( ملفوظ 41 )حضرت مولانا محمد یعقوب صاحب کا اپنا نام بھولنا کا واقعہ

ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ انسان کو کسی چیز پر بھی ناز نہ ہونا چاہئے محض ان کے فضل نہ ہو سب دھرا رہ جاتا ہے ایک مرتبہ حضرت مولانا یعقوب صاحب رحمتہ اللہ عیلہ فرماتے تھے کہ میں نے ایک مرتبہ خط لکھ کر اپنے دستخط کرنا چاہا مگر اپنا نام بھول گیا اور ایسی عجیب بات ہے کہ میں اگر خود مولانا سے نہ سنتا تو راوی کی تکزیب کرتا بھلا کیا کوئی دعوی یا ناز کرسکتا ہے جب اتنے بڑے عال کو ایسی بات بھلادی گئی جس کا بھولنا عادۃ محال ہے –

( ملفوظ 42 )تنعم طالب علمی کے خلاف

ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ والد صاحب نے ایک مرتبہ حضرت مولانا محمد یعقوب صاحب کے واسطے چائے بھیجی اور ایک خط بھی اس کے ہمرا ہ آیا اس میں لکھا تھا کہ کبھی اشرف علی کو بھی شریک فرمالیا کریں پھر اسی خط کے اخیر حصہ میں لکھتے ہیں کہ یہ میں نے بے سوچے لکھ دیا تھا ایسا تنعم طالب علمی کے خلاف ہے مولانا نے مجھ سے دریافت کیاکہ تمہارے والد کا خط ہے ایک خط ہی میں دو باتیں لکھی ہیں کون سی پر عمل کروں میں نے عرض کیا کہ حضرت آخر کی بات ناسخ ہوتی ہے اسی پر عمل فرمایا جائے۔ یہ حضرات باوجود اس کے کہ ان میں بعض دنیا دار بھی تھے مگر عرف اور رواج سے ملغوب نہ تھے صدق اور خلوص کا غلبہ تھا ورنہ ہدیہ کے متعلق یہ درخواست کہ اس میں سے میری اولاد کو بھی دیجئے عرف سے کس قدر بعید ہے۔

