(ملفوظ 84)مبلغین خانقاہ سے بیرونجات میں نفع

(ملفوظ ۸۴) ایک صاحب نے عرض کیا کہ حضرت کی طرف سے جو مبلغین بیرونجات میں تبلیغ کا کام کررہے ہیں ان کے وعظ اور نصائح کا لوگوں پر بہت ذیادہ اثر ہوتا ہے اور لوگوں کو بہت بڑا نفع دین کا پہنچ رہا ہے لوگ بھی ان کے ساتھ محبت اور مدارات سے پیش آتے ہیں اور کسی کو ذرا وحشت نہیں ہوتی مگر لوگوں پر ایک امر بڑا شاق ہوتا ہے کہ وہ کسی کی دعوت قبول نہیں کرتے فرمایا یہ جو اتنی خاطر مدارات اور وحشت نہیں ہوتی یہ سب اسی کی برکت ہے کہ وہ کسی سے کچھ لیتے یا کھاتے نہیں اگر لیتے یا کھتے تو یہ خاطر مدارات پھر نہ ہوتی اب تو شاق ہی گزرتا ہے مگر کھنے کے بعد شاخ اس میں نکلتی ۔

ایک مرتبہ فلاں مبلغ صاحب کچھ روپے مدرسہ کے واسطے لائے ان سے دریافت کیا گیا کہ یہ روپیہ کہاں سے اور کیوں لائے انہوں نے کہا کہ لوگوں نے اصرار کر کے مدرسہ کے واسطے دیا ہے مجبوراََ لے لینا پڑا میں نے ان سے کہا کہ اس روپیہ کو واپس کردو اور ان سے کہدو کہ وہ خود آکر مدرسہ میں دیں مبلغ صاحب نے کہا کہ وہ لوگ یہ کہتے ہیں ہم کاروباری لوگ ہیں ہم کو فرست نہیں ہوتی میں نے کہا کہ ان سے کہو کے منی آرڈر کردیا کریں انہوں نے کہا کہ فیس منی ارڈر کا بار ہوگا میں نے کہا کہا جو رقم مدرسہ کو دینا چاہیں اسی میں سے فیس منی ارڈر وضع کر لیا کریں اگر کوئی شخص کام کرنا چاہے اس کے سینکڑوں راستے نکل آتے ہیں میں نے مبلغین سے کہدیا ہے آپ لوگ مدرسہ کے لئے چندہ جمع کرنے کو نہیں رکھے گئے ہیں تمہارا کام صرف لوگوں کو ہدایت کرنا ہے اور مسائل دینیہ بتانا ہے مدرسہ جدا چیز ہے اور تبلیغ کا کام جدا ہے فرمایا کہ یہ وعظ کا اثراور مبلغ کی وقعت اسی کی برکت سے ہے کہ کسی سے لینے کھانے کا معاملہ نہیں رکھا گیا آج کل مبلغین کو اس کی بڑی ضرورت ہے کہ ان امور کی احتیاط رکھیں ورنہ وعظ میں جو تین چار گھنٹے دماغ صرف ہوتا ہے اور محنت ہوتی ہے سب بے کار جائے گا مقصود حاصل نہ ہوگا۔

(ملفوظ 83)غلط تفسیر دانی کی مثال

(ملفوظ ۸۳) ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ آج کل کے نیچری بھی قرآن شریف کی ایسی ہی تفسیر کرتے ہیں جیسے ایک شخص نے شیخ سعدی علیہ الرحمتہ کے شعر کی تفسیر کی تھی قصہ یہ ہے کہ ایک شخص کی کسی سے لڑائی ہوئی مار بھی رہا تھا مار کھا بھی رہا تھا اتفاق سے اس شخص کے ایک دوست صاحب بھی تشریف لے آئے اور آکر اپنے دوست کے دونوں ہاتھ پکڑلئے اب دوست صاحب کی خوب اچھی طرح مرمت ہوئی کسی نے پوچھا کہ یہ کیا حرکت تھی کہا کہ میں نے شیخ سعدی علیہ الرحمتہ کے فرمانے پر عمل کیا وہ فرماتے ہیں۔

