ملفوظ 413: وسوسوں کی مثال آئینہ پر مکھی

ملفوظ 413: وسوسوں کی مثال آئینہ پر مکھی ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ ایک صاحب مجھ سے کہنے لگے کہ کہ وسوسے آتے ہیں قلب میں ، میں نے کہا کہ وہ اندر نہیں ہوتے باہر ہوتے ہیں کیونکہ اندر تو صرف عقائد ہوتے ہیں اور میں نے یہ مثال بیان کی کہ جیسے آئینہ پر مکھی بیٹھے تو بظاہر تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ اندر ہے مگر حقیقت میں وہ اندر نہیں ہوتی باہر ہوتی ہے مگر جو حقیقت سے بے خبر ہے وہ یہی سمجھے گا کہ اندر ہے باقی تکلیف میں خیال کو بہت بڑا دخل ہے مگر خیالی ایذاؤں کا علاج خیال ہی سے ہوتا ہے خیال کو بدل دینے سے بڑی تکلیف سے نجات مل جائیگی بس یہ خیال کرو کہ وساوس قلب کے اندر نہیں باہر ہیں اور اگر اندر ہی فرض کر لیا جائے تو یہ مت سمجھو کہ وساوس باہر سے اندر آ رہے ہیں ـ بلکہ یہ سمجھو کہ اندر سے باہر نکل رہے ہیں اسلئے کہ نکلنے کیوقت بھی تو گھر کے دروازہ ہجوم نظر آتا ہے اور اصل علاج تو یہ ہے کہ چاہے آ رہے ہوں یا جا رہے ہوں ان کی طرف التفات ہی نہ کرو نہ جلبا نہ سلبا ـ اکثر لوگ خطوط میں وساوس کی شکایت لکھتے ہیں میں ان سے پوچھتا ہوں کہ اختیار سے آتے ہیں یا بدوں اختیار اور ان کو برا سمجھتے ہو یا اچھا وہ لکھتے ہیں بدوں اختیار کے آتے ہیں اور ہم برا سمجھتے ہیں ـ میں لکھ دیتا ہوں کہ بس بے فکر رہو ـ ایک مرتبہ حضرت مولانا محمد یعقوب صاحبؒ کو ایک بار وضوء کے بعد یہ وسوسہ ہوا کہ تو موزوں کا مسح کرنا بھول گیا حضرت نے دوبارہ مسح کر لیا ـ اگلے وقت پھر وہی وسوسہ اب ایک بلا پیچھے لگ گئی اس پر حضرت فرماتے تھے کہ ایک بار عین مصلے پر وہی وسوسہ ہوا خیال ہوا کہ یقینا شیطانی وسوسہ ہے ، آج اس پر عمل نہ کرنا چاہئیے ـ شیطان سے مکالمہ شروع ہو گیا وہ کہتا ہے کہ مسح نہیں ہوا کر لو ـ مولانا فرماتے ہیں نہیں ہوا نہ سہی کہتا ہے جب مسح نہیں ہوا تو وضوء نہ ہوا مولانا کہتے ہیں وضؤ نہیں ہوا نہ سہی کہتا ہے کہ جب وضؤ نہ ہوا تو نماز نہ ہوگی مولانا کہتے ہیں کہ نماز نہ ہو گی نہ سہی کہتا ہے کہ گنہگار ہو گے ـ مولانا کہتے ہیں کہ میں آپ کی خیر خواہی سے باز آیا جہاں اور بہت سے گناہ ہوتے ہیں ایک یہ بھی سہی بس ترکی ختم پھر کبھی وہ وسوسہ نہ آیا تو ایسی صورت میں یہی مناسب ہے بعض مرتبہ رکعت کی تعداد میں نماز پڑھتے ہوئے گڑبڑ کر دیتا ہے اس کی طرف التفات نہ کرنا چاہئیے ورنہ ہمیشہ کے لیے ایک مرض لگ جائیگا ـ ایک مولوی صاحب نے عرض کیا کہ ایسا کرنا حضرات فقہاء کی تفصیل کے خلاف ہوگا ـ فرمایا کہ فقہاء فرماتے ہیں ان لوگوں کے متعلق جو وساوس کے مریض نہیں اور صوفیہ ان کے متعلق تجویذ کرتے ہیں جو وساوس کے مریض ہیں اس میں کوئی تعارض نہیں اور نہ کوئی شبہ وارد ہوتا ہے ـ بلکہ خود روایات فقہیہ حضرت مولانا کے عملدر آمد کے موافق پائی جاتی ہیں فی الدار المختار شک ھل کثر للافتتاح اولا اواحدث اولا اومسح راسہ اولا امستقبل ان کان اول مرۃ والا لا فی رد المختار عن الذخیرۃ فی آخر العبارۃ ان کان ذالک اول مرۃ استقبل الصلاۃ والاجازلہ المضی ولا یلزمہ الوضوء وھو اول شک غسل ماشک فیہ و ان وقع لہ کثیر الم یلتفت الیہ وھذ اذا شک فی خلال وضوئہ فلو بعد الفراغ منہ لم یلتفت الیہ اھ آخر باب سکودالسہو ـ اسی سلسلہ میں حضرت مولانا محمد یعقوب صاحبؒ کے ایک خادم کا قصہ بیان فرمایا کہ اس کو اس قدر وہم تھا غسل خانہ میں پاجامہ اتار کر استنجا پاک کیا کرتا تھا حضرت اس سے مزاحا فرمایا کرتے تھے کہ ؎ سگ بہ دریائے بفتگانہ بشوئے چوں کہ تر شد پلید تر باشد
دوسرا یہ واقعہ بھی دیو بند ہی کا ہے ـ مدرسہ کے ایک فارغ التحصیل کو وہم ہو گیا تھا کہ میرے سر نہیں حضرت مولانا محمد یعقوب صاحبؒ سنکر پہنچے اور دریافت فرمایا کہ تمہارے سر نہیں عرض کیا کہ حضرت نہیں حضرت نے جوتا نکال کر سر پر مارنا شروع کیا اس نے واویلا مچایا کہ حضرت مر گیا چوٹ لگتی ہے فرمایا کہ کہاں چوٹ لگتی ہے عرض کیا کہ حضرت سر میں فرمایا کہ سر تو ہے ہی نہیں چوٹ کے کیا معنی عرض کیا کہ حضرت سر ہے فرمایا کہ اب تو کبھی نہ کہو گے کہ سر نہیں عرض کیا کہ نہیں چھوڑ دیا وہ وہم جاتا رہا اور ساری عمر بھر بھی کبھی یہ مرض وہم کا نہ ہوا یہ حضرت حکیم تھے حقیقت کو سمجھتے تھے حضرت مولانا غصیارے مشہور ہیں مگر نہایت ہنس مکھ اور نہایت خوش اخلاق تھے ـ 23 رمضان المبارک 1350ھ مجلس بعد نماز ظہر یوم دو شنبہ