( ملفوظ 40 ) مدعیان علم و فہم سے گفتگو میں تسامح کی رعایت نہیں

ایک سلسہ گفتگو میں فرمایا کہ میری عادت مدعیان علم وفہم کے ساتھ معاملات کی گفتگو میں تسامح و رعایت کی نہیں اس سے ان کو دھوکا ہوتا ہے کہ یہ دبتا ہے اور اس خیال سے ان کا جہل بڑھتا ہے میں جب تک ضرورت نہ ہونے تک درگزر کرتا ہوں ِ،کرتا ہوں مگر جس وقت گفتگو کیلۓ متوجہ ہوتا ہوں اس وقت اللہ تعلی مدد فرماتے ہیں فلاں مدرسہ کا مجلس شوری کے ارکان آۓ ہوۓ ہیں ان لوگوں نے اس کے قبل ایک دل آزار خط لکھا تھا اس کے متعق ان سے گفتگو ہوئ انہوں نے چاہا تھا کہ مدرسہ کی دوسری جزئیات میں گفتگو کریں میں نے منع کر دیا اور صاف کہہ دیا کہ میں اس بیہودہ تحریر سے منقبض ہوں اور رہوں گا ـ اول اس کو صاف کیجیۓ اور میں نے ان کو اجازت دی کہ اس میں گفتگو کر لی جاۓ اس پر جواب دیا گیا کہ جن صاحب کی طرف سے وہ تحریر آئ ہے ان کا طرز تحریر ہی ایسا ہے باقی دل میں کوئ بات نہیں میں نے کہا کہ میں اس کی تکذیب نہیں کرتا مگر باوجود اس علم کے کہ ایک شخص کی تحریر کا یہ طرز ہے اس سے کیوں لکھوایا میں نے یہ بھی لکھ دیا کہ یہ معاملہ کی گفتگو ہے میں صافصاف کہوں گا اور اس وقت میرا کلام آزد نہ ہو گا کہنے لگے پھر اب اس کا کیا تدارک ہو میں نے کہا کہ میرا ہی معاملہ اور مجھ سے ہی تدارک کی تدبیر پوچھی جاۓ ہاں اگر کسی اور کا معاملہ ہوتا تو مجھ سے اس سوال کا مضائقہ نہ ہوتا میری غیرت کا اقتضا نہیں کہ میں اپنے متعلق تدارک کی تدبیر بتلاؤں اس پر ان ہی میں سے ایک صاحب نے سب کو مخاطب کر کے کہا کہ آپ لوگوں کو خود تدارک تجویز کرنا چاہیۓ میں نے کہا کہ میں اتنی ہی رعایت کر سکتا ہوں کہ جو تدارک آپ لوگ تجویز کریں گے اس کے کافی ہونے نہ ہونے کو میں ظاہر کر دوں گا اواصولا تو صورت یہ ہونا چاہیۓ کہ آپ تدارک بھی تجویز کریں اور اس کا اعلان بھی کریں اس وقت میں اپن راۓ کا اظہار کروں کہ یہ کافی ہوا یا نہیں اور کافی نہ ہونے کی صورت میں کہوں کہ اور کوئ تدارک کیجیۓ ـ مگر میں اعلان سے قبل ہی محض آپ کی تجویز کے بعد ہی کافی ہونے نہ ہونے کو ظاہر کردوں گا اور یہ میرا تبرع اور احسان ہو گا اس کے بعد ایک صاحب کے ذہن میں وہی بات آئ جو میں تجویز کرتا یعنی یہ کہ اس تحریر کا رد لکھا جاۓ بس یہ تدارک کی کافی صورت ہے اور اس سے پہلے دو صورتیں بیان کی تھیں مجھ کو یاد نہیں اخیر صورت یہ تجویز ہوئ یعنی کہ اس غلطی کو چھپوا کر شائع کر دیں اس کی نسبت مجھ سے میں نے کہا بالکل کافی ہے پھر اس پر سوال ہوا کہ رسالہ”” النور اور الہادی “” میں شائع کر دیا جاۓ میں نے کہا وہ رسالے تو میرے کہلاتے ہیں کہا کہ اخباروں میں شائع کر دیا جاۓ میں نے کہا مجھ کو یہ بھی گوارا نہیں ـ اس لیۓ کہ اخباروں کا زیادہ حصہ نا اہلوں اور بد دینوں کے ہاتھ میں جاتا ہے میں اس کو گوارا نہیں کر سکتا کہ آپ دینداروں کی بد دینوں میں سبکی ہو ـ ہاں ایک اور صورت ہے وہ یہ کہ مستقل چھپوا کر شائع کیجۓ تقسیم کیجیۓ یہ بات تو ختم ہو گئ پھر میں نے یہ بھی کہہ دیا مجھ کو اس کے تدارک کے اعلان کا انتظار نہ ہو گا اگر جی چاہے اور یہاں سے جا کر دوسرے حضرات کے مشورہ کے بعد بھی یہی راۓ رہے جو اس وقت طے ہوئ اور اس میں مدرسہ کی اور اپنی مصلحت بھی ہو تو شائع کیجۓ ورنہ جانے دیجۓ مگر مجھ کو بھی اپنے حال پر رہنے کی اجازت دینا پڑے گی اور یہ جو اس وقت میں کچھ کہا ہے محض آپ کے آنے کی وجہ سے اور آپ کی خواہش پر ورنہ اس میں بھی میری کوئ غرض نہیں اس کے بعد مدسہ کی سرپرستی کا مسئلہ پیش ہوا ایک صاحب نے کہا میری ذاتی راۓ ہے کہ کلی اختیارات سرپرست کو ہونے چاہئیں وہ جو مصلحت اور مناسبت سمجھے احکام صادر کرے اس پر ایک صاحب نے کہا اس کے معنی تو یہ ہیں کہ شوری بالکل حذف کر دیا جاۓ میں نے کہا یہ معنی نہیں جو آپ سمجھے بلکہ مصلحت یہی ہے کہ شوری ہوا ـ خلفا ء راشدین کا بھی یہی معلوم رہا کہ شوری ہوتا تھا خد جناب رسول مقبول صل اللہ علیہ وسلم صحابہ سے مشورہ فرمایا کرتے تھے باقی یہ کہ جب کل اختیارات ایک ہی کو ہوں گے پھر وہ کون سی مصلحت ہے جو شوری میں ہے وہ مصلحت یہ ہے کہ مختیار مطلق کی نظر کو محیط بنا دیں اسلۓ کہ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ ہر وقت ہر چیز ایک شخص کی نظر محیط نہیں ہوتی اس لۓ اس کی ضرورت ہے کہ سب اپنی اپنی رائے پیش کردیا کریں تاکہ اس محتیار مطلق کی نظر میں سب پہلو آجاویں پھر اس کے بعد یہ حق کسی کو نہ ہوگا کہ وہ سر پرست سے اس کا سوال کریں کہ آپ نے تجویز کی ہے میں کیا مصلحت اور کیا حکمت ہے اگر ایسا ہوا کہ وہ انہیں سمجھائیں یہ انہیں سمجھائیں تو یہ ایک مناظرہ کی صورت ہوگی اور ایسے معلامات جو ذوق اور وجدان کے ماتحت ہوتے ہیں مناظرہ اور مکالمہ سے طے نہیں ہوا کرتے ایک صاحب نے کہا کہ اگر بالکیہ احتیار سر پرست کودے دیئے جائیں تو ممکن ہے کہ کوئی اہل غرض آکر سر پرست کی رائے کو بدل دے – میں نے کہا کہ یہ تو اہل شوری میں بھی احتمال ہے کہ کوئی غرض آکر ان کی رایوں کو بدل دے اور ایسے کو سر پر ست بنایا ہی کیو جاوے جس سے اس قسم اندیشہ ہو اور شبہ ہو بلکہ ایسے کو سرپرست بنایئے جہاں اور جہاں یہ شبہ نہ اور اس پر اعتماد ہو اور وہ متدین ہو بس اس کو ایسے اختیارات دیئے جائیں اور جس میں یہ باتیں نہ تو جو قواعد سابقہ سرپرست کے متعلق ہوں ان کو حذف کر کےس دوسرے قوعد تجویز کر لئے اس سے سب شقوق کا فیصلہ ہوگیا اب یہ کام آپ صاحبوں کا ہے جس کو سرپرست بنایا جائے دیکھ لیا جاوے اور یہ میں آپکو اطمینان دلائے دیتا ہوں کہ مجھ کو شوق نہ سر پرستی کا اور نہ احتیارات کا جو کچھ ہے مدرسہ ہی کی مصلحت کے واسطے ہے ورنہ بات تو میری یہ ہے کہ میں بکھیڑوں سے گھبراتا ہوں خصوصی ذمہ داری کے کاموں سے بس طبیعت آزادی اور یکسوئی کو چاہتی ہے – میری اس تقریر کے بعد اس ہی مجلس میں میری سر پرستی کے متعلق گفتگو شروع کردی میں نے کہا کہ اپنے مستقر پر جاکر اس کو طے کیجئے اور اگر یہاں ہی طے کرنا ہے تو مجھ کو اجازت دی جائے میں اس جگہ سے علیحدی ہوجاؤں میں اس مجلس میں شرکت نہ کروں گا جس میں میرے متعلق گفتگو ہو اور بہتر وہ پہلی شق ہے کہ وہاں ہی جاکر کو طے کریں تاکہ سب کی رائے اطمینان سے پیش ہو کر معاملہ ھوجائے ایسے کاموں میں جوش اور عجلت سے کام نہ لینا چاہئے قرائن سے معلوم ہوتا تھا کہ بات سب کی سمجھ میں آگئی میں نے یہ بھی کہا کہ میں نہ متعارف متواضع ہوں کہ خواہ مخواہ تکیف کی راہ سے اپنی نااہلیت ک ادعوی یا اقرار کروں اور نہ بحمد اللہ متکبر ہوں کہ خواہ مخواہ دعوی اہلیت کا کرکے بڑائی کی خواہش کروں میں دل سے راضی ہوں کہ جس کو مدرسہ کے لئے مصلحت سمجھا جائے سر پرست بنایئں مقصود کام کا ہونا ہے کام ہونا چاہئے کام کرنے والا کوئی بھی ہو – ہاں اس کو ضرور جی چاہتا ہے کہ مدرسہ میں سے جاتی رہی تو ہونا نہ ہونا برابر ہے اور میں اس کا بھی اطمینان دلاتا ہوں کہ میں اختلاف رائے سے دلگیر نہ ہوں گا اب اس کی دعا کرتا ہوں کہ مدرسہ کے واسطے جو بہتر ہو اس پر سب کا اتفاق ہوجائے بس مجلس گفتگو ختم ہوگئی –
5 ذیقعدہ 1350 ھ مجلس بعد نماز ظہر یوم دو شنبہ

