ملفوظ (۱۳۱) غیر ضروری سوال کا جواب ارشاد نہ فرمانا

ایک سلسلہؑ گفگتو میں فرمایا کہ لوگوں کو بیٹھے بٹھلائے کوئی نہ کوئی مشغلہ ضرور چاہئیے اور کچھ نہیں تو یہ ہی سہی کہ فضول سوال کر کر کے مولویوں ہی کو تختہؑ مشق بنائیں۔ جو چیزیں قابلِ اہتمام اور ضروری ہیں ان کا تو کہیں نام و نشان نہیں نہ ان کی فکر بس غیر ضروری میں ابتلا ہو رہا ہے۔ اب ضروری غیر ضروری کی تفسیر سمجھو۔ جس چیز کا اپنے سے تعلق نہ ہو بس وہ ٖغیر ضروری ہے، پس جو چیز ضروری ہو آدمی اسکا حکم معلوم کرے۔

آج ہی خط آیا ہے، اس میں لکھا ہے کہ آجکل جو یہود اور نصرانی ہیں انکی عورتوں سے نکاح بغیر مسلمان کئے ہوئے کیسا ہے؟ جائز ہے یا ناجائز ؟ میں نے جواب میں لکھا ہے کہ جو شخص نکاح کررہا ہے اس سے کہو کہ وہ خود مسئلہ دریافت کرے اور جس عورت سے نکاح کرنا ہے اس کے عقیدے اس سے معلوم کرکے لکھو، تب ہم مسئلہ بتائیں گے۔ پھر فرمایا کہ اب جھلائے گا اور دل میں کہے گا یہ پیسے بھی بیکار ہی گئے اگر اور جگہ یہ سوال جاتا تو ایک رسالہ تصنیف کرکے جواب میں روانہ کیا جاتا۔ یہاں سے یہ روکھا اور ضابطہ کا جواب گیا تو بیچارہ کیا خوش ہوسکتا ہے، گالیاں ہی دیگا۔ خیر دیا کرے میں نے تو اس میں آئیندہ کے لئے بھی تعلیم دیدی ہے کہ غیر ضروری چیزوں میں آدمی کو اپنا وقت برباد کرنا نہ چاہئیے۔ ارے پہلے آدمی ضروری باتوں سے تو فراغ حاصل کرلے۔ اور وہ ضروری بات یہ ہے کہ پہلے اپنی اصلاح کی فکر کرے۔ معلوم ہوتا ہے ان سائل صاحب کی کسی سے گفتگو ہوئی ہوگی اس پر یہ تحقیقات شروع کردی تاکہ جواب دکھلا کر دوسرے تو رسوا کریں۔ عام مذاق یہی ہورہا ہے کہ دوسروں پر تو اگر مکھی بھی بیٹھی ہو تو اعتراض ہے اور اپنے جسم میں کیڑے پڑے ہوئے ہوں اس کی بھی فکر نہیں۔

اس قسم کے بہت سوال آتے ہیں، یہاں سے جواب بھی ایسے ہی جاتے ہیں جس پر گالیاں ہی دیتے ہیں۔ ایک شخص کا خط آیا تھا، لکھا تھا کی یہ چھوٹی قومیں کیوں ذلیل ہیں۔ میں نے لکھا کہ دنیا میں یا آخرت میں۔ جواب آیا کہ شافی جواب نہ ملا اور کچھ اعتراض بھی لکھے تھے۔ میں نے لکھ دیا جہاں سے شفاء ہو وہاں سے سوال کرلو بیہودہ اپنا تابع بنانا چاہتے ہیں۔

(ملفوظ 87)عین عتاب کے وقت رنج

(ملفوظ۸۷) فرمایا کہ عین عتاب کے وقت بھی مجھ کو اس کا رنج ہوتا ہے کہ یہ غریب ناکام رہا پھر اس کے بعد بھی طبعاََ ندامت ہوتی ہے کہ میں نے ایسا برتاؤ کیوں کیا مگر عقلاََ نہیں ہوتی عقلاََ تو یہی اعتقاد ہوتا ہے کہ ایسا ہی ہونا چاہئے تھا کیونکہ اصلاح کا طریق وہی ہوتا ہے اسی لئے اپنی مصلحت طبعیہ پر اس کی مصلحت عقلیہ کو مقدم رکھتا ہوں اور باز پرس وغیرہ کرلیتا ہوں مگر اس کے ساتھ دل میں اس سے بھی ڈرتا ہوں کہ کہیں مجھ سے مواخذہ نہ ہو کہ ہمارے بندوں کے ساتھ ایسا برتاؤ کرتا تھا اس خیال کے آنے پر یہ بھی ارادہ کرتا ہوں کہ اپنا طرز بدل دوں مگر اصلاح کا دوسرا طریق سمجھ میں نہ آنے کے سبب پھر وہی برتاؤ کرنا پڑتاہے جس میں طالب کی مصلحت اور اصلاح مضمر ہے دوسری بات اس کے علاوہ یہ بھی ہے کہ بعض اوقات نہ معلوم عین وقت پر کیا ہوجاتا ہے اور اس وقت جو حالت ہوتی ہے اس کا غلبہ اس قدر ہوجاتا ہے کہ دوسرے پہلوؤں پر نظر نہیں جاتی بس اندر سے یہی تقاضا ہوتا ہے کہ فلاں حقیقت کو کس طرح اس کے دل میں ڈال دوں حاصل یہ کہ میرے اس داروگیر کا منشا زیادہ تر آنے والے کی اصلاح ہے مگر اس کی یہ قدر کی جاتی ہے کہ مجھ کو بد نام کیا جاتاہےکہ سخت ھے ہاں صاحب مگر آپ بہت نرم ہیں کہ ستار ہے ہیں یہاں رہ کر کوئی واقعات کو دیکھے تب حقیقت معلوم ہو کہ میں کیا برتاؤ کرتا ہوں اور آنے والے کیا برتاؤ کرتے ہیں دور بیٹھے رائے قائم کرلینا بہت سہل بات ہے مگر ہے انصاف کے خلاف اس لئے کہ دونوں طرف کی بات دیکھ کر یا صحیح روایت سن کر فیصلہ دینا ےہ انصاف کہا جا سکتا ہے

(ملفوظ 71)عام باتوں کی تعلیم

(ملفوظ 71) ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ بعض لوگ بڑے ذہین ہوتے ہیں ایک شخص نے کسی غلطی پر میرے مواخذہ کرنے پر کہا کہ اسی واسطے تو یہاں آتے ہیں کہ غلطیوں کی اصلاح ہو میں نے کہا کہ کل کو حوض کی نالی میں پاخانہ بھر دینا اور کہنا کہ پیر جی ذرا آبدست لے دیجئو اور جب کوئی مواخذہ کرے تو کہہ دینا کہ غلطیوں کی اصلاح کے لئے تو آئے ہیں میں نے یہ بھی کہا کہ یہاں ان باتوں کی تعلیم ہوتی ہے جو تمہاری سمجھ میں نہ آ سکے اور جو غلطی تم نے کی ہے اس کو تم خود سمجھ سکتے ہو جیسے حوض کی نالی میں پاخانہ پھرنا کہ ایسا کبھی نہیں کر سکتے