(۱۳۵) – طریق میں مقصود کا تعین ضروری ہے

ایک سلسلـۂ گفتگو میں فرمایا کہ اس طریق میں سب سے پہلے مقصود کا تعین ضروری ہے اور یہ موقوف ہے سمجھنے پر، جس چیز کو آدمی سمجھے گا نہیں اس کی طلب ہی کیا کریے گا، اس لئے اول سمجھ لینے کی ضرورت ہے مگر آج کل بیعت کو ایک رسم کے درجہ میں سمجھ کر اختیار کیا جاتا ہے یا بڑی دوڑ دوڑے تو برکت کے خیال سے۔ سو بیعت سے بڑھ کر برکت تو تلاوتِ قرآن میں ہے۔ نفلوں میں قرآن پڑھا کرو، نفلیں پڑھا کرو۔ لیکن واقع میں ہمارے یہاں تو بیعت سے یہ مقصود ہی نہیں بلکہ یہاں تو کام میں لگانا مقصود ہے، فوج تھوڑا ہی بھرتی کرنی ہے یا نام کرنا تھوڑا ہی مقصود ہے۔

ہاں ایسے پیر بھی بکثرت ہیں کہ جہاں رجسٹر بنے ہوئے ہیں اور مریدوں کے نام درج ہوتے ہیں، ان سے فیس اینٹھی جاتی ہے اور سالانہ اور ششماہی وصول ہوتا ہے اور لنگر بازی بھی ایسی ہی جگہ ہو سکتی ہے جہاں ایسے پیر اور ایسے مرید اور ایسی آمدنی ہو۔ یہاں یہ باتیں کہاں؟ اول تو ہم ویسے ہی غریب، پھر جو آمدنی بھی ہو تو اس میں بھی چھان بین ۔ غالباً   ہفتہ میں ایک بار منی آڈر واپس ہو جاتا ہے، میں خدا نخواستہ دیوانہ یا پاگل تھوڑا ہی ہوں کہ مال اور جاہ دونوں کا اپنا نقصان کروں۔ مال کا نقصان تو یہ کہ پھر خفا ہو کر شاید نہ دیں اور جاہ کا نقصان یہ کہ غیر معتقد ہو جائیں۔ مگر میں اس کو خیانت سمجھتا ہوں کہ اصولِ صحیح کے خلاف کروں۔ ایسا کرنے سے اپنا بھلا تو بیشک ہو جائے گا لیکن خدمت کرنے والوں کا اس میں کیا نفع ہوا؟ اور تو جہل ہی میں مبتلا رہے، ان بدنصیبوں کا تو دین ہی برباد ہوا۔ مگر بجائے پابندیٔ اصول کے آج کل بزرگی کی چند علامتیں ٹھہر گئی ہیں۔ یعنی نفلیں بکثرت پڑھنا، تسبیح ہاتھ میں رکھنا، گھٹنوں سے نیچا کرتہ اور ٹخنوں سے اونچا پاجامہ پہننا، بس ختم ہوئی اندر خواہ کیسا ہی گندا ہو۔ اسی کو ایک حکیم فرماتے ہیں

از بروں چوں گورِ کافر پر حلل

از بروں طعنہ زنی بر بایزید

و اندروں قہرِ خدائے عزوجل

و زد رونت ننگ میدارد یزید

(ظاہر میں تو ایسے جبہ قُلہ سے مزین ہو کہ جیسے کافر کی قبر سجی ہوئی ہو۔ اور باطنی حالات ایسے ہیں کہ جو خدائے عزوجل کے قہر کے موجب ہیں۔ ظاہری حالات تو ایسے کہ حضرت بایزید رحمۃ اللہ پر بھی طعن کرتے ہو اور تمہارے باطن سے یزید کو بھی شرم آتی ہے)

اور اسی کو حاظ صاحب فرماتے ہیں۔

سبحہ بر کف توبہ بر لب دل از ذوقِ گناہ

 معصیت را خندہ می آید بر استغفار ما

(ہاتھ میں تسبیح لب پر توبہ اور دل میں گناہوں کی لذت بھری ہوئی ہے تو ہماری توبہ سے گناہ کو بھی شرم آتی ہے)



یاد رکھو کہ محض صورت بنانے سے بدون اصلاح کے کچھ نہیں ہوتا اور اسی کی آج کل مطلق فکر نہیں اور فکر تو جب ہو جب کہ طریق کی حقیقت سے باخبر ہوں۔ اس لئے میں سب سے اول یہی سبق دیتا ہوں کہ پہلے مقصود کو معلوم کرو اس کے تعین کے بعد آگے چلو پھر آخر تک کوئی گنجلک اور الجھن پیدا نہ ہوگی ورنہ عمر بھر جہل یا پریشانی میں گرفتار رہیں گے، ایسے لوگوں کے بکثرت خطوط بھی آتے ہیں اور بعضے یہاں آ کر زبانی گفتگو بھی کرتے ہیں مگر تقریباً سب کے سب اسی جہلِ عظیم میں مبتلا ہیں، میں مقصود کا طریق بتلاتا ہوں مگر اِدھر اُدھر سے پھر پھرا کر نتیجہ میں وہی بیعت۔ بھائی بیعت کوئی فرض ہے، واجب ہے جو اس قدر اس پر اصرار ہے۔ میں نے اسی وجہ سے کہ حقیقت سے آگاہ ہو جائیں اب چند روز سے ایک اور قید کا اضافہ کیا ہے یہاں پر آؤ اور زمانہ قیام میں مکاتبت مخاطبت کچھ نہ کرو۔ مجلس میں خاموش بیٹھے ہوئے باتیں سنا کرو تاکہ طریق کی حقیقت تم کو معلوم ہو جائے مگر اس پر بھی بعض ایسے ذہین اور زندہ دل لوگ ہیں کہ خاموش پیٹھے رہنے کی شرط پر آتے ہیں اور پھر گڑبڑ کرتے ہیں۔ ان واقعات کر دیکھ کر میں تو یہ کہا کرتا ہوں کہ یا تو لوگوں میں عقل کا قحط ہے یا مجھ کو عقل کا ہیضہ اور قحط اور قحط زدہ اور ہیضہ زدہ میں مناسبت نہیں ہوتی اس لئے ایسوں سے صاف کہہ دیتا ہوں کہ کہیں اور جا کر تعلق پیدا کر لو مجھ سے تم کو مناسبت نہیں اور یہ طریق بے حد نازک ہے اس میں بدون مناسبت ہرگز نفع نہیں ہو سکتا۔ پھر میری اس صفائی پر بھی اگر کوئی بُرا بھلا کہے، بُرا مانے تو کہا کرے، مانا کرے، مجھ سے کسی کی غلامی نہیں ہو سکتی۔ اگر کسی کو مجھ سے تعلق ہے یا آئندہ تعلق پیدا کرنا چاہتا ہے تو اس کو اس کا مصداق بن کر رہنا چاہئے جس کو عارف شیرازی فرماتے ہیں۔

یا مکن با پلیباناں دوستی

یا مکش بر چہرہ نیل عاشقی

یا بنا کن خانہ بر انداز پیل

یا فروشو جامہؐ تقوے بہ نیل

(یا تو ہاتھی والے سے دوستی مت کرو یا پھر گھر ایسا بناؤ جس میں ہاتھی آ سکے۔ یا تو عاشقی کا دعوی مت کرو اور کرتے ہو تو اس ظاہری اور تقوی کو جس کا حاصل اپنی نمائش ہے چھوڑ دو)

(ملفوظ 74)عدم مناسبت کی صورت میں الگ کرنا حضرت خضر علیہ السلام کی سنت ہے

(ملفوظ 74) ایک نووارد صاحب کی غلطی پر منتبہ فرماتے ہوئے فرمایا کہ یہ تو فطری بات ہے کہ آتے ہی انسان بتلا دے کہ میں کون ہوں کہاں سے آیا ہوں اور یہاں کیوں آیا ہوں مگر انہوں نے ایسی موٹی بات میں فرو گذاشت کی تو اب ان کا طرز میرے طرز سے بعید میرا طرز ان کے طرز سے بعید۔ پھر نباہ کیسے ہو لہذا عدم منا سبت کی صورت میں الگ کردینا خضرعلیہ السلام کی سنت ہے کہ انہوں نے عدم توافق کی بناء پر حضرت موسی علیہ السلام سے عرض کردیا

ھذا فراق بینی وبینک

اس معمول پر مجھے کوئی الزام نہیں دے سکتا نہ موسی علیہ السلام سے کوئی بڑا ہوسکتا ہے