ایک صاحب کیے سوال کے جواب میں فرمایا اس کرید سے میرا مقصود یہ معلوم کرنا ہوتا ہے کہ آیا مطلوب ان کے ذہن میں معلم مستحضر ہے یا نہیں کیونکہ طلب کی شرائط اعظم مطلوب کی تعین ہے ـ نیز اس وجہ سے بھی کہ آیا میں اس کو پورا کر سکتا ہوں کہ نہیں اور یہ معلم ہو جانے پر طرفین میں سے کسی کے ساتھ دھوکا نہیں ہوتا ـ میں بات کو صاف ہی کرنا چاہتا ہوں خدانخواستہ مواخزہ بالزات تھوڑا ہی مقصود ہوتا ہے گو وہ مواخزہ ہوتا ہے مگر محض صورۃ مواخزہ ہوتا ہے ـ اس سے اصل مقصود صفائ ہوتی ہے لوگوں کی عادت ہے کہ وہ صاف بات کو بھی الجھاتے ہیں اور تاویلات کرنا شروع کر دیتے ہیں اس کی وجہ سے ناگواری کے سبب میرے لحجے میں تغیر پیدا ہوتا ہے اس تغیر کو خفگی سے تعبیر کرتے ہیں اور یہ تو ایسا ہے کہ طبیب مریض کی بد پرہیزی پر مطلع ہو جاۓ اور وہ مریض طبیب کی خفگی سے بچنا چاہیۓ اس لیۓ اس——– میں تاویلات اور تلبیس کرے تو اب بتلایۓ کہ اس سے طبیب کا نقصان ہے یا مریض کا ـ لوگ ذہانت سے کام نکالنا چاہتے ہیں اور اللہ فضل سے اور اپنے بزرگوں کی دعاء کی برکت سے وہ یہاں پر چلتی چلاتی نہیں ، حق وباطل صاف صاف نظر آنے لگتا ہے اس پر لوگ ناراض ہوتے ہیں بدنام کرتے ہیں اسی دوران تقریر میں ایک صاحب سے ان کی غلطی پر مواخذہ فرمایا کہ یہ حرکت کیوں ہوئی اس پر ان صاحب نے تاویلات شروع کردی ارشاد فرمایا کہ ابھی ذکر ہورہا تھا تاویلات کے مدموم ہونے کا اور وہی حرکت موجود ہے اب آپ حضرات دیکھ رہے ہیں کہ میری گفتگو انتہا درجہ کی صاف ہے کوئی گنجلک نہیں ابہام نہیں اشارہ کیا یہ نہیں کوئی ایسی باریک بات نہیں مگر دیکھ لیجئے کہ اس کو تاویلات کا جامہ پہنا کر کہاں سے کہاں پہچادیں گے – اپنی غلطی کے اقرار کا تو یہ لوگ سبق ہی نہیں پڑھے سب ایک مکتب کے تعلیم پائے ہوئے قسم کھا کر آتے ہیں کہ کبھی اپنی غلطی کا اقرار نہ کریں گے اور کبھی سیدھی بات صاف نہ کہیں گے – پھر بتلایئے نااہلوں کے جمع کرنے سے کیا فائدہ کیا اس میں میرا کوئی نفع ہے یا میری کوئی غرض ہے پوچھتا محض اس غرض سے ہوں کہ منشاء غلطی کا معلوم ہو تو اصلاح کی تدبیر کروں – مگر اس کو بلی کے گوہ کی طرح چھپاتے ہیں سو میری جوتی سے مجھ کو کون غرض ہے کہ میں ایسے بد فہوں کا تختئہ مشق بنوں اپنی اصلاح نہیں چاہتے جائیں اپنے بلانے کون گیا تھا – اور جب تک انسان خود اپنی اصلاح نہ چاہے بیچارے بزرگ اور عالم تو کیا ہستی اور وجود رکھتے ہیں زیسوں کی اصلاح نبی بھی نہیں کرسکے دیکھ لیجئے ابو طالب کا واقعہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے مرتے دم تک سعی اور کوشش فرمائی کہ ایمان لے آئیں مگر چونکہ ابو طالب نے نہ چاہا کچھ بھی نہ ہوا اس کے بعد کسی کو کیا منہ ہے کہ کوئی بدون طالب کی طلب کے اصلاح کرسکے پھر حضرت والا نے ان صاحب کی طرف متوجہ ہوکر فرمایا کہ آپ اگر میری بات کا صاف اور معقول جواب نہیں دے سکتے یا دینا نہیں چاہتے تو مجلس سے اٹھ جایئے اور جب تک جواب نہ دیں مجلس میں بیٹھے کی اجازت نہیں اور اب اگر جواب دینے کا ارادہ ہو تو کسی واسطہ سے جواب دیں میں براہ راست اب گفتگو نہ کروں گا اور یہ بھی ظاہر کئے دیتا ہوں کہ مجھ کو جواب کا انتظار نہ ہوگا اگر تم اپنی مصلحت سمجھو اور جی بھی چاہے تو کسی واسطہ سے جواب دینا ورنہ معاملہ ختم اس پر وہ صاحب خاموش رہے فرمایا کہ جو میں نے عرض کیا آپ نے سن لیا کہ عرض کیا کہ سن لیا فرمایا تو کم از کم ہاں نہ کا جواب تو آدمی کو دینا چاہیئے ٓ تاکہ دوسرا بے فکر ہوجائے نواب نہ بننا چایئے – کیوں آپ لوگ ستاتے ہیں جایئے مسجد میں جاکر بیٹھئے وہ صاحب اٹھ کر چلے گئے فرمایا کہ اب آپ حضرات نے نقشہ دیکھ لیا یہ ہیں وہ باتیں جن پر مجہ کو بدنام کیا جاتا ہے آخر میں بھی بشر ہوں تغیر کی بات پر تغیر ہوتا ہی ہے اور اگر تاویلات کا دروازہ کھولوں تو پھر اصلاح کی کیا صورت ہے اور مجھ کو تو یہ آسان ہے کہ اصلاح کاکام قطعا چھوڑدوں باقی یہ مجھ سے نہیں ہوسکتا کہ آنے والوں کی چاپلوسی کروں اور ہاتھ جوڑ کر عرض کیا کروں کہ حضور آپ سے فلاں غلطی ہوئی آئندہ نہ ہو – سو مجھ سے نہیں ہوسکتا اگر اس کی برداشت نہیں تو اور کہیں جائیں ایک میں ہی تو مصلح نہیں اور بہت جگہ ہیں مگر کام تو ہی کے طریق سے ہوتا ہے –
اقوال
(ملفوظ 35 )خطوط پر بھی طریق سے مناسبت نہ ہونا
فرمایا کہ ایک صاحب کا خط آیا تھا اس میں بیعت کی در خواست کی تھی میں نے لکھا کہ میں جب تک یہ نہ دیکھ لوں کہ تم کو طریق سے مناسبت بھی ہے یا نہیں اس وقت تک بیعت نہیں کر سکتا اور اس کا اندازہ موقوف ہے خطوط تعلیمی کے دیکھنے پر جس کا سلسلہ پہلے سے جاری ہے آج ان کے خطوط آے ہیں تریسٹھ خطوط ہیں ایک اچھی خاصی مسل ہے میں نے سب کو دیکھنے کی بھی زحمت گوارا کی دیکھنے پر معلوم ہوا کہ بالکل مناسبت نہیں ان خطوط سے معلوم ہوا کہ بوجود تنبیہات کے پھر بھی بہت گڑبڑ کی ہے اس کا سبب صرف فہم کی کمی ہے فہم نہیں معلوم ہوتا حتی کہ آخر کے خطوط میں بھی وہی گڑبڑ ہے حالاکہ اتنے دنوں میں تو مناسبت ہو جانا چاہیۓ تھی لوگ مجھ کو تو بدنام کرتے ہیں مگر اپنے فہم کو نہیں دیکھتے ـ جمیں نے ان صاحب کو جواب لکھ دیا ہے کہ سب خطوط دیکھ کر معلوم ہوا کہ ابھی طریق سے مناسبت نہیں ہوئ معلوم نہیں اس کا کیا سبب ہے کم فہمی یا بے فکری سبقہ خطوط میں سے بعض میں تو میں نے جتلا بھی دیا ہے کہ تم سمجھتے