(ملفوظ 39 ) پھیکی روشنائ سے طویل خط سے تکلیف

فرمایا کہ ایک صاحب کا خط آیا ہے ایک دفتر بے معنی ہے اور روشنائ پھیکی ہے ـ میں نے جواب میں لکھ دیا ہے کہ اتنا طویل مضمون پھر روشنائ بھی پھیکی جس کے پڑھنے میں وقت بھی زیادہ صرف ہوا اور آنکھیں بھی ـ تو جس شخص کو بہت سا کام ہو وہ ایسی تکلیف برداشت نہیں کر سکتا ـ زبانی ارشاد فرمایا کہ کہ دس آنہ کا کام ڈھائ آنہ میں نکالنا چاہتے ہیں اگر یہی مضمون چار لففوں میں ہو تو شاید وہ بھی کیفایت نہ کرتے بعض لوگ بڑے ذہین ہوتے ہیں ایک شخص نے اس طویل کا عزر لکھا تھا کہ صاحب اگر کسی کے پاس پیسہ نہ ہو ـ میں نے لکھا کہ ہم سے منگا لو مگر ہمارے پاس خط طریقہ سے بھیجو چناچہ انہوں نے ٹکٹ کے دام بھیجنے کو لکھا میں نے ایک روپیہ بھیج دیا اور یہ لکھ دیا کہ جب یہ ختم ہو جاۓ پھر لکھو مگر ایک مرتبہ میں ایک رپیہ سے زائد نہ دوں گا حق تعالی کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ ہر ایک عزر کا جواب قلب میں پیدا فرما دیا ہے ـ
5 ذیقعدہ 1450 ھ پونے آٹھ بجے صبح یوم دو شنبہ

