(ملفوظ 129) طریق کی روح

ایک سلسلۂ گفتگو میں فرمایا  کہ یہ بدعتی، خصوص ان میں یہ جاہل صوفی، نہایت بددین ہوتے ہیں۔ بعضے تو کھلم کھلا فسق و فجور میں مبتلا ہوتے ہیں اور باوجود اپنی اس حالت کے دوسروں پر بہتان اور الزام رکھتے ہیں کہ یہ بزرگوں کے مخالف ہیں۔ کوئی ان سے پوچھے کہ تم بہت متبع ہو یہ کہتے ہوئے شرم نہیں آتی؟ ایک شخص مجھ سے بیان کرتے تھے کہ لکھنؤ میں ایک مزار پر سماع ہو رہا تھا ڈھولک سارنگی کھڑک رہی اور بج رہی تھی، نماز کا وقت آگیا ایک سارنگی نواز نمازی تھا وہ مع سارنگی مسجد میں آگیا۔ ایک شخص نے اعتراض کیا کہ ارے مسجد میں آلات معصیت لایا۔ اس جلسہ میں ایک صوفی مولوی صاحب بھی تھے تو جواب میں کہتے ہیں کہ آپ جو آلۂ زنا لئے ہوئے مسجد میں آئے ۔ کیا بیہودہ جواب ہے، کیا منفصل اور متصل چیز میں فرق نہیں ہے؟ عقلاً بھی اور نقلاً بھی۔ حتیٰ کے عین نجاست بھی اگر اپنے معدن میں ہو اس پر نجاست کا حکم نہیں کیا جاتا مثلاً پیشاب پاخانہ ہے، کس کے اندر نہیں مگر نجاست کا حکم نہیں کیا جاتا دوسرے یہ کہ جس چیز کو ان بزرگ نے آلۂ معصیت کہا وہ آلۂ معصیت ہی نہیں۔ آلۂ معصیت وہ ہے جو معصیت کے لئے وضع کیا جائے اور وہ معصیت کے لئے وضع نہیں کیا گیا چنانچہ ظاہر ہے یہ انکے دل میں وقعت ہے دین کی۔

باقی  بعضے اہلِ انصاف بھی ہوتے ہیں۔ چنانچہ ایک صوفی منش کانپور کے رہنے والے الہٰ آباد میں ملے مجھ سے کہنے لگے کہ آپ  چشتی ہیں؟ میں نے کہا جی ہاں۔ کہا پھر سماع کے مخالف کیوں ہو؟۔ میں نے کہا کہ پہلے آپ میرے سوال کا جواب دیں یہ بتلائیے کہ اس طریق کی روح کیا ہے؟ واقف شخص تھے کہنے لگے کہ مجاہدہ اور ٹھیک جواب دیا۔ میں نے کہا کہ بالکل صحیح ہے، اب یہ بتلائیے کہ مجاہدہ کی حقیقت کیا ہے؟  کہا کہ نفس کے خلاف کرنا۔ میں نے کہا کہ یہ بھی بالکل ٹھیک ہے۔ اب آپ سچ بتلائیں کہ آپ کا سماع سننے کا جی چاہتا ہے۔ کہا کہ چاہتا ہے۔ میں نے کہا اور ہمارا بھی جی چاہتا ہے۔ مگر تم جی چاہا کرتے ہو اور ہم جی چاہا نہیں کرتے تو صاحبِ مجاہدہ تم ہوئے یا ہم؟ صوفی تم ہوئے یا ہم؟ درویش تم ہوئے یا ہم؟ سمجھدار آدمی تھے سمجھ گئے اور بہت مسرت ظاہر کی اور یہ کہا کہ آج حقیقت کا انکشاف ہوا، ایک عرصہ تک غلطی میں مبتلا رہا اور مجھ کو بہت کچھ دعائیں دیں۔ واقعی اگر آدمی میں فہم ہو تو سب کچھ سمجھ سکتاہے بشرطیکہ خلوص ہو بد نیتی نہ ہو، مگر آجکل تو بدنیت شریر فساق فجار مفسد زیادہ ہیں ۔ پہلے بدعتی لوگ بھی اللہ اللہ کرنے والے ہوتے تھےوہ اس قدر آزاد  بیباک نہ ہوتے تھے۔ میں ایسوں سے بھی بکثرت ملا ہوں اور قریب قریب ان سب سے دعائیں لی ہیں۔ باقی اب تو بکژت بددین ہیں۔

ایک صوفی جاہل کی حکایت ایک دوست سے سنی ہے کی ایک عورت مجلسِ سماع میں گارہی تھی۔ عین سماع کے اندر اس کو ایک تنہا مکان میں لیجا کر اس سے منہ کالا کیا اور فارغ ہو کر پھر آکر بیٹھ گیا اور اپنے فعل کی توجیہ کرتا ہے کہ “جب آگیا جوس نہ رہا ہوس” دونوں جگہ چھوٹا سین استعمال کیا  اتنا جاہل تھا پیٹ پھر کے اور معتقدین ہیں کہ اس پر بھی معتقد ہیں۔  اب بتلائیے  یہ باتیں بھی اگر قابل ملامت نہیں تو کیا قابل تحسین ہیں۔ اس پر اگر کوئی کچھ کہتا ہےتو اس کو بزرگوں کا دشمن اور وہابی بتلاتے ہیں۔ ہاں صاحب یہ ہیں سنی حنیفی چشتی نامعقول بزرگوں کو بدنام کرنے والے۔ میں چونکہ انکی نبضیں خوب پہچانتا ہوں، ان کے ڈھونگ اور مکر و فریب سے مخلوقِ خدا کو آگاہ کرتا ہوں  (اس لئے) مجھ پر آئے دن عنایتیں فرماتے رہتے ہیں مگر اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ اب طریق  بے غبار ہو گیا ، اب اہلِ عقل اور دانشمند لوگ انکے پھندوں میں نہیں پھنس سکتے۔ باقی بدفہموں اور کوڑ مغزوں کا تو کسی زمانہ میں بھی اور کسی سے بھی علاج نہیں ہو سکا حتیٰ کہ انبیاء علیہم السلام بھی ایسوں کی اصلاح نہ کوسکے تو کسی کو کیا منہ ہے کہ وہ وعویٰ اصلاح کا کرسکے۔

اس چودہویں صدی میں مجھ جیسے دیہاتی شخص کی ضرورت تھی جو انکے دجل اور مکر کو مخلوق پر ظاہر کرے۔ یہ دین کے دشمن، دین کے ڈاکو اپنی اغراض ِ نفسانی کو پورا کرنے والے پیٹ بھرنے والے اس روپ میں مخلوقِ خدا کر گمراہ اور بددین بنانے والے بہت دنوں پردہ میں رہے مگر الحمد اللہ اب انکا تمام تارپود بکھر گیا۔ لوگوں کو معلوم ہوگیا، حق و باطل میں امتیاز اظہر من الشمس وا بین من الامس ہو گیا۔ گو مجھ کو بُرا بھلا بھی کہیں اور مجھ پر قِسم قِسم کے الزامات اور بہتان بھی باندھیں مگر ان کی توروٹیوں میں کھنڈت پڑہی گئی اور لوگوں کی نظروں میں کِرکِری ہو ہی گئی۔ یہ ہی وجہ ہے کہ مجھ پر جھلاتے ہیں ، غراتے ہیں۔ مگر میں نے بھی بفضل ایزدی ان کے منہ سے شکار نکال دیا۔ یہ فخراً  بیان نہیں کرتا بلکہ حق تعالیٰ جس سے چاہیں اپنا کام لے لیں۔ میں بھی تحدث بالنعمۃ کے طریق پر اظہار کرتا ہوں اور اس ملامت پر بھی دل  میں مسرور ہوں اور مکرر بلا کسی ملامت کے خوف کے کہتا ہوں اور حق تعالیٰ نے اظہارِ حق کرنے والوں کی شان بھی یہی بیان ہے۔

لاَ یَخَافُونَ  لَومَۃَ لَائِم

تو ایسے دھوکہ دینے والے لوگ دین کی راہ میں راہزن  ہیں ۔ بددین ہیں۔ فاسق و فاجر ہیں۔ بہروپئیے ہیں۔ ان سے اپنے دین کو محفوظ رکھو ورنہ پچھتاؤگے اور آخرت میں سوائے ندامت اور کفِ افسوس ملنے کے اور کوئی نتیجہ نہ ہوگا۔ حق تعالیٰ سب کو فہمِ سلیم نصیب فرمائیں۔