(ملفوظ 130) تشبہ بالکفار سے احتراز کا حکم

ایک صاحب نے عرض کیا کہ حضرت بعض لوگ تہمند ( تہ بند) ایسا باندھتے ہیں کہ ران کھل جاتی ہے فرمایا کہ اس کا حکم تو ظاہر ہے مستور بدن کھل جانے پر گنہگار ہوگا، گھٹنوں سے ناف تک مرد کے لئے بدن ڈھانپنا واجب ہے۔ عرض کیا کہ کیسا لباس پہننا سنت ہے اسکی کوئی ہیئت اور مقدار خاص ہے؟ فرمایا کہ یہ تو کوئی ضروری نہیں کہ شلوار ہو تو اس میں اتنا کپڑا ہو، پاجامہ ہو تو وہ اتنے کپڑے کا ہو۔ رہا ہیئت سو سلف سے بزرگوں کا جو طرز چلا آرہا ہے اُسی کی مشابہت رکھنا چاہئیے۔ باقی یہ کوئی ضروری بات نہیں کہ عصاء اتنا بڑا ہو کہ نہ اتنا بڑا ہو ، عمامہ اتنا ہو۔ اور ضروری نہ ہونے کی وجہ یہ کہ حضور ﷺ جو چیزیں استعمال فرماتے تھے وہ بنا بر عبادت نہیں تھیں بلکہ وہ عادت شریفہ تھی۔ جس میں آرام ملا اس کو اختیار فرمالیا۔ صاف تشبہ بالکفار سے احتراز کا حکم فرماتے تھے۔ غرض جس چیز کا حضور ﷺ نے اہتمام نہ فرمایا ہو امتی کا اسکو اختیار کرنا تو علامت محبت کی ہے مگر اسکا خاص اہتمام نہ کرے کیونکہ وہ سنت قرباتِ مقصودہ کے درجہ میں نہیں ہے۔

یہ ہی وہ باتیں ہیں کہ جن میں فرق کرنا صرف مجتہد کا کام ہے اور ہر شخص مجتہد ہے نہیں، اسوجہ سے لوگوں کا بدعت میں زیادہ ابتلا ہوگیا۔ سنت اور بدعت میں فرق کرنا محقق ہی کا کام ہے، غیر محقق تو ٹھوکریں ہی کھائیگا۔ اور غیر منقولات کا تو ذکر ہی کیا ہے، حضرت امام صاحب تو عباداتِ منقولہ میں بھی اس مقصودیت و عدم مقصودیت کا فرق کرتے ہیں۔ امام صاحب کی نظر کا عمق اس قدر ہے کہ دوسرے وہاں تک نہ پہنچ سکے۔ اسی وجہ ہے حنفیہ پر اعتراض ہے کہ منقولات میں بھی رائے لگاتے ہیں۔ امام صاحب کا منقولات میں مقصود اور غیر مقصود کا فرق نکالنا بڑا ہی لطیف اور باریک علم ہے، کوئی کیا سمجھ سکتا ہے۔

امام صاحب کا اس کے متعلق مسلک یہ ہے کہ جس چیز کو حضور ﷺ نے مقصود سمجھ کر نہ کیا ہو اسکو مقصود سمجھ کر کرنا نہ چاہئیے کہ اس میں تغیّر ہے مشروع کی۔ باقی بے سمجھے اعتراض کردینا کون سا مشکل کام ہے مگر آدمی سمجھنے کی طرف بھی توجہ کرے کہ آخر کہنے والا کہہ کیا رہا ہے اور اسکا منشاء کیا ہے؟ اور جو اعتراض سمجھ کر ہوتا ہے اس کی نوعیت اور شان ہی جدا ہوتی ہے اور بے سمجھے جو اعتراض ہوتا ہے اس کی نوعیت اور شان جدا۔ جس کو ہر شخص نہیں سمجھ سکتا۔ سو ایسا شخص تو اعتراض ہی کر لے گا اور کیا کرے گا۔ خصوص یہ زمانہ تو اس قدر پُر فتن اور پُر آشوب ہے کہ ہر شخص قریب قریب آشوبِ چشم ہی کا مریض بنا ہوا ہے، نظر کام ہی نہیں کرتی الا ماشاءاللہ مگر جن پر حق تعالٰی کا فضل ہے اور انکو فہمِ سلیم اور عقلِ کامل عطاء فرمائی گئی ہے وہ بیشک سمجھ سکتے ہیں۔

( ملفوظ 34 )طریق میں غیر مقصود چیزوں کی تفصیل

ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کام کرنا چاہیے اس غم میں نہ پڑنا چاہیۓ کہ میرے اندر شوق نہیں خوف نہیں کیفیات نہیں لزات نہیں انوار نہیں یہ سب چیزیں غیر مقصود ہیں ہاں مقصود کی معین ہو جاتی ہے اور وہ بھی بعض کیلۓ اور بعض کی قید اس لۓ لگائ کہ بعض کو یہ چیزیں مضر بھی ہوتی ہیں اور ہر حال میں سالک جن احوال و کیفیات کے فقدان سے پریشان ہوتا ہے ـ یہ فقدان کوئ نقص نہیں بلکہ میں تو کہتا ہوں کہ بڑا کمال ہے بدون احوال و کیفیات کے بھی مقصد میں رسوخ حاصل ہو جاۓ ـ یہ بڑی نعمت ہے بڑی دولت ہے غرض بندہ کو بندہ بن کر رہنا چاہیۓ اور جس حال میں حق تعالی رکھیں اسی کو اپنے لیۓ مصلحت اور حکمت سمجھنا چاہیۓ ـ ایک ضروری بات سمجھ لینے کی یہ ہے کہ یہ چیزیں غیر اختیاری ہیں اختیاری نہیں اس لیۓ معمور بہ بھی نہیں ـ مامور بہ صرف اعمال ہیں اور ثمرہ ان کا رضاء حق ہے ـ بس یہ حقیقت ہے اس طریق کی اب اس کا عکس لوگ سمجھے ہوۓ ہیں کہ غیر مقصود کو مقصود اور مقصود کو غیر مقصود سمجھ رہے ہیں اور اس لیۓ غیر ختیاری چیزوں کے پیچھے پڑے ہوۓ ہیں اور وہ سبب ہو جاتا ہے پریشانی کا اس لیۓ میں سب سے اول اس کی کوشش کرتا ہوں کہ طالب صحیح راستے پر پڑ جاۓ اور اپنے مقصود کو سمجھ لے پھر ساری عمر کیلۓ انشا اللہ تعالی پریشانی سے نجات ہو جاتی ہے گو اس حالت میں بھی ضرور ہے کہ سالک پر اکثر حزن و غم کے پہاڑ رہتے ہیں مگر وہ اور چیز ہے ایک پریشانی ہوتی ہے گمراہی کی کہ رستہ سے بھٹکتا ہوا پھرتا ہے اور راستہ نہیں ملتا یہ پریشانی تو مقصود کے تعین سے رفع ہو جاتی ہے اور ایک پریشانی ہوتی ہے محبوب کے توارو تجلیات کی تو وہ حزن اور غم و پریشانی تو ایسی ہے کہ ہزاروں سکون اور راحتوں کو اس پر قربان کریں اس میں محب کو ہر ساعت یہی خیال رہتا ہے کہ میں محبوب کا حق ادا نہیں کر سکا پھر جس وقت یہ شبھ ہوتا ہے کہ ان کی محبت یا مطلب میں ذرا برابر بھی کمی ہے تو اس پر حزن و غم کے پہاڑ ٹوٹ پڑتے ہیں اسی کو فرماتےُ ہیں ـ
بر دل سالک ہزاراں غم بود گر نہ باغ دل خلا لے کم بود
( سالک دل کے باغ میں سے اگر ایک تنکا بھی کم ہو جاتا ہے تو اس کے دل پر ہزاروں غم سوار ہو جاتے ہیں ـ 12)
پھر یہ سب کچھ تو ہے مگر اس طریق میں ناکامی نا اومیدی اور مایوسی کا نام و نشان نہیں قدم قدم پر تسلی موجود ہے بشرطیکہ منزل مقصود کی صحیح راہ معلوم ہو گئ ہو اس لیۓ کہ پھر تو صرف چلنا ہی باقی رہ جاتا ہے اور جس قدر چلتا ہے مقصود سے قرب ہی ہوتا جاتا ہے پھر تو اس شخص کو نا اومیدی اور مایوسی کا وسوسہ تک بھی نہیں ہوتا مولانا رومی فرماتے ہیں ـ عے
کوۓ نومیدی مرد کا مید ہاست سوۓ تاریکی مرو خور شید ہاست
( نا امیدی کے کوچہ میں بھی مت جاؤ کیو نکہ (حضرت حق سے ) بہت امیدیں ہیں اور اندھیرے کی طرف مت جاؤ جبکہ سورج نکلے ہوۓ ہیں 12 )
باقی خود محبت کے نشیبو فراز کی پریشانی یہ الگ چیز ہے ـ
من لم یذق لم یدر
4 ذیقعدہ 1350 مجلس بعد نماز ظہر یوم یکشنبہ