طریق اصلاح کے استعمال کرنے میں مجبوری فرمایا کہ میں مجبور ہوں طرق اصلاح کے استعمال میں – اس کی مثال یوں سمجھئیے کہ قرات فی الصلوۃ کا لہجہ الگ ہوتا ہے اور تبلیغ تکبیر کا الگ امام قرات پڑھتا ہے نہایت نرم لہجہ میں اور مبلغ کہتا ہے بلند آواز سے اللہ اکبر – تو اس پر کوئی کہے کہ یہ شخص بہت ہی سخت مزاج ہے اتنی زور سے بولا باوجود اس کے وہ زور سے بھی بولا اور لہجہ بھی سخت ہے لیکن ظاہر ہے لیکن ظاہر ہے کہ اس کو کوئی سخت نہ کہے گا کہ ضرورت ہے – اسی طرح تادیب کا لہجہ معمولی کلام سے الگ ہوتا ہے جس کی ضرورت ہے اور وہ ضرورت یہ ہے کہ اگر نرمی سے کہا جائے تو وہ تادیب ہی نہ رہے گی جیسے مکبر نرمی کا لہجہ اختیار کرے تو بہت سے مقتدی رکوع ہی سے رہ جائیں – اب تادیب کا مضمون ہاتھ جوڑ کر تھوڑا ہی کہا جاتا ہے وہ تو کہنے ہی کے طریق پر کہا جاتا ہے ایک مثال عرض کرتا ہوں بادشاہ کا پاسبان دربار میں بادشاہ کے سامنے بول بھی نہیں سکتا – اور بول ہی کیا سکتا بے چارے کا وجود ہی کیا ہے مگر جس وقت شب آتی ہے اس وقت اس کی آواز سنیے کس طرح نکلتی ہے ایک دفعہ کو تو محل میں بادشاہ بھی چونک اٹھے اسلئے کہ اس پر وہ مامور ہے اس کا فرض منصبی ہے بلکہ جس قدر بادشاہ سے قرب ہوگا اسی قدر اس کی آواز بلند ہو گی اور زور سے پکارے گا – تاکہ بادشاہ خوش ہو کہ اپنے فرض منصبی خوب ادا کر رہا ہے اگر اس وقت وہ نرم و پست لہجہ اختیار کریگا مجرم ہو گا –
ملفوظاتِ حکیم الامت جلد نمبر 1
ملفوظ 501: حضرت کی شفقت و نرمی
حضرت کی شفقت و نرمی ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ لوگ مجھ کو بد نام کرتے ہیں اور سخت مشہور کرتے ہیں آپ ہی بتلایئے کہ صبح آپ دیکھ رہے تھے کہ میں نے ایسی کون سی باریک بات پوچھی تھی جس کا وہ صاحب جواب نہ دے سکے دو لفظوں میں جواب تھا نعم یا لا چھٹی ہوئی ! اب اتنی سی بات کا بھی جواب نہ ملے تو مزاج میں تغیر نہ ہو تو اور کیا ہو – مولوی صاحب نے عرض کیا واقعی حضرت سچ فرما رہے ہیں یہ صاحب بریلی سے اسی وجہ سے آ ئے پہلے خط و کتابت ہو چکی طریقہ معلوم ہو گیا اور اسی طریقہ پر بات پوچھی مگر نہ کہہ سکے سوائے رعب کے اور کیا چیز مانع ہو سکتی ہے بطور مزاح کے فرمایا بریلی سے بہ ریل آ ئے کہ جلد منزل مقصود پر پہنچ جاؤں اور یہاں پر آ کر یہ گڑ بڑ کی کہ معاملہ کی بات پوچھی جاتی ہے بولتے ہی نہیں مولوی صاحب نے عرض کیا کہ حضرت میں تو سوچا کرتا ہوں کہ اگر مؤاخذہ ہم لوگوں سے بھی ہو تو جواب نہ دے سکیں فرمایا کہ مواخذہ اور مطالبہ تو بعد میں ہوتا ہے پہلے تو سیدھی بات پوچھی جاتی ہے جب ٹیڑھا جواب ملتا ہے اس وقت میرا لہجہ بدل جاتا ہے – عرض کیا کہ حضرت حقیقت یہ ہے کہ حضرت نے جو کچھ فرمایا بالکل صحیح ہے اس