( ملفوظ 38 ) الحسیلتہ الناجزہ کی تصنیف کا سبب

ایک سلسلہ گفتگو میں م فرمایا کہ آئے دن نیا فتفنہ پیدا ہوتا ہے اس وقت ایک بڑا فتنہ یہ پیدا ہوا کہ خاوندوں کی زیادتی اور ظلم کے سبب عورتوں میں ارتداد شروع ہوگیامعلوم ہواکہ قریب ہی زمانہ میں کئی ہزار عورتیں مرتد ہوچکیں بعض لوگ سوال کرتے ہیں کہ عورتوں کو جو مرد ستاتے ہیں اور ظلم کرتے ہیں یا مرد مجنون ہوگیا ہے یا عنین ہے یا مفقود الخبر ہے اس کے متعلق اسلام میں کیا احکام ہیں اور اعتراض کرتے ہیں کہ اسلام ایسی حالت میں مرد سے عورت کی نجات کیلۓ کوئ صورت نہیں کوئ امام ابو حنیفہ پر اعتراض کرتا ہے کہ ان کے مذہب میں ان مشکلات کا کوئ حل نہیں ہے ان ہی وجود سے ایک رسالہ مرتب کرا رہا ہوں اب یہ سوال ہوتا ہے کہ جب تک وہ رسالہ تیار ہو اور اس کی اشاعت ہو اس وقت تک مظلومہ کس طرح زندگی بسر کرے میں جواب دیتا ہوں اگر شروع میں نجات کی ایسی تدبیر نکل بھی آے مگر شوہر عدالت میں چارہ جوئ کرے کیونکہ وہ تدبیر قانون میں منظور شدہ نہیں تو عورت کو قانون کی زد سے بچنے کی کیا صورت کیا تدبیر ہو گی اس کا کسی نے آج تک جواب نہیں دیا دوسروں ہی پر اعترض کرنا آتا ہے اب جواب دیں یہ اس کا مصداق ہو گیا کہ میں الزام ان کو دیتا تھا قصور اپنا نکل آیا اب تک تو یہ شبہ تھا کہ علماء کے یہاں اس کا علاج نہیں علماء بتا نہیں سکتے اب بحمداللہ اس کا بھی جواب نکل آیا لیکن باوجود ایسے اعتراضات کے لغو ہونے کے ہمیں پھر بھی اس کی ضرورت ہے کہ ہم نجات کی سبیل بتلائیں اس بتلانے کے بعد دو جماعت کا قصور رہ جاوے گا ایک حکام کا کہ ایسا کوئ قانون نہیں بنایا کہ وہ مذہب کے بھی مطابق ہو اور ایک عوام کا کہ وہ کوشش کرکے اس شرعی تدبیر کو قانون میں کیوں نہیں داخل کرا لیتے جبسے میں نے یہ سنا ہے کہ کئ ہزار عورتیں کوئ سبیل نہ ہونے کی وجہ سے مرتد ہو گئیں اس سے بے حد دل پر اثر ہوا اور اس رسالہ کی تکمیل کی ضرورت محسوس ہوئ اور چونکہ اس رسالہ میں بعض تدابیر دوسرے ائمہ سے لی گئ ہیں اس لیۓ بعض علماء نے کہا ہے اس سے حنفیت جاتی رہے گی میں نے کہا (کیا خوب )چاہے اسلامیت جاتی رہے مگر حنفیت نہ جاۓ بعض نے کہا کہ مردوں کی قوامیت ( حکومت ) جاتی رہے گی میں نے کہا چاہے عورتوں کی اسلامیت جاتی رہے نیز میں نے کہا کہ کیا اس وسطے حکومت دی تھی کہ ظلم کیا کریں ـ اگر ایسی حکومت جاتی رہے تو اس کا جانا ہی اچھا ـ ( الحمد اللہ کہ وہ رسالہ تیار ہو کر چھپ گیا اس کا نام ہے الحسیلتہ الناجزہ للجلیلتہ العاجزہ )

