ہدیہ اور حضرت حاجی صاحبؒ کا معمول ایک مہمان پنجاب سے حاضر ہوئے ان کا حضرت والا سے بیعت کا تعلق تھا ـ بعد مصافحہ کرنے کے عرض کیا کہ کچھ پکی ہوئی مچھلی اور روغنی روٹی بطور ہدیہ پیش کرتا ہوں ـ حضرت والا نے دیکھ کر فرمایا اس قدر زائد لانے کی کیا ضرورت تھی تھوڑا لے آ تے عرض کیا کہ حضرت یہ تو تھوڑا ہی ہے بطور مزاح فرمایا کہ اب یہ اعتراض ہے کہ تھوڑا کیوں لائے زائد کیوں نہیں لائے یہاں پر تو دونوں شقوں پر اعتراض ہے ـ اس سلسلہ میں حضرت والا نے فرمایا کہ ایسے ہدایا میں سے ضرور کھانا چاہیئے اس میں ایک نور ہوتا ہے ـ ہمارے حضرت حاجی صاحبؒ کا معمول تھا کہ ایسی چیز میں ضرور کچھ تھوڑا بہت کھا لیتے تھے حضرت کا رنگ تو عجیب تھا یہ معلوم نہ ہوتا تھا کہ حضرت لذئذ سے بچے ہوئے ہیں آپ کھاتے تھے اور بہت قلیل یہ بڑی مشکل بات ہے کہ کھائے اور کم کھائے اس سے یہ آسان ہے کہ بالکل نہ کھائے مگر حضرت کا یہ معمول تھا کہ کیسی ہی کوئی چیز آ گئی مثلا انگور وغیرہ بس ایک دانہ اٹھا کر نوش فرما لیا اور باقی کو تقسیم کرا دیا ـ یہ بہت دقیق زہد تھا ـ حضرت صاحبؒ ایسی چیزوں کی نسبت یوں بھی فرمایا کرتے تھے کہ جو چیز حب فی اللہ کی وجہ سے آئے اسے ضرور کھائے اس میں نور ہوتا ہے ـ چنانچہ ایک بزرگ دوسرے بزرگ کی ملاقات کو چلے راستہ میں خیال آیا کہ بزرگ کی خدمت میں جا رہا ہوں کچھ ضرور چاہیئے پاس کچھ نہ تھا اکثر ایسا ہوتا ہے کہ درختوں کی پتلی پتلی کچھ شاخیں خشک ہو کر نیچے زمین پر خود بخود گر جاتی ہیں ان بزرگ نے خیال کیا کہ یہی لے چلو ـ حضرت کے یہاں ایک وقت روٹی ہی پک جائے گی لکڑیاں جمع کر اور سر پر رکھ کر حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ حضرت یہ کچھ لکڑیاں لایا ہوں فرمایا بہت اچھا ـ اب ان بزرگ کی قدر دانی کو ملاحظ فرمائیے خادم کو بلایا اور فرمایا کہ یہ لکڑیاں لے کر حفاظت سے رکھو اور جب ہم مر جائیں ان لکڑیوں سے ہمارے غسل کا پانی گرم کیا جائے اس کی وجہ سے ہمیں امید اپنی نجات کی ہے ان کی برکت سے انشاء اللہ بخشش ہو جائے گی غرض ایسی چیز میں نور ہوتا ہے جو حب فی اللہ کی وجہ سے آتی ہے واقعی دنیا کی راحت بھی اہل اللہ ہی کو میسر ہے کیونکہ جب اس خیال سے اس کا استعمال رغبت سے کریں گے راحت ہی راحت ہے میں تو بطور اشارہ کے ایک تاویل یہ بھی کیا کرتا ہوں ولمن خاف مقام ربہ جنتن ( اور جو شخص اپنے رب کے سامنے کھڑے ہونے سے ہر وقت ڈرتا رہتا ہے اس کے لیے جنت میں دو باغ ہوں گے ) کی کہ ایک آخرت میں جنت اور ایک دنیا میں جنت ـ یہاں کی جنت راحت ہے ایک مولوی صاحب عرض کیا کہ حضرت یہاں کیسی جنت ـ فرمایا کہ ہاں میرا مطلب یہ ہے کہ دنیا دار جو تصنع اور جاہ کی وجہ سے تشویش میں پڑتے ہیں یہ حضرات اس سے بری ہیں خلاصہ یہ ہے کہ فضولیات میں پڑنے سے جو دنیا داروں کو گرانی ہوتی ہے وہ ان حضرات کو نہیں ہوتی یہ جنت ـ