کا جواب کچھ نہیں لیکن یہ سب ہمارا بولنا اسی وقت تک ہے جب تک حضرت محبت اور شفقت سے کام فرماتے رہتے ہیں ورنہ ضابطہ سے اگر حضرت مواخذہ فرمائیں تو ہوش گم ہو جائیں اور کوئی جواب نہ بن پڑے اسلئے کہ جب حضرت دوسروں سے مؤاخذہ فرماتے ہیں تو ان سوالوں کا جواب میں خود سوچتا ہوں اس نیت سے اگر مجھ سے یہی مؤاخذہ ہو تو میں کیا جواب عرض کروں مگر کچھ سمجھ میں نہیں آتا فرمایا اجی حضرت آپ تو کبھی اس کا وسوسہ بھی قلب میں نہ لایئے گا میں تو خادم ہوں حضرت والا کے اس فرمانے پر ان مولوی صاحب کے آنکھوں میں آنسو بھر آ ئے اور نہایت عاجزانہ لہجہ میں عرض کیا کہ حضرت ہم کیا چیز ہیں ہم تو حضرت کے خادمان خادم اور غلامان غلام ہیں اور یہ سب حضرت کی بزرگانہ شفقت ہی شفقت ہے –
ملفوظ 500: خاموش رہنے کی شرط کا فائدہ
خاموش رہنے کی شرط کا فائدہ فرمایا کہ میں جو نئے آنیوالے لوگوں کے ساتھ شرط لگاتا ہوں کہ تھوڑے دنوں یہاں پر
خاموش رہو نہ مکاتبت کرو نہ مخاطبت اس کا راز یہ ہے کہ پہلے مناسبت پیدا کرو جس کو لوگ ٹالنا سمجھتے ہیں حالانکہ ٹالنا نہیں ہے بلکہ جمانا ہے جمانے کو ٹالنا سمجھیں اس کا میرے پاس کوئی علاج نہیں –
ملفوظ 499: مؤاخذہ کے وقت لہجہ سخت مگر دل نرم ہوتا ہے
مؤاخذہ کے وقت لہجہ سخت مگر دل نرم ہوتا ہے ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ جب میں کسی پر بغرض اصلاح مؤاخذہ کرتا ہوں یا کچھ کہتا ہوں تو گو لہجہ گو سخت ہوتا ہے مگر دل نرم ہوتا ہے مولوی صاحب نے عرض کیا کہ حضرت کا تو کوئی حرج نہیں کہ حضرت کا لہجہ تیز ہو جائے یا سخت ہو جائے حتی کہ حضرت اگر مار بھی لیں تب بھی گوارا ہے مگر یہ جو اخراج ہے یہ بڑی سخت چیز ہے اور نا قابل برداشت ہے تبسم فرما کر مزاحا فرمایا کہ حضرت اصل ثمرات اور نتائج اخراج کے بعد ہی ہوتے ہیں اگر اخراج نہ ہوتا تو دنیا میں کوئی نتیجہ ہی نہ نکلتا –
ملفوظ 498: دعا سے بڑھ کر کوئی وظیفہ نہیں
دعا سے بڑھ کر کوئی وظیفہ نہیں فرمایا کہ ایک صاحب کا خط آیا ہے دنیا کے کام کے واسطے وظیفہ دریافت کیا ہے میں نے لکھ دیا کہ دعا سے بڑھ کر کوئی وظیفہ نہیں – پھر فرمایا کہ عملیات میں ایک شان دعوے کی ہوتی ہے اور دعاء میں احتیاج اور نیاز مندی کی شان ہوتی ہے کہ حق تعالی چاہیں گے تو کام ہو جائے گا عملیات میں یہ نیاز وافتقار نہیں ہوتا بلکہ اس پر نظر رہتی ہے کہ ہم جو پڑھ رہے ہیں اس کا خاصہ ہے کہ یہ کام ہو ہی جائے گا مگر باوجود اس کے دعاء کو لوگوں نے بالکل چھوڑ ہی دیا عملیات کے پیچھے پڑ گئے ہیں – میں کہا کرتا ہوں دعا کرو اللہ تعالی سے کیوں مستغنی ہو گئے – ایک اور بات بھی یاد رکھنے کے قابل ہے اس کی طرف لوگوں کی نظر بہت ہی کم جاتی ہے وہ یہ کہ اوراد و وظائف دنیا کے کام کے واسطے پڑھو گے تو اس پر اجر نہ ہوگا اور دعا اگر دنیا کے واسطے بھی ہو گی وہ بھی عبادت ہو گی اور اجر ملے گا –
