(ملفوظ۸۷) فرمایا کہ عین عتاب کے وقت بھی مجھ کو اس کا رنج ہوتا ہے کہ یہ غریب ناکام رہا پھر اس کے بعد بھی طبعاََ ندامت ہوتی ہے کہ میں نے ایسا برتاؤ کیوں کیا مگر عقلاََ نہیں ہوتی عقلاََ تو یہی اعتقاد ہوتا ہے کہ ایسا ہی ہونا چاہئے تھا کیونکہ اصلاح کا طریق وہی ہوتا ہے اسی لئے اپنی مصلحت طبعیہ پر اس کی مصلحت عقلیہ کو مقدم رکھتا ہوں اور باز پرس وغیرہ کرلیتا ہوں مگر اس کے ساتھ دل میں اس سے بھی ڈرتا ہوں کہ کہیں مجھ سے مواخذہ نہ ہو کہ ہمارے بندوں کے ساتھ ایسا برتاؤ کرتا تھا اس خیال کے آنے پر یہ بھی ارادہ کرتا ہوں کہ اپنا طرز بدل دوں مگر اصلاح کا دوسرا طریق سمجھ میں نہ آنے کے سبب پھر وہی برتاؤ کرنا پڑتاہے جس میں طالب کی مصلحت اور اصلاح مضمر ہے دوسری بات اس کے علاوہ یہ بھی ہے کہ بعض اوقات نہ معلوم عین وقت پر کیا ہوجاتا ہے اور اس وقت جو حالت ہوتی ہے اس کا غلبہ اس قدر ہوجاتا ہے کہ دوسرے پہلوؤں پر نظر نہیں جاتی بس اندر سے یہی تقاضا ہوتا ہے کہ فلاں حقیقت کو کس طرح اس کے دل میں ڈال دوں حاصل یہ کہ میرے اس داروگیر کا منشا زیادہ تر آنے والے کی اصلاح ہے مگر اس کی یہ قدر کی جاتی ہے کہ مجھ کو بد نام کیا جاتاہےکہ سخت ھے ہاں صاحب مگر آپ بہت نرم ہیں کہ ستار ہے ہیں یہاں رہ کر کوئی واقعات کو دیکھے تب حقیقت معلوم ہو کہ میں کیا برتاؤ کرتا ہوں اور آنے والے کیا برتاؤ کرتے ہیں دور بیٹھے رائے قائم کرلینا بہت سہل بات ہے مگر ہے انصاف کے خلاف اس لئے کہ دونوں طرف کی بات دیکھ کر یا صحیح روایت سن کر فیصلہ دینا ےہ انصاف کہا جا سکتا ہے

You must be logged in to post a comment.