(ملفوظ 113)تمام فن طریق کا خلاصہ

(ملفوظ۱۱۳) ایک مولوی صاحب کے سوال کے جواب میں فرمایا کہ خلاصہ اس تمام فن کا دو الفاظ میں ہے ایک یہ کہ افعال ضروری اور مقصود ہیں دوسرا یہ کے انفعلات غیر ضروری اور غیر مقصود ہیں یہ نہایت ہی کام کی بات ہے اور تمام فن اس میں حل ہوگیا مگر فلاں مولوی صاحب ندوی جنہوں نے طریق کی تحقیق کے لئے مجھ سے کچھ خط و کتابت کی تھی اس کو سُن کر خود طریق ہی سے گھبراگئے اور لکھا کہ تمام مکاتیب سے معلوم ہوا کہ یہ فن برا مشکل ہے حالانکہ یہ خلاصہ ہی بیَّن دلیل ہے اس کے سہل ہونے کی مگر پھر سہل کو مشکل سمجھنے کی وجہ یہ ہے کہ چاہتے یہ ہیں کہ کچھ کرنا نہ پڑے ان مکاتیب سے معلوم ہوا کہ اس میں کچھ کرنا پڑے گا بس گھبرا گئے۔

اس کی ایسی مثال ہے جیسے بچہ دودھ بھی نہ پئے جو نہایت سہل ہے اور یوں کہے کہ مجھ کو کچھ کرنا نہ پڑے بلکہ دوسرا ہی کسی طرح دودھ پلا دے حالانکہ جس کو ملا ہے کرنے ہی سے ملا ہے اور جہاں بدون کچھ کئے صورۃََ کچھ ہوگیا ہے وہاں بھی پہلے کچھ کر لیا ہے تب ہی کچھ ملا ہے گو بعض جگہ کرنے والے کو بھی حقیقت معلوم نہ ہوئی ہو جیسے ایک شخص نے عنت(نامردی) کی شرمندگی میں سنکھیا کھا لیا موادر مہلک تھی مگر مزاج اس قدر بارد تھا کہ اسکا متحمل ہوگیا اور عورت پر قادر ہوگیا مگر ایسا شاذونادر ہے.

بعض کو شبہ ہوجاتا ہے کہ اکثر اہل علم کو جلد نفع ہوتا ہے گویا بے کئے ہی مقصود حاصل ہوتا ہے اس سے آپ یہ سمجھتے ہوں گے کہ بدون مجاہدہ کے کام ہوگیا ،گر ایسا ہرگز نہیں وہ جو دس برس یا بیس برس تک کتاب کو سامنے رکھ کر آنکھیں سینکتے رہے ہیں اور تمام تمام شب اور تمام تمام دن رشتے رہے ہیں یہ کیا تھوڑا مجاہدہ ہے اسی مجاہدہ سے ان میں استعداد پیدا ہو گئی سو کام مجاہدہ ہی سے ہوا اول مجاہدہ ہوا پھر مقصود کی اہلیت و استعداد پیدا ہو گئی اور کسی کامل کی توجہ سے وہ مستقل اور راسخ ہو گئی باقی اگر نِری توجہ سے کوئی کیفیت پیدا ہو گئی تو وہ مستقل نہ ہو گی ایک عارضی کیفیت ہوگی جیسے جب تک لحاف میں رہے گرمی ہے باہر نکلے پھر وہی ٹھنڈے کے ٹھنڈے کیونکہ وہ گرمی عارضی بات تھی اور ایک گرمی انڈے کا حلوہ کھانے سے ہوتی تھی، سو یہ گرمی مستقل ہوگی.