ملفوظ 497: انسان بننا مشکل ہے
انسان بننا مشکل ہے فرمایا کہ آدمی زاہد بن سکتا ہے شیخ بن سکتا مگر انسان بننا مشکل ہے کسی نے کہا ہے ؎ زاہد شدی و شیخ شدی دانشمند ایں جملہ شدی ولے مسلمان نہ شدی ( تم زاہد اور شیخ اور عالم سب کچھ ہو گئے – مگر پختہ مسلمان نہ ہوئے -12) میں نے اس کو بدل دیا ہے زاہد شدی و شیخ شدی دانشمند ایں جملہ شدی و لیکن انسان نہ شدی سب کچھ ہو جاتا ہے لیکن انسان ہونا مشکل ہے –
مفلوظ 496: ایک بنگالی طالب علم کی تھانہ بھون رہنے کی خواہش
ایک بنگالی طالب علم کی تھانہ بھون رہنے کی خواہش مولوی صاحب نے عرض کیا کہ حضرت ایک طالب علم بنگالی میرے ساتھ ہے وہ یہ کہتا ہے کہ تھانہ بھون میں آ کر معلوم ہوا کہ تھانہ بھون ہی میں اسلام ہے اور یہ کہتا ہے کہ میرا جی چاہتا ہے کہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر تھانہ بھون آ کر رہوں فرمایا اس کی ضرورت نہیں کہ تھانہ بھون میں آ کر رہا جائے بلکہ زیادہ فضیلت یہ ہے کہ دارالحرب میں رہے اور مسلمان رہے عرض کیا کہ میرا تو اسکی اس بات سے بڑا جی خوش ہوا یہ اس کی سمجھ کی بات ہے کہ اس نے محسوس کیا ورنہ حضرت اکثر بنگالی جو اس طرف آ کر مدارس میں پڑھتے ہیں یہ لوگ وطن واپس جا کر وہاں کا رنگ دیکھ کر اپنے مصالح اور اغراض کی بناء پر ان ہی جیسا برتاؤ شروع کر دیتے ہیں ان کے علم سے لوگوں کو کوئی نفع نہیں ہوتا فرمایا کہ اس کا مطلب خاص یہ ہے وہ یہ کہ جس قدر علوم ظاہری کے حاصل کرنے میں وقت صرف کرتے ہیں اس کا دسواں حصہ بھی اگر اپنی اصلاح باطن اور تربیت میں صرف کریں تو کار آمد ہوں بدوں تربیت اور اصلاح کے کچھ نہیں ہو سکتا –
ملفوظ 495: جب خرابی کی ابتداء ہو گی بے پردگی سے ہو گی
ملفوظ 495: جب خرابی کی ابتداء ہو گی بے پردگی سے ہو گی فرمایا کہ ایک صاحب مجھ سے فرمانے لگے کہ پردہ کے اندر بھی تو خرابیاں ہوتی ہیں میں نے کہا کہ پردہ کے اندر تو قیامت تک بھی خرابی نہیں ہو سکتی آپ کے ذہن میں پردہ کے معنی ہی غلط ہیں – آپ صرف چہار دیواری کے اندر بیٹھ جانے کو پردہ سمجھتے ہیں گو سامنے ہی آیا کرے پس پردہ کا مفہوم ہی آپ کے ذہن میں غلط ہے جب ابتداء خرابی کی ہو گی بے پردگی سے ہو گی پردہ کے ساتھ منکرات جمع ہو ہی نہیں سکتے وہ صاحب سمجھ گئے پھر کچھ نہیں بولے – مولوی صاحب نے عرض کیا کہ حضرت نے صحیح فرمایا کہ بے پردگی ہی سے خرابی ہو گی کیونکہ بے پردگی سے سامنا ہوگا اس میں فتنہ ہو ہی گا فرمایا کہ جی ہاں اور پرردہ میں جب بعد ہو گا سفدہ ہو ہی نہیں سکتا – اس بارہ میں لوگوں میں احتیاط بالکل نہیں معمولی بات خیال کرتے ہیں حالانکہ بہت بڑی خطرناک بات ہے دنیا کے اعتبار سے بھی اور دین کے اعتبار سے بھی ہزار ہا واقعات مشاہد ہیں –