( ملفوظ 37 )تجربات کے بعد اصول وقواعد متین ہونا

ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ میری یہاں جس قدر اصول اور قواعد مرتب ہوئے وہ بعد تجربوں کے ہوئے ہیں مثلا لوگ آتے ہیں اور استغنا ء وغیرہ ساتھ لاتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ فورا جواب لکھ دیا جائے میں اول تو یہ بات ہے کہ بعض مسئلہ ایسا ہوتا ہے کہ کتاب دیکھنے کی ضرورت پڑتی ہے اور دوسرے یہ کہ جلدی میں اندیشہ ہے کہ ذہول کے سبب جواب لکھا جائے – ایک دفعہ ایسا ہوچکا ہے ایک شخص فتوی لکھوانے آیا میں نے لکھ دیا اس میں غلطی ہوگئی یاد آنے پر اس قدر قلب پریشان اور مشوش ہوا کہ مسئلہ کہ بات ہے اب کیا ہو یہ بھی معلوم نہ تھا کہ وہ کہاں کا رہنے والا اور کس طرف کوگیا جب کچھ نہ بن پڑا دعا ء کی – تھوڑی دیر بعد دیکھتا ہوں کہ شخص فتوی ہاتھ میں لئے رہا ہے مجھ کو اس وقت بڑے مسرت ہوئی اور خدا کے فضل کا شکریہ ادا کیا اس شخص نے آکر کہا مولوی جی اس پر آپ نے مہر تو کی ہی نہیں میں نے کہا کہ بھائی مہر تو اب بھی نہ کروں گا مہر میرے پاس ہے ہی نہیں ہاںمسئلہ غلط لکھا گیا تھا اس کو صحیح کردوں گا غرض میں نے اس کو درست کردیا اور اس وقت سے قاعدہ مقرر کردیا کہ استفتاء اور اس کے ساتھ اپنا پتہ لکھ کر لفافہ جاؤ بذیعہ بیھج دیا جائے گا مسائل کا نازک معاملہ ہے اس کے بعد سے ایسا نہیں کرتا کہ فورا جواب لکھ کردے دوں – اس کے علاوہ اس میں ایک بات اور بھی ہے یہ وہ کہ جب تک کام لینے والا سر پر ہوتا ہے غور وفکر کا کام نہیں ہوتا ایک قسم کا تقاضا اور بوجھ ساقلب پر رہتا ہے کام لینے والے کے علاوہ چاہے جس قدر مجمع ہو اس قسم کا اثر نہیں ہوتا اس قسم کی باتیں وجدانی ہیں جو محض بیان سے دوسرے کی سمجھ میں نہیں آسکتیں کام کرنے والا ہی سمجھتا ہے ایک شاعر لندن میں تھا – مشہور تھا – اس کے اشعار مقبول بہت تھے ایک شخص نے شاعر سے کہا کہ اتنے ہزار روپیہ لے لو – اور اس سال کے اندر جتنے اشعار لکھو سب دے دو اس نے وعدہ لرلیا اسی وقت سے آمدہ بند ہوگی تب اس شاعر نے روپیہ لوٹا دیا اور کہا کہ میں ایسا وعدہ نہیں کرتا اسی وقت سے آمد شروع ہوگئی – اس کو تو کام کرنے والا ہی سمجھ سکتا ہے کہ کس چیز کا اثر ہوتا ہے دوسرے کو کیا خبر – ایک شخص یہاں پر بیٹھ گئے میں نے پوچھا کیسے بیٹھے ہو کہنے لگے کہ میں دیکھ رہا ہوں میں نے کہ اگر کوئی تم کو بیٹھ کر دیکھے تو کیا تم کو تکلیف نہ ہوگی کہا کہ مجھ کو تو کوئی تکلیف نہ ہوگی کہا کہ مجھ کو تو کوئی تکلیف نہ ہوگی میں نے کہا کہ میں تمہارے تکذیب نہیں کرتا تم کو نہ ہوتی ہوگی مگر مجھ کو ہوتی ہے یہاں سے جائے اس کو آپ نہیں سمجھتا ہوں خیر یہ تو ان کی بے حسی تھی مگر زیادہ تردد سری چیز ہے یعنی قلت اعتنا ء اور قلت اہتمام اس کی ہی نہیں کہ ہم سے دوسرے تکیف نہ ہو میں تو رات دن مشاہدہ کررہا ہوں مجھ کو تو سخت مزاج کہتے ہیں مگر اپنی نرم مزاجی کو ملا حظہ نہیں فرماتے – کہ بے فکری کے سبب ایذا ئیں دیتے ہیں غرض دنیا سے سلیقہ گم ہوگیا نہ عربی خوانوں میں رہا نہ انگریزی خوانوں میں رہا – باکل مفقود ہی ہوگیا اور کچہ نہیں صرف نے فکری کا غلبہ ہوگیا ہے یہ سبب اسی کے برکات ہیں اپنی طبیعت پر سوچنے کا بوجہ نہیں ڈالتے کہ دوسرا کو تکلیف نہ پہنچے –
اسلامیت جاتی رہے مگر حقیقت نہ جائے بعض نے کہا مردوں کی قوامیت ( حکومت )