سو نری توجہ کوئی چیز نہیں بلکہ اصل چیز تربیت ہے سو ان میں عمل کی تعلیم لازم ہے اور بدون تربیت اور مشاہدہ کے انسان قطب اور غوث تو ہوسکتا ہے مگر مقصود حاصل نہیں کرسکتا اور مجاہدہ بھی کو ئی معین مدت کا نہیں بلکہ شرط یہ ہے کہ آدمی ساری عمر اسی ادھیڑ بن میں لگا رہے اور یہ لگا رہنا ہی بڑی نعمت ہے اسی کو فرماتے ہیں

اندریں رہ می تراش ومی خراش

تادم آخر دمے فارغ مباش

اور عشاق کی تو مجاہدہ دائمی میں یہی شان ہوتی ہے کہ ان کی ساری عمر رونے پیٹنے میں کٹتی ہے آنکھ دل سے جس کا سرچشمہ وہی عشق و محبت ہے اسی کو کسی نے خوب کہا ہے۔

یارب چہ چشمہ الیت محبت کہ من ازاں

یک قطرہ آب خوردم و دریا گر یستم

(اللہ یہ محبت کیسا چشمہ ہے کہ میں نے ایک قطرہ اس کا پیا تھا اور آنکھوں سے رورو کر دریا بہادیئےہیں)

اور واقعی محبت ایسی عجیب چیز ہے کہ اس کا ایک قطرہ اخیر میں دریا سے بھی بڑھ جاتا ہے اس عاشق کو اگر قطبیت ملتی ہے تو کہتا ہے کہ حضرت معاف فرمایئے اس لئے کہ عاشق کو ان چیزوںسے کیا تعلق اس کی تو یہ شان ہے۔

ھنیاََ لارباب النعیم نعیمھم

وللعاشق المسکین مایتجرع

(راحت والوں کو ان کی راحت مبارک ہو۔ اور عاشق مسکین کے لئے وہ گھونٹ(غم کے) مبارک ہوں جو پی رہا ہے)

بعض اہل ظاہر نے

وَلَا تَلقُوا بِاَیدِیکُم اِلَی التَّھلُکَۃِ

سے استدلال کیا ہے ان مجاہدات اور ریاضات کی ممانعت پر کہ اس میں ہلاکت ہے کیونکہ ان کے نزدیک یہ مجاہدہ ہلاکت ہے اس لئے اس سے منع کرتے ہیں مگر حضرت حاجی صاحبؒ فرماتے تھے کہ اسی سے ترغیب مجاہدہ پر استدلال کرتے ہیں کیونکہ عشاق کے نزدیک ترک مجاہدہ ہلاکت ہے اس لئے وہ ترک سے منع کرتے ہیں عجیب لطیف جواب ہے غرض کام کرنا ضروری ٹھہرا مگر اخلاص کے ساتھ.

پھر اگر کوئی مالمت کرے یا ریاء وغیرہ کا شبہ کرے پرواہ بھی نہ کرنا چاہئے اس پر ایک لطیفہ یاد آیا ایک نقشبندی کی ایک چشتی سے گفتگو ہوئی نقشبندی نے کہا کہ ہم نے سنا ہے کہ تم ذکر جہر کرتے ہو چشتی نے کہا ہم نے سنا ہے تم ذکر خفی کرتے ہو مطلب نقشبندی کا اعتراض کرنا تھا کہ جہر میں ریاء اور اظہار ہے حتی کہ اس کی خبر ہم تک پہنچ گئی اور چشتی کے جواب کا حاصل یہ تھا کہ تمہارے خفی کی خبر بھی ہم تک پہنچ گئی سو یہ بھی ریاء ہےتو ہم اور تم دونوں اس میں برابر ہوگئے.

حضرت مولانا گنگوہیؒ نے ایک شخص کو ذکر جہر کی تعلیم فرمائی اس نے عرض کیا کہ حضرت اس سے ریاء ہوجائے گی ذکر خفی کر لیا کروں فرمایا کہ جی ہاں اس میں ریاء نہیں ہے کہ گردن جھکا کر بیٹھ گئے چاہے سو ہی رہے ہوں مگر دیکھنے والا سمجھے کہ نہ معلوم عرش و کرسی کی سیر کر رہے ہیں یا لوح و قلم کی تو صاحب اظہار کا نام ریاء نہیں ہے جب اظہار کا قصد ہو اس کا نام ریاء ہے اور اگر ریاء ایسی ہی سستی ہے تو اسلام اخفاء کیوں نہیں کرتے جو اصل جڑ ہے.

