حضرتؒ پر ٹال مٹول کا الزام فرمایا کہ ایک صاحب کا خط آیا ہے لکھا ہے کہ میں بہت دنوں سے حضرت والا سے بیعت کی درخواست کر رہا ہوں مگر حضور ہمیشہ حیلہ حوالہ کرتے رہے ہیں میں نے جواب میں لکھ دیا ہے کہ ایسے مکار و بے رحم پیر سے تعلق رکھنا ہی بیکار ہے فرمایا ایسے لکھنے سے انکی اصلاح مقصود ہے تاکہ آئندہ ایسے الفاظ لکھنے سے باز رہیں اگر تاویلات سے کام لوں تو اصلاح ہو ہی نہیں سکتی ـ اس کی ایسی مثال ہے کہ اگر طبیب بیٹھا ہوا مریضوں کے امراض میں تاویلات کیا کرے تو لکھ چکا نسخہ ! اور ہوا یہ علاج ـ
ملفوظاتِ حکیم الامت جلد نمبر 1
ملفوظ 420: واجد علی شاہ کی ظرافت
واجد علی شاہ کی ظرافت ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ واجد علی شاہ اودھ عیش و نشاط میں پڑ کر واجد علی نہ رہا تھا فاقد علی ہو گیا تھا ـ مگر بعضے باتیں اس کی بڑی ظرافت میں ہوتی تھیں بعض انگریزوں نے اس سے پوچھا کہ تم اپنی حیات تک وظیفہ چاہتے ہو یا بعد مرنے کے بھی پسماندوں کے لیے وظیفہ چاہتے ہو کہا کہ صرف اپنی حیات تک روثہ نے کہا یہ کیا کہا کہ سب میرا مرنا تکتے اب سب دعاء کریں گے کہ یہ بیٹھا رہے میں دعا گومفت کے حاصل کر لیے عجیب ظرافت ہے اور انہیں کی حکایت ہے کہ کتب خانہ پر تو ایک کہار کو ملازم رکھا اور باورچی خانہ پر ایک مولوی صاحب کو ـ کسی نے پوچھا یہ کیا کیا کہ کہار کو علم سے کیا نسبت وہ جاہل ہے کتابیں نہ چرائے گا اور مولوی ایماندار ہیں اسلئے باورچی خانہ پر ان کی ضرورت ہے کہ کوئی زہر وغیرہ کھانے میں نہ دیدے وہاں ایماندار ہی کی ضرورت ہے
ملفوظ 419: کسب حلال کے سلسلہ میں فتوے اور تقوی
کسب حلال کے سلسلہ میں فتوے اور تقوی فرمایا فیروز پور چھاؤنی سے ایک وکیل صاحب کا خط آیا ہے اس میں لکھا ہے کہ وکالت جائز ہے یا نہیں میں نے جواب میں لکھا ہے کہ کیا آپ کے پاس کوئی اور ذریعہ معاش ہے اب دیکھئے کیا جواب آتا ہے جیسا وہاں سے جواب آئے گا ویسا یہاں سے جواب جائیگا ـ کسب حلال کے سلسلہ میں فرمایا کہ حضرت احمد بن حنبل سے ایک عورت نے مسئلہ پوچھا کہ حضرت ایک روز گھر میں تیل نہ تھا ایک رئیس کی سواری شب کو مکان کے سامنے سے گذری سلسلہ دراز تھا میں نے اپنے دروازہ میں بیٹھ کر اسی روشنی میں چرخہ چلایا نہ معلوم وہ تیل حلال تھا یا حرام اس سوت سے نفع حاصل کرنا جائز ہے یا نہیں ـ دریافت فرمایا کہ تم کون ہو عرض کیا کہ میں بشرحافی رحمتہ اللہ علیہ کی بہن ہوں فرمایا کہ اگر کوئی اور ہوتا تو اجازت دیدیتا بشر حافیؒ کی بہن کو اجازت نہیں دے سکتا ـ
ملفوظ 418: ہندوؤں کی خبائث اور مسلم لیڈروں کی حماقت