(ملفوظ 36 ) طلب کی شرط اعظم مطلوب کی تعین ہے

ایک صاحب کیے سوال کے جواب میں فرمایا اس کرید سے میرا مقصود یہ معلوم کرنا ہوتا ہے کہ آیا مطلوب ان کے ذہن میں معلم مستحضر ہے یا نہیں کیونکہ طلب کی شرائط اعظم مطلوب کی تعین ہے ـ نیز اس وجہ سے بھی کہ آیا میں اس کو پورا کر سکتا ہوں کہ نہیں اور یہ معلم ہو جانے پر طرفین میں سے کسی کے ساتھ دھوکا نہیں ہوتا ـ میں بات کو صاف ہی کرنا چاہتا ہوں خدانخواستہ مواخزہ بالزات تھوڑا ہی مقصود ہوتا ہے گو وہ مواخزہ ہوتا ہے مگر محض صورۃ مواخزہ ہوتا ہے ـ اس سے اصل مقصود صفائ ہوتی ہے لوگوں کی عادت ہے کہ وہ صاف بات کو بھی الجھاتے ہیں اور تاویلات کرنا شروع کر دیتے ہیں اس کی وجہ سے ناگواری کے سبب میرے لحجے میں تغیر پیدا ہوتا ہے اس تغیر کو خفگی سے تعبیر کرتے ہیں اور یہ تو ایسا ہے کہ طبیب مریض کی بد پرہیزی پر مطلع ہو جاۓ اور وہ مریض طبیب کی خفگی سے بچنا چاہیۓ اس لیۓ اس——– میں تاویلات اور تلبیس کرے تو اب بتلایۓ کہ اس سے طبیب کا نقصان ہے یا مریض کا ـ لوگ ذہانت سے کام نکالنا چاہتے ہیں اور اللہ فضل سے اور اپنے بزرگوں کی دعاء کی برکت سے وہ یہاں پر چلتی چلاتی نہیں ، حق وباطل صاف صاف نظر آنے لگتا ہے اس پر لوگ ناراض ہوتے ہیں بدنام کرتے ہیں اسی دوران تقریر میں ایک صاحب سے ان کی غلطی پر مواخذہ فرمایا کہ یہ حرکت کیوں ہوئی اس پر ان صاحب نے تاویلات شروع کردی ارشاد فرمایا کہ ابھی ذکر ہورہا تھا تاویلات کے مدموم ہونے کا اور وہی حرکت موجود ہے اب آپ حضرات دیکھ رہے ہیں کہ میری گفتگو انتہا درجہ کی صاف ہے کوئی گنجلک نہیں ابہام نہیں اشارہ کیا یہ نہیں کوئی ایسی باریک بات نہیں مگر دیکھ لیجئے کہ اس کو تاویلات کا جامہ پہنا کر کہاں سے کہاں پہچادیں گے – اپنی غلطی کے اقرار کا تو یہ لوگ سبق ہی نہیں پڑھے سب ایک مکتب کے تعلیم پائے ہوئے قسم کھا کر آتے ہیں کہ کبھی اپنی غلطی کا اقرار نہ کریں گے اور کبھی سیدھی بات صاف نہ کہیں گے – پھر بتلایئے نااہلوں کے جمع کرنے سے کیا فائدہ کیا اس میں میرا کوئی نفع ہے یا میری کوئی غرض ہے پوچھتا محض اس غرض سے ہوں کہ منشاء غلطی کا معلوم ہو تو اصلاح کی تدبیر کروں – مگر اس کو بلی کے گوہ کی طرح چھپاتے ہیں سو میری جوتی سے مجھ کو کون غرض ہے کہ میں ایسے بد فہوں کا تختئہ مشق بنوں اپنی اصلاح نہیں چاہتے جائیں اپنے بلانے کون گیا تھا – اور جب تک انسان خود اپنی اصلاح نہ چاہے بیچارے بزرگ اور عالم تو کیا ہستی اور وجود رکھتے ہیں زیسوں کی اصلاح نبی بھی نہیں کرسکے دیکھ لیجئے ابو طالب کا واقعہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے مرتے دم تک سعی اور کوشش فرمائی کہ ایمان لے آئیں مگر چونکہ ابو طالب نے نہ چاہا کچھ بھی نہ ہوا اس کے بعد کسی کو کیا منہ ہے کہ کوئی بدون طالب کی طلب کے اصلاح کرسکے پھر حضرت والا نے ان صاحب کی طرف متوجہ ہوکر فرمایا کہ آپ اگر میری بات کا صاف اور معقول جواب نہیں دے سکتے یا دینا نہیں چاہتے تو مجلس سے اٹھ جایئے اور جب تک جواب نہ دیں مجلس میں بیٹھے کی اجازت نہیں اور اب اگر جواب دینے کا ارادہ ہو تو کسی واسطہ سے جواب دیں میں براہ راست اب گفتگو نہ کروں گا اور یہ بھی ظاہر کئے دیتا ہوں کہ مجھ کو جواب کا انتظار نہ ہوگا اگر تم اپنی مصلحت سمجھو اور جی بھی چاہے تو کسی واسطہ سے جواب دینا ورنہ معاملہ ختم اس پر وہ صاحب خاموش رہے فرمایا کہ جو میں نے عرض کیا آپ نے سن لیا کہ عرض کیا کہ سن لیا فرمایا تو کم از کم ہاں نہ کا جواب تو آدمی کو دینا چاہیئے ٓ تاکہ دوسرا بے فکر ہوجائے نواب نہ بننا چایئے – کیوں آپ لوگ ستاتے ہیں جایئے مسجد میں جاکر بیٹھئے وہ صاحب اٹھ کر چلے گئے فرمایا کہ اب آپ حضرات نے نقشہ دیکھ لیا یہ ہیں وہ باتیں جن پر مجہ کو بدنام کیا جاتا ہے آخر میں بھی بشر ہوں تغیر کی بات پر تغیر ہوتا ہی ہے اور اگر تاویلات کا دروازہ کھولوں تو پھر اصلاح کی کیا صورت ہے اور مجھ کو تو یہ آسان ہے کہ اصلاح کاکام قطعا چھوڑدوں باقی یہ مجھ سے نہیں ہوسکتا کہ آنے والوں کی چاپلوسی کروں اور ہاتھ جوڑ کر عرض کیا کروں کہ حضور آپ سے فلاں غلطی ہوئی آئندہ نہ ہو – سو مجھ سے نہیں ہوسکتا اگر اس کی برداشت نہیں تو اور کہیں جائیں ایک میں ہی تو مصلح نہیں اور بہت جگہ ہیں مگر کام تو ہی کے طریق سے ہوتا ہے –