ایک نقشبندی درویش سے میری گفتگو ہوئی اور میری طالب علمی کا زمانہ تھا لڑکپن تھا انہوں نے کہا کہ ذکر جہر میں ریاءہے میں نے کہا کہ کیا اذان میں بھی ریاء ہے چپ رہ گئے حالانکہ یہ جواب محض ایک طالب علمانہ جواب تھا کیونکہ اس کا مقصود تو بدون جہر کے حاصل ہی نہیں ہوسکتا یعنی اعلان وقت نماز مگر لڑکپن کا زمانہ ایسا ہی ہوتا ہے.

ایک صاحب نے عرض کیا کہ حضرت اذان سے تو مقصود صرف وقت کا اعلان ہی ہے یا ذکر بھی ہے فرمایا کہ دونوں ہیں ذکر بھی اعلان بھی اور خیر یہ قیل و قال تو نکتے ہیں مگر جہر میں اصل مصلحت یہ ہے کہ خطرات نہ آویں اس لئے ہلکے ہلکے آواز سے ہوتا کہ مقصود بھی حاصل ہوجائے اور دوسروں کو بھی تکلیف نہ ہو قصدالسبیل میں اس کی ضروری بحث بہت اچھی ہے اس کو دیکھ لیا جائے۔

(ملفوظ 111)نفس برا مکار ہے

(ملفوظ۱۱۱) ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ ایک رئیس تھے یہاں کے رہنے والے غدر سے پہلے انتقال ہو چکا ہے بائیس گاؤں کے زمیندار تھے مگر معاشرت نہایت سادہ تھی چنانچہ جاڑوں میں روئی کا انگرکھا روئی کا پاجامہ روئی کا ٹوپ اور سخی بہت تھے پھر فرمایا کہ کبھی سادگی کبر کی وجہ سے بھی ہوتی ہے تاکہ لوگ یہ سمجھیں کہ بہت ہی متواضع ہیں حضرت مولانا محمد یعقوب صاحبؒ فرمایا کرتے تھے کہ کبھی کبر بصورت تواضع بھی ہوتا ہے نفس بڑا مکار ہے بڑے ماموں صاحب فرمایا کرتے تھے کہ نفس سب کا مولوی ہے اپنی غرض کے لئے ایسی باتیں نکالتا ہے کہ بڑے سے بڑے عالم کو بھی نہیں سوجھ سکتیں بالخصوص ان لکھوں پڑھوں کا نفس تو اور بھی زیادہ پڑھا جن ہوتا ہے۔

(ملفوظ 109)خواص کو بھی راہ طریق سے مناسبت نہیں

(ملفوظ۱۰۹) ایک مولوی صاحب کے سوال کے جواب میں فرمایا کہ جی ہاں عنایت فرماؤں کی تو مجھ پر ہمیشہ ہی عنائتیں رہی ہیں یہ خواب ہی کا کیا کچھ کم چرچا ہوا تھا مگر خیر ہوا کرے ہوتا کیا ہے جس شخص کو حقیقت ہی نہ معلوم ہو اس کی کیا شکایت اس خواب والے پر جو مصیبت گزری اس کی تو خیر نہیں بیٹھ گئے لعن و طعن کرنے خوب کہا ہے۔

اےترا خارےبیانشکستہ کے دانی کہ چیت

حال شیرا نے کہ شمشیر بلا بر سر خورند

(تیرے پیر کاتنا بھی نہیں چبھا۔ تم کو ان شیروں کی حالت کی کیا خبر جو تلوار کے زخم کھاتے ہیں)

