(ملفوظ 128) جہل اور حسد کے مفاسد

ایک سلسلۂ گفتگو میں فرمایا اللہ بچائے جہل اور حسد  سے یہ دونوں بڑی ہی بُری بلا ہیں،  آدمی کو اندھا بنادیتی ہیں، حق ناحق کی کچھ تمیز نہیں رہتی، جو جی میں آیا کرلیا جو منہ میں آیا بک دیا۔ بہشتی زیور پر اسی کی بدولت اعتراض کئے گئے بعض مقامات میں تو اس کو جلایا گیا ۔ میں نے سن کر کہا کہ یہ امام غزالی علیہ الرحمۃ کی سنت ہے جو مجھ کو نصیب ہوئی ان پر بھی الزامات لگائے گئے اور اس کا سبب احیاء العلوم کتاب تھی اس وقت کے بہت علماء نے آپ پر کفر کا فتوٰی دیا، احیاء العلوم جلائی گئی۔ وجہ یہ کہ احیاء العلوم میں ہر طبقے کے لوگوں کی غلطیاں بیان کرکے اصلاح کی گئی تھی، ان کو متنبہ کیا گیا تھا بس یہی آپ کی دشمنی کا سبب تھا۔ ایسے لوگ ہمیشہ مصلح کے درپے ہوتے آئے ہیں اس لئے کہ وہ مصلح ایسے لوگوں  کےڈھونگ اور مکر و فریب سے لوگوں کو آگاہ کرتا ہے بس یہی دشمنی ہے پھر جب آدمی کسی کے درپے  ہوجاتا ہے تو پھر اس کی نظر میں دوسرے کے کمالات بھی عیب بن جاتے ہیں۔ اور بیچارے علماء اور بزرگ تو کیا چیز ہیں اور کس شمار میں ہیں، انبیاء علیہم السلام سے دشمنی کا سبب صرف یہی ارشاد و ہدایت ہے اور نہ کیا وہاں کوئی ملک یا باغ یا مکانات کی تقسیم ہورہی تھی یا نعوذ باللہ انبیاء مال و جاہ کے طالب تھے؟ حضور ﷺ کے سامنے تو خود کفار عرب نے جاہ و مال پیش کیا اور خدمت میں جا کر عرض کیا کہ اگر آپ کو حکومت کی ضرورت ہے تو ہم سب آپ کو اپنا بادشاہ اور سردار بنانے کو تیار ہیں، اگر مال کی ضرورت ہے تو ہم سب اپنی جائیداد اور نقد سب پیش کرنے کو تیار ہیں، اگر خوبصورت لڑکیاں آپ چاہتے ہیں تو تمام عرب میں سے جن کو آپ پسند کریں نکاح کرسکتے ہیں مگر ہمارے لات و عزیٰ کو برُا نہ کہیئے۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ مجھ کو ان میں سے کسی چیز کی ضرورت نہیں نہ اس کی خواہش، میں کلمۃ الحق کا ضرور اعلان کروں گا اور تم سے صرف یہ چاہتا ہوں کہ تم ایک پیدا کنندہ پر ایمان لاؤ اپنی حاجت اس سے طلب کرو اسی ہی کی بندگی اور عبادت کرو، وہی قابلِ پرستش ہے۔ غرض مصلحین سے مخالفت کوئی نئی بات نہیں، ہمیشہ سے اہلِ حق کے ساتھ اہلِ باطل یہی برتاؤ کرتے آئے ہیں۔ مجھ کو اس کی کوئی شکایت نہیں جو چاہیں کریں جو جی میں آئے کہیں مگر میں اپنے مسلک اور طرزِ اصلاح کو نہیں چھوڑ سکتا اور یہ کچھ اصلاح ہی پر موقوف نہیں جب چار آدمیوں میں کسی کی شہرت ہوئی ہر چہار طرف سے بغض و حسد، عداوت و دشمنی کی بوچھاڑ پڑنے لگتی ہے۔ اسی کو  فرماتے ہیں

شش مہاؤ خش مہاؤ رشک مہا – برعرت ریزو چو آب از مشک مہا

(نظریں اور غصے اور رشک تیرے سر پر اس طرح گریں گے جیسے مشک سے پانی گرتا ہے۔)

مگر مصلح کو حق تعالیٰ توفیق و ہمت دیدیتے ہیں جس سے وہ یہ سمجھ جاتا ہے کہ یہ حالت تو ہوتی ہی رہتی ہے لیکن جب اوکھلی میں دیا سر پھر موسلوں کا کیا ڈر؟ اس لئے ان باتوں کا اس پرکوئی اثر نہیں ہوتا وہ کسی کی پرواہ نہیں کرتا اس کو اپنے خیال سے کوئی نہیں ہٹا سکتا۔ کہنے کی بات نہ تھی مگر تحقیق کی ضرورت سے کہتا ہوں کہ وہ مامورہوتا ہے اس کا منصب ہوتا ہے اگر وہ اس میں ذرا ڈھیل سے کام لے اسکی گردن ناپ دی جائے اسلئے وہ معذور ہے۔ ارشاد خلق اس کے سپرد ہے اس کا فرضِ منصبی ہے اور وہ کسی چیز کا طالب نہیں ہوتا وہ تو صرف ایک ہی چیز کا طالب ہے ایک ہی چیز اس کے پیشِ نظر ہے وہ چیز کیا ہے ؟ تعلق مع اللہ۔ اسی بنیاد پر اسکے سب اقوال و افعال منبی ہیں۔ اب اس کے بعد اگر تمام عالم اس کو اس سے ہٹائے وہ نہیں ہٹ سکتا اور ہٹنے  کی وجہ ہی کیا اس کی فناء اور استغناء کی تو یہ شان ہے جس کو فرماتے ہیں۔