دوست آں باشد کہ گیردست دوست در پریشاں حالی ودر ماندگی

یہی حالت ان لوگوں کی تفسیر دانی کی ہے یہاں پر ایک ڈپٹی کللٹر آئے تھے وہ بھی نیچری خیال کے تھے کہنے لگے کہ میں کچھ پوچھ سکتاہوں سمجھ گیا کہ کوئی اس ہی قسم کا سوال کریں گے جس خیال کے ہیں یہ بھی آج کل مرض عام ہے ان لوگوں میں کہ نصوص میں عقلی شبہات نکالتے ہیں نیں نے کہا کہ پوچھئے مجھ کو جو معلوم ہوگا عرض کردوں گا انہوں نے کہا کہ سود کے متعلق آپ کا کیا خیال ہے یہ طرز سوال بھی نئی روشنی والوں کا ہے کہ بجائے حکم شرعی کے خیال کو پوچھا کرتے ہیں میں نے کہا کہ میرا خیال ہوتا آپ کو معلوم ہے کہ میں فلسفی شخص نہیں ہوں مزہبی شخص ہوں قرآن و حریث کا حکم ظاہر کر دینا میرا کام ہے قرآن و حدیث سے جواب دونگا میرے اس جواب پر ان کے سوالات کا بہت بڑا ذخیرہ ختم ہوگیا پھر میں نے کہا حق تعالی فرماتے ہیں۔

واحل اللہ البیع و حرم الربو۔

کہنے لگے فلاں نظامی دہلوی تو اس کی یہ تفسیر کرتے ہیں میں نے کہا آپ قانون کی دفعات کی بناء پر فیصلے دیا کرتے ہیں آپ وہ قانون اور دفعات مجھ کو دیجئے میں اس کی شرح کرونگا آپ اس شرح کی موافق فیصلے لکھا کریں پھر دیکھئے کہ گورنمنٹ سے آپ پر کیسی لتاڑ پڑتی ہے اور جواب طلب ہوتا ہے اس پر آپ گورنمنٹ سے یہ کہہ دیں کہ فلاں شخص نے قانون کی یہ شرح کی ہے اور وہ عربی فارسی اردو سب جانتا ہے میں نے اس شرح کے موافق یہ فیصلہ لکھا ہے پھر دیکھئے کیا جواب ملے گا یہی کہا جائے گا کہ زبان دانی اور چیز ہے قانون دانی اور چیز ہے اسی طرح اس دہلوی شخص کی قرآن شریف کی تفسیر بھی ہے جیسی میں قانون کی شرح لکھوں پھر اس پر فرمایا کہ ایسی تفسیر اور شرح کی ایک مثال بڑے کام کی یاد آگئی ایک سرحدی ایک اسٹیشن پر اترا اور ایک کشمش کا بورا جس میں قریب دو من کے وزن ہوگا بغل میں تھا بابو کو اپنا ٹکٹ دیا بابو نے دریافت کیا کہ خان صاحب اس بورے کا ٹکٹ یعنی بلٹی کہاں ہے خان صاحب نے کہا کہ اس کا ٹکٹ بھی یہی ہے بابو نے کہا کہ پندرہ سیر سے زائد اسباب بدون بلٹی لے جانا قانون کے خلاف ہے تو خان صاحب کہتے ہیں گویا کہ قانون کی تفسیر بیان کر رہے ہیں کہ پندرہ سیر کا قانون ہندوستانی کے لئے ہے وہ اتنا ہی بوجھ اٹھا سکتا ہے ہمارا یہی پندرہ سیر ہے دیکھو کیسی آسانی سے ہم اس کو بغل میں لئے کھڑا ہے یہ آپ نے قانون کی شرح اور تفسیر کی تو حاصل یہ ہوا کہ اس قانون میں پندرہ سیر کا وزن مراد نہیں بلکہ مراد یہ ہے کہ مسافر جتنا آسانی سے لیجاسکے تو کیا اس کو قانون کی تفسیر کہا جا سکتا ہے اور کیا یہ تفسیر قانون دان کے نزدیک مقبول ہے اسی طرح غیر اہل فن کی قرآنی تفسیر ایسی ہی ہے جیسے اس ولائتی خان نے قانون کی تفسیر کی تھی اور اگر کوئی قانون دان اس کو حقیقت سمجھائے تو بہت مشکل ہے جب کاتب کو فن سے مناسبت ہی نہیں تو اتنا کہہ دینا کافی ہے کہ تو احمق ہے تو کیا جانے قانون کیا چیز ہے ا سکے بفد وہ ڈپٹی کلکٹر کہنے لگے سود نہ لینے کی وجہ سے مسلمان تباہ وبرباد ہورہے ہیں اور ترقی نہیں کرسکتے میں نے کہا کہ اگر ترقی کی ایسی ہی ضرورت ہے تو حرام سمجھ کر بھی تو لے سکتے ہیں اس سے بھی ویسی ہی ترقی ہوگی ترقی تو لینے پر موقوف ہے نہ کہ اعتقاد حلت پر کیونکہ ترقی کو کیا خبر کہ اس کا عقیدہ کیا ہے اسلئے اگر حرام سمجھ کر لیں تب بھی ترقی ہوسکتی ہے اس صورت میں یہ ہوگا کہ جرم میں کسی قدر تخفیف ہوجائے گی فرق یہ ہوگا کہ اگر حرام سمجھ کر لے گا تو چور ڈاکو سمجھاجائے گا سزا میں جیل خانہ یعنی محدرد مدت کے لئے دوذخ میں جائے گا اور اگر حلال سمجھ کر لیا یہ بغاوت ہوگی اس پر بھانسی کا حکم ہوگا یعنی غیر محدود مدت کے لئے دوڈخ میں جائے گا یا دائم الحبس (ہمیشہ کیلئے قید) کیا جائے گا ایک صاحب ان کے ہمراہ تھے ان سے ڈپٹی صاحب کہنے لگے کہ دیکھئے یہ اعلی درجہ کا فلسفہ کہ سود لینے کی ایک گنجائش نکال دی پھر فرمایا کہ سبحان اللہ خوب سمجھے۔ یہ گنجائش تو ایسی ہے جیسے ساحران موسی کہیں کہ موسی علیہ السلام نے ہم کو سحر کی اجازت فرمادی ہے کیونکہ موسی علیہ السلام نے فرمایا تھا کہ