بھی نہیں ـ مگر پھر بھی خطوط میں گڑبڑ ہے الجھی ہوئ باتیں لکھی ہیں ـ میں نہایت صاف بات لکھتا ہوں مگر پھر بھی لوگ الجھتے ہیں میری بات میں کبھی گنجلک نیں ہوتی نہ تقریر میں نہ تحریر میں البتہ علمی تصنیفی مضامین میں میری تقریر ضرور ایسی ہوتی ہے جیسے کنز مگر وہ بھی صاف ـ گو مختصر ہو مگر مبہم نہیں ہوتی ابہام اور چیز ہے اور اختصار اور چیز ہے ـ
( ملفوظ 34 )طریق میں غیر مقصود چیزوں کی تفصیل
ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کام کرنا چاہیے اس غم میں نہ پڑنا چاہیۓ کہ میرے اندر شوق نہیں خوف نہیں کیفیات نہیں لزات نہیں انوار نہیں یہ سب چیزیں غیر مقصود ہیں ہاں مقصود کی معین ہو جاتی ہے اور وہ بھی بعض کیلۓ اور بعض کی قید اس لۓ لگائ کہ بعض کو یہ چیزیں مضر بھی ہوتی ہیں اور ہر حال میں سالک جن احوال و کیفیات کے فقدان سے پریشان ہوتا ہے ـ یہ فقدان کوئ نقص نہیں بلکہ میں تو کہتا ہوں کہ بڑا کمال ہے بدون احوال و کیفیات کے بھی مقصد میں رسوخ حاصل ہو جاۓ ـ یہ بڑی نعمت ہے بڑی دولت ہے غرض بندہ کو بندہ بن کر رہنا چاہیۓ اور جس حال میں حق تعالی رکھیں اسی کو اپنے لیۓ مصلحت اور حکمت سمجھنا چاہیۓ ـ ایک ضروری بات سمجھ لینے کی یہ ہے کہ یہ چیزیں غیر اختیاری ہیں اختیاری نہیں اس لیۓ معمور بہ بھی نہیں ـ مامور بہ صرف اعمال ہیں اور ثمرہ ان کا رضاء حق ہے ـ بس یہ حقیقت ہے اس طریق کی اب اس کا عکس لوگ سمجھے ہوۓ ہیں کہ غیر مقصود کو مقصود اور مقصود کو غیر مقصود سمجھ رہے ہیں اور اس لیۓ غیر ختیاری چیزوں کے پیچھے پڑے ہوۓ ہیں اور وہ سبب ہو جاتا ہے پریشانی کا اس لیۓ میں سب سے اول اس کی کوشش کرتا ہوں کہ طالب صحیح راستے پر پڑ جاۓ اور اپنے مقصود کو سمجھ لے پھر ساری عمر کیلۓ انشا اللہ تعالی پریشانی سے نجات ہو جاتی ہے گو اس حالت میں بھی ضرور ہے کہ سالک پر اکثر حزن و غم کے پہاڑ رہتے ہیں مگر وہ اور چیز ہے ایک پریشانی ہوتی ہے گمراہی کی کہ رستہ سے بھٹکتا ہوا پھرتا ہے اور راستہ نہیں ملتا یہ پریشانی تو مقصود کے تعین سے رفع ہو جاتی ہے اور ایک پریشانی ہوتی ہے محبوب کے توارو تجلیات کی تو وہ حزن اور غم و پریشانی تو ایسی ہے کہ ہزاروں سکون اور راحتوں کو اس پر قربان کریں اس میں محب کو ہر ساعت یہی خیال رہتا ہے کہ میں محبوب کا حق ادا نہیں کر سکا پھر جس وقت یہ شبھ ہوتا ہے کہ ان کی محبت یا مطلب میں ذرا برابر بھی کمی ہے تو اس پر حزن و غم کے پہاڑ ٹوٹ پڑتے ہیں اسی کو فرماتےُ ہیں ـ
بر دل سالک ہزاراں غم بود گر نہ باغ دل خلا لے کم بود
( سالک دل کے باغ میں سے اگر ایک تنکا بھی کم ہو جاتا ہے تو اس کے دل پر ہزاروں غم سوار ہو جاتے ہیں ـ 12)
