ملفوظ 5: میدان میں آنا چاہیے کا نعرہ

فرمایا کہ اب تو یہ حالت ہے اور اسی کی فکر ہے کہ میدان میں آنا چاہیے میدان میں
آنے کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ حجرہ بھی ہاتھ سے جاتا رہتا ہے اور میدان بھی ہاتھ نہیں آتا پھر ان لوگوں
کے نزدیک میدان میں آنے کے نہ کچھ شرائط ہیں نہ حدود ہیں ـ دیوانوں کی سی ایک بڑ ہے کہ
میدان میں نکلنا چاہئے آنا چاہئے یہاں تک نوبت آ گئی کہ زبانوں پر یہ آتا ہے کہ مسائل کا وقت
نہیں کام کا وقت ہے کام کرنا چاہئے جو لوگ ایسے ہیں وہ خود تو کسی کام کے رہے ہی نہیں اس پر
غضب یہ ہے کہ خود تو مبتلا ہوئے ہی تھے بے چارے طالب علموں کو جو پڑھنے پڑھانے میں
مشغول تھے اس بلا میں مبتلا کر دیا اور میدان میں لا کھڑا کیا یہ ایسا چٹیل میدان ہے کہ دانہ
ہے نہ پانی نہ دنیا ہے نہ دین ـ اس بد نظمی اور بے ڈھنگے پن کی کوئی حد ہے ـ
میری یہ رائے ہے کہ کسی تحریک میں بھی طالب علموں کو شرکت کی اجازت نہ ہونی
چاہئے اس میں سخت مضرت ہے آئندہ کیلئے جو کہ اس وقت محسوس نہیں ہوتی آخر میں پوچھتا ہوں
کہ پڑھنے پڑھانے میں جب کوئی مشغول نہ رہے گا تو پھر یہ جماعت علماء کی آئندہ کام کرنے والی
کہاں سے پیدا ہوگی ـ تم تو سب کچھ ہو علماء ہو مقتداء ہو پیشوا ہو تم ہی کرو جو کرنا ہے مگر طلباء کو تو اپنے
کام میں لگا رہنے دو تاکہ آئندہ دین کے احکام بتلانے والی جماعت کا سلسلہ
جاری رہے ـ کیا یہ
خیال ہے کہ آئندہ دین کی ضرورت ہی نہیں رہے گی ـ جیسا کہ کہتے ہیں کہ اب مسائل کا وقت نہیں
کام کا وقت ہے ـ کوئی ان حضرات سے پوچھے کہ جو آپ مقتدا اور پیشوا کہلائے یا بنے وہ لکھنے
پڑھنے ہی کی بدولت تو بنے اور اب اسی کی جڑ کاٹ رہے ہو ـ خود تو مزے میں رہے سب کچھ بن
گئے دوسروں کی جڑ کاٹی جا رہی ہے ـمیں نے انبالہ کے ایک وعظ میں کہا تھا کہ سب کو مل کر کام کرنے کے یہ معنی نہیں کہ سب
ایک ہی کام میں لگ جائیں یا ایک کا کام دوسرا کرنے لگے اس پر ایک مثال بیان کی تھی کہ جیسے ایک
مکان تیار کیا جا رہا ہے اس کی تیاری کیلئے معمار کی بھی ضرورت ، بڑھئ کی بھی ضرورت ، مزدور کی بھی
ضرورت ـ اب یہ بتلاؤ کہ سب مل کر جو تعمیر کا کام کر رہے ہیں اس کا کیا طریقہ ہے یہ ہی کہو گے کہ
معمار اینٹ لگائے بڑھئ آرہ چلانے مزدور گارا پہنچائے اینٹ پہنچائے ـ جب یہ سمجھ میں آ گیا ـ اب
میں پوچھتا ہوں کہ اگر یہ سب مل کر اینٹ ہی لگانے لگیں یا سب کے سب آرہ
ہی چلانے لگیں
یا سب کے سب گارا اینٹ ہی پکڑانے لگیں کیا مکان تیار ہو سکتا ہے ـ ظاہر ہے نہیں ـ تو اسی طرح
یہاں خیال کر لو کہ سب کو مل کرکام کرنے کے معنی صرف یہ ہیں کہ تجربہ کا کام تو لیڈر کریں اور اس
