(ملفوظ 115) سیاسی تحریک پر گفتگو بے مقصود

ایک سلسلۂ گفتگو میں فرمایا کہ زمانہ تحریک میں ایک لیڈر مولوی صاحب نے مجھ سے بذریعۂ خط تحریکی مسائل پر گفتگو کرنے کے لئے آنے کی اجازت چاہی، میں نے لکھا کہ گفتگو سے دو مقصود ہو سکتے ہیں افادہ یا استفادہ۔ اگر افادہ مقصود ہے تو وہ تبلیغ ہے اس میں میرا کام صرف استماع ہوگا میرے ذمہ جواب نہ ہوگا جواب کا مطالبہ نہ کیجئے اور استفادہ مقصود ہے تو استفادہ ہوتا ہے تردد کے بعد تو پہلے اپنے تردد کا اقرار کیجئے یعنی بذریعہ اشتہار اعلان کردیجئے کہ مجھ کو اب تک تردد نہ تھا مگر اب ہوگیا۔ جواب آیا جو چاہو سمجھ لو مگر مجھ کو آنے دو، چنانچہ آئے اور خفیہ گفتگو کرنا چاہا۔ میں نے بعض مصالح سے اس کو پسند نہ کیا آخر خالی واپس چلے گئے۔

ایک واقعہ ایک اسکول کے ماسٹر کا ہے، انہوں نے بعض شبہات روافض کا جواب چاہا، میں نے لکھا کہ زبانی گفتگو کرلو۔ انہوں نے آنے پر رضامندی ظاہر کی اور ایک بیہودہ شرط لگائی کہ میں آپ کا کھانا نہ کھاؤں گا کیونکہ اس سے میں آپ کا نمک خوار ہوجاؤں گا پھر گفتگو نہ کرسکوں گا۔ بعضے آدمی بڑے ہی بد فہم ہوتے ہیں، چنانچہ میں اس پر راضی ہوگیا اور وہ خود ہی اس شرط سے دستبردار ہوگئے، الحمد اللہ شفا حاصل کرکے گئے۔ چلتے وقت میں نے ان کو مخالفین کی کتابیں دیکھنے سے منع کردیا۔

ایک واقعہ ایک غیر مقلد کی گفتگو کا ہے، بہت سے قیل و قال کے بعد آخر میں میں نے ان سے کہا کہ آپ لوگوں میں دو مرض ہیں، ایک بد گمانی ایک بد زبانی، اگر یہ نہ ہو تو آدمی تحقیق کرکے اس کی سمجھ میں جو حق ہو بشرطیکہ نیت خراب نہ ہو اور اصول شریعت سے تجاوز نہ ہو اس پر عمل کرے اس کو کون برا کہتا ہے گو تقلید کے مسئلہ میں وہ اختلاف ہی رکھے مگر شیعوں کی طرح تبرائی بننا یہ کسی طرح دین نہیں اس سے تو صاف بد نیتی کا پتہ چلتا ہے۔ یہ واقعہ قنوج کا ہے
اور وہاں ہی کا ایک اور واقعہ بھی ہے کہ میں ایک مرتبہ قنوج گیا وہاں کچھ لوگ غیر مقلد بھی ہیں حنفی انکو جامع مسجد میں آنے نہیں دیتے تھے اور وہ وعظ سننے کے لئے آنا چاہتے تھے۔ میں نے کہا کہ آنے دو اور آمین بالجہر کی بھی اجازت دے دی کیونکہ اگر طبیعتوں میں سلامتی ہو فساد نہ ہو تو اختلافی اعمال میں ہمارا حرج ہی کیا ہے مگر مشکل تو یہ ہے کہ اکثر امور میں فساد اور شرارت کی جاتی ہے حتٰی کے آمین بالجہر میں بھی نیت دوسروں کو مشتعل کرنے کی ہوتی ہے اسی لئے آمین بالجہر اس طرح کرتے ہیں گویا آمین کی اذان دیتے ہیں جو کہیں منقول نہیں۔
غرض نمازِ جمعہ کے بعد احباب کے اصرار پر جامع مسجد میں بیان کیا گیا اور اس میں میں نے یہ بھی کہا تھا کہ حضور سرور عالم ﷺ کی سنت کے موافق اپنی بیویوں سے کہہ دو اگر احکام کی اتباع نہ کریں تو اسی سنت پر عمل کرو۔ یہ میں نے قصداً اس لئے کہا کہ معلوم ہوا کہ رسوم متعارفہ ان لوگوں کے گھروں میں ہیں تو مقصود میرا یہ تھا کہ آمین اور رفع یدین میں تو اتباع سنت کا دعویٰ ہے اور رسوم میں اس سنت پر عمل کیوں نہیں۔ میں اس کی قدر کرتا ہوں کہ یہ سن کر اپنے گھر جاکر حنفیوں نے تو نہیں کہا مگر ٖغیر مقلدوں نے جاکر بالاتفاق کہہ دیا۔ عورتوں کے کان کھل گئے اور اصلاح ہوگئی.