ملفوظ 494: رشتہ دار عورتوں سے پردہ
ملفوظ 494: رشتہ دار عورتوں سے پردہ ایک مولوی صاحب نے عرض کیا کہ اکثر گھروں میں یہ رواج ہے کہ رشتہ دار عورتیں پردہ نہیں کرتیں فرمایا کہ اس طرف کے قصبات میں بکثرت یہی رواج ہے ایک مرتبہ کا واقعہ ہے اس وقت میری عمر تھوڑی ہی تھی – میں نے اپنی پھوپھی صاحبہ سے عرض کیا کہ اپنی لڑکیوں کو مجھ سے پردہ کراؤ میرے سامنے نہ آیا کریں – اس میرے کہنے پر پھوپھی صاحبہ خفا ہو گئیں اور فرمایا کہ آیا کہیں کا مولوی قولوی -اس پر خواجہ صاحب نے عرض کیا کہ حضرت کو مولوی قولوی کہا فرمایا کہ اول تو میرا اس وقت بچپن تھا اور بچپن نہ بھی ہوتا تب بھی ان کو حق تھا وہ جو چاہیں کہہ سکتی تھی – میں نے بھی تیزی سے جواب دیا – جس پر وہ زیادہ بگڑیں – اس واقعہ کی خبر والد صاحب کو ہوئی مجھ کو بلا کر فرمایا کہ تم کو معلوم ہے کہ یہ میری بہن ہے جو مرتبہ میرا ہے تمہارے اعتبار سے وہی ان کا ہے ان سے معافی چاہو اور ہاتھ جوڑ کر معافی چاہو ـ جناب میں نے ہاتھ جوڑ کر معافی چاہی – پھوپھی صاحبہ محبت کی وجہ سے کھڑی ہو گئیں اور سینے سے لگا لیا اور بہت روئیں مگر پردہ لڑکیوں کا قائم رہا – اس میں کامیابی ہوئی اس میں انہوں نے خدا کے فضل سے مزاحمت نہیں کی تو یہ امر تو اکثر خاندان والوں کو بہت ہی ناگوار ہوتا ہے پھر اس کے بعد ان لڑکیوں نے مجھ سے اجازت چاہی سامنے آنے کی میری عمر بھی زیادہ ہو گئی تھی اور وہ بھی بڑی عمر کی ہو گئیں تھیں انہوں نے یہ کہا کہ اور ہمارا کون ہے اور اب تو عمر بھی زائد ہو گئی اس وقت میں نے سامنے آ نے کی حدود شرعیہ کے اندر اجازت دیدی تھی – اگر انسان مضبوط ہو اور مصالح کو سل پر پیس دے اور کسی کے راضی یا ناراض ہونے کا خیال نہ کرے سب کچھ ہو سکتا ہے اور سب کچھ کر سکتا ہے – اور حضرت راضی یا ناراض ہونے کا خیال تو بندہ کو خدا کے ساتھ رکھنا چاہئیے – دنیا کو کہاں تک راضی رکھ سکتا ہے –
ملفوظ 493: راہ سلوک میں دو چیزیں نعمت اور دو چیزیں راہزن ہیں
راہ سلوک میں دو چیزیں نعمت اور دو چیزیں راہزن ہیں ایک مولوی صاحب کے سوال کے جواب میں فرمایا کہ حزن خود ایک نعمت ہے حزن سے جس قدر جلد سلوک کے مراتب طے ہوتے ہیں اتنی جلد دوسرے مجاہدہ سے نہیں ہوتے یہ دو چیزیں بڑی ہی زبردست نعمت ہیں ایک فکر دین اور ایک حزن – اور اسی طرح اس راہ میں دو چیزیں سخت راہزن ہیں اس کی محققین صوفیہ نے تصریح کی ہے یعنی نا محرم عورتوں اور امادر کے ساتھ اختلاط – حتی کہ نرم گفتگو نا محرم عورت کے ساتھ کرنا بھی راہ زن ہے م قاتل ہے باطن کو برباد کر دینے والی چیز ہے –

You must be logged in to post a comment.