تعلیم کس درجہ کی فرمایا کہ میرے ایک ملنے والے تھے اسکندریہ میں جاکران کا انتقال ہوا انہوں نے اپنے بچے کو انگریزی زبان سکھانے کی غرض سے ایک انگریز عورت کے سپرد کر دیا تھا اور اس عورت کو تنخواہ دیتے تھے جب ان کے کوئی دوست ملنے اتے تھے وہ اس بچہ کو ان کے سامنے فخراََ پیش کرتے تھے دیکھنے کہ باوجود یہ کہ اس بچہ نے ایک میم کے آغوش میں پرورش پائی ہے مگر اس کو کلمہ بھی یاد ہے اور کلمہ سنوادیتے تھے غرض ان امراء کو دین سے اس قدر بعد (دوری) ہو گیا ہے کہ بلکل اس طرف التفات ہی نہیں پھر دوسروں پر اعتراض ہے کہ علم دین پڑھ کر بھیک مانگتے پھرتے ہیں میں پوچھتا ہوں کہ قصور کس کا ہے تمہارا یا ان بھیک مانگنے والوں کا جب علم دین بھیک مانگنے والے پڑھیں گے تو وہ بھیک ہی مانگیں گے سو یہ تو انتخاب کی غلطی ہے تم اپنے بچوں کو علم دین کیوں نہیں پڑھاتے ہو تاکہ وہ بھیک نہ مانگیں اور حوصلہ ہوں۔
(نوٹ) ہیاں تک وہ ملفوظات جو ۱۴ شوال ۱۳۵۰ھ سے شروع ہوئے ہیں اور درمیاں میں چھوٹ گئے تھے ختم ہوگئے۔مدیر
(ملفوظ 87)عین عتاب کے وقت رنج
(ملفوظ۸۷) فرمایا کہ عین عتاب کے وقت بھی مجھ کو اس کا رنج ہوتا ہے کہ یہ غریب ناکام رہا پھر اس کے بعد بھی طبعاََ ندامت ہوتی ہے کہ میں نے ایسا برتاؤ کیوں کیا مگر عقلاََ نہیں ہوتی عقلاََ تو یہی اعتقاد ہوتا ہے کہ ایسا ہی ہونا چاہئے تھا کیونکہ اصلاح کا طریق وہی ہوتا ہے اسی لئے اپنی مصلحت طبعیہ پر اس کی مصلحت عقلیہ کو مقدم رکھتا ہوں اور باز پرس وغیرہ کرلیتا ہوں مگر اس کے ساتھ دل میں اس سے بھی ڈرتا ہوں کہ کہیں مجھ سے مواخذہ نہ ہو کہ ہمارے بندوں کے ساتھ ایسا برتاؤ کرتا تھا اس خیال کے آنے پر یہ بھی ارادہ کرتا ہوں کہ اپنا طرز بدل دوں مگر اصلاح کا دوسرا طریق سمجھ میں نہ آنے کے سبب پھر وہی برتاؤ کرنا پڑتاہے جس میں طالب کی مصلحت اور اصلاح مضمر ہے دوسری بات اس کے علاوہ یہ بھی ہے کہ بعض اوقات نہ معلوم عین وقت پر کیا ہوجاتا ہے اور اس وقت جو حالت ہوتی ہے اس کا غلبہ اس قدر ہوجاتا ہے کہ دوسرے پہلوؤں پر نظر نہیں جاتی بس اندر سے یہی تقاضا ہوتا ہے کہ فلاں حقیقت کو کس طرح اس کے دل میں ڈال دوں حاصل یہ کہ میرے اس داروگیر کا منشا زیادہ تر آنے والے کی اصلاح ہے مگر اس کی یہ قدر کی جاتی ہے کہ مجھ کو بد نام کیا جاتاہےکہ سخت ھے ہاں صاحب مگر آپ بہت نرم ہیں کہ ستار ہے ہیں یہاں رہ کر کوئی واقعات کو دیکھے تب حقیقت معلوم ہو کہ میں کیا برتاؤ کرتا ہوں اور آنے والے کیا برتاؤ کرتے ہیں دور بیٹھے رائے قائم کرلینا بہت سہل بات ہے مگر ہے انصاف کے خلاف اس لئے کہ دونوں طرف کی بات دیکھ کر یا صحیح روایت سن کر فیصلہ دینا ےہ انصاف کہا جا سکتا ہے
(ملفوظ 86)قصد عدم اہذاء ہونا چاہئیے