القوا ما انتم ملقون

کہ ڈالو جو تم کو ڈالنا ہے تو موسی علیہ السلام کا یہ فرمانا جواز سحر کے لئے تھوڑا ہی تھا بلکہ اس کا اظہار تھا کہ تم جو کچھ دکھلاتے ہو دکھلاؤ پھر میں بھی تم کو دکھاؤں گا اسی طرح میرے جواب میں سود کے حرام ہونے کا حکم اور اس کے نتیجہ عقوبت کا اظہار تھا لینے کے لئے تھوڑا ہی تھا حرام ہونا دلیل ہے اس کام سے منع کرنے کی ایسی ٹیڑھی سمجھ کا کس کے پاس علاج ہے

(ملفوظ 82)غیر مکلف پر عتاب نہ فرمانا

(ملفوظ ۸۲) ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ ایک دیہاتی ہدیہ کچھ کپڑا لایا جو ایک گٹھری کی صورت میں تھا میں اس وقت ڈاک لکھ رہا تھا اس نے ڈاک کے خطوط پر وہ گٹھری رکھ دی مجھ کو ناگوارہوا میں نے غصہ سے کہا کہ میرے سر پر رکھ دے اس نے اس گٹھری کو اٹھایا اور میرے سر پر رکھ دی اور اس کو تھام کر کھڑا ہوگیا تاکہ گر نہ جائے فلاں مفتی صاحب میرے پاس بیٹھے تھے وہ اس پر خفا ہونے لگے میں نے کہا کہ کس پر خفا ہوتے ہو یہ تو غیر مکلف ہے اور میں نے ہی تو کہا تھا کہ میرے سر پر رکھ دے اس کا کیا قصور بلکہ حکم کی اطاعت کی ہے اسی طرح ایک مرتبہ ایک لڑکا چھوٹا سا جس کی عمر تقریباّ پانچ یا چھ سال کی ہوگی اپنے باپ کے ساتھ میرے مکان کے دروازہ پر کھڑا تھا میں نے اس کی بغلوں میں ہاتھ دے کر دروازہ کی چوکی پر کھڑا کردیا اور اس سے کہا کہ منہ پر تھپڑ ماراس نے میرے منہ پر چپت لگایا اس کا باپ اس کو ڈانٹنے لگا میں نے کہا کہ تم اس پر ناحق خفا ہوتے ہو اسکا کوئی قصور نہیں میں نے یہ تونہیں کہا تھا کہ کس کے منہ پر مار میرا ہی کلام ناتمام تھا میں ہی قصوروار ہوں اسکی خطا نہیں ۔ ایک روز یہاں پر جو حافظ صاحب قران کے مدرس ہیں وہ ایک بچے سے کہہ رہے تھے کہ کان پکڑ مجھ کو اپنا واقعہ یادآ کر خیال ہوا کہ کہیں حافظ صاحب ہی کے کان نہ پکڑ لے اس لئے کہ کلام نا تمام ہے