ما ہیچ نداریم غم ہیچ نداریم – دستار نداریم غم پیچ نداریم

ہمارے پاس کچھ نہیں ہے لہٰذا ہم کو کسی چیز کی فکر بھی نہیں ہے۔ نہ ہم پگڑی رکھتے ہیں نہ اس کی پینچ کی فکر ہم کو ہے۔

اس کے قلب میں ایک ایسی چیز رکھ دی گئی ہے کہ وہ سب ماسوا کو فنا کردیتی ہے جس سے اس کی یہ شان ہوتی ہے۔

ایذل آں بہ کہ خراب از مٹے گلگوں باشی     – بے زور گنج بصد حشمت قاروں باشی

اے دل یہی مناسب ہے کہ شرابِ محبت سے مست ہو اور بے مال و دولت کے قارون سے بھی زیادہ عزت والے ہو۔

(ملفوظ 127 ) مناظرہ کو پسند نہ فرمانے کا سبب

ایک صاحب کے سوال کے جواب میں فرمایا کہ جب مخالف میں فہم نہیں ہوتا تو خطاب میں بڑی ہی کلفت ہوتی ہے تو اسی وجہ سے آج کل مناظرہ کرنے کو پسند نہیں کرتا کہ اکثر غیر فہیم مخاطب سے سابقہ پڑتا ہے مگر ضرورت اسی سے مستثنی ہیں چنانچہ حضرت مولانا محمد قاسم صاحب رحمتہ اللہ علیہ نے بضروت اہل زیغ( کج فہموں) سے  تحریری گفتگو بھی فرمائی ہے سرسید کے جواب میں بھی رسالہ تحریر فرمایا ہے ۔ سر سید نے اپنی ایک تحریر میں کسی شخص کے اس استفسار کے جواب میں کہ کسی عالم کو تمہارے سمجھانے کے لیے آمادہ کیا جائے یہ شعر لکھا تھا ۔

حضرت ناصح جو آئیں دیدہ دل فرش راہ
کوئی ہم کو یہ سمجھادے کہ سمجھائیں گے کیا

جب مولانا کو وہ تحریر دکھلائی گئی تو مولانا نے جواب کے ساتھ اسی غزل کا یہ شعر لکھا

بے نیازی حد سے گزری بندہ پر درکب تلک
ہم کہیں گے حال دل اور آپ فرمائینگے کیا

پھر فرمایا کہ پہلے مجھے مناظرے کا بہت ہی شوق تھا ویسے ہی اب نفرت ہے اس زمانہ شوق میں ایک عیسائی لیکچرار دیوبند میں آیا کرتا تھا میں اس وقت مدرسہ میں پڑھتا تھا ایک مرتبہ وہ آکر مدرسے کے قریب تقریر کرنے لگا طلبہ کا اور اہل قصبہ کا بڑا مجموع ہوگیا وہ عیسائی کھڑا ہوا اور ایک ہاتھ میں انجیل لے کر حاضرین کو دکھا کر پوچھا کہ یہ کیا ہے۔مقصود یہ تھا کہ اگر یہ جواب ملا کے یہ انجیل ہے تو یہ چونکہ مسلمان انجیل کو مانتے ہیں تو ان پر  حجت ہو جائے گی۔ اب اس پر مستقل گفتگو ہو گی کہ مجیب کہے گا کہ یہ منسوخ ہے وہ کہے گا غیر منسوخ ہے۔ ابھی  جواب نہیں دیا گیا تھا کہ حکیم مشتاق احمد صاحب رکن مدرسہ آگئے اور طلبہ سے کہا کہ تم ہٹو یہ تمہارا کام نہیں ہے ایسے جاہلوں سے مناظرہ کرنا ہمارا کام ہے ۔اس کے بعد اس سے فرمایا کہ میاں میں تمہارا جواب دوں گا ۔پوچھو کیا پوچھتے ہو اس نے بڑے زور سے کہا کہ میرے ہاتھ میں کیا ہے وہی انجیل ہاتھ میں لے رہا تھا انہوں نے فرمایا کہ یہ ہے کدو اس نے اس پر برہم ہو کر کہا کہ تم بڑے گستاخ ہو فرمایا گستاخی کی کون سی بات ہے ہماری تو یہی سمجھ میں آیا تم سے کہہ دیا اس کی یہ توجیہ ہو سکتی ہے کہ تحریف کے بعد یہ کتاب اللہ نہیں جیسے کدو کتاب اللہ نہیں تو آج کل مناظروں میں اس قسم کے سوال اور جواب ہوتے ہیں اب صورت میں سوائے تضییع اوقات کے اور کچھ نہیں ہوتا جب تک مخاطب میں فہم نہ ہو گفتگو کرنا لا حاصل ہے اور یہ تو مناظرہ ہے جو اکثر فضول ہوتا ہے میں تو مسائل کے جواب میں بھی سائل کی حیثیت کے موافق جواب دیتا ہوں گو اس سوال کا جواب نہ ہو چنانچہ ایک بار ایک صاحب نے مجھ سے مسئلہ پوچھا تھا کہ ایک شخص کا انتقال ہوا ایک بھتیجا ایک بھتیجی چھوڑے ، میراث کا کیا حکم ہے میں نے جواب دیا کہ بھتیجا میراث پائے گا، بھتیجی کو کچھ نہ ملے گا۔  اس پر اس نے سوال کیا کہ اس کی کیا وجہ وہ پٹواری تھے میں نے کہا کہ بستہ پٹوارگیری کا تو طاق میں رکھو طالب علمی شروع کرو تین برس کے بعد سمجھنے کی قابلیت پیدا ہوگی اس کی کیا وجہ اب بتلائیے ایسے بدفہم اور بدعقل لوگوں کا بجز اس کے کیا علاج؟