اسی سلسلہ میں ایک غیر مقلد کا واقعہ یاد آیا کہ ان کا میرے پاس خط آیا کہ میں غیر مقلد ہوں اور بیعت کرنا چاہتا ہوں، میں نے لکھا کہ یہ بتلاؤ کہ میری بھی تقلید کروگے یا نہیں۔ بس گم ہوگئے کیونکہ ایک شق پر تو مقلد بنتے ہیں اور دوسری شق پر اعتراض ہوتا ہے کہ جب میرا کہنا نہ مانو گے تو بیعت کیسی اور اس لاجواب ہونے کی وجہ یہ تھی کہ ان صاحبوں میں سمجھ نہیں ہوتی، یونہی اوپر اوپر چلتے ہیں ورنہ اس کا جواب بہت آسان تھا یوں لکھتے کہ تمہاری تقلید کروں گا اور اس پر جو شبہ ہوتا کہ امام صاحب کی تو تقلید کرتے نہیں اور میری کروگے اس کا یہ جواب دیتے کہ امام ابو حنیفہ کی تقلید تو احکام میں کراتے ہیں اور تمہاری تقلید تدابیر میں ہوگی، مثل طبیب جسمانی کے کہ اس کی بتلائی ہوئی تدابیر پر عمل کرتے ہیں حالانکہ وہ بھی اجتہادی ہیں مگر احکام تو نہیں، مگر یہ چیز ان کے ذہن میں کہاں آسکتی ہیں۔

ایک نیچریوں لے مولوی صاحب سے علی گڑھ میں گفتگو ہوئی انہوں نے ایک حدیث کا راز پوچھا، میں نے کہا کہ احکام کے اسرار کی آخر غایت کیا ہے؟ مقصود عمل ہے نہ کہ تحقیق۔ اسرار گو اللہ کا شکر ہے کہ بزرگوں کی برکت سے بہت سی ایسی چیزیں بھی معلوم ہیں لیکن ہر چیز کے بتلانے پر میں اکثر یہ شعر پڑھا کرتا ہوں۔

مصلحت نیست کہ از پردہ بروں افتد راز       ورنہ در مجلس رنداں خبر لے نیست کہ نیست
(راز کا پردہ سے باہر آنا خلاف مصلحت ہے ورنہ رندوں کی مجلس میں ہر چیز موجود ہے)

باقی اہل تحقیقات اور ان کے غلام اس کی پروا نہیں کرتے کہ نہ بتلانے پر یہ کیا سمجھیں گے کہ ان کو کچھ آتا نہیں کچھ ہی سمجھا کریں ہاں کوئی وقت ایسا بھی ہوتا ہے کہ اس میں اسرار اور راز بھی بیان کردیتے ہیں ورنہ اصل مسلک ان کا وہی ہے جس کو فرماتے ہیں۔

با مدعی بگوئید اسرار عشق و مستی          بگزار تا بمیر و در رنج خود پرستی
(مدعی سے عشق و مستی کے اسرار بیان کرو۔ اس کو اپنی خود پرستی کہ مصیبت میں مرنے دو۔)

اور کسی کے معتقد غیر معقتد ہونے کی ان کو پرواہ ہی کیسے ہوتی ان پر تو عشق و فنا اس قدر غالب ہوتا ہے کہ اس سے ان حضرات کی شان ہی دوسری ہوجاتی ہے۔ ان کی ہر چیز اور ہر کام اور ہر بات میں اسی محبت اور عشق کی شان جھلکتی ہے ان کی ہر ادا سے دوسرے ہی عالم کا بتا چلتا ہے اور اس کے مصداق ہوتے ہیں۔

عشق آن شعلہ ست کو چوں برفروخت            ہر چہ چیز معشوق باقی جملہ سوخت

گلزار ابراہیم میں اسی کا ترجمہ ہے۔

عشق کی آتش ہے ایسی بد بلا           دے سوا معشوق کے سب کو جلا

غرض انکی وہ حالت ہوتی ہے کہ سوائے ایک کے سب کو فنا کئے ہوئے ہوتے ہیں پھر ان کو کسی کے اعتقاد و عدم اعتقاد سے کیا بحث اس لئے بلا ضرورت وہ علوم کو ظاہر نہیں کرتے ورنہ ان کے علم کی تو یہ شان ہوتی ہے جس کو مولانا فرماتے ہیں۔