پھر یہ سب کچھ تو ہے مگر اس طریق میں ناکامی نا اومیدی اور مایوسی کا نام و نشان نہیں قدم قدم پر تسلی موجود ہے بشرطیکہ منزل مقصود کی صحیح راہ معلوم ہو گئ ہو اس لیۓ کہ پھر تو صرف چلنا ہی باقی رہ جاتا ہے اور جس قدر چلتا ہے مقصود سے قرب ہی ہوتا جاتا ہے پھر تو اس شخص کو نا اومیدی اور مایوسی کا وسوسہ تک بھی نہیں ہوتا مولانا رومی فرماتے ہیں ـ عے
کوۓ نومیدی مرد کا مید ہاست سوۓ تاریکی مرو خور شید ہاست
( نا امیدی کے کوچہ میں بھی مت جاؤ کیو نکہ (حضرت حق سے ) بہت امیدیں ہیں اور اندھیرے کی طرف مت جاؤ جبکہ سورج نکلے ہوۓ ہیں 12 )
باقی خود محبت کے نشیبو فراز کی پریشانی یہ الگ چیز ہے ـ
من لم یذق لم یدر
4 ذیقعدہ 1350 مجلس بعد نماز ظہر یوم یکشنبہ
( ملفوظ 33 )بزر گوں کی صحبت کا اثر
ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ بچپن تھا مگر الحمد اللہ ایسے بزرگوں کی صحبت رہی کہ اس وقت بھی تہجد پڑھتا تھا چاہے بارش ہو رعد ہو برق ہو سب کچھ ہو مگر تہجد قضا نہ ہو کرتا تھا ـ وعظ سننے کا شوق تھا ـ وعظ کہنے کا شوق تھا یہ سب بزرگوں کی صحبت کا اثر تھا ـ
( ملفوظ 32 )قبروں کو پوجنے والے
ایک صاحب کے سوال کے جواب میں فرمایا کہ یہ قبروں کے پوجنے والے نہایت گڑ بڑ کرتے ہیں اچھی خاصی بت پرستی کرتے ہیں ـ
( ملفوظ 31 )ہر کام کیلئے استخارہ مسنون نہیں
ایک صاحب نے عرض کیا کہ حضرت یہ شیعی لوگ ہر کام پر ہر بات پر استخارہ کرتے ہیں ـ ایک صاحب کا کسی شیعی صاحب پر قرض چاہتا تھا انہوں نے اپنا قرض طلب کیا تو اس پر استخارہ دیکھا اور کہا ادا کرنے کے لۓ استخارہ نہیں آتا فرمایا کبھی لینے کے وقت بھی استخارہ کیا ہو گا کہ اس وقت نہیں لیں گے ـ استخارہ نہیں آتا ـ اسی سلسلہ میں فرمایا کہ گور گھپور میں ایک شیعی رئیس تھے ـ جب بیمار ہوتے طبیب کو بلاتے اور نسخہ کے ہر جز کے لۓ استخارہ کرتے طبیب بہت پریشان ہوتے میں نے سن کر کہا کہ استخارہ کیلۓ بھی تو استخارہ کرنا چاہیے تھا ـکہ استخارہ کریں یا نہیں پھر اس استخارہ کیلۓ بھی استخارہ کی ضرورت ہے پھر ایک سلسلہ ہو گا جو لامتناہی ہو گا اور قیامت تک بھی نسخہ مرتب نہیں ہو سکتا شاید یہ سمجھا ہو گا کہ ایمان اجمالی پر اکتفا کرنا چاہیے ایمان مفصل کی ضرورت نہیں ـ
( ملفوظ 30 )اکثر جاہل صوفی حفوظ نفسانیہ میں مبتلا ہیں
ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ آج کل کے اکثر جاہل صوفی حفوظ نفسانیہ میں مبتلا ہیں طریق کی حقیقت سے بے خبر ہیں یہ کیفیات اور لزات کو مقصود سمجھتے ہیں سو ایسے لوگ باکل کورے ہوتے ہیں میں تو کہا کرتا ہوں آج کل کے صوفی نہیں سوقی ( بازاری ) ہیں اور یہ آج کل سماع اہل سماء نہیں – اہل رض –
