(ملفوظ ۹۶) ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ جب تک دل ملا ہوا نہیں ہوتا خدمت لیتے ہوئے شرم معلوم ہوتی ہے غیرت آتی ہے دل پر بوجھ معلوم ہوتا ہے طبیعت مکدر ہوتی ہے مگر عام طور پر لوگ خدمت کو ادب سمجھتے ہیں گو اس سے اذیت ہی ہو. ادب کہتے ہیں راحت پہنچانے کو نہ کہ خدمت کرنے کو یا پچھلے پیروں ہٹنے کو خوب سمجھ لو۔ بعضے ایسے کوڑ مغزوں اور بد فہموں سے واسطہ پڑتا ہے کہ جب آئیں گے ستاتے ہوئے اور میں جو ان باتوں کو ظاہر کر دیتا ہوں اسی وجہ سے بدنام ہوں دوسری جگہوں میں ایسے بدتمیزوں کی چاپلوسی اور دلجوئی کی جاتی ہے اور میرے یہاں بحمداللہ بجائے دلجوئی کے دلشوئی ہوتی ہے
اقوال
(ملفوظ 95)بہائم اور انسان میں فرق صرف فکر کا ہے
(ملفوظ ۹۵)ایک شخص کی غلطی پر تنبیہ فرماتے ہوئے فرمایا کہ زیادہ تر جو تکلیف ہوتی ہے وہ بے عقلی سے نہیں ہوتی بلکہ بے فکری سے ہوتی ہے اگر فکر سے آدمی کام لے تو موٹی موٹی باتوں میں غلطی نہیں ہو سکتی اور عقلوں میں تفاوت ضرور ہوتا ہے مگر اس قدر نہیں کہ فکر سے کام لینے کی حالت میں اس سے دوسروں کو تکلیف پہنچے مگر جب فکر ہی سے کام نہ لیں تو پھر بہائم اور انسان میں فرق کیا رہ گیا کیونکہ جانور میں فکر نہیں ہے یعنی دوسری جانب کا احتمال اس کے ذہن میں حاضر نہیں ہوتا سو آدمی کو چاہئے کہ جو کام کرنا چاہے پہلے سوچ لے کہ نہ معلوم اس کا کوئی پہلو مصلحت کے خلاف ہو۔ اس شخص نے عرض کیا کہ میں معافی چاہتا ہوں فرمایا کہ معاف ہے خدانخواستہ کوئی انتقام تھوڑا ہی لے رہا ہوں مگر کیا منتبہ بھی نہ کروں بدون تنبیہ کے یہ کیسے معلوم ہوگا کہ ایسی حرکت کرنا غلطی ہے عرض کیا کہ میرے مقدر میں اسی طرح تھا فرمایا کہ یہ اور نامعقول عذر ہے معلوم ہوتا ہے کہ زیادہ بولنے کا بھی مرض ہے محض بے ہودہ ہو آپ کہتے ہیں کہ مقدر میں بھی تھا اس کے معنی تو یہ ہیں کہ خدا ہی کی تجویز ایسی ہے میں مجبور ہوں اپنے تبریہ(جان چھڑانا) کے لئے مقدر کو پیش کرنا کس قدر نالائق اور بےہودہ حرکت ہے اب تک تو میں نے نہیں کہا تھا مگر اب کہتا ہوں کہ تم کو مجھ سے مناسبت نہیں کہیں اور جاؤ
(ملفوظ 94)محبت خداوندی کی سخت ضرورت
(ملفوظ۹۴) ایک مولوی صاحب کے سوال کے جواب میں فرمایا کہ طریق میں بعد تصحیح عقائد و اعمال ضروریہ کے سب سے بڑی چیز محبت ہے اسکی بڑی سخت ضرورت ہے مراقبات سے بھی زیادہ تر یہی مقصود ہے کہ ان سے یکسوئی ہو اور یکسوئی سے محبت اور سماع میں بھی یہی ہوتا ہے کہ اس سے یکسوئی ہوجاتی ہے اور یکسوئی کے ساتھ ایک ہیجان بھی ہوتا ہے مگر یہجان اسی محبت کا ہوتا ہے جو پہلے سے ہو اگر خدا کی محبت ہے تو اس کا ہیجان ہوتا ہے اور اگر مخلوق کی محبت ہے تو اس کا ہیجان۔ اسی لئے سماع کی ہر شخص کو اجازت نہیں۔
(ملفوظ 93)امام مہدی علیہ السلام کا طرز صحابہ سا ہوگا