بینی اندر خود علوم انبیاء            بے کتاب و بے معید و اوستا
(تم اپنے اندر بغیر کسی مددگار اور کتاب اور استاد کے انبیاء کے علوم پاؤگے)

اگر تم بھی ایسے اسرار معلوم کرنا چاہتے ہو تو اس کا یہ طریق نہیں ہے کہ ان حضرات کو پریشان کرو اور وہ کچھ بتلا بھی دیں تو اس سے کفایت نہیں ہوتی بلکہ اس کا بھی صرف یہی واحد طریق ہے جس طریق سے ان کو یہ دولت ملی یعنی خدا اور رسول کے احکام کا اتباع کرو، خدا کے برگزیدہ بنو اور اس اتباع کا صحیح طریق بزرگوں سے معلوم کرو ان کی صحبت اختیار کرو اور صحبت تو بڑی چیز ہے ان کا تو چہرہ دیکھنے سے بہت کچھ حاصل ہوجاتا ہے اور یہی صحبت اس راہ کے لئے منزل مقصود کی اول سیڑھی ہے، ان کا جلیس محروم نہیں رہتا اور اس کی برکت سے شبہات وغیرہ کافور ہوتے چلے جاتے ہیں۔ مولانا رومی رحمۃ اللہ علیہ اسی کو فرماتے ہیں اور سچ فرماتے ہیں۔

اے لقاء تو جواب ہر سوال             مشکل از تو حل شود بے قیل و قال
(وہ ذات جس کی ملاقات ہی ہر سوال کا جواب ہے اور تجھ سے ہر مشکل بغیر قیل و قال کے حل ہو جاتی ہے)۔

مگر اس کے نافع ہونے کی ایک شرط بھی ہے وہ ضرور یاد رہے اور وہ اخلاص و اعتقاد کے ساتھ اتباع ہے اور اگر اتباع نہیں تو پھر محض صوری قرب کی بالکل ایسی مثال ہے کہ کوئی شخص طبیب کے پاس بیٹھے مگر دوا نہ کرے اور کوئی سوال کرے کہ میاں طبیب کے دوست ہو کے بیمار رہتے ہو تو یہی جواب ہوگا کہ مرض کا ازالہ محض طبیب کے پاس بیٹھنے سے تھوڑا ہی ہوسکتا ہے۔ اس کے پاس بیٹھنے سے تو نسخہ معلوم ہوجائے گا اور وہ بھی اس وقت جب کہ تم اس کے سامنے پہنچ کر اپنا سب حال کہو، باقی صحت تو نسخہ کے استعمال سے ہوگی۔ اسی استعمال نسخہ کی نسبت مولانا فرماتے ہیں۔

قتال راہگزار مسرد حال شو            پیش مدرے کملے پامال شو۔

(ملفوظ 114)سفر زیارتِ روضہ اقدس عشق و محبت کی رو سے فرض ہے

ایک سلسلۂ گفتگو میں فرمایا کہ بعضے غیر مقلدین بڑے ہی بے ادب ہوتے ہیں ان میں بیباکی بہت بڑھی ہوئی ہوتی ہے، بعضوں کو دیکھا بالکل روکھے روکھے ہر بات میں کہرا پن، چہروں سے معلوم ہوتا ہے کہ ذرا ملاحت نہیں تو یہ ظاہری رنگ ہے اور باطنی رنگ یہ کہ فہم میں عمق (گہرائی) نہیں۔

اس پر ایک حکایت یاد آئی کہ ہمارے حضرت حاجی صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے مکہ معظمہ میں ایک غیر مقلد عالم کی گفتگو ہوئی، حضرت نے ان سے پوچھ لیا کہ مدینہ منورہ جانے کا ارادہ ہے یا نہیں اس پر وہ نہایت خشکی سے کہنے لگے کہ مدینہ منورہ جانا کچھ فرض تو نہیں جس کا اہتمام کیا جائے۔ حضرت نے فرمایا کہ بےشک فتوے سے تو فرض نہیں مگر عشق و محبت کی رو سے تو فرض ہے۔ پھر حضرت نے فرمایا معلوم بھی ہے کہ بناء ابراہیمی تو قبلہ ہو، بناء داؤدی و سلیمانی قبلہ ہو اور حضور ﷺ کی بناء قبلہ نہ ہو، وہ ضرور قبلہ ہوتی مگر حضور ﷺ کی شانِ عبدیت کے غلبہ سے حکمت الٰہیہ نے اس کو منظور نہیں فرمایا ورنہ سب قبلے منسوخ ہو کر حضور ﷺ ہی کی بناء قبلہ ہوتی۔