البتہ معترض سے یہ شکایت ضرور ہے کہ مدت تک تو کوئی کھٹک نہ ہوئی جب ایک معاند نے سوچ سوچ کر ایک اعتراض نکالا جب سب کو ہوش آیا اس واقعہ میں اگر کھٹک تھی تو اول ہی بار ہونی چاہئے تھی یہ کیا کہ ایک مدت کے بعد ایک شخض کو توجہ ہوئی وہ بھی عناد سے تو کورانہ تقلید سے متوجہ ہو گئے میرے نزدیک تو اس خواب والے کی حالت شیطانی نہ تھی یہ میری رائے ہے وہ واقع میں نہ ہو میں واقع کی نفی نہیں کرتا مگر میرے نزدیک نہ تھی بلکہ محمود حالت تھی البتہ قصد و اختیار سے ایسے کلمات کہنا کو تاویل ہی سے ہو بے شک ٹھیک نہیں اس سے عوام کو وحشت ہوتی ہے اور عوام کو تو کیا کہا جائے خواص ہی کو اس طریق سے کون سی مناسبت ہے وہ بھی گڑبڑا جاتے ہیں اس لئے بہت احتیاط واجب ہے مگر جب ایک شخص پر کسی کی حالت کا غلبہ ہی ہو تو اب کیا کیا جائے جب وہ پوچھے گا تو جواب تو دیاہی جائے گا مگر بدون مناسبت طریق اور مہارت فن کے ان جوابوں کا سمجھ میں آنا ضرور دشوار ہوتا ہے اس لئے معترض بھی معذور ہیں جب کہ وہ فن سے آشنا ہی نہیں۔

(ملفوظ 108)عدم مناسبت پر بیعت کا نفع نہیں

(ملفوظ ۱۰۸) اوپر ہی کے سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ جنگ بلقان کے رمانہ میں جب ایڈریا نوپل فتح ہوگیا ایک شخص جو نیم مولوی تھے اور خیر سے مجھ سے بیعت بھی تھے میں نے بیعت کے وقت مریض سمجھ کر جلدی قبول کر لیا تھا میرے پاس آئے اس سے پہلے ان کا خط بھی آیا تھا اس میں لکھا تھا کہ معلوم ہوتا ہے اللہ تعالی بھی عیسائیت کا حامی ہے کہ غالب ہوتے چلے جارہے ہیں میں نے ڈانٹا کہ بیعت کے بعد تمہاری یہ حالت تو انہوں نے صاف کہا کہ مجھے تم سے کبھی مناسبت نہیں ہوئی اور بیعت تو اس امید پر کرلی تھی کہ اس کی برکت سے تندرست ہوجاؤں گا میں نے کہا کہ خیر ساری عمر میں ایک شخص سچا ملا میں اس سچ کی قدر کرتا ہوں اور چونکہ سچ کی جزا سچ ہے اس لئے میں بھی سچ کہنا چاہتا ہوں کہ میرے پاس کبھی مت آنا چنانچہ وہ نہیں آئے یہ حالت ہو گئی ہے۔ بیعت کی اور طلب کی اسی لئے مصالح یا سفارش سے بیعت کرنے کو میں پسند نہیں کرتا۔

ایک بار میرے پاس دو شخص آئےایک مرادآباد کے اور ایک سنبہل کے۔ سنبہل والے نے کچھ گڑبڑکی تو میں نے ان سے کہا کہ جب تمہاری یہ حالت ہے تو تم آئے کیوں تو کہنے لگےانہوں نے یعنی مرادآباد والے نے ترغیب دی تھی دریافت کرنے پر انہوں نے بھی اپنے جرم کا اقرار کیا میں نے اسی وقت دونوں کو نکال دیا دیکھئے اگر ان کو محبت ہوتی تو پھر آتے۔ نکال دینے سے ہوتا کیا ہے طالب کو چین کہاں قرار کہاں یہ ایسے ہی لوگ اس مثل کے مصداق ہیں کہ ’’ عشق سعدی تا بزانو‘‘ واقعی بعضوں کا عشق گھٹنوں تک ہوتا ہے (اس کا قصہ مشہور ہے) پہلے بزرگوں نے بڑے بڑے امتحان لئے ہیں میں تو کوئی بھی امتحان نہیں لیتا ہوں میں تو شروع ہی سے تعلیم دیتا ہوں امتحان نہیں کرتا البتہ اس تعلیم ہی میں بعض اوقات امتحان بھی ہو جاتا ہے