(ملفوظ ۹۳) ایک صاحب نے عرض کیا کہ حضرت بعض لوگوں نے یہ مشہور کیا ہے کہ امام مہدی نقشبندی ہوں گے فرمایا کہ یہ تو میں نے نہیں سنا البتہ بعض حنفیوں نے لکھا ہے کہ وہ حنفی ہوں گے مگر یہ غلو ہے غالباً یہ ہوگا کہ امام مہدی کا اجتہاد امام صاحب کے اجتہاد پر منطبق ہوجائے گا باتیں دعوے کی دل کو نہیں لگتیں اس میں تو ایک گونہ اہانت ہے امام مہدی علیہ السلام کی. ان کا طرز صحابہ کا سا ہوگا وہ نہ نقشبندي ہوں گے نہ چشتی نہ حنفی وہ تو دین کے ہر شعبہ میں خود مستقل شان رکھتے ہوں گے
(ملفوظ 92)چشتیہ کے یہاں اول قدم فنا ہے
(ملفوظ۹۲) ایک مولوی صاحب کے سوال کے جواب میں فرمایا کہ چشتیہ پر سب معترضین دلیر ہیں اس وجہ سے کہ یہ جواب نہیں دیتے جیسے فلا نے خان صاحب کہ مجھ سے تو لڑنے کو ہر وقت تیار تھے مگر مولوی مرتضی حسن صاحب سے کبھی نہ لڑے اس لئے کہ وہ بولتے ہیں۔ سو چشتیہ اسی لئے لوگوں کے زیادہ تختہ مشق رہے کہ یہ بولتے نہیں اور بولیں ہی کیا ان کے اندر ایک چیز ایسی ہے جو کسی کے اندر اس شان کی نہیں اور وہ شان فنا ہے ان کے یہاں طریق میں یہ پہلا قدم ہے جو دوسروں کا منتہی ہے
(ملفوظ 91)چشتیہ کے یہاں کوئی غیر منقول جزو وطریق نہیں
( ملفوظ۹۱ تمتہ سابق) ایک صاحب کے سوال کے جواب میں فرمایا کہ نقشبندیہ کے یہاں ذکر حنفی ہے لطائف کے ساتھ اور ایک مسئلہ ان کے یہاں تصور شیخ کا ہے اور یہ تصور اور لطائف مثل جزو طریق کے ہیں اور دونوں منقول نہیں مگر کسی منقول کے مزاحم بھی نہیں اور چشتیہ کے یہاں کوئی غیر منقول جزو طریق کے نہیں ۔ ایک تفادت اصول کا اس سے بھی معلوم ہو سکتا ہے۔
(ملفوظ 90)مذہب حنفی اقرب الی الحدیث ہے
(ملفوظ ۹۰) ایک مولوی صاحب کا ذکر فرماتے ہوئے فرمایا کہ یہ حنفیت میں بہت ہی ڈھیلےتھے مگر اب یہ کہنے لگے ہیں کہ کتابوں کے دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ جہاں تک امام صاحب پہنچے وہاں تک کوئی بھی نہیں پہنچا ابن تیمیہ وابن القیم کے اب بھی بےحد معتقد ہیں مگر اب اس تغیر مذکور کے بعد ان کی بھی کچھ زیادہ رعایت نہیں کرتے چنانچہ ابن القیم نے حنفیہ کے بعض فروع پر جو اعتراض کئے ہیں ان ہی مولوی صاحب نے ان کا بڑے شد و مد سے جواب لکھا ہے اور واقعی بات یہ ہے کہ حنفیہ پر اکثر خواہ مخواہ کی بدگمانی کرلی گئی ہے ورنہ بےغبار مسائل پر اعتراض عجیب بات ہے مذہب حنفی کو بعضے نادان حدیث سے بعید سمجھتے ہیں مگر مذہب میں اصل چیز اصول ہیں سو ان کے اصول کو دیکھا جائے تو سب مذاہب سے زیادہ اقرب الی الحدیث ہیں ان ہی اصول کے توافق کی بناء پر میں اکثر کہا کرتا ہوں کہ حنفیہ کے اصول پر نظر نہ کرنے سے ان کو بھی بدنام کیا گیا ہے ایک مولوی صاحب نے مجھ سے سوال کیا تھا کہ جب حضرات چشتیہ کےاس قدر پاکیزہ اصول ہیں پھر یہ بدنام کیوں ہیں میں نے کہا کہ زیادہ تر سماع کی وجہ سے اگر یہ گانا نہ سنتے تو ان سے زیادہ کوئی بھی نیک نام مشہور نہ ہوتا مگر الحمدللہ کہ ہمارے سلسلہ کے قریب کے حضرات تو بالکل ہی نہ سنتے تھے سو ماشاءاللہ ان سے نفع بھی بہت ہوا۔