اس پر کہنے لگے کہ خیر تو حضور ﷺ کی بناء یعنی مسجدِ نبوی کی زیارت کے قصد سے جانے کی فضیلت مسلّم ہےباقی قبر شریف کی زیارت کے قصد سے سفر نہ کرنا چاہئے۔ حضرت نے فرمایا کہ اس مسجد میں تو شرف حضور ﷺ ہی کے طفیل سے ہوا تو جس کی اصلی فضیلت ہو اس کا تو قصد جائز نہ ہو اور جس کی فضیلت فرعی ہو اس کا جائز ہو عجیب بات ہے۔ یہ مکالمہ طویل تھا میں نے مختصر نقل کیا ہے۔ اخیر میں وہ بالکل خاموش ہو گئے۔

زیارت قبر کے متعلق ایک واقعہ یاد آگیا۔ ایک شخص نے حضرت مولانا گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ سے سفر زیارت قبور کے متعلق سوال کیا تھا آپ نے کیسی عجیب سلامتی اور ادب کی بات فرمائی کہ اگر خود انسان احتیاط کرے یعنی خود نہ جائے مگر منع کرنے میں دوسروں پر تشدد تو نہ کرنا چاہئے. ہمارے حضرات کے اعتدال کا یہ طرز تھا افسوس پھر ان حضرات کو بدعتی بدنام کرتے ہیں کہ یہ حضور ﷺ کی تنقیص کرتے ہیں اور بزرگوں کے مخالف ہیں۔ استغفر اللہ، ایسا الزام محض جہل اور بددینی ہے جو بُری بلا ہے۔ غرض افراط اور تفریط سے دونوں طبقے خالی نہیں یعنی بدعتی اور غیر مقلدین۔

میں ایک مرتنہ قنوج گیا ہوا تھا ایک غیر مقلد نے میری دعوت کی میں نے قبول کرلی، بعض احباب نے منع کیا کہ خلافِ احتیاط ہے میں نے کہا کہ اگر ایسی کوئی بات ہوئی تو ہمارے دین کا کیا نقصان ہے اس کا دین تباہ ہوگا۔ مقصود میرے اس کہنے کا یہ ہے کہ ہم تو بلاوجہ بدگمانی کسی کی طرف نہیں کرتے اور یہ ہماری طرف بلادلیل بدگمانی اور بدزبانی دونوں کرتے ہیں، یہ کون سے دین اور عقل کی بات ہے۔

(ملفوظ 8 )مزاج میں بے فکری کی دلیل

ایک سلسلہ گفتفگو میں فرمایا کہ کہنے کی تو ایسی کوئی بات نہ تھی مگر ذکر آگیا اس لئے کہتا ہوں آج ایک لفافہ آیا ہے اس میں جو جواب کے لئے لفافہ رکھا ہے اس پر نیئ قاعدہ کی رو سے پورے ٹکٹ نہیں ہیں اور جس وقت محصول بڑھا میں نے ایک روپیہ کے ٹکٹ منگا کر رکھ لیئے تھے اور برابر لوگوں کے جوابی کارڈ اور لفافوں پر چسپاں کرتا رہا اور یہ نیت کرلی تھی جس روز پوری ڈاک میں ٹکٹ پوری آنے لگیں گے پھر اس روز سے نہ لگاؤں گا سو جس روز ڈاک میں پوری ٹکٹ آئے ہیں اس روز ایک ٹکٹ بچا ہواتھا تو پہلے چونکہ ذہن میں ضرورت تھی ایک روپیہ خرچ کرنا بھی آسان تھا اور اب بعد رفع ضرورت یہاں دو پیسے بھی خرچ کرنا مشکل ہیں چنانچہ آج جو بچا ہوا ٹکٹ رکھا ہے اس کے کگانے کو جی نہیں چاہتا اس لیے کہ سب جگہ محصول کا بڑھنا معلوم ہوچکا تو اسکا خیال تو ہونا چاہیئے مگر پھر بھی خیال نہ ہونا نہایت غفلت کی بات ہے بات یہ ہے کہ مزاج میں بیفکری بہت ہے اور جس کو کبھئ اتفاق سے ایسا موقع پیش آجائے وہ تو اس قسم کی رعایت کر سکتا ہے اور جس کو روزانہ اسی قسم کا سابقہ پڑتا ہو وہ رعایت نہیں کرسکتاـ
2ذیقعدہ 1350 ہجری مجلس خاص بوقت صبح یوم جمعہ