“” ولکنہ اخلد الی الا رض “”
کے مصداق ہیں کا نپور کی حکایت حافظ عبداللہ مہتمم جامع العلوم نے بیان کی تھی کہ سماع ہو رہا تھا ایک شخص کو وجد شروع ہوا حالت وجد میں ایک پاس والے شخص نے امتحان کے لۓ صاحب وجد کی چادر اوتار کر قوال کو دے دی بس فورا ہی وجد ختم ہو گیا اور چادر کی وپسی کا تقاضا کرنے لگےبڑا جھگڑا ہوا یہ ان کے وجد کی حقیقت ہے محض جھوٹے مکار ـ
( ملفوظ 29 )راحت کی خاطر سفر بند فرمانا
ایک صاحب کے سوال کے جواب میں فر مایا کہ سفر نہ کرنے کی میں نے قسم تھوڑا ہی کھائی بلکہ کسی قید کے سفر کرسکتا ہوں کوئی مانع نہیں ہاں اپنی راحت کے واسطے سفر بند کیا ہے لکین کسی مصلحت کے سبب جی چاہے جابھی سکتا ہوں اوو اللہ کا شکر کہ خود بدن کے اندر ایسا عزرہ فرمادیا ورنہ اگر یہ عزرہ بھی نہ ہوتا تب بھی سفر بند ہی کرنا پڑتا بڑے فتنہ کا زمانہ ہے –
( ملفوظ 28 )حیدر آباد کے فقراء اور امراء
ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ میں ایک دوست کے مدعو کرنے پر حیدر آباد دکن گیا تھا وہاں تقریبا چور ہ روز قیام کیا ایک صاحب نے مجھ سے اپنے گھر میں کے لئے بیعت کرنے کی درخواست کی میں نے قبول کرلی چنانچہ انہوں نے ایک وقت مکان پر لے جانے کا متعین کیا اور اس وقت پر سواری کر آگے – میں مکان پر پہنچا اور مردانہ میں جاکر بیٹھ گیا پھر پردہ کر کرا گھر میں لے گئے اور ایک دالان میں میں بٹھلادیا اور وہاں ہی سب عورتیں برقع اوڑہے ہوئے بیٹھی تھیں مجھ کو یہ بھی ناگوار ہوا مگر چونکہ خیر ضروری پردہ تھا اس صبر کرکے بیٹھ گیا اب ان حضرات کوجوش اٹھا اور رسوم مروجہ کا غلبہ ہوا جن کو آج کل کے رسمی اور جاہل پیروں نے جائز کررکھا ہے وہ یہ کہ عورتوں سے کہا کہ منہ کھول دو میں نے سوچا کہ اگر اول ان سے بحث کی تو عورتوں بے پردہوچکیں گی اس لئے میں نے عورتوں سے کہا کہ کرگز منہ مت کھولنا اب وہ بیچاری بڑی کشمکش میں ادھر گھر کے مالک کا ایک حکم ادھر اس کے خلاف پیر کا کا حکم ـ کہنے لگے کہ وجہ اور کفین تو ستر نہیں میں کہا ضرورت میںیا بلا ضرورت بھی کہنے لگے کہ یہاں پر تو ضرورت ہے میں کہا کہ وہ ضرورت کیا ہے کہنے لگے کہ آگر آپ دیکھیں گے نہیں تو ان کی طرح توجہ کس طرح ہوگی – میں نے کہا توجہ دیکھنے پر موقوف ہے آخر عورتوں سے کہا اچھا بھائی یہ کیا کسی کی مانیں گے – اس کے بعد نے عورتوں کی طرف رومال بڑھ دیا کہ وہ پردہ میں سے اس کا گوشہ تھام لیں – اس پر ان صاحب کو پھر جوش اٹھا اور فرمانے لگے ہاتھ میں ہاتھ لے کر بیعت کیجئے – میں نے کہا کہ حدیث شریف میں تصریح موجود ہے پ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عورتوں