(ملفوظ 89)کشیدگی والے میرے دشمن نہیں
(ملفوظ ۸۹) ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ نہایت خوش دلی سے اپنے احباب کو اجازت دیتا ہوں کہ جن حضرات کو مجھ سے کشیدگی ہے ان سے میری وجہ سے اپنے تعلقات کو نہ بدلیں اور نہ چھوڑیں بلکہ ویسے ہی تعلقات رکھیں جیسے کہ پہلے سے آپس میں ہیں میں ہرگز نہیں چاہتا کہ میری وجہ سے میرے احباب کے تعلقات میں بےلطفی ہو اور خدا نخواستہ وہ کشیدگی والے بھی میرے دشمن نہیں نیز پس پشت جو کچھ بھی ہوں یا کہتے ہوں مگر سارے سامنے آکر وہ بھی نیاز مندی ہی کا برتاؤ کرتے ہیں اور میں اپنے اس مذاق کو سب حضرت حاجی صاحب کی برکت سمجھتا ہوں اور یہ اثر بھی ان ہی کی دعاؤں کا ثمرہ ہے کہ مخالف سے مخالف بھی سامنے آکر سرنگوں ہوجاتا ہے ورنہ میرے اندر ایسی کوئی چیز نہیں کہ جس کا یہ اثر ہو نہ مجھ میں کوئی علمی ہی قابلیت ہے نہ مالی ہی وجاہت ہے نہ کوئی جاہی قوت ہے ایک غریب آدمی ہوں غریب شیخ زادہ کا لڑکا ہوں پھر یہ جو کچھ نظر آرہا ہے سب اللہ تعالی کا فضل اور حضرت حاجی صاحب کی برکت اور دعاؤں کا ثمرہ ہے اسی کی فرع ہے کہ میں اپنے دوستوں کو ہمیشہ اس معاملہ میں آزادی دیتا ہوں کہ وہ میری وجہ سے اپنے ایسے دوستوں سے جن کو مجھ سے کشیدگی ہے اور بے لطفی اور بے تعلقی نہ پیدا کریں اگر ان سے تعلقات رکھے جائیں مجھ پر بحمد اللہ ذرا اثر نہ ہوگا البتہ اس کے عکس پر تعجب نہیں کہ اثر ہو۔
(ملفوظ 88)دینی تعلیم کی طرف توجہ کی ضروت
(ملفوظ ۸۸) ایک صاحب نے فرض کیا کہ فلاں قصبہ کے شریف خاندانوں کے لڑکے سرکاری سکولوں میں تعلیم پاتے ہیں اچھی خاصی عمر کے لڑکے ہیں مگر کلمہ تک نہیں پڑھ سکتے نماز روزہ تو بڑی چیز ہے فرمایا ایسی حالت سن کربے حد صدمہ ہوتا ہے آج کل اکثر امراء تعلیم انگریزی تو بچوں کو دیلاتے ہیں مگر تعلیم دین کی طرف قطعاََ توجہ نہیں کرتے یہ سمجھتے ہیں کہ علم دین پڑھ کر سوائے ملا بننے کے اور کیا نتیجہ فرمایا کہ الہ آباد میں ایک لڑکا دیکھا تھا عمر تقریباََ گیارہ بارہ سال کی ہوگی بی اے کی جماعت میں تعلیم پا رہا تھا مجھ سے بڑے فخر سے کہا گیا کہ یہ عمر ہے اور یہ تعلیم ۔ اتفاق سے میرے سامنے اس وقت قرآن مجید کا ایک اشتہار تھا اس میں نمونہ کے لئے ایک طرف الحمد شریف لکھی ہوئے تھی اور ایک طرف اشتتہار کا مضمون تھا میں نے اس لڑکے سے کہا کہ اس کو پڑھو اس نے دیکھ کر صاف انکار کیا کہ میں نہیں پڑھ سکتا میں نے کہا کہ ہجے ہی کر کے پڑھ لووہ یہ بھی نہ کر سکا میں نے کہا کہ اچھا الگ الگ حروف بتلادو اس نے کہا کہ میں یہ بھی نہیں بتلا سکتا اور بیچارہ کیا کرے جب ایک چیز اس کو سکھلائی ہی نہیں گئی تو دنیوی تعلیم کس دینی تعلیم کس درجہ کی فرمایا کہ میرے ایک ملنے والے تھے اسکندریہ میں جاکران کا انتقال ہوا انہوں نے اپنے بچے کو انگریزی زبان سکھانے کی غرض سے ایک انگریز عورت کے سپرد کر دیا تھا اور اس عورت کو تنخواہ دیتے تھے جب ان کے کوئی دوست ملنے اتے تھے وہ اس بچہ کو ان کے سامنے فخراََ پیش کرتے تھے دیکھنے کہ باوجود یہ کہ اس بچہ نے ایک میم کے آغوش میں پرورش پائی ہے مگر اس کو کلمہ بھی یاد ہے اور کلمہ سنوادیتے تھے غرض ان امراء کو دین سے اس قدر بعد (دوری) ہو گیا ہے کہ بلکل اس طرف التفات ہی نہیں پھر دوسروں پر اعتراض ہے کہ علم دین پڑھ کر بھیک مانگتے پھرتے ہیں میں پوچھتا ہوں کہ قصور کس کا ہے تمہارا یا ان بھیک مانگنے والوں کا جب علم دین بھیک مانگنے والے پڑھیں گے تو وہ بھیک ہی مانگیں گے سو یہ تو انتخاب کی غلطی ہے تم اپنے بچوں کو علم دین کیوں نہیں پڑھاتے ہو تاکہ وہ بھیک نہ مانگیں اور حوصلہ ہوں۔
(نوٹ) ہیاں تک وہ ملفوظات جو ۱۴ شوال ۱۳۵۰ھ سے شروع ہوئے ہیں اور درمیاں میں چھوٹ گئے تھے ختم ہوگئے۔مدیر
(ملفوظ 87)عین عتاب کے وقت رنج
(ملفوظ۸۷) فرمایا کہ عین عتاب کے وقت بھی مجھ کو اس کا رنج ہوتا ہے کہ یہ غریب ناکام رہا پھر اس کے بعد بھی طبعاََ ندامت ہوتی ہے کہ میں نے ایسا برتاؤ کیوں کیا مگر عقلاََ نہیں ہوتی عقلاََ تو یہی اعتقاد ہوتا ہے کہ ایسا ہی ہونا چاہئے تھا کیونکہ اصلاح کا طریق وہی ہوتا ہے اسی لئے اپنی مصلحت طبعیہ پر اس کی مصلحت عقلیہ کو مقدم رکھتا ہوں اور باز پرس وغیرہ کرلیتا ہوں مگر اس کے ساتھ دل میں اس سے بھی ڈرتا ہوں کہ کہیں مجھ سے مواخذہ نہ ہو کہ ہمارے بندوں کے ساتھ ایسا برتاؤ کرتا تھا اس خیال کے آنے پر یہ بھی ارادہ کرتا ہوں کہ اپنا طرز بدل دوں مگر اصلاح کا دوسرا طریق سمجھ میں نہ آنے کے سبب پھر وہی برتاؤ کرنا پڑتاہے جس میں طالب کی مصلحت اور اصلاح مضمر ہے دوسری بات اس کے علاوہ یہ بھی ہے کہ بعض اوقات نہ معلوم عین وقت پر کیا ہوجاتا ہے اور اس وقت جو حالت ہوتی ہے اس کا غلبہ اس قدر ہوجاتا ہے کہ دوسرے پہلوؤں پر نظر نہیں جاتی بس اندر سے یہی تقاضا ہوتا ہے کہ فلاں حقیقت کو کس طرح اس کے دل میں ڈال دوں حاصل یہ کہ میرے اس داروگیر کا منشا زیادہ تر آنے والے کی اصلاح ہے مگر اس کی یہ قدر کی جاتی ہے کہ مجھ کو بد نام کیا جاتاہےکہ سخت ھے ہاں صاحب مگر آپ بہت نرم ہیں کہ ستار ہے ہیں یہاں رہ کر کوئی واقعات کو دیکھے تب حقیقت معلوم ہو کہ میں کیا برتاؤ کرتا ہوں اور آنے والے کیا برتاؤ کرتے ہیں دور بیٹھے رائے قائم کرلینا بہت سہل بات ہے مگر ہے انصاف کے خلاف اس لئے کہ دونوں طرف کی بات دیکھ کر یا صحیح روایت سن کر فیصلہ دینا ےہ انصاف کہا جا سکتا ہے

You must be logged in to post a comment.