(ملفوظ 113)تمام فن طریق کا خلاصہ

(ملفوظ۱۱۳) ایک مولوی صاحب کے سوال کے جواب میں فرمایا کہ خلاصہ اس تمام فن کا دو الفاظ میں ہے ایک یہ کہ افعال ضروری اور مقصود ہیں دوسرا یہ کے انفعلات غیر ضروری اور غیر مقصود ہیں یہ نہایت ہی کام کی بات ہے اور تمام فن اس میں حل ہوگیا مگر فلاں مولوی صاحب ندوی جنہوں نے طریق کی تحقیق کے لئے مجھ سے کچھ خط و کتابت کی تھی اس کو سُن کر خود طریق ہی سے گھبراگئے اور لکھا کہ تمام مکاتیب سے معلوم ہوا کہ یہ فن برا مشکل ہے حالانکہ یہ خلاصہ ہی بیَّن دلیل ہے اس کے سہل ہونے کی مگر پھر سہل کو مشکل سمجھنے کی وجہ یہ ہے کہ چاہتے یہ ہیں کہ کچھ کرنا نہ پڑے ان مکاتیب سے معلوم ہوا کہ اس میں کچھ کرنا پڑے گا بس گھبرا گئے۔

اس کی ایسی مثال ہے جیسے بچہ دودھ بھی نہ پئے جو نہایت سہل ہے اور یوں کہے کہ مجھ کو کچھ کرنا نہ پڑے بلکہ دوسرا ہی کسی طرح دودھ پلا دے حالانکہ جس کو ملا ہے کرنے ہی سے ملا ہے اور جہاں بدون کچھ کئے صورۃََ کچھ ہوگیا ہے وہاں بھی پہلے کچھ کر لیا ہے تب ہی کچھ ملا ہے گو بعض جگہ کرنے والے کو بھی حقیقت معلوم نہ ہوئی ہو جیسے ایک شخص نے عنت(نامردی) کی شرمندگی میں سنکھیا کھا لیا موادر مہلک تھی مگر مزاج اس قدر بارد تھا کہ اسکا متحمل ہوگیا اور عورت پر قادر ہوگیا مگر ایسا شاذونادر ہے.

بعض کو شبہ ہوجاتا ہے کہ اکثر اہل علم کو جلد نفع ہوتا ہے گویا بے کئے ہی مقصود حاصل ہوتا ہے اس سے آپ یہ سمجھتے ہوں گے کہ بدون مجاہدہ کے کام ہوگیا ،گر ایسا ہرگز نہیں وہ جو دس برس یا بیس برس تک کتاب کو سامنے رکھ کر آنکھیں سینکتے رہے ہیں اور تمام تمام شب اور تمام تمام دن رشتے رہے ہیں یہ کیا تھوڑا مجاہدہ ہے اسی مجاہدہ سے ان میں استعداد پیدا ہو گئی سو کام مجاہدہ ہی سے ہوا اول مجاہدہ ہوا پھر مقصود کی اہلیت و استعداد پیدا ہو گئی اور کسی کامل کی توجہ سے وہ مستقل اور راسخ ہو گئی باقی اگر نِری توجہ سے کوئی کیفیت پیدا ہو گئی تو وہ مستقل نہ ہو گی ایک عارضی کیفیت ہوگی جیسے جب تک لحاف میں رہے گرمی ہے باہر نکلے پھر وہی ٹھنڈے کے ٹھنڈے کیونکہ وہ گرمی عارضی بات تھی اور ایک گرمی انڈے کا حلوہ کھانے سے ہوتی تھی، سو یہ گرمی مستقل ہوگی.

سو نری توجہ کوئی چیز نہیں بلکہ اصل چیز تربیت ہے سو ان میں عمل کی تعلیم لازم ہے اور بدون تربیت اور مشاہدہ کے انسان قطب اور غوث تو ہوسکتا ہے مگر مقصود حاصل نہیں کرسکتا اور مجاہدہ بھی کو ئی معین مدت کا نہیں بلکہ شرط یہ ہے کہ آدمی ساری عمر اسی ادھیڑ بن میں لگا رہے اور یہ لگا رہنا ہی بڑی نعمت ہے اسی کو فرماتے ہیں

اندریں رہ می تراش ومی خراش

تادم آخر دمے فارغ مباش

اور عشاق کی تو مجاہدہ دائمی میں یہی شان ہوتی ہے کہ ان کی ساری عمر رونے پیٹنے میں کٹتی ہے آنکھ دل سے جس کا سرچشمہ وہی عشق و محبت ہے اسی کو کسی نے خوب کہا ہے۔

یارب چہ چشمہ الیت محبت کہ من ازاں

یک قطرہ آب خوردم و دریا گر یستم

(اللہ یہ محبت کیسا چشمہ ہے کہ میں نے ایک قطرہ اس کا پیا تھا اور آنکھوں سے رورو کر دریا بہادیئےہیں)