(ملفوظ۸۶) ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ ایک تو ہے عدم قصد ایذاء اور ایک ہے قصد عدم ایذاء لوگوں میں عدم قصد ایذاء تو متحقق ہے مگر قصد عدم ایذاء نہیں اس سے ایذاء ہوتی ہے جس کی وجہ محض بےفکری ہے کیا کہوں میں تو دل سے یہ چاہتا ہوں کہ سب درست ہوجائیں اس وجہ سے کبھی درشت بھی ہو جاتا ہو
ں جس میں نیت وہی درستی کی ہوتی ہے۔
(ملفوظ 85)پورب کے بعض اضلاع میں علماء کے لئے غایت تکلف
(ملفوظ ۸۵) ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ پورب کے بعض اضلاع میں علماء لےلئے بہت کچھ لوگ تکلفات کرتے تھے وہاں کے بعض علماء نے لوگوں کو اس قسم کی عادتیں ڈال رکھی تھیں ادھر ایک مولوی صاحب تھے جو اچھی خاصی حکومت کرتے تھے ان ہی مولوی صاحب کا واقعہ ہے کہ ایک مقام پر گئے کسی نے حاکم کے یہاں درخواست دیدی کہ فلاں مولوی صاحب آئے ہیں ان کے وعظ سے اندیشہ بلوہ کا ہے حاکم نے کوتوال کو حکم دیا کہ تم جاکر مولوی صاحب سے آنے کی وجہ معلوم کرو اور اس کا انتظام کرو کہ کوئی فساد نہ ہو کوتوال مولوی صاحب کے پاس آیا مولوی صاحب نے صورت دیکھتے ہی خدام کو حکم دیا کہ اس کی داڑھی جو چڑھی ہوئی ہے اس کو اتار دو اور گٹوں سے نیچا پاجامہ ہے اس کو کاٹ ڈالو فوراََ کوتوال صاحب کی داڑھی اتاردی گئی اور پاجامہ کے پائینچے کاٹ دیئے گئے اور اس کے بعد مولوی صاحب نے فرمایا کہ جاؤ ہم تم کو کوئی جواب دینا نہیں چاہتے جب بلوہ ہوگا اس وقت گرفتار کرنے کے لئے آنا وہ بےچارہ جان بچا کر بھاگا مگر ہمارے بزرگوں کا یہ طرز نہ تھا غرض وہاں کا یہ رنگ تھا اور ایسے حضرات کے لئے خوب تکلفات ہوتے تھے پھر جب سے میں ان اطراف میں جانے لگا یہ تکلفات بہت کم ہوگئے پہلے یہ حالت تھی کہ کوئی عالم پہنچ گیا تو اس کے ساتھ پچاس پچاس آدمیوں کی دعوتیں ہوتی تھی میں نے اس رسم کو اس ترکیب سے مٹایا کہ میں کہ دیتا تھا میں تنہا کھاؤں گا کسی کے ساتھ نہ کھاؤں گا اس حالت میں دوسروں کی مستقل دعوت کون کرتا ۔ غریب لوگ اس پر بہت خوش ہوئے اس لئے کہ وہ بےچارے پچاس آدمیوں کی دعوت کی ہمت نہ رکھتے تھے مگر رسم سے مجبور تھے نتیجہ یہ ہوتا کہ وہ دعوت کرکے اظہار محبت سے محروم رہتے اور ایک یہ رسم تھی کہ واعظ صاحب کے چلنے کے وقت ایک شخص آگے آگے چلتا تھا راستہ صاف کرتا ہوا۔ ہٹو بچو۔ میرے ساتھ بھی اول یہی برتاؤ ہوا ہم غریب لوگ نہ ایسی باتیں خود پسند کریں اور نہ اپنے بزرگوں کو ایسا کرتے دیکھا میں نے اس کا انسداد اس طرح کیا کہ اول ان سے کہا کہ یہ کیا بے ادبی ہے آگے آگے مجھ سے چلتے ہو کہنے لگے کہ راہگیروں کے ہجوم سے آپ کو تکلیف ہوگی میں نے کہا کہ کیا راستہ آپ کی یا میری ملک ہے اگر وہ نہ بچیں گے ہم بچ جائیں گے یہ رسم ختم ہوئی ایک رسم یہ تھی کہ وہاں پر اکثر راستہ پالکی میں چلنا ہوتا تھا میں پالکی میں بیٹھا جا رہا تھا کہ چند لوگ کچھ داہنے اور کچھ بائیں پالکی کے ساتھ دوڑ رہے ہیں میں نے پوچھا یہ کیا حرکت ہے کہا کہ آپ کے ساتھ رہنے کی وجہ سے دوڑ رہے ہیں شاید راستہ میں کوئی ضرورت ہو۔ میں نے کہا کہ تو اس کی کیا ضرورت ہے کہ برابر ہی دوڑو کیا پیچھے رہکر نہیں دوڑ سکتے اس کہنے سے وہ سب پیچھے ہوگئے تھوڑی دیر میں جو دیکھتا ہوں تو دوڑنے والوں میں سے ایک بھی نہ تھا وہ تو سب میرے دکھلانے کے واسطے دوڑ رہے تھے کہ ہم بھی ایسے جانثارہیں یہ رسم بھی ختم ہوئی ایک مقام ہے ضلع اعظم گڑھ میں ندواسرائے ۔ میں وہاں بلایا گیا تھا وہاں کے زمیندار نے رخصت کے وقت رومال میں بندھے ہوئے غالباََ دو سو روپیہ بطور نذرانہ پیش کئے میں نے دریافت کیا کہ کیا یہ آپ کی طرف سے ہے کہنے لگے کہ سب گاؤں کی طرف سے ہے یہاں پر دستور ہے کہ جب کوئی عالم آتا ہے تو رخصت کے وقت گاؤں کی طرف سے نذرانہ دیا جاتا ہے میں نے دریافت کیا کہ وہ خود دیتے ہیں یا مانگنے پر دیتے ہیں کہا کہ ان سے جمع کیا جاتا ہے میں نے کہا میں اس کو جائز نہیں سمجھتا یہ رقم جن جن کی ہے سب کو واپس کردی جائے اور کہہ دیا جائے جس کو دینا ہو یہاں سے ایک میل کے فاصلے پر فلاں مقام ہے آج وہاں ٹھروں گا وہاں آکر دیں اس لئے کہ لینے والے کو تو معلوم ہوکہ فلاں شخص نے یہ چیز دی اگر قبول کرلی جائے تو اس کو بھی خوشی ہو چنانچہ سب رقم واپس کردی گئی مگر اس کے بعد ایک بھی تو نہیں آیا یہ رسم بھی ختم ہوئی۔ بات یہ ہے کہ جن بزرگوں کی آنکھیں دیکھی ہیں یہ سب ان کی برکت ہے ان حضرات کو اس ہی طرز پر دیکھا وہی باتیں پسند ہیں میرا اس میں کوئی کمال نہیں انہیں حضرات کی صحبت کی برکت ہے اور اسی کا یہ اثر ہے ۔
گلے خوشبوئے درحمام روزے رسیداز دست محبوبے بدستم
بدو گفتم کہ مشکی یا عبیری کہ از بوئے دل آویز تو مستم
بگفتا من گل ناچیز بودم ولیکن مدتے باگل نشستم
جمال ہمنشیں در من اثر کرد وگرنہ من ہماں خاکم کہ ہستم
( ایک روز ایک خوشبودار مٹی ایک حمام میں ایک محبوب کے ہاتھ سے مجھ کو ملی ۔ میں نے اس مٹی سے کہا کہ تو مشک ہے یا عنبر ہے کہ تیری دل بسانے والی خوشبو سے میں مست ہوگیا ۔ مٹی نے کہا میں تو ناچیز مٹی ہی تھی مگر ایک عرصہ تک پھولوں میں رہی ہوں ۔ لہذا ہمنشیں خوشبو نے مجھ میں اثر کردیا ہے۔ ورنہ میں تو وہی خاک ہوں جو پہلے تھی)
اس مقام پر ایک اور بات بھی سمجھنے کی ہے وہ یہ کہ میں نے کہا ہے کہ سب بزرگوں کی برکت ہے کہ چھوٹوں کو تو یہی سمجھنا چاہئے مگر بزرگوں کو یہ ناز نہ ہونا چاہئے کہ یہ ہماری ہی سب برکتیں ہیں ان کو سمجھ لینا چاہئے کہ کبھی چھوٹوں کی بھی برکت ہوتی ہے ایک مرتبہ مجھ کو مہمان ہونے کی حالت میں ایک صاحب کے جاہ ومال کے پاس شب کو سونے کا اتفاق ہوا اسی روز جماعت تو بڑی چیز ہے نماز فجر میں احتمال ہوا کہ ادا بھی ہوئی یا کہ قضاء ہوگئی اس روز چھوٹوں کی برکت محسوس ہوئی کہ جن کو ہم اپنا چھوٹا سمجھتے ہیں ان ہی میں ملے جلے رہنے کی برکت ہے کہ نماز بھی وقت پر میسر ہوجاتی ہے مجھے تو چھوٹوں کی برکت آنکھوں سے نظر آتی ہے تو وہ ضابطہ سے چھوٹے ہیں ممکن ہے کہ خداتعالی کے نزدیک بڑے ہوں۔

You must be logged in to post a comment.