(ملفوظ 81)بہت زیادہ قریب بیٹھنے سے طبیعت گھبرانا

(ملفوظ ۸۱) ایک صاحب کا حضرت والا سے بالکل مل کر بیٹھ جانے کا ذکر فرماتے ہوئے فرمایا کہ بہت زیادہ قریب بیٹھنے سے میری طبیعت گھبراتی ہے قلب پر ایک بوجھ سا معلوم ہونے لگتا ہے اس حالت میں یکسوئی سے کوئی کام نہیں کرسکتا حتی کہ جس زمانہ میں میں وعظ کہا کرتا تھا تو اپنے سامنے سے تھوڑی جگہ خالی چھوڑا دیتا تھا بعض مرتبہ ایسا ہوا کہ لوگ محبت کی وجہ سے اور اس خیال سے بھی کہ تقریر سننے میں آسانی ہوگی بہت قریب بیٹھ جاتے تھے تو وعظ کے مضامین کی آمد بند ہوجاتی تھی جب سے میں نے یہ معمول کرلیا تھا

(ملفوظ 80)محض وسوسہ کے سبب طالبین کے ضروری حقوق تلف نہیں کر سکتا

( ملفوظ ۸۰) ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ بعض مرتبہ مجھے وسوسہ ہویا ہے کہ لوگ سمجھتے ہوں گے کہ بڑا ہی متکبر ہے آنے والوں کے ساتھ ایسا برتاؤ کرتا ہے مگر بحمداللہ مجھ پر اس کا ذرہ برابر اثر نہیں جو چاہیں سمجھا کریں میں سمجھنے والوں کی نظر میں مقبول ہونے کی غرض سے کوئی کام نہیں کرتا۔ آنے والوں کی مصلحت دیکھتا ہوں اگر کوئی اس کو تکبر سمجھے میری جوتی سے۔ ان خیالات کی وجہ سے میں خدمت طالبین کے ضروری حقوق تلف کردوں یہ مجھ سے نہیں ہوسکتا۔ میں اس کو خیانت سمجھتا ہوں میں نے علماء کے ایک مجمع میں لسبیل گفتگو(دوران گفتگو) کہا تھا کہ نہ میں متکبر ہوں نہ عرفی تواضع ایک سچ بولنے والا آدمی ہوں سچ بات کہتا ہوں کبھی اس میں تکبر کا رنگ ہوتا ہے اور کبھی تواضع کا مگر میری جو حالت یے بالکل کھلم کھلا ہے میں اس کو چھپانا نہیں چاہتا اور چھپاؤں تو جب کہ کسی کو دھوکہ دینا ہو استغفراللہ ۔ بس جن کو میری یہ حالت پسند ہو وہ مجھ سے تعلق رکھیں اور میرے پاس آئیں اور جن کو ناپسند ہو وہ نہ تعلق رکھیں اور نہ آئیں میں کسی کو بلانے تھوڑا ہی جاتا ہوں کسی کو دیکھانے اور نیک نام باننے کی وجہ سے اصول صحیحہ کو نہیں چھوڑ سکتا یہ تو اچھی خاصی مخلوق پرستی ہے ۔اس ہی قسم کے توہمات( وہم) اور شبہات نے مشائخ اور علماء کو اصلاح سے باز رکھا ہے اور عوام کے اخلاق کو خراب اور برباد کیا ہے کیا یہ جماعتیں محض زیارت اور ہاتھ چومنے ہی کے واسطے ہیں اور کیا ان کا فرض منصبی صرف( کام) یہی ہے ایسا طریق اختیار کرنا کہ جس میں اپنے اغراض اور مصالح کی بناء پر دوسروں کے اخلاق اور اعمال کو خراب اور برباد ہوتے دیکھ کر بھی روک ٹوک نہ کی جائے صریح خیانت ہے