اور واقعی محبت ایسی عجیب چیز ہے کہ اس کا ایک قطرہ اخیر میں دریا سے بھی بڑھ جاتا ہے اس عاشق کو اگر قطبیت ملتی ہے تو کہتا ہے کہ حضرت معاف فرمایئے اس لئے کہ عاشق کو ان چیزوںسے کیا تعلق اس کی تو یہ شان ہے۔

ھنیاََ لارباب النعیم نعیمھم

وللعاشق المسکین مایتجرع

(راحت والوں کو ان کی راحت مبارک ہو۔ اور عاشق مسکین کے لئے وہ گھونٹ(غم کے) مبارک ہوں جو پی رہا ہے)

بعض اہل ظاہر نے

وَلَا تَلقُوا بِاَیدِیکُم اِلَی التَّھلُکَۃِ

سے استدلال کیا ہے ان مجاہدات اور ریاضات کی ممانعت پر کہ اس میں ہلاکت ہے کیونکہ ان کے نزدیک یہ مجاہدہ ہلاکت ہے اس لئے اس سے منع کرتے ہیں مگر حضرت حاجی صاحبؒ فرماتے تھے کہ اسی سے ترغیب مجاہدہ پر استدلال کرتے ہیں کیونکہ عشاق کے نزدیک ترک مجاہدہ ہلاکت ہے اس لئے وہ ترک سے منع کرتے ہیں عجیب لطیف جواب ہے غرض کام کرنا ضروری ٹھہرا مگر اخلاص کے ساتھ.

پھر اگر کوئی مالمت کرے یا ریاء وغیرہ کا شبہ کرے پرواہ بھی نہ کرنا چاہئے اس پر ایک لطیفہ یاد آیا ایک نقشبندی کی ایک چشتی سے گفتگو ہوئی نقشبندی نے کہا کہ ہم نے سنا ہے کہ تم ذکر جہر کرتے ہو چشتی نے کہا ہم نے سنا ہے تم ذکر خفی کرتے ہو مطلب نقشبندی کا اعتراض کرنا تھا کہ جہر میں ریاء اور اظہار ہے حتی کہ اس کی خبر ہم تک پہنچ گئی اور چشتی کے جواب کا حاصل یہ تھا کہ تمہارے خفی کی خبر بھی ہم تک پہنچ گئی سو یہ بھی ریاء ہےتو ہم اور تم دونوں اس میں برابر ہوگئے.

حضرت مولانا گنگوہیؒ نے ایک شخص کو ذکر جہر کی تعلیم فرمائی اس نے عرض کیا کہ حضرت اس سے ریاء ہوجائے گی ذکر خفی کر لیا کروں فرمایا کہ جی ہاں اس میں ریاء نہیں ہے کہ گردن جھکا کر بیٹھ گئے چاہے سو ہی رہے ہوں مگر دیکھنے والا سمجھے کہ نہ معلوم عرش و کرسی کی سیر کر رہے ہیں یا لوح و قلم کی تو صاحب اظہار کا نام ریاء نہیں ہے جب اظہار کا قصد ہو اس کا نام ریاء ہے اور اگر ریاء ایسی ہی سستی ہے تو اسلام اخفاء کیوں نہیں کرتے جو اصل جڑ ہے.

ایک نقشبندی درویش سے میری گفتگو ہوئی اور میری طالب علمی کا زمانہ تھا لڑکپن تھا انہوں نے کہا کہ ذکر جہر میں ریاءہے میں نے کہا کہ کیا اذان میں بھی ریاء ہے چپ رہ گئے حالانکہ یہ جواب محض ایک طالب علمانہ جواب تھا کیونکہ اس کا مقصود تو بدون جہر کے حاصل ہی نہیں ہوسکتا یعنی اعلان وقت نماز مگر لڑکپن کا زمانہ ایسا ہی ہوتا ہے.

ایک صاحب نے عرض کیا کہ حضرت اذان سے تو مقصود صرف وقت کا اعلان ہی ہے یا ذکر بھی ہے فرمایا کہ دونوں ہیں ذکر بھی اعلان بھی اور خیر یہ قیل و قال تو نکتے ہیں مگر جہر میں اصل مصلحت یہ ہے کہ خطرات نہ آویں اس لئے ہلکے ہلکے آواز سے ہوتا کہ مقصود بھی حاصل ہوجائے اور دوسروں کو بھی تکلیف نہ ہو قصدالسبیل میں اس کی ضروری بحث بہت اچھی ہے اس کو دیکھ لیا جائے۔