(ملفوظ 35 )خطوط پر بھی طریق سے مناسبت نہ ہونا

فرمایا کہ ایک صاحب کا خط آیا تھا اس میں بیعت کی در خواست کی تھی میں نے لکھا کہ میں جب تک یہ نہ دیکھ لوں کہ تم کو طریق سے مناسبت بھی ہے یا نہیں اس وقت تک بیعت نہیں کر سکتا اور اس کا اندازہ موقوف ہے خطوط تعلیمی کے دیکھنے پر جس کا سلسلہ پہلے سے جاری ہے آج ان کے خطوط آے ہیں تریسٹھ خطوط ہیں ایک اچھی خاصی مسل ہے میں نے سب کو دیکھنے کی بھی زحمت گوارا کی دیکھنے پر معلوم ہوا کہ بالکل مناسبت نہیں ان خطوط سے معلوم ہوا کہ بوجود تنبیہات کے پھر بھی بہت گڑبڑ کی ہے اس کا سبب صرف فہم کی کمی ہے فہم نہیں معلوم ہوتا حتی کہ آخر کے خطوط میں بھی وہی گڑبڑ ہے حالاکہ اتنے دنوں میں تو مناسبت ہو جانا چاہیۓ تھی لوگ مجھ کو تو بدنام کرتے ہیں مگر اپنے فہم کو نہیں دیکھتے ـ جمیں نے ان صاحب کو جواب لکھ دیا ہے کہ سب خطوط دیکھ کر معلوم ہوا کہ ابھی طریق سے مناسبت نہیں ہوئ معلوم نہیں اس کا کیا سبب ہے کم فہمی یا بے فکری سبقہ خطوط میں سے بعض میں تو میں نے جتلا بھی دیا ہے کہ تم سمجھتے بھی نہیں ـ مگر پھر بھی خطوط میں گڑبڑ ہے الجھی ہوئ باتیں لکھی ہیں ـ میں نہایت صاف بات لکھتا ہوں مگر پھر بھی لوگ الجھتے ہیں میری بات میں کبھی گنجلک نیں ہوتی نہ تقریر میں نہ تحریر میں البتہ علمی تصنیفی مضامین میں میری تقریر ضرور ایسی ہوتی ہے جیسے کنز مگر وہ بھی صاف ـ گو مختصر ہو مگر مبہم نہیں ہوتی ابہام اور چیز ہے اور اختصار اور چیز ہے ـ