(ملفوظ 79)پہلی ملاقات میں ہدیہ نہ قبول کرنے کا معمول

(ملفوظ۷۹) ایک صاحب نووارد حاضر ہوئے اور کچھ چیزیں بطور ہدیہ اپنے ہمراہ لائے تھے اس ہدیہ میں ایک ایسے صاحب کا بھی ہدیہ تھا کہ جن کو حضرت والا سے خصوصیت کا تعلق ہے ان آنے والے صاحب سے حضرت والا کے ضروری تعارف کے متعلق دریافت فرمانے پر بھی انہوں نے اپنا پورا تعارف نہیں کرایا اس لئے حضرت والا نے ہدیہ قبول فرمانے سے عزر فرمادیا اور صاحب خصوصیت کا ہدیہ بھی واپس کردیا اور فرمایا کہ پہلی ملاقات میں یا اس کے بعد بھی جب تک کہ باہم بے تکلفی پیدا نہ ہو کسی شخص کا ہدیہ قبول کرنا میرے معمول کے خلاف ہے اور آپ نے تو عدم تعلق کی مانعیت کے علاوہ آتے ہی اذیت پہنچانا شروع کردی اور مجھ کو ستایا بھلا اس شخص کے ہدیہ سے کیا جی بھلا ہو سکتا ہے اور ان صاحب خصوصیت کے ہدیہ کی نسبت فرمایا کہ جن حضرات کا مجھ سے خصوصیت کا تعلق ہوں ان کو بھی ایسے شخص کے ہاتھ ہدیہ بھیجنا نہ چاہیے جو پہلی مرتبہ آ رہا ہو یہ اصول کے خلاف ہے اس لئے کہ نامعلوم اس آنے والے کی مصلحت کی بنا پر اس سے کیا برتاؤ کیا جائے اور کیا معاملہ کیا جائے اور محسن کی وجہ سے واسطہ احسان کو بھی رعایت کرنا پڑتی ہے اور اس وجہ سے جانبین کی مصلحت برباد ہوتی ہے کیونکہ اس سے بعض اوقات اس کے اخلاق خراب ہوتے ہیں پھر ان نووارد کے متعلق فرمایا کہ یہاں تو صدق اور خلوص کی ضرورت ہے لوگ سمجھتے ہیں فلوس سے کام چلتا ہے اس لئے بیچارے ہدیہ لائے تھے بلکہ ان صاحب کو چاہیے تھا کہ جب پہلے سے مجھ سے خط وکتابت جاری ہے تو بجائے ہدیہ کہ وہ خطوط اپنے ہمراہ لاتے اس سے بڑی سہولت ہوتی تعارف میں مدد ملتی آکر وہ خطوط دکھلا دینے سے ان سوالات کی نوبت ہی نہ آتی مگر خدا ناس کرے اس بے فکری اور بد سلیقکی کا کہ اس کی بدولت لوگ بے اصول طریق اختیار کرکے خود سیدھے اور صاف معاملہ کو الجھا لیتے ہیں پھر مجھ کو بد نام کرتے ہیں ۔ دوسرے یہ کہ بدون تعلق اور محبت کے کہیں جانا فضول ہے آدمی جس کے پاس جائے کم از کم دل میں اس کی محبت و عظمت تو ہو ورنہ کیا فائدہ جانے سے۔ نیز میں چاہتا ہوں کہ بات بالکل صاف اور اس قدر صاف ہو کہ پھر گنجائش ہی نہ رہے صاف کرنے کی اور لوگ ہیں کہ وہ اس کو اس قدر خفا( پوشیدہ ) اور ا لجھن میں رکھنا چاہتے ہیں کہ صاف کو بھی گڑ بڑ میں ڈال دیتے ہیں آخری نتیجہ اس کا لڑائی ہی ہے یہ ہیں وہ معاملات جن پر مجھ کو سخت مشہور کیا گیا ہے آپ لوگ دیکھ رہے تھے کہ میں نے ہر بات میں ان صاحب کو کتنی گنجائش اور وسعت دی کہ یہ بسہولت اپنے مالی الضمیر کو ظاہر کردیں مگر نہین وہی ایچ پیچ۔ اتنا بڑا سفر کیا خرچ کیا سفر کی صعوبت ( تکلیف)برداشت کی تو کیا گھر سے بلا تعین مقصود چل دیئے تھے یہ ذہن میں نہ تھا کہ میرا مقصود اس سفر سے کیا ہے سو جس مقصود کا اس وقت ارادہ کر کے اور قلب میں اس کا تعین کرکے چلے تھے وہی مجھ پر ظاہر کردینا چاہئے تھے اور خود تو کیا ظاہر کرتے میرے دریافت کرنے پر بھی نہ بتلایا کہ میں کہاں سے آیا ہوں اور کون ہوں اور کیا کام کرتا ہوں ادھر ادھر کی ہانکنا شروع کردیا میری رعایت اور سہولت کی یہ قدر کی کہ اور الجھن پیدا کرتے رہے ،جہاں تک پہنچے بات کو بڑھایا ہی گھٹایا نہیں یہ فرماکر اس نے فرمایا کہ اسلم یہ ہے کہ آپ اس وقت واپس وطن تشریف لیجائیں اور وہاں سے خط و کتابت کرکے معاملہ طے کریں بشرطیکہ آپ کا بھی جی چاہے ورنہ میری کوئی غرض نہیں نہ مجھ کو انتظار ہوگا وہ صاحب مجلس سے اٹھ کر چل دئے فرمایا ایسے ایسے کوڑ مغز یہاں آتے ہیں میں نے تو ان کی شیروانی کی قدر کی تھی ( وہ شیرونی پہنے ہوئے تھے اور معززہیت میں تھے ) مگر ان کے اخلاق گرگ (بیھڑیا) جیسے نکلے شیرونی نہ نکلے ( اس میں گرگ اور شیر کے تقابل کا لطیفہ ہے)