(ملفوظ 112)سلف صالحین کی کوئی امتیازی شان نہ تھی

(ملفوظ۱۱۲) ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ اہل علم کا تو جی یوں چاہتا ہے کہ اس طرح رہیں کہ کسی کو خبر بھی نہ ہو کہ یہ کون ہیں اپنے بزرگوں کو اسی طرز پر دیکھا ہے عوام میں ملے جلے رہتے تھے کوئی امتیازی شان نہ تھی آج کل ایک امتیازی شان زیادہ چپ رہنا بھی ہے اس لئے اہل علم کے لئے یہ طرز بھی ناپسند ہے کہ ہر وقت خود داری کی حفاظت میں رہیں۔

(ملفوظ 111)نفس برا مکار ہے

(ملفوظ۱۱۱) ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ ایک رئیس تھے یہاں کے رہنے والے غدر سے پہلے انتقال ہو چکا ہے بائیس گاؤں کے زمیندار تھے مگر معاشرت نہایت سادہ تھی چنانچہ جاڑوں میں روئی کا انگرکھا روئی کا پاجامہ روئی کا ٹوپ اور سخی بہت تھے پھر فرمایا کہ کبھی سادگی کبر کی وجہ سے بھی ہوتی ہے تاکہ لوگ یہ سمجھیں کہ بہت ہی متواضع ہیں حضرت مولانا محمد یعقوب صاحبؒ فرمایا کرتے تھے کہ کبھی کبر بصورت تواضع بھی ہوتا ہے نفس بڑا مکار ہے بڑے ماموں صاحب فرمایا کرتے تھے کہ نفس سب کا مولوی ہے اپنی غرض کے لئے ایسی باتیں نکالتا ہے کہ بڑے سے بڑے عالم کو بھی نہیں سوجھ سکتیں بالخصوص ان لکھوں پڑھوں کا نفس تو اور بھی زیادہ پڑھا جن ہوتا ہے۔

(ملفوظ 110)رات کو دن (لطیفہ)

(ملفوظ۱۱۰ ) ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ بعضے بات کسی موقع پر خوب ہی چسپاں ہوجاتی ہے ایک لڑکا تھا کانپور کے مدرسہ میں پڑھتا تھا نہایت سیاہ فام اور دانت اس کے نہایت سفید چمکتے ہوئے اور وہ ہنستا بہت تھا اور بلند آواز سے ہنستا تھا تو میں اس کو چھیڑا کرتا اور جب وہ ھنستامیں کہا کرتا کہ”فِیهِ ظُلُمٰتُُ و رَعدُُ و بَرقُُ “ظلمت تو اس کا رنگ اور رعد ھنسنے کی آواز اور برق دانت اور یہ تفسیر نہ تھی تشبیہ تھی اسی طرح یہاں ایک حافظ تھے نا بینا نہایت ہی سیاھ فام مگر کپڑے نہایت سفید پہنا کرتے تھے ایک بار میں اپنے ماموں صاحب کے ساتھ جارہا تھا وہ حافظ صاحب سامنے آ گئے تو ماموں صاحب نے کہا کہ میاں دیکھو رات کو دن لگے ہیں

(ملفوظ 109)خواص کو بھی راہ طریق سے مناسبت نہیں

(ملفوظ۱۰۹) ایک مولوی صاحب کے سوال کے جواب میں فرمایا کہ جی ہاں عنایت فرماؤں کی تو مجھ پر ہمیشہ ہی عنائتیں رہی ہیں یہ خواب ہی کا کیا کچھ کم چرچا ہوا تھا مگر خیر ہوا کرے ہوتا کیا ہے جس شخص کو حقیقت ہی نہ معلوم ہو اس کی کیا شکایت اس خواب والے پر جو مصیبت گزری اس کی تو خیر نہیں بیٹھ گئے لعن و طعن کرنے خوب کہا ہے۔

اےترا خارےبیانشکستہ کے دانی کہ چیت

حال شیرا نے کہ شمشیر بلا بر سر خورند

(تیرے پیر کاتنا بھی نہیں چبھا۔ تم کو ان شیروں کی حالت کی کیا خبر جو تلوار کے زخم کھاتے ہیں)

