(ملفوظ 127 ) مناظرہ کو پسند نہ فرمانے کا سبب

ایک صاحب کے سوال کے جواب میں فرمایا کہ جب مخالف میں فہم نہیں ہوتا تو خطاب میں بڑی ہی کلفت ہوتی ہے تو اسی وجہ سے آج کل مناظرہ کرنے کو پسند نہیں کرتا کہ اکثر غیر فہیم مخاطب سے سابقہ پڑتا ہے مگر ضرورت اسی سے مستثنی ہیں چنانچہ حضرت مولانا محمد قاسم صاحب رحمتہ اللہ علیہ نے بضروت اہل زیغ( کج فہموں) سے  تحریری گفتگو بھی فرمائی ہے سرسید کے جواب میں بھی رسالہ تحریر فرمایا ہے ۔ سر سید نے اپنی ایک تحریر میں کسی شخص کے اس استفسار کے جواب میں کہ کسی عالم کو تمہارے سمجھانے کے لیے آمادہ کیا جائے یہ شعر لکھا تھا ۔

حضرت ناصح جو آئیں دیدہ دل فرش راہ
کوئی ہم کو یہ سمجھادے کہ سمجھائیں گے کیا

جب مولانا کو وہ تحریر دکھلائی گئی تو مولانا نے جواب کے ساتھ اسی غزل کا یہ شعر لکھا

بے نیازی حد سے گزری بندہ پر درکب تلک
ہم کہیں گے حال دل اور آپ فرمائینگے کیا

پھر فرمایا کہ پہلے مجھے مناظرے کا بہت ہی شوق تھا ویسے ہی اب نفرت ہے اس زمانہ شوق میں ایک عیسائی لیکچرار دیوبند میں آیا کرتا تھا میں اس وقت مدرسہ میں پڑھتا تھا ایک مرتبہ وہ آکر مدرسے کے قریب تقریر کرنے لگا طلبہ کا اور اہل قصبہ کا بڑا مجموع ہوگیا وہ عیسائی کھڑا ہوا اور ایک ہاتھ میں انجیل لے کر حاضرین کو دکھا کر پوچھا کہ یہ کیا ہے۔مقصود یہ تھا کہ اگر یہ جواب ملا کے یہ انجیل ہے تو یہ چونکہ مسلمان انجیل کو مانتے ہیں تو ان پر  حجت ہو جائے گی۔ اب اس پر مستقل گفتگو ہو گی کہ مجیب کہے گا کہ یہ منسوخ ہے وہ کہے گا غیر منسوخ ہے۔ ابھی  جواب نہیں دیا گیا تھا کہ حکیم مشتاق احمد صاحب رکن مدرسہ آگئے اور طلبہ سے کہا کہ تم ہٹو یہ تمہارا کام نہیں ہے ایسے جاہلوں سے مناظرہ کرنا ہمارا کام ہے ۔اس کے بعد اس سے فرمایا کہ میاں میں تمہارا جواب دوں گا ۔پوچھو کیا پوچھتے ہو اس نے بڑے زور سے کہا کہ میرے ہاتھ میں کیا ہے وہی انجیل ہاتھ میں لے رہا تھا انہوں نے فرمایا کہ یہ ہے کدو اس نے اس پر برہم ہو کر کہا کہ تم بڑے گستاخ ہو فرمایا گستاخی کی کون سی بات ہے ہماری تو یہی سمجھ میں آیا تم سے کہہ دیا اس کی یہ توجیہ ہو سکتی ہے کہ تحریف کے بعد یہ کتاب اللہ نہیں جیسے کدو کتاب اللہ نہیں تو آج کل مناظروں میں اس قسم کے سوال اور جواب ہوتے ہیں اب صورت میں سوائے تضییع اوقات کے اور کچھ نہیں ہوتا جب تک مخاطب میں فہم نہ ہو گفتگو کرنا لا حاصل ہے اور یہ تو مناظرہ ہے جو اکثر فضول ہوتا ہے میں تو مسائل کے جواب میں بھی سائل کی حیثیت کے موافق جواب دیتا ہوں گو اس سوال کا جواب نہ ہو چنانچہ ایک بار ایک صاحب نے مجھ سے مسئلہ پوچھا تھا کہ ایک شخص کا انتقال ہوا ایک بھتیجا ایک بھتیجی چھوڑے ، میراث کا کیا حکم ہے میں نے جواب دیا کہ بھتیجا میراث پائے گا، بھتیجی کو کچھ نہ ملے گا۔  اس پر اس نے سوال کیا کہ اس کی کیا وجہ وہ پٹواری تھے میں نے کہا کہ بستہ پٹوارگیری کا تو طاق میں رکھو طالب علمی شروع کرو تین برس کے بعد سمجھنے کی قابلیت پیدا ہوگی اس کی کیا وجہ اب بتلائیے ایسے بدفہم اور بدعقل لوگوں کا بجز اس کے کیا علاج؟