ہندوؤں کی خبائث اور مسلم لیڈروں کی حماقت ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ کشمیر کے مسلمانوں کو تو خود ہندوؤں نے مشتعل کیا ہے وہ بیچارے تو امن وامان سے بیٹھے تھے اب انصاف ملاحظہ ہو کہ تمام ہندو اخبارات مسلمانوں ہی کے سر الزامات تھوپ رہے ہیں مسلمانوں کا سوائے خدا کی ذات کے اور کوئی حامی اور مدد گار نہیں اور ان کو اور کسی کی ضرورت بھی نہیں ـ میں سچ عرض کرتا ہوں کہ اگر مسلمانوں میں نظم ہو اور دین ہو تو تمام دنیا کی غیر مسلم اقوام اس ضعف کی حالت میں بھی انکا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتیں لیکن مسلمان ویسے تو بہت کچھ گڑ بڑ کرتے ہیں مگر جو اصل تدبیر ہے اور کام کی تدبیر ہے جس سے پہلوں کو کامیابی میسر ہو چکی ہے وہ نہیں کرتے وہ تدبیر یہ ہے کہ اپنے خدا کر راضی کرنے کی فکر کریں اب تو بڑی تدابیر ان کی مشرکوں کی تعلیم پر عمل کرنا ہے ان کو لوگ عاقل سمجھتے ہیں بھلا ایسا شخص کیا عاقل ہوگا
جس کو انجام کی خبر نہیں اگر ایسے لوگ عاقل ہوتے تو آخرت کی فکر کرتے پہلے ایمان لاتے ہاں آکل ہیں روپیہ اور ملک کی فکر ہے ـ سو ایسے پہلے بھی بڑے بڑے گذر چکے جو خدائی تک کا دعوے کر گئے شداد نمرود فرعون قارون وہ کون چیز ہے جو نہ تھی جس کے نہ ہونے سے بد عقل اور بد فہم کہلائے بس یہی دین نہ تھا تو ان لوگوں کو تو دنیا میں بھی اتنی ثروت اور جاہ نصیب نہیں جیسے پہلوں کو نصیب ہو چکی کما قال تعالی ولقد مکنھم فیما ان مکنا کم الآیتہ ( اور ہم نے ان لوگوں کو ان باتوں میں قدرت دی تھی کہ تم کو ان باتوں میں قدرت نہیں دی ) مگر ان کا جو انجام ہوا خسر الدنیا والاخرۃ وہ اظہر من الشمس ہے اور ایسے لوگوں کی طرف جو کچھ بھی مسلمانوں کو میلان ہوا ہے یہ سب بد دین لیڈروں کی بدولت اور وہی اس کے ذمہ دار ہیں ہزار رہا مسلمانوں کے ایمان کو خراب اور برباد کر دیا انا للہ وانا الیہ راجعون ـ
ملفوظ 417: مسان کے تعویذ کیلئے عامل کا پتہ بتلانا
مسان کے تعویذ کیلئے عامل کا پتہ بتلانا ایک صاحب نے حضرت والا کی خدمت میں پرچہ پیش کیا حضرت والا نے ملاحظہ فرما کر فرمایا کہ مسان کا تعویذ مجھے نہیں آتا اگر کہو تو ایک اور مولوی صاحب ہیں جو مسان کا تعویذ جانتے ہیں ان کا پتہ لکھ دوں بذریعہ خط ان سے منگا لینا ـ عرض کیا کہ حضرت پتہ لکھ دیں حضرت والا نے پتہ لکھ دیا ـ اسی سلسلہ میں فرمایا کہ یہ کام عاملوں کا ہے مجھے ان چیزوں سے مناسبت نہیں اور تعویذ سے تو میں گھبراتا ہوں ویسے کوئی آ جاتا ہے لکھ دیتا ہوں مگر اس باب میں عوام کو بڑا غلو ہو گیا ہے اور یہ عاملوں کی بدولت کہاں تک کسی کی اصلاح کی جائے اور کس کس چیز کی اصلاح کی جائے اونٹ رے اونٹ تیری کونسی کل سیدھی کروں سر سے پیر تک ایک سے ہو گئے وظائف و عملیات کی یہ ہی حالت ہے اس سے تو لوگوں کے عقائد تک خراب ہو گئے اثر نہ ہونے پر سمجھتے ہیں کہ اللہ کے کلام میں بھی اثر نہیں اور ان باتوں پر اگر روک ٹوک کی جائے تو بدنام کرتے ہیں مگر کریں بدنام حق کو کیسے مخفی رکھا جا سکتا ہے ـ