البتہ معترض سے یہ شکایت ضرور ہے کہ مدت تک تو کوئی کھٹک نہ ہوئی جب ایک معاند نے سوچ سوچ کر ایک اعتراض نکالا جب سب کو ہوش آیا اس واقعہ میں اگر کھٹک تھی تو اول ہی بار ہونی چاہئے تھی یہ کیا کہ ایک مدت کے بعد ایک شخض کو توجہ ہوئی وہ بھی عناد سے تو کورانہ تقلید سے متوجہ ہو گئے میرے نزدیک تو اس خواب والے کی حالت شیطانی نہ تھی یہ میری رائے ہے وہ واقع میں نہ ہو میں واقع کی نفی نہیں کرتا مگر میرے نزدیک نہ تھی بلکہ محمود حالت تھی البتہ قصد و اختیار سے ایسے کلمات کہنا کو تاویل ہی سے ہو بے شک ٹھیک نہیں اس سے عوام کو وحشت ہوتی ہے اور عوام کو تو کیا کہا جائے خواص ہی کو اس طریق سے کون سی مناسبت ہے وہ بھی گڑبڑا جاتے ہیں اس لئے بہت احتیاط واجب ہے مگر جب ایک شخص پر کسی کی حالت کا غلبہ ہی ہو تو اب کیا کیا جائے جب وہ پوچھے گا تو جواب تو دیاہی جائے گا مگر بدون مناسبت طریق اور مہارت فن کے ان جوابوں کا سمجھ میں آنا ضرور دشوار ہوتا ہے اس لئے معترض بھی معذور ہیں جب کہ وہ فن سے آشنا ہی نہیں۔

(ملفوظ 108)عدم مناسبت پر بیعت کا نفع نہیں

(ملفوظ ۱۰۸) اوپر ہی کے سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ جنگ بلقان کے رمانہ میں جب ایڈریا نوپل فتح ہوگیا ایک شخص جو نیم مولوی تھے اور خیر سے مجھ سے بیعت بھی تھے میں نے بیعت کے وقت مریض سمجھ کر جلدی قبول کر لیا تھا میرے پاس آئے اس سے پہلے ان کا خط بھی آیا تھا اس میں لکھا تھا کہ معلوم ہوتا ہے اللہ تعالی بھی عیسائیت کا حامی ہے کہ غالب ہوتے چلے جارہے ہیں میں نے ڈانٹا کہ بیعت کے بعد تمہاری یہ حالت تو انہوں نے صاف کہا کہ مجھے تم سے کبھی مناسبت نہیں ہوئی اور بیعت تو اس امید پر کرلی تھی کہ اس کی برکت سے تندرست ہوجاؤں گا میں نے کہا کہ خیر ساری عمر میں ایک شخص سچا ملا میں اس سچ کی قدر کرتا ہوں اور چونکہ سچ کی جزا سچ ہے اس لئے میں بھی سچ کہنا چاہتا ہوں کہ میرے پاس کبھی مت آنا چنانچہ وہ نہیں آئے یہ حالت ہو گئی ہے۔ بیعت کی اور طلب کی اسی لئے مصالح یا سفارش سے بیعت کرنے کو میں پسند نہیں کرتا۔

ایک بار میرے پاس دو شخص آئےایک مرادآباد کے اور ایک سنبہل کے۔ سنبہل والے نے کچھ گڑبڑکی تو میں نے ان سے کہا کہ جب تمہاری یہ حالت ہے تو تم آئے کیوں تو کہنے لگےانہوں نے یعنی مرادآباد والے نے ترغیب دی تھی دریافت کرنے پر انہوں نے بھی اپنے جرم کا اقرار کیا میں نے اسی وقت دونوں کو نکال دیا دیکھئے اگر ان کو محبت ہوتی تو پھر آتے۔ نکال دینے سے ہوتا کیا ہے طالب کو چین کہاں قرار کہاں یہ ایسے ہی لوگ اس مثل کے مصداق ہیں کہ ’’ عشق سعدی تا بزانو‘‘ واقعی بعضوں کا عشق گھٹنوں تک ہوتا ہے (اس کا قصہ مشہور ہے) پہلے بزرگوں نے بڑے بڑے امتحان لئے ہیں میں تو کوئی بھی امتحان نہیں لیتا ہوں میں تو شروع ہی سے تعلیم دیتا ہوں امتحان نہیں کرتا البتہ اس تعلیم ہی میں بعض اوقات امتحان بھی ہو جاتا ہے

(ملفوظ 107)تعجیل بیعت کے مفاسد

(ملفوظ۱۰۷) ایک سلسلہ گفتگومیں فرمایا یوں تجعیل بیعت میں بہت سے مفاسد ہیں ہی مگر بڑی بات یہ ہے کہ نفع موقوف ہے مناسبت پر اگر یہ نہیں کچھ بھی نہیں اور مناسبت کی تحقیق جلدی نہیں ہوسکتی البتہ تجربہ کی بناء پر دو شخصوں کو بیعت کرنے کے لئے کچھ انتظار نہیں کرتا ایک بیمار اور ایک عورت یہ دونوں قابل رحم اور قابل رعایت ہیں۔