کو ہاتھ میں ہاتھ میں لے کر بیعت نہ فرماتے تھے کہنے لگے اچھا صاحب یہی سہی – غرض اللہ کے فضل سے میں ہی غالب رہا اور یہ شخص ماشااللہ عالم صوفی مصنف سب کچھ تھے – مگر خدا ناس کرے ان رسوم کا ان میں وہ بھی مبتلا تھے – اورعام لوگ ان رسمی پیروں اور دکانداروں کی بدولت ان خرافات میں مبتلا ہیں جس سے اس طریق کی حقیقت تو بالکل ہی مستور ہوگئی اور ان بزرگ کا ان امور پر جو کچھ بھی اصرار تھا شرارت سے نہ تھا بلکہ انتھائی عقیدت اور خوش نیتی پر مبنی تھا جو حیدرہ آباد کے بڑے طبقہ کا جز ولا نیفک ہوگیا ہے چنانچہ ماموں امداد علی صاحب فرمایا کرتے تھے کہ حیدرہ آباد کے فقراء تو دوزخی اور امراء جنتی اور اس کی وجہ بیان کیا کرتے کہ فقراء تو امراء سے تلعق پیدا کرتے ہیں دنیا کے واسطے اور امراء فقراء سے تلعق پیداکرتے ہیں دین کے واسطے اور ظاہر ہے دین کا طالب جنتی اور دنیا کا طالب دوزخی – اس خوش اعتقادی کی یہاں تک نوبت پہنچ گئی ہے لہ ایک پیر صاحب کی حکایت ہے کہ ایک عورت کا مجمع میں بیھٹے ہوئے جس میں اس کا خاوند بھی موجود تھا پکڑ کر کھینچ لیا اور بوسہ لے لیا خاوند بے حیا کہتا ہے کہ اب تو تم متبرک ہوگیئں تم ہماری رسائی کہاں کیا ٹھکا نا ہے اس بے حیائی اور گمراہی کا –
( ملفوظ 27 )بے فکری دور کرنے کے لئے مواخزہ
ایک صاحب نے عرض کیا کہ یہ سب پریشانیاں جیسی اس وقت ان صاحب کو ہورہی ہیں یہ سب بے فکری دور کرنے اور فکر کو پیدا کرنے میں معین ہوتی ہیں فرمایا کہ جی ہاں میری تو یہ ہی نیت یوتی ہے پہر فرمایا کہ بے اصول باتیں کر کے خود اپنے اوپر پابندیاں عائد کرتے ہیں اور ایک عجیب بات ہے کہاپنے بے اصول برتاؤ کی خوب تاؤیلیں کرلیتے ہیں مگر میری مواخزہ کی تاویل نہیں کرتے کیوں شکائتیں کرتے پھرتے ہیں حالا نکہ ان کی سب بے تمیزیاں ہی سبب ہیں اور میرا مواخذہ مسبب ہے ـ کیو نکہ وہ بعد میں ہوتا ہے مثلا میں سیدھی سیدھی بات پوچھتا ہوں اس میں چالا کیا کرتے ہیں وہ یہاں چلتی نہیں – جرح قد ہوتی ہے بات بڑھ جاتی ہے پہلے تو ایک ہی بات ہوتی ہے گڑ بڑ کرنے سے پھر کئی جمع ہوجاتی ہیں ایسی حرکتیں ہی کیوں کرتے ہیں جس کے تدارک کی ضرورت ہو اور میں ایسے امور کی سزا پہلے خود تجویز کردیا کرتا تھا اس پر مجھے بدنام کیا کہ سختی کرتا ہے اب میں نے تجویز کرنا چھوڑ دیا کہ دیتا ہوں کہ خود تجویز کرو اب یہ عقل مند میری تجویز سے زیادہ سخت سزا تجویز کرتے ہیں مگر چونکہ اپنی تجویز ہوتی ہے اس لئے اس کو سخت خیال نہیں کرتے پھر اس میں تخفیف کردیتا ہوں تو غنیمت سمجھتے ہیں –
4 ذیقعدہ 1350 ھ مجلس بوقت خاص صبح یوم یکشنبہ

You must be logged in to post a comment.