(ملفوظ 107)تعجیل بیعت کے مفاسد

(ملفوظ۱۰۷) ایک سلسلہ گفتگومیں فرمایا یوں تجعیل بیعت میں بہت سے مفاسد ہیں ہی مگر بڑی بات یہ ہے کہ نفع موقوف ہے مناسبت پر اگر یہ نہیں کچھ بھی نہیں اور مناسبت کی تحقیق جلدی نہیں ہوسکتی البتہ تجربہ کی بناء پر دو شخصوں کو بیعت کرنے کے لئے کچھ انتظار نہیں کرتا ایک بیمار اور ایک عورت یہ دونوں قابل رحم اور قابل رعایت ہیں۔

(ملفوظ 106)شیخ کامل کی اشد ضرورت

(ملفوظ۱۰۶) ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ اس طریق میں شیخ کامل کے اتباع کی ضرورت ہے وہ اس راہ کا واقف ہوتا ہے وہ نفس اور شیظان کے مکائد سے آگاہ کرتا ہے شیخ کامل کے سر پر ہوتے ہوئے شیطان کچھ نہیں بگاڑ سکتا گو شیطان کے کید کے متعلق مشہور تو بہت جچھ ہے مگر حق تعالی فرماتے ہیں

ان کید الشیطان کان ضعیفا

(تحقیق شیطان کا مکر ضعیف ہوتا ہے)

اور حدیث میں ہے

فقیہ واحد اشد علی الشیطان من الف عابد

یعنی ایک فقیہ شیطان پر ہزار عابد سے گراں ہے اس کو کسی نے خوب نظم کیا ہے۔

فان فقیھاََ واحداََ متورعاََ اشد علی الشیطان من الف عابد

یہ اشدیت اس لئے ہے کہ شیطان شرارت سے ایک بات دل میں ڈالتا ہےاور بڑی مشکل سے اس پر جماتا ہے مگر سالک کے بیان کرنے پر شیخ نے اس کی شرارت اور مکر کو سمجھ کر ظاہر کردیا شیطان نے سر پیٹ لیا کہ اس کے برسوں کے منصوبوں پر پانی پھر گیا مگر جو اب لوگ اس دقیقہ کو نہیں جانتے وہ اسی خلجان اور الجہن میں رہتے ہیں کہ نہ معلوم شیطان کیا نقصان پہنچادے بات یہ ہے کہ شیطان دشمنی کرے بھی اور ہے ہی دشمن مگر پھر بھی علم صحیح اور توکل کے ہوتے ہوئے کچھ نہیں کر سکتا اس کی مثال ان حضرات کے مقابلہ میں خربوزہ کی سی ہے اور وہ حضرات چھری ہیں اگر خربوزہ کوشش کرکےچھری پر گرے تو خربوزہ ہی کا نقصان ہوگا اسی طرح اگر یہ اہل اللہ کا دشمن ہے تو یہی خسارہ میں رہتا ہے اس لئے اس راہ میں قدم رکھنا بدون شیخ کامل کے جو اس کے فریبوں کا خوب جاننے والا ہے خطرہ سے خالی نہیں اسی کو مولانا رومیؒ فرماتے ہیں۔

یار باید راہ را تنہامرد

بےقلاؤ زاندریں صحرا مرد

بدون شیخ کامل کے اس راہ میں قدم رکھنا ایسا ہے جیسا کہ بدون طبیب حاذق کے کوئی شخص اپنا علاج خود کرنا چاہے گو کتاب ہی دیکھ کر کرے کیونکہ کتاب کو بھی طبیب ہی سمجھتا ہے۔

(ملفوظ 97)اہل اللہ کا قلب صاف ہوتا ہے

(ملفوظ ۹۷) ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ بؑض لوگوں کو یہ مرض ہوتا ہے کہ دوسروں کو ترغیب دیتے ہیں کہ فلاں بزرگ سے بیعت و تلقین کا تعلق پیدا کرلو مجھ کو اس سے بےحد نفرت ہے اس میں شبہ ہوتا ہے کہ شاید ان بزرگ نے اس کام کے لئے آدمی چھوڑ رکھے ہیں کہ بہکا بہکا کر لاؤاس لئے مجھ کو تو اس سے بڑی ہی غیرت آتی ہے اور علاوہ غیرت طبعی کے عقلاّّ بھی مضر ہے اور اس سے زیادہ کیا مضرت ہوگی کہ طالب کو مطلوب اور مطلوب کو طالب بنایا جاتا ہے ایک ایسے ہی نادان معتقد نے اس سے بڑھ کر کیا کہ مجنون کو یہاں بھیج دیا اور یقین دلایا کہ وہاں کے تعویذ سے اچھے ہوجاؤگےاس نے آکر مجھ سے تعویذ مانگا چونکہ میں جنون کا تعویذ نہیں جانتا میں نے انکار کردیا وہ خفا ہوکر چالا گیا اور قصبہ ہی میں ایک دکان پر بیٹھ کر کہا میں اوزار لایا ہوں قتل کروں گا مجھ کو تعویذ نہیں دیا یہ مضرتیں ہیں بیہودہ باتوں مین دین کا بھی ضرر اور دنیا کا بھی ضرر کسی غرض کے لئے کسی سے کسی کا نام لینا یہ بہت ہی برا طریقہ ہے۔ ایک خیر خواہ صاحب کو اس کا بہت شوق ہے وہ شب وروز اس ہی فکر میں رہتے ہیں کہ ساری دنیا کا تعلق یہاں ہوجائے نیت تو بری نہیں مگر طریقہ کار برا ہے میں نے ان سے کہا کہ جس مقصود کے لئے آپ ایسا کرتے ہیں اس کا ایک بہت اچھا طریقہ ہے وہ یہ کہ میں پانچ چھ نام بتلائے دیتا ہوں طالب کو بجائے کسی ایک معین کے متعدد نام بتلائے جائیں پھر اس کا جس طرف رجحان ہو یہ طریق زیادہ بہتر اور نافع ہے اس میں کوئی مفسدہ بھی نہیں۔ چونکہ وہ اہل فہم ہیں انہوں نے بھی سن کر پسند کیا اور انتخاب و ترجیح کا طریقہ بھی بتلادیا جائے وہ یہ کہ سب کے پاس اپنے حالاتکے خطوط لکھو جس کا جواب شافی ہو اس سے تعلق پیدا کرلو سو اس طرح کے مشورہ میں کوئی حرج نہیں تم خود تعین مت کرو اس سے غیرت آتی ہے نیزبوجہ مفاسد کے یہ بناءالفاسد علی الفاسد ہے یہ تعلق ہی بنارہے آئندہ کے تمام معملات کی اگر یہی ٹھیک نہ ہوئی تو پھر وہ مثل ہوجاوے گی کہ

خشت اول چوں نہد معمارکج

تاثریامی رود دیوار کج

کچی یا ٹیڑھی بنیاد رکھنا نہایت برا ہے ہمیشہ خرابی ہی رہے گی اور میں نے جو نئےآدمی کے لئے یہ قید تجویز کی ہے کہ چند روز یہاں پر آکر قیام کرو اور اس زمانہ قیام میں نہ مکاتبت کرو نہ مخاطبت اس کا حاصل بھی یہی ہے کہ وہ انے والے مجھ کو دیکھ لیں اور میں ان کو اس بعد اگر مناسبت ہو طرفین میں تو پھر تعلق کی درخواست کا مضائقہ نہیں سو اس تجویز سے لوگوں کو بےحد نفع ہوا۔ اسی طرح ایک اور رسم ہے کہ سفارش لاتے ہیں یہ بھی برا ہے اسکا حاصل تو یہ ہے کہ دوسرے کو مقید کرنا اور کسی بڑے اثر سے مجبور کرنا سو یہ بہت وجوہ سے برا ہونے کے علاوہ ادب کے بھی خلاف ہے اس طریق میں ایسا واسطہ ٹھیک ہی نہیں بلاواسطہ ہی تعلق ٹھیک ہی کیونکہ ہر شخص سے جدا معاملہ ہوتا ہے اس لئے کہ ہر شخص کی جدا حالت ہوتی ہے تو سفارش میں آزادی نہیں رہتی لیکن اس سے ہر واسطہ کا مضر ہونا نہ سمجھا جائے بعض جگہ واسطہ رحمت ہوتا ہے اور عدم واسطہ خطرناک ہوتا ہے جیسے علوم کہ وحی کے واسطہ سے رحمت محضہ ہیں اور بدون اس واسطہ کے خطرناک و محتمل ابتلاء۔چنانچہ جو علم انبیاء کو بلاواسطہ ہوتا ہے اس میں اندیشہ ابتلاء کا ہوتا ہے اور وہ خطرناک ہوتا ہے اور جو بواسطہ وحی ہوتا ہے اس میں فقط رحمت ہوتی ہے کوئی اندیشہ اور خطرہ نہیں ہوتا یہ تو وحی کے واسطہ کی خاصیت ہے لیکن اگر محض استدلال عقلی کا واسطہ ہو اور اس کی صحت کی شہادت شرع سے نہ ہو وہ واسطہ محض لاشےوناقابل اعتبار ہے مولانا اسی واسطہ کے متعلق فرماتے ہیں۔

علم کان نبود زحق بےواسطہ

درنپاید ہمچورنگ مساشطہ

خلاصہ یہ کہ نہ واسطہ کا وجود فی نفسہ مقصود ہے نہ واسطہ کا عدم جہاں واسطہ کا وجود نافع ہو وہاں واسطہ مقصود ہے اور جہاں واسطہ کا عدم نافع ہو وہاں واسطہ کا عدم مقصود ہے تو حکم کا مدار نفع وضرر ہے نہ کہ خود واسطہ کا وجود یا عدم۔ البتہ اگر الہام متائد بالشرع ہو اس تائید کے سبب وہ بھی رحمت ہے کیونکہ اہل اللہ کا قلب صاف ہوتا ہے اس پر واردات ہوتے ہیں یعنی ان کے قلب میں جو الہامات ہوتے ہیں وہ حق تعالی کے خطاب خاص ہیں جاننے والے کہتے ہیں کہ ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے کوئی بول رہا ہے یا بیٹھا ہوا بتلارہا ہے مگر شرط اس میں وہی ہے کہ قواعد شرعیہ کے خلاف نہ ہو ورنہ اس الہام رحمانی اور القاء ربانی نہ کہیں گے بلکہ اس کو حدیث النفس یا وسوسہ شیطانی سے تعبیر کریں گے بعض کا الہام تو یہاں تک بڑھ جاتاہے کہ ہر وقت الہام ہوتا ہے کہ یہ کرو یہ نہ کرو یہ مت کھاؤ یہ مت پیئو اس سے ہدیہ لو اس سے نہ لو اس کو بیعت کرو اور اس کو مت کرو اب اس کے مقتضا پر اگر وہ کسی کی درخواست قبول کرنے سے انکار کرتا ہے تو اس پر اعتاضات ہوتے ہیں کہ فلاں کو قبول کرلیا فلاں کو قبول نہیں کیا فلاں سے ہدیہ لے لیا فلاں سے نہیں لیا مگر اس پر جواب میں بھی کہنا پڑے گا۔

درنیا حال پختہ ہیچ خام

پس سخن کوتاہ باید والسلام

(ملفوظ 96)بد تمیزوں کی دلشوئی

(ملفوظ ۹۶) ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ جب تک دل ملا ہوا نہیں ہوتا خدمت لیتے ہوئے شرم معلوم ہوتی ہے غیرت آتی ہے دل پر بوجھ معلوم ہوتا ہے طبیعت مکدر ہوتی ہے مگر عام طور پر لوگ خدمت کو ادب سمجھتے ہیں گو اس سے اذیت ہی ہو. ادب کہتے ہیں راحت پہنچانے کو نہ کہ خدمت کرنے کو یا پچھلے پیروں ہٹنے کو خوب سمجھ لو۔ بعضے ایسے کوڑ مغزوں اور بد فہموں سے واسطہ پڑتا ہے کہ جب آئیں گے ستاتے ہوئے اور میں جو ان باتوں کو ظاہر کر دیتا ہوں اسی وجہ سے بدنام ہوں دوسری جگہوں میں ایسے بدتمیزوں کی چاپلوسی اور دلجوئی کی جاتی ہے اور میرے یہاں بحمداللہ بجائے دلجوئی کے دلشوئی ہوتی ہے

(ملفوظ 87)عین عتاب کے وقت رنج

(ملفوظ۸۷) فرمایا کہ عین عتاب کے وقت بھی مجھ کو اس کا رنج ہوتا ہے کہ یہ غریب ناکام رہا پھر اس کے بعد بھی طبعاََ ندامت ہوتی ہے کہ میں نے ایسا برتاؤ کیوں کیا مگر عقلاََ نہیں ہوتی عقلاََ تو یہی اعتقاد ہوتا ہے کہ ایسا ہی ہونا چاہئے تھا کیونکہ اصلاح کا طریق وہی ہوتا ہے اسی لئے اپنی مصلحت طبعیہ پر اس کی مصلحت عقلیہ کو مقدم رکھتا ہوں اور باز پرس وغیرہ کرلیتا ہوں مگر اس کے ساتھ دل میں اس سے بھی ڈرتا ہوں کہ کہیں مجھ سے مواخذہ نہ ہو کہ ہمارے بندوں کے ساتھ ایسا برتاؤ کرتا تھا اس خیال کے آنے پر یہ بھی ارادہ کرتا ہوں کہ اپنا طرز بدل دوں مگر اصلاح کا دوسرا طریق سمجھ میں نہ آنے کے سبب پھر وہی برتاؤ کرنا پڑتاہے جس میں طالب کی مصلحت اور اصلاح مضمر ہے دوسری بات اس کے علاوہ یہ بھی ہے کہ بعض اوقات نہ معلوم عین وقت پر کیا ہوجاتا ہے اور اس وقت جو حالت ہوتی ہے اس کا غلبہ اس قدر ہوجاتا ہے کہ دوسرے پہلوؤں پر نظر نہیں جاتی بس اندر سے یہی تقاضا ہوتا ہے کہ فلاں حقیقت کو کس طرح اس کے دل میں ڈال دوں حاصل یہ کہ میرے اس داروگیر کا منشا زیادہ تر آنے والے کی اصلاح ہے مگر اس کی یہ قدر کی جاتی ہے کہ مجھ کو بد نام کیا جاتاہےکہ سخت ھے ہاں صاحب مگر آپ بہت نرم ہیں کہ ستار ہے ہیں یہاں رہ کر کوئی واقعات کو دیکھے تب حقیقت معلوم ہو کہ میں کیا برتاؤ کرتا ہوں اور آنے والے کیا برتاؤ کرتے ہیں دور بیٹھے رائے قائم کرلینا بہت سہل بات ہے مگر ہے انصاف کے خلاف اس لئے کہ دونوں طرف کی بات دیکھ کر یا صحیح روایت سن کر فیصلہ دینا ےہ انصاف کہا جا سکتا ہے

(ملفوظ 86)قصد عدم اہذاء ہونا چاہئیے

(ملفوظ۸۶) ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ ایک تو ہے عدم قصد ایذاء اور ایک ہے قصد عدم ایذاء لوگوں میں عدم قصد ایذاء تو متحقق ہے مگر قصد عدم ایذاء نہیں اس سے ایذاء ہوتی ہے جس کی وجہ محض بےفکری ہے کیا کہوں میں تو دل سے یہ چاہتا ہوں کہ سب درست ہوجائیں اس وجہ سے کبھی درشت بھی ہو جاتا ہو
ں جس میں نیت وہی درستی کی ہوتی ہے۔