ملفوظ 416: التقصیر فی التفسیر کی تسہیل
ملفوظ 416: التقصیر فی التفسیر کی تسہیل ایک مولوی صاحب نے عرض کیا کہ حضرت التقصیر فی التفسیر کی تسہیل اگر ہو جائے تو بہت نافع ہو فرمایا کہ نافع تو سب کچھ ہے مگر آجکل تو وہ گڑبڑ مچی ہوئی ہے کہ کس کس چیز کی اکیلا انسان اصلاح کر لے بہت ہی مشکل ہے اس کے لیے تو ایک خاص اور مستقل محکمہ کی ضرورت ہے ـ
ملفوظ 415: طلب صادق
طلب صادق فرمایا کہ ایک وکیل صاحب ہیں ان کا خط آیا ہے لکھا ہے کہ میرا اتنا روپیہ بنک میں ہے اب یہ تحقیق ہوا کہ نا جائز ہے دین کا خسارا ناقابل برداشت ہے دنیا کا خسارہ گوارا کر لوں گا فرمایا کہ جب دین کا خیال ہوتا ہے انسان کچھ کر لیتا ہے مگر لوگوں کی کچھ عادت ہو گئی ہے کہ بلا تحقیق کام کر بیٹھے ہیں پھر مشکل ہوتی ہے بعض طبیعتیں بکھیڑا پسند ہوتی ہیں ـ صفائی طبیعتوں میں بہت کم رہ گئی ہے خواہ مخواہ لوگ جھگڑے مول لیتے ہیں اور بعض تو ایسی طبیعت کے لوگ ہیں کہ دوسروں کے کاموں میں گھستے پھرتے ہیں یہی صاحب جن کا خط آیا ہے ان کی بھی یہی حالت ہے ایسے باتوں سے بعض اوقات دین برباد ہو جاتا ہے ایسے شخص کو ضرورت ہے کہ تھوڑے دنوں کے لیے تو بالکل بیکار ہو کر کسی مصلح کے پاس رہ لے ـ لوگ دونوں کندھے ہاتھ رکھنا چاہتے ہیں مگر کیسے ہو سکتا ہے مولانا اسی کو فرماتے ہیں ؎ ہم خدا خواہی وہم دنیاے دوں ایں خیال است و محال است و جنوں ض( تم حق تعالی کا قرب ( بدرجہ کمال جس قدر بندہ کی قدرت میں ہے ) بھی چاہتے ہو ـ اور دنیا کو بھی ( بدرجہ کمال ) حاصل کرنا چاہتے ہو یہ محض خیال اور جنون ہے 12) خواجہ صاحب نے عرض کیا کہ حضرت مجھ کو اس تصور سے وحشت ہوتی ہے کہ پھر نوکری پر چلے جائیں گے وہاں جا کر پھر وہی بکھیڑا سر پڑے گا فرمایا کہ جو چیز غیر اختیاری ہے یا ضرورت کی ہے وہاں تو بندہ مجبور ہے اور اس سے دین پر بھی کوئی اثر نہیں پڑتا اور جو اختیار میں ہے اور ضروری بھی نہیں اس سے تو بچنا چاہیئے ـ کام کرنے والوں کی تو یہ حالت ہوتی ہے کہ ایک وزیر تھا بادشاہ کا وہ کسی بزرگ کی زیارت کو حاضر ہوا ـ بزرگ نے وزیر سے بادشاہ کا مزاج دریافت کیا وزیر نے عرض کیا کہ حضرت بادشاہ کا مزاج معلوم کرتے کرتے تو عمر گذر گئی یہاں پر تو آیا تھا اپنا مزاج معلوم کرنے مگر یہاں پر بھی بادشاہ ہی کے مزاج کی پرستش ہوئی بزرگ صاحب نے فرمایا کہ میں نے تمہاری دل جوئی کی غرض سے پوچھ لیا تھا پھر کبھی ایسا نہیں ہوا اور وزیر کی اصلاح و تربیت شروع فرما دی ـ دیکھئے وزیر کو طلب صادق تھی کیسی خوش فہمی کی بات کہی ـ
ملفوظ 414: ایک صاحب کی حضرتؒ سے کتابوں کی فرمائش
