طلب صادق فرمایا کہ ایک وکیل صاحب ہیں ان کا خط آیا ہے لکھا ہے کہ میرا اتنا روپیہ بنک میں ہے اب یہ تحقیق ہوا کہ نا جائز ہے دین کا خسارا ناقابل برداشت ہے دنیا کا خسارہ گوارا کر لوں گا فرمایا کہ جب دین کا خیال ہوتا ہے انسان کچھ کر لیتا ہے مگر لوگوں کی کچھ عادت ہو گئی ہے کہ بلا تحقیق کام کر بیٹھے ہیں پھر مشکل ہوتی ہے بعض طبیعتیں بکھیڑا پسند ہوتی ہیں ـ صفائی طبیعتوں میں بہت کم رہ گئی ہے خواہ مخواہ لوگ جھگڑے مول لیتے ہیں اور بعض تو ایسی طبیعت کے لوگ ہیں کہ دوسروں کے کاموں میں گھستے پھرتے ہیں یہی صاحب جن کا خط آیا ہے ان کی بھی یہی حالت ہے ایسے باتوں سے بعض اوقات دین برباد ہو جاتا ہے ایسے شخص کو ضرورت ہے کہ تھوڑے دنوں کے لیے تو بالکل بیکار ہو کر کسی مصلح کے پاس رہ لے ـ لوگ دونوں کندھے ہاتھ رکھنا چاہتے ہیں مگر کیسے ہو سکتا ہے مولانا اسی کو فرماتے ہیں ؎ ہم خدا خواہی وہم دنیاے دوں ایں خیال است و محال است و جنوں ض( تم حق تعالی کا قرب ( بدرجہ کمال جس قدر بندہ کی قدرت میں ہے ) بھی چاہتے ہو ـ اور دنیا کو بھی ( بدرجہ کمال ) حاصل کرنا چاہتے ہو یہ محض خیال اور جنون ہے 12) خواجہ صاحب نے عرض کیا کہ حضرت مجھ کو اس تصور سے وحشت ہوتی ہے کہ پھر نوکری پر چلے جائیں گے وہاں جا کر پھر وہی بکھیڑا سر پڑے گا فرمایا کہ جو چیز غیر اختیاری ہے یا ضرورت کی ہے وہاں تو بندہ مجبور ہے اور اس سے دین پر بھی کوئی اثر نہیں پڑتا اور جو اختیار میں ہے اور ضروری بھی نہیں اس سے تو بچنا چاہیئے ـ کام کرنے والوں کی تو یہ حالت ہوتی ہے کہ ایک وزیر تھا بادشاہ کا وہ کسی بزرگ کی زیارت کو حاضر ہوا ـ بزرگ نے وزیر سے بادشاہ کا مزاج دریافت کیا وزیر نے عرض کیا کہ حضرت بادشاہ کا مزاج معلوم کرتے کرتے تو عمر گذر گئی یہاں پر تو آیا تھا اپنا مزاج معلوم کرنے مگر یہاں پر بھی بادشاہ ہی کے مزاج کی پرستش ہوئی بزرگ صاحب نے فرمایا کہ میں نے تمہاری دل جوئی کی غرض سے پوچھ لیا تھا پھر کبھی ایسا نہیں ہوا اور وزیر کی اصلاح و تربیت شروع فرما دی ـ دیکھئے وزیر کو طلب صادق تھی کیسی خوش فہمی کی بات کہی ـ