(ملفوظ 78)بے پردگی کے مفاسد

(ملفوظ ۷۸) ایک صاحب کے سوال کے جواب میں فرمایا کہ جی ہاں بے پردگی کے مفاسد کو دیکھ لیجئے اور ان مفاسد سے پردہ کی اہمیت کا اندازہ کر لیجئے یعنی یہ دیکھ لیجئے کہ زنا کتنی بڑی سخت چیز ہے جس پر رجم کردینے کا حکم ہے اور وہ بے پردگی ہی پر مرتب ہوتا ہے پس اس سے اندازہ ہوسکتاہے پردہ کی اہمیت کا اس کے بعد اور زیادہ دلائل بیان کرنے کی ضرورت نہیں جب زنا کا زیادہ سبب بے پردگی ہے اس وجہ سے پردہ کی کس قدر ضرورت ثابت ہوئی ہے البتہ اگر آج احکام اسلام کا جس میں زنا کی سزا بھی ہے کوئی نافذ کرنے والا ہوتا تو رعب سلطنت سے یہی لوگ جو بے پردگی کے حامی ہیں سب سے زیادہ پردہ کی حمایت کرتے پس یہ لوگ صورت پرست ہیں حقیقت شناس نہیں اب میں اس کے مفاسد کا دوسرا مشاہدہ کراتا ہوں جن قوموں میں پردہ نہیں کس قدر فواحش میں مبتلا ہیں غرض بے پردگی سے بڑی خرابیاں پیدا ہوتی ہیں مگر آج کل فساق فجار کا زمانہ ہے کہ کوئی نہیں سنتا اگر سمجاؤ اور بتلاؤ تو خود مجتہد اور مفسرین بن بیٹھتے ہیں کٹ حجتیاں (دلائل)کرتے ہیں

(ملفوظ77)اتباع سلف صالحین کی حرص

(ملفوظ۷۷) ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ ہم نے جن بزرگوں کو دیکھا ہے ان کے طرز پر چلنے کو جی چاہتا ہے ان حضرات کے کمالات اور ترجیح کی یہ شان تھی۔

شاید آں نیست کہ موے ومیانے دارد بندہ طلعت آن باش کہ آنے دارد

(معشوق وہی نہیں جوزلف دراز اور پتلی کمر رکھتا ہو۔ اس کے بندہ بنو جس میں ادائیں ہوں)

کسی کی خاطر سے یا کسی کی جاہ سے مال کی وجہ سے اس طرز کو چھوڑا نہیں جاسکتا۔ اللہ تعالی سے دعاء ہے کہ اسی طرز پر خاتمہ فرمادیں اور فلاں مدرسہ میں جو کمی آئی وہ ان حضرات کا طرز چھوڑنے سے آئی۔ ویسے عمارت بھی بڑی ہے کام کرنے والوں کے القاب بھی بڑے بڑے ہیں روپیہ بھی بہت ہے مگر جو اصل چیز ہے یعنی وہی جس کو کہا ہے کہ آنے وارد وہی نہیں تو کچھ بھی نہیں۔

