(ملفوظ ۱۳۴) بیعت میں تعجیل طرفین کے مصلحت کے خلاف ہے

ایک نووارد صاحب نے حاضر ہوکر حضرتِ والا سے بیعت کی درخواست کی، فرمایا کہ بیعت میں تعجیل سے کام لینا مصلحت کے خلاف ہے۔ سوچ سمجھ کر دیکھ بھال کر بیعت ہونا مناسب ہے اور میں جس طرح اوروں کے لئے مشورہ دیتا ہوں کی بدوں دیکھے بھالے کسی سے بیعت نہ ہونا چاہئیے اسی طرح اپنے لئے بھی اس ضابطہ کی پابندی کرتا ہوں کہ جلدی بیعت نہیں کرتا۔ اس میں طرفین کی مصلحت ہے اور وہ مصلحت دنیوی نہیں ہے بلکہ دینی ہے اور جب دینی ہے تو دنیا تو دین کی باندی لونڈی ہے وہ کہاں جدا ہو سکتی ہے، وہ خودبخود حاصل ہوجائے گی۔ اس لئے میں اس معاملہ میں آپ کو خیر خواہانہ مشورہ دیتا ہوں کہ آپ عجلت سے کام نہ لیں۔

یہ فرما کر کہ دریافت فرمایا کہ جو کچھ میں نے کہا وہ آپ نے سن لیا اب جو رائے قائم کی ہو مجھ کو اس سے مطلع کردیں۔ عرض کیا کہ حضرت نے جو کچھ فرمایا بالکل ٹھیک فرمایا میں اسی مشورہ کے مطابق عمل کروں گا، مقصود تو حضرت کی تعلیم پر عمل کرنا ہے۔ اس پر حضرتِ والا نے فرمایا ماشاءاللہ فہمِ سلیم اسی کو کہتے ہیں۔ اب میں آپکو خوشی سے تعلیم کروں گا۔ اب یہ بتلائیں یہاں پر کے روز کے قیام کی نیت سے آئے ہو؟ عرض کیا کہ تین روز کی نیت سے۔ فرمایا کہ یہ وقت تو ضروری تعلیم کے لئے کافی نہیں اس کی دوسری صورت یہ ہے کہ آپ وطن واپس پہنچ کر بذریعہ خط مجھ کو اطلاع دیں اور اِس وقت کی گفتگو کا خلاصہ اُس میں تحریر کردیں اور اپنے فرصت کے اوقات لکھ دیں میں جو مناسب ہوگا جواب میں لکھ دوں گا۔ نیز اپنے امراضِ باطنی کو ایک ایک لکھ کر الگ الگ علاج کی درخواست کریں ایک دم سب امراض نہ لکھیں۔ جب ایک مرض کے متعلق تعلیم سے فراغ ہو جائے پھر دوسرے کو لکھیں۔ صحیح طریقہ علاج کا یہ ہے۔

پھر فرمایا کہ بعض عنایت فرما مجھ کو بدخُلق اور سخت گیر کہتے ہیں سو دیکھ لیجئیے ان صاحب کے ساتھ کونسا بدخُلقی اور سخت گیری کا برتاؤ کیا؟ میں نے سیدھی سادی بات کہی انہوں نے معقول جواب دیا، چلو چھٹی ہوئی۔

پھر ان صاحب سے فرمایا کہ یہ بات اور آپ یاد رکھیں کہ اس زمانۂ قیام میں مجلس کے اندر خاموش بیٹھے رہیں، مکاتبت مخاطبت کچھ نہ کریں اس سے ان شاء اللہ بڑا فائدہ ہوگا۔ عرض کیا کہ میں ان شاء اللہ تعالیٰ حضرت کی تعلیم کے سر مو خلاف نہ کروں گا۔ حضرتِ والا نے جوش کی حالت میں فرمایا کہ ان شاء اللہ تعالیٰ آپ کی منزلِ مقصود تک ضرور رسائی ہوگی محرومی نہ ہوگی، میں دعا بھی کروں گا۔ آپ کی سلامتِ طبع سے مجھ کو بڑی مسرت ہوئی بس میں آنے والوں سے صرف اتنی ہی بات چاہتا ہوں کہ ضروری ضروری اور سیدھی اور صاف بات کریں اور اپنے کام میں لگیں ایچ پیچ کرکے اپنا وقت ضائع نہ کریں اور نہ میرا۔

(ملفوظ 75)تعلیم کی بیعت سے زیادہ ضرورت ہے

(ملفوظ ۷۵) ایک گفتگو کے سلسلہ میں فرمایا کہ تنبیہات میں نمونے دکھاتا ہوں لوگوں کی بےفکری سے معلوم ہوتا ہے کہ فکر ہے ہی نہیں ایک صاحب نے عرض کیا کہ آج کل بیعت پر لوگوں کو اصرار ہوتا ہے تعلیم کی طرف توجہ نہیں کرتے فرمایا میں اسی عقیدہ کی اصلاح چاہتا ہوں یہ بہت جہالت ہے کہ لوگ کام کو ضروری نہیں سمجھتے بیعت کو ضروری سمجھتے ہیں