ایک صاحب کی حضرتؒ سے کتابوں کی فرمائش فرمایا کہ ایک صاحب کا خط آیا ہے اس میں میرے نام کتابوں کی فرمائش لکھی ہے ایسے بیہودہ لوگ ہیں اور جواب کے لیے کارڈ بھی نہیں یہ سمجھے ہونگے کہ جب کتابیں منگا رہا ہوں تو جوابی کارڈ کی کیا ضرورت ہے بندہ خدا نے یہ خیال نہیں کیا کہ کیا انہوں نے میرے نام کا کوئی اشتہار دیکھا تھا کہ جو میرے نام کتابوں کی فرمائش بھیجی کچھ نہیں نہ کوئی اصول ہے نہ کوئی قائدہ جو جی میں آتا ہے کرتے ہیں مجھ کو اس کا بھی قلق ہے کہ یہ تین پیسے ان کے فضول ہی خراب گئے ـ
ملفوظ 413: وسوسوں کی مثال آئینہ پر مکھی
ملفوظ 413: وسوسوں کی مثال آئینہ پر مکھی ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ ایک صاحب مجھ سے کہنے لگے کہ کہ وسوسے آتے ہیں قلب میں ، میں نے کہا کہ وہ اندر نہیں ہوتے باہر ہوتے ہیں کیونکہ اندر تو صرف عقائد ہوتے ہیں اور میں نے یہ مثال بیان کی کہ جیسے آئینہ پر مکھی بیٹھے تو بظاہر تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ اندر ہے مگر حقیقت میں وہ اندر نہیں ہوتی باہر ہوتی ہے مگر جو حقیقت سے بے خبر ہے وہ یہی سمجھے گا کہ اندر ہے باقی تکلیف میں خیال کو بہت بڑا دخل ہے مگر خیالی ایذاؤں کا علاج خیال ہی سے ہوتا ہے خیال کو بدل دینے سے بڑی تکلیف سے نجات مل جائیگی بس یہ خیال کرو کہ وساوس قلب کے اندر نہیں باہر ہیں اور اگر اندر ہی فرض کر لیا جائے تو یہ مت سمجھو کہ وساوس باہر سے اندر آ رہے ہیں ـ بلکہ یہ سمجھو کہ اندر سے باہر نکل رہے ہیں اسلئے کہ نکلنے کیوقت بھی تو گھر کے دروازہ ہجوم نظر آتا ہے اور اصل علاج تو یہ ہے کہ چاہے آ رہے ہوں یا جا رہے ہوں ان کی طرف التفات ہی نہ کرو نہ جلبا نہ سلبا ـ اکثر لوگ خطوط میں وساوس کی شکایت لکھتے ہیں میں ان سے پوچھتا ہوں کہ اختیار سے آتے ہیں یا بدوں اختیار اور ان کو برا سمجھتے ہو یا اچھا وہ لکھتے ہیں بدوں اختیار کے آتے ہیں اور ہم برا سمجھتے ہیں ـ میں لکھ دیتا ہوں کہ بس بے فکر رہو ـ ایک مرتبہ حضرت مولانا محمد یعقوب صاحبؒ کو ایک بار وضوء کے بعد یہ وسوسہ ہوا کہ تو موزوں کا مسح کرنا بھول گیا حضرت نے دوبارہ مسح کر لیا ـ اگلے وقت پھر وہی وسوسہ اب ایک بلا پیچھے لگ گئی اس پر حضرت فرماتے تھے کہ ایک بار عین مصلے پر وہی وسوسہ ہوا خیال ہوا کہ یقینا شیطانی وسوسہ ہے ، آج اس پر عمل نہ کرنا چاہئیے ـ شیطان سے مکالمہ شروع ہو گیا وہ کہتا ہے کہ مسح نہیں ہوا کر لو ـ مولانا فرماتے ہیں نہیں ہوا نہ سہی کہتا ہے جب مسح نہیں ہوا تو وضوء نہ ہوا مولانا کہتے ہیں وضؤ نہیں ہوا نہ سہی کہتا ہے کہ جب وضؤ نہ ہوا تو نماز نہ ہوگی مولانا کہتے ہیں کہ نماز نہ ہو گی نہ سہی کہتا ہے کہ گنہگار ہو گے ـ مولانا کہتے ہیں کہ میں آپ کی خیر خواہی سے باز آیا جہاں اور بہت سے گناہ ہوتے ہیں ایک یہ بھی سہی بس ترکی ختم پھر کبھی وہ وسوسہ نہ آیا تو ایسی صورت میں یہی مناسب ہے بعض مرتبہ رکعت کی تعداد میں نماز پڑھتے ہوئے گڑبڑ کر دیتا ہے اس کی طرف التفات نہ کرنا چاہئیے ورنہ ہمیشہ کے لیے ایک مرض لگ جائیگا ـ ایک مولوی صاحب نے عرض کیا کہ ایسا کرنا حضرات فقہاء کی تفصیل کے خلاف ہوگا ـ فرمایا کہ فقہاء فرماتے ہیں ان لوگوں کے متعلق جو وساوس کے مریض نہیں اور صوفیہ ان کے متعلق تجویذ کرتے ہیں جو وساوس کے مریض ہیں اس میں کوئی تعارض نہیں اور نہ کوئی شبہ وارد ہوتا ہے ـ بلکہ خود روایات فقہیہ حضرت مولانا کے عملدر آمد کے موافق پائی جاتی ہیں فی الدار المختار شک ھل کثر للافتتاح اولا اواحدث اولا اومسح راسہ اولا امستقبل ان کان اول مرۃ والا لا فی رد المختار عن الذخیرۃ فی آخر العبارۃ ان کان ذالک اول مرۃ استقبل الصلاۃ والاجازلہ المضی ولا یلزمہ الوضوء وھو اول شک غسل ماشک فیہ و ان وقع لہ کثیر الم یلتفت الیہ وھذ اذا شک فی خلال وضوئہ فلو بعد الفراغ منہ لم یلتفت الیہ اھ آخر باب سکودالسہو ـ اسی سلسلہ میں حضرت مولانا محمد یعقوب صاحبؒ کے ایک خادم کا قصہ بیان فرمایا کہ اس کو اس قدر وہم تھا غسل خانہ میں پاجامہ اتار کر استنجا پاک کیا کرتا تھا حضرت اس سے مزاحا فرمایا کرتے تھے کہ ؎ سگ بہ دریائے بفتگانہ بشوئے چوں کہ تر شد پلید تر باشد
دوسرا یہ واقعہ بھی دیو بند ہی کا ہے ـ مدرسہ کے ایک فارغ التحصیل کو وہم ہو گیا تھا کہ میرے سر نہیں حضرت مولانا محمد یعقوب صاحبؒ سنکر پہنچے اور دریافت فرمایا کہ تمہارے سر نہیں عرض کیا کہ حضرت نہیں حضرت نے جوتا نکال کر سر پر مارنا شروع کیا اس نے واویلا مچایا کہ حضرت مر گیا چوٹ لگتی ہے فرمایا کہ کہاں چوٹ لگتی ہے عرض کیا کہ حضرت سر میں فرمایا کہ سر تو ہے ہی نہیں چوٹ کے کیا معنی عرض کیا کہ حضرت سر ہے فرمایا کہ اب تو کبھی نہ کہو گے کہ سر نہیں عرض کیا کہ نہیں چھوڑ دیا وہ وہم جاتا رہا اور ساری عمر بھر بھی کبھی یہ مرض وہم کا نہ ہوا یہ حضرت حکیم تھے حقیقت کو سمجھتے تھے حضرت مولانا غصیارے مشہور ہیں مگر نہایت ہنس مکھ اور نہایت خوش اخلاق تھے ـ 23 رمضان المبارک 1350ھ مجلس بعد نماز ظہر یوم دو شنبہ
ملفوظ 412: ہر مسلمان میں نور ایمان ہے
ہر مسلمان میں نور ایمان ہے ایک مولوی صاحب کے ایک سوال کے جواب میں فرمایا کہ ہر مسلمان میں نور ایمان ہے گو اس کے آثار پورے طور پر ظاہر نہ ہوں اس کی ایسی مثال ہے جیسے کوئی حسین اپنے چہرہ کو سیاہی مل لے اور اس کا حسن مستور ہو جائے مگر جس وقت صابن سے دھوئے گا چاند سا مکھڑا نکل آئے گا ایسے ہی بعض مسلمانوں کا نور ایمان بوجہ معصیت کے مستور ہے مگر جس وقت توبہ کرے گا اور کثرت اسغفار کریگا اللہ تعالی قلب منور نظر آنے لگے گا ـ

You must be logged in to post a comment.