طرح کریں کہ وہ کسی کام کرنے سے قبل علماء سے جائز نا جائز معلوم کر لیا کریں اور احکام بتلانے
کا کام علماء کریں ـ بس اس طرح ہر ہر شخص اپنے فرض منصبی کو انجام دے اس صورت میں امید
کامیابی کی نکل سکتی ہے کہ ہم اپنا کام کریں وہ اپنا کام کریں سب کے مل کر کام کرنے کے یہ معنی نہیں
کہ سب ایک ہی کام میں لگ جاؤ یہ علاوہ دین کے عقل کے بھی تو خلاف ہے ـ خدا معلوم یہاں ان
لوگوں کی عقل کیوں کام نہیں دیتی موٹی بات ہے جو میں کہہ رہا ہوں ایک اور مثال سے سمجھ لیجئے کہ
اگر مرد کمایا بھی کرے اور پکایا بھی کرے جھاڑو بھی دیا کرے بچوں کا ہاتھ منہ بھی دھلایا کرے یعنی یہ
سب اسیکے ذمہ ہو یا اسی طرح عورت امورخانہ داری کی بھی ذمہ دار ہو اور باہر سے کما کر بھی لایا کرے
اس گڑ بڑ میں کچھ بھی نہ ہو گا نہ کمائی ہوگی نہ امور خانہ داری کا انتظام ہو گا سب نظام گڑبڑ ہو جائے گا یہ
کیسے ہو سکتا ہے ہر شخص کو اپنا اپنا کام انجام دینا چاہئے یہ ہی کامیابی کا راستہ ہے ورنہ گڑبڑ کرنے سے
کچھ بھی نہیں ہو سکتا ـ علماء کا کام مسائل بتانا ہے جواز وعدم جواز ہم سے پوچھ ہو لو ـ
احقر جامع نے عرض کیا کہ حضرت ان کو پوچھنے کی ضرورت ہی کیا ہے جس طرح جہلاء
صوفیاء نے شریعت اور طریقت کو دو چیز بتلا کر احکام سے جان بچالی اور ایک مستقل فرقہ بن گیا اب
وہ شریعت کی ضرورت نہیں سمجھتے اسی طرح اس گروہ نے شریعت اور سیاست کو جدا جدا بتلا کر احکام
سے جان بچالی یہ بھی ایک مستقل فرقہ بن گیا ـ فرمایا بالکل صحیح ہے ان لوگوں کو شبہ یہ ہو گیا ہے کہ مولوی تو ہر چیز کو حرام ہی کہیں گے ـ اس بدگمانی کا کیا علاج ہے اس لئے ان سے پوچھنا ہی بیکار
ہے ان لوگوں کی تو یہ حالت ہو گئی ہے کہ یہاں پر پچھلے دنوں کچھ لوگ نماز کی تبلیغ کیلئے باہر سے آئے
تھے مجھ سے بھی آ کر ملے تھے ـ تحقیق سے معلوم ہوا کہ خود نماز بھی نہ پڑھتے تھے ہاں نظمیں خوب
پڑھتے تھے ان کے مضمون خلاف شرع بھی تھے مجھ سے بڑی کوشش کی کہ وہ نظمیں خانقاہ میں
سنائیں ـ میں نے دل شکنی نہیں کی نہایت لطیف عذر کے ساتھ ٹال دیا دین شکنی بھی نہیں کی یعنی
خانقاہ میں پڑھنے کی اجازت نہیں دی ـ عین نماز کے وقت ایک مسجد کے قریب نظمیں پڑھ رہے
تھے مگر وہاں جب نماز نہیں پڑھی تو خیال ہوا کہ شاید دوسری مسجد میں پڑھی ہوگی معلوم ہوا کہ یہاں
پر بھی نہیں پڑھی تو خیال ہوا کہ شاید تیسری مسجد میں پڑھی ہو ـ معلوم ہوا کہ کہیں بھی نہیں پڑھی خود
تو نماز سے بھاگیں اور دوسروں کو تبلیغ کریں یہ حالت ہے ان تحریکات میں شرکت کرنے والوں کی
کہ خود اپنی حالت پر نظر نہیں دوسروں پر نکتہ چینی کی جاتی ہے ـ بعض علماء کی بھی یہی حالت ہے مگر ان
کے پھلسنے کا بے حد قلق ہے ـ
27 شعبان المعظم 1350 ھ مجلس بعد نماز ظہر یوم پنجشنبہ