(ملفوظ 76)نکاح میں تحقیق کی نظر سے دیکھنے کی اجازت

(ملفوظ ۷۶) فرمایا کہ ایک صاحب کا استفتاء آیا ہے جزم کے ساتھ لکھا ہے کہ حضور دستخط فرما دیں ان کو دوسرا احتمال ہی نہیں ہوا کہ شاید دستخط کے قابل نہ ہو اب اگر ان کا تابع بن جاؤں تو حقیقت کا ان کو کس طرح انکشاف ہومیں نے اس استفتاء کے متعلق ان سے چند سوالات کئے ہیں اگر جواب معقول دیا گیا تو دستخط کرونگا ورنہ نہیں میں ایسے مضامین میں دو باتیں چاہتا ہوں ایک یہ کہ ضروری اور غیرضروری میں لوگوں کو فرق معلوم ہوجائے غیرضروری کی تفتیش کو چھوڑیں دوسرا یہ چاہتا ہوں کہ حق واضح ہوجائے اور رسم مٹ جائے جیسے اکثر تقریبات میں رسم کا اتباع کیا جاتا ہے نیز فتاوی میں مشاہیر کی موافقت بے بصیرت کرلیجاتی ہے مگر اکثر لوگ اس سے گھبراتے ہیں بھاگتے ہیں اسی رسم پرستی کی ظلمت اور کج راہی(غلط راہ) پر رہنا پسند کرتے ہیں اصلاح کی برداشت نہیں کرتے مولانا رومی ایسے ہی گریز کی نسبت فرماتے ہیں

چوں بیک زخمے تو پر کینہ شوی پس کجابے صبقل آئینہ شوی

چوں نداری طاقت سوزن زون پس تواز شیرژیاں ہم دم مزن

(جب تم ایک زخم سے پر کینہ ہوجاتے ہو تو بغیر مانجھے ہوئے آئینہ کی طرح صاف شفاف کس طرح ہوسکتے ہو)

یہ استفتاء ایک رشتہ کے متعلق ہے شادی کے قبل پسند ناپسند کے امتحان کے متعلق پوچھا ہے سوا اس باب میں انگریزوں کے یہاں جو اصول ہیں وہ تو محض بددینی ہیں مگر توافق و تناسبت کا لڑکی اور لڑکے کے متعلق دیکھنا تو بہت ضروری ہے اسی واسطے حالات کی تحقیق کے علاوہ لڑکے کا لڑکی کوایک نظر دیکھ لینا جب کہ نکاح کا ارادہ ہو کوئی حرج نہیں اس لئے کہ تمام عمر کا تعلق پیدا کرنا ہے اس میں بڑی حکمت ہے حریث میں اس کی اجازت ہے مگر یہ دیکھنا تحقیق کی نظر سے ہوگا تلذذ کی نیت سے نہیں جیسے طبیب کو جائز ہے نبض دیکھنا محض اس نیت سے کہ نبض سے مزاج کی برودت اور حرارت وغیرہ معلوم ہوجائے نہ کہ تلذذ کی غرض سے اور ایسی ہی ضرورتوں سے چہرہ کفین(دونوں ہاتھوں) کا کھولنا جائزکردیا گیا ہے ایک صاحب کے سوال کے جواب میں فرمایا کہ جی ہاں اگر دائی ہندنی(ہندو) بھی ہو تو ضرورت کی وجہ سے خاص مواقع دیکھ سکتی ہے اور غیر ضروری مواقع مثلاََ سر سینہ وغیرہ نہیں دیکھ سکتی بے پردگی کے حامیوں نے بعض جزئیات یاد کر لئے ہیں اپنی غرض باطل کےلئے ان کو پیش کردیتے ہیں ضرورت و عدم ضرورت کے فرق سے آنکھیں بند کر لیتے ہیں

(ملفوظ 75)تعلیم کی بیعت سے زیادہ ضرورت ہے

(ملفوظ ۷۵) ایک گفتگو کے سلسلہ میں فرمایا کہ تنبیہات میں نمونے دکھاتا ہوں لوگوں کی بےفکری سے معلوم ہوتا ہے کہ فکر ہے ہی نہیں ایک صاحب نے عرض کیا کہ آج کل بیعت پر لوگوں کو اصرار ہوتا ہے تعلیم کی طرف توجہ نہیں کرتے فرمایا میں اسی عقیدہ کی اصلاح چاہتا ہوں یہ بہت جہالت ہے کہ لوگ کام کو ضروری نہیں سمجھتے بیعت کو ضروری سمجھتے ہیں