( ملفوظ 34 )طریق میں غیر مقصود چیزوں کی تفصیل

ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کام کرنا چاہیے اس غم میں نہ پڑنا چاہیۓ کہ میرے اندر شوق نہیں خوف نہیں کیفیات نہیں لزات نہیں انوار نہیں یہ سب چیزیں غیر مقصود ہیں ہاں مقصود کی معین ہو جاتی ہے اور وہ بھی بعض کیلۓ اور بعض کی قید اس لۓ لگائ کہ بعض کو یہ چیزیں مضر بھی ہوتی ہیں اور ہر حال میں سالک جن احوال و کیفیات کے فقدان سے پریشان ہوتا ہے ـ یہ فقدان کوئ نقص نہیں بلکہ میں تو کہتا ہوں کہ بڑا کمال ہے بدون احوال و کیفیات کے بھی مقصد میں رسوخ حاصل ہو جاۓ ـ یہ بڑی نعمت ہے بڑی دولت ہے غرض بندہ کو بندہ بن کر رہنا چاہیۓ اور جس حال میں حق تعالی رکھیں اسی کو اپنے لیۓ مصلحت اور حکمت سمجھنا چاہیۓ ـ ایک ضروری بات سمجھ لینے کی یہ ہے کہ یہ چیزیں غیر اختیاری ہیں اختیاری نہیں اس لیۓ معمور بہ بھی نہیں ـ مامور بہ صرف اعمال ہیں اور ثمرہ ان کا رضاء حق ہے ـ بس یہ حقیقت ہے اس طریق کی اب اس کا عکس لوگ سمجھے ہوۓ ہیں کہ غیر مقصود کو مقصود اور مقصود کو غیر مقصود سمجھ رہے ہیں اور اس لیۓ غیر ختیاری چیزوں کے پیچھے پڑے ہوۓ ہیں اور وہ سبب ہو جاتا ہے پریشانی کا اس لیۓ میں سب سے اول اس کی کوشش کرتا ہوں کہ طالب صحیح راستے پر پڑ جاۓ اور اپنے مقصود کو سمجھ لے پھر ساری عمر کیلۓ انشا اللہ تعالی پریشانی سے نجات ہو جاتی ہے گو اس حالت میں بھی ضرور ہے کہ سالک پر اکثر حزن و غم کے پہاڑ رہتے ہیں مگر وہ اور چیز ہے ایک پریشانی ہوتی ہے گمراہی کی کہ رستہ سے بھٹکتا ہوا پھرتا ہے اور راستہ نہیں ملتا یہ پریشانی تو مقصود کے تعین سے رفع ہو جاتی ہے اور ایک پریشانی ہوتی ہے محبوب کے توارو تجلیات کی تو وہ حزن اور غم و پریشانی تو ایسی ہے کہ ہزاروں سکون اور راحتوں کو اس پر قربان کریں اس میں محب کو ہر ساعت یہی خیال رہتا ہے کہ میں محبوب کا حق ادا نہیں کر سکا پھر جس وقت یہ شبھ ہوتا ہے کہ ان کی محبت یا مطلب میں ذرا برابر بھی کمی ہے تو اس پر حزن و غم کے پہاڑ ٹوٹ پڑتے ہیں اسی کو فرماتےُ ہیں ـ
بر دل سالک ہزاراں غم بود گر نہ باغ دل خلا لے کم بود
( سالک دل کے باغ میں سے اگر ایک تنکا بھی کم ہو جاتا ہے تو اس کے دل پر ہزاروں غم سوار ہو جاتے ہیں ـ 12)
پھر یہ سب کچھ تو ہے مگر اس طریق میں ناکامی نا اومیدی اور مایوسی کا نام و نشان نہیں قدم قدم پر تسلی موجود ہے بشرطیکہ منزل مقصود کی صحیح راہ معلوم ہو گئ ہو اس لیۓ کہ پھر تو صرف چلنا ہی باقی رہ جاتا ہے اور جس قدر چلتا ہے مقصود سے قرب ہی ہوتا جاتا ہے پھر تو اس شخص کو نا اومیدی اور مایوسی کا وسوسہ تک بھی نہیں ہوتا مولانا رومی فرماتے ہیں ـ عے
کوۓ نومیدی مرد کا مید ہاست سوۓ تاریکی مرو خور شید ہاست
( نا امیدی کے کوچہ میں بھی مت جاؤ کیو نکہ (حضرت حق سے ) بہت امیدیں ہیں اور اندھیرے کی طرف مت جاؤ جبکہ سورج نکلے ہوۓ ہیں 12 )
باقی خود محبت کے نشیبو فراز کی پریشانی یہ الگ چیز ہے ـ
من لم یذق لم یدر
4 ذیقعدہ 1350 مجلس بعد نماز ظہر یوم یکشنبہ

( ملفوظ 33 )بزر گوں کی صحبت کا اثر

ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ بچپن تھا مگر الحمد اللہ ایسے بزرگوں کی صحبت رہی کہ اس وقت بھی تہجد پڑھتا تھا چاہے بارش ہو رعد ہو برق ہو سب کچھ ہو مگر تہجد قضا نہ ہو کرتا تھا ـ وعظ سننے کا شوق تھا ـ وعظ کہنے کا شوق تھا یہ سب بزرگوں کی صحبت کا اثر تھا ـ