(ملفوظ 76)نکاح میں تحقیق کی نظر سے دیکھنے کی اجازت

(ملفوظ ۷۶) فرمایا کہ ایک صاحب کا استفتاء آیا ہے جزم کے ساتھ لکھا ہے کہ حضور دستخط فرما دیں ان کو دوسرا احتمال ہی نہیں ہوا کہ شاید دستخط کے قابل نہ ہو اب اگر ان کا تابع بن جاؤں تو حقیقت کا ان کو کس طرح انکشاف ہومیں نے اس استفتاء کے متعلق ان سے چند سوالات کئے ہیں اگر جواب معقول دیا گیا تو دستخط کرونگا ورنہ نہیں میں ایسے مضامین میں دو باتیں چاہتا ہوں ایک یہ کہ ضروری اور غیرضروری میں لوگوں کو فرق معلوم ہوجائے غیرضروری کی تفتیش کو چھوڑیں دوسرا یہ چاہتا ہوں کہ حق واضح ہوجائے اور رسم مٹ جائے جیسے اکثر تقریبات میں رسم کا اتباع کیا جاتا ہے نیز فتاوی میں مشاہیر کی موافقت بے بصیرت کرلیجاتی ہے مگر اکثر لوگ اس سے گھبراتے ہیں بھاگتے ہیں اسی رسم پرستی کی ظلمت اور کج راہی(غلط راہ) پر رہنا پسند کرتے ہیں اصلاح کی برداشت نہیں کرتے مولانا رومی ایسے ہی گریز کی نسبت فرماتے ہیں

چوں بیک زخمے تو پر کینہ شوی پس کجابے صبقل آئینہ شوی

چوں نداری طاقت سوزن زون پس تواز شیرژیاں ہم دم مزن

(جب تم ایک زخم سے پر کینہ ہوجاتے ہو تو بغیر مانجھے ہوئے آئینہ کی طرح صاف شفاف کس طرح ہوسکتے ہو)

یہ استفتاء ایک رشتہ کے متعلق ہے شادی کے قبل پسند ناپسند کے امتحان کے متعلق پوچھا ہے سوا اس باب میں انگریزوں کے یہاں جو اصول ہیں وہ تو محض بددینی ہیں مگر توافق و تناسبت کا لڑکی اور لڑکے کے متعلق دیکھنا تو بہت ضروری ہے اسی واسطے حالات کی تحقیق کے علاوہ لڑکے کا لڑکی کوایک نظر دیکھ لینا جب کہ نکاح کا ارادہ ہو کوئی حرج نہیں اس لئے کہ تمام عمر کا تعلق پیدا کرنا ہے اس میں بڑی حکمت ہے حریث میں اس کی اجازت ہے مگر یہ دیکھنا تحقیق کی نظر سے ہوگا تلذذ کی نیت سے نہیں جیسے طبیب کو جائز ہے نبض دیکھنا محض اس نیت سے کہ نبض سے مزاج کی برودت اور حرارت وغیرہ معلوم ہوجائے نہ کہ تلذذ کی غرض سے اور ایسی ہی ضرورتوں سے چہرہ کفین(دونوں ہاتھوں) کا کھولنا جائزکردیا گیا ہے ایک صاحب کے سوال کے جواب میں فرمایا کہ جی ہاں اگر دائی ہندنی(ہندو) بھی ہو تو ضرورت کی وجہ سے خاص مواقع دیکھ سکتی ہے اور غیر ضروری مواقع مثلاََ سر سینہ وغیرہ نہیں دیکھ سکتی بے پردگی کے حامیوں نے بعض جزئیات یاد کر لئے ہیں اپنی غرض باطل کےلئے ان کو پیش کردیتے ہیں ضرورت و عدم ضرورت کے فرق سے آنکھیں بند کر لیتے ہیں

(ملفوظ 75)تعلیم کی بیعت سے زیادہ ضرورت ہے

(ملفوظ ۷۵) ایک گفتگو کے سلسلہ میں فرمایا کہ تنبیہات میں نمونے دکھاتا ہوں لوگوں کی بےفکری سے معلوم ہوتا ہے کہ فکر ہے ہی نہیں ایک صاحب نے عرض کیا کہ آج کل بیعت پر لوگوں کو اصرار ہوتا ہے تعلیم کی طرف توجہ نہیں کرتے فرمایا میں اسی عقیدہ کی اصلاح چاہتا ہوں یہ بہت جہالت ہے کہ لوگ کام کو ضروری نہیں سمجھتے بیعت کو ضروری سمجھتے ہیں

(ملفوظ 74)عدم مناسبت کی صورت میں الگ کرنا حضرت خضر علیہ السلام کی سنت ہے

(ملفوظ 74) ایک نووارد صاحب کی غلطی پر منتبہ فرماتے ہوئے فرمایا کہ یہ تو فطری بات ہے کہ آتے ہی انسان بتلا دے کہ میں کون ہوں کہاں سے آیا ہوں اور یہاں کیوں آیا ہوں مگر انہوں نے ایسی موٹی بات میں فرو گذاشت کی تو اب ان کا طرز میرے طرز سے بعید میرا طرز ان کے طرز سے بعید۔ پھر نباہ کیسے ہو لہذا عدم منا سبت کی صورت میں الگ کردینا خضرعلیہ السلام کی سنت ہے کہ انہوں نے عدم توافق کی بناء پر حضرت موسی علیہ السلام سے عرض کردیا

ھذا فراق بینی وبینک

اس معمول پر مجھے کوئی الزام نہیں دے سکتا نہ موسی علیہ السلام سے کوئی بڑا ہوسکتا ہے

(ملفوظ 73)مریض نسخہ خود تجویز نہیں کر سکتا

(ملفوظ 73) ایک خط کے جواب کے سلسلے میں زبانی ارشاد فرمایا کہ اگر پیچس کا مریض کہے کہ بنا ہوا گوشت دے دو بچہ کہے کہ ہاتھ میں سانپ لوں گا تو کیا دینا چاہیے اس کو کیا خبر وہ کیا جانے نادان ہے اسی طرح اس کاتب خط کو کیا خبر کے مصلحت کیا ہے ان کو چاہئے کہ وہ تعابع نہیں میں ان کا تعابع کیوں بنوں آپ ہی انصاف کیجئے جب مرض خود تجویز کر کرلیا اور نسخہ بھی خود ہی لکھ لیا اب مریض مریض ہی نہیں وہ تو خود مستقل طبیب ہے پھر اس کو طبیب کی کیا ضرورت

(ملفوظ 72)بغیر اجازت استاد کوئی طالب علم تعویذ لینے آئے

(ملوظ 72) ایک لڑکا مجلس میں آکر بیٹھا ایک صاحب نے آکر حضرت والا کو اطلاع دی کہ یہ پڑھنے سے جان بچا کر یہاں پر آ بیٹھا ہے اس سے پوچھا گیا تو اس نے کہا کہ میں تعویذ لینے آیا ہوں حضرت والا نے فرمایا کہ اس کو لے جاؤ اور اس کے استاد سے کہو کہ کسی لڑکے کو بلا اجازت کے نہ آنے دیں جس کو اجازت دینا ہو ایک پرچے پر صرف اپنا نام لکھ دیا کریں اور ان سے کہو کہ وہ پرچہ لے کر آیا کریں اگر ایسا نہ ہو گا تو اس کی بات کی تصدیق نہیں کی جائے گی

(ملفوظ 71)عام باتوں کی تعلیم

(ملفوظ 71) ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ بعض لوگ بڑے ذہین ہوتے ہیں ایک شخص نے کسی غلطی پر میرے مواخذہ کرنے پر کہا کہ اسی واسطے تو یہاں آتے ہیں کہ غلطیوں کی اصلاح ہو میں نے کہا کہ کل کو حوض کی نالی میں پاخانہ بھر دینا اور کہنا کہ پیر جی ذرا آبدست لے دیجئو اور جب کوئی مواخذہ کرے تو کہہ دینا کہ غلطیوں کی اصلاح کے لئے تو آئے ہیں میں نے یہ بھی کہا کہ یہاں ان باتوں کی تعلیم ہوتی ہے جو تمہاری سمجھ میں نہ آ سکے اور جو غلطی تم نے کی ہے اس کو تم خود سمجھ سکتے ہو جیسے حوض کی نالی میں پاخانہ پھرنا کہ ایسا کبھی نہیں کر سکتے

(ملفوظ 70)خواب کا حکم بیداری کی طرح نہیں

(ملفوظ ۷۰) فرمایا کہ ایک خط آیا ہےایک صاحب کی لڑکی کا رشتہ ہو رہا ہے لڑکے والوں نے ان کو لکھا ہے کہ حضورﷺ خواب میں تشریف لائے اور یہ فرمایا کہ شادی میں جلدی کرو تو کیا آپ کی مصلحت حضورﷺ کی مصلحت سے بڑھی ہوئی یے اب وہ بیچارے لڑکی والے لکھتے ہیں کہ کہیں اس وقت شادی نہ کرنا حضورﷺ کے حکم کے خلاف تو نہ ہوگا میں نے جواب میں لکھ دیا ہے کہ ایسے امور میں حضور اکرم ﷺ کے بیداری کے ارشادات بھی محض مشورہ ہوئے تھے جن پر عمل کرنے میں انسان مختار ہوتا تھا وہ احکام تشریعیہ نہیں ہوتے تھے کہ لازم و واجب ہوں اور خواب تو بیداری سے بھی ضعیف ہے البتہ احیاناً( کبھی کبھی) امر حازم بھی ہوتا تھا جس کا علم کرائن قویہ سے ہوجاتا تھا اس پر عمل واجب تھا پھر زبانی ارشاد فرمایا ایک طالب علم نے چاہا کہ میں شرح جامی پڑھو کہ۔ مولانا دیوبندی نے منع فرمایا اس نے اگلے روز خواب بیان کیا کہ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا کہ تو شرح جامی پڑھ مولانا نے فرمایا کہ خواب تو کو ہم خود سمجھ لیں گے مگر تم شرح جامی نہیں پڑھ سکتے

(ملفوظ 69)صاحب حاجت کو ضروری قیود کا پابند ہونا چاہئے

(ملفوظ ۶۹) ایک صاحب کی غلطی پر مواخذہ فرماتے ہوئے فرمایا کہ صاحب حاجت کو چاہیے کہ خود سب ضروری قیود کا پابند ہو اور جس سے کام لینا ہے اس کو آزاد رکھے یہ ہے تربیت اصول کے موافق انسان کو ہر کام میں اہتمال اور فکر ہونا چاہئے اس پر بھی اگر کوئی گزاشت ہو جائے تو یہ سمجھ لیتا ہوں کہ بشر ہے ہاں بے فکری اور بے پروائی سے ناگواری ہوتی ہے اور میں بلاوجہ تھوڑا ہی کسی کو کچھ کہتا ہوں بے وجہ کہنا تو اس کا کام ہے یا تو متکبر ہو دوسروں کی تحقیر کے لیے باتیں نکالا کرے یا دماغ میں خلل ہو وہ الٹی پلٹی ہانکا کرے الحمدللہ یہاں یہ دونوں باتیں نہیں ہیں میں سب صاحبوں سے عرض کرتا ہوں کہ یہاں مجلس میں بیٹھ کر کسی قسم کی بےاصول حرکت نہ کیجائے حتی کہ میں اس کو بھی پسند نہیں کرتا کہ جس وقت میں کسی پر مواخذہ کرو کوئی شخص میری نصرت وتائید کرے گو اس میں معتوب کو سمجھانا ہی مقصود ہو اس میں چند مفاسد ہیں ایک تو اس میں میری اہانت ہے اس کے تو یہ معنی ہیں کہ تو اور تیری اصلاح کافی نہیں جب تک ہم بیچ میں جوڑ نہ لگائیں دوسرے اس میں آنے والوں کی رہائیرعایت کی کے ان کی تفہیم کی تکمیل کر دی میری مصلحتوں کی ذرہ برابر پرواہ نہ کی گئی کیونکہ دوسرے کا دخل دینا دینے والے کو میرا مقرب سمجھیں گے اور اس میں جو مفاسد ہیں وہ بے شمار ہیں اور بزرگوں کے درباروں میں شب وروز مشاہد ہیں۔

(ملفوظ 68)والد مرحوم کے مہر کے ترکہ کی تقسیم میں فضل خداوندی

(ملفوظ ۶۸) ایک صاحب نے مہر کا ترکہ تقسیم کرنے کے متعلق حضرت والا سے عرض کیا کہ حضرت کی بڑی ہمت ہے کہ اتنی بڑی رقم محض احتمال کی بناء پر تقسیم فرمائی فرمایا کہ میری کیا ہمت ہے میں نے ابھی بیان کیا تھا کہ مال مفت دل بے رحم (مطلب یہ تھا کہ جس رقم سے دیا میرے دست و بازو کی مکسوبہ تو نہ تھی ہدایا عطایا بے مشقت ملتے ہیں اس میں سے دے دیا کون سا بڑا کمال کیا ) رہا احتمال تو میں نے احتمالی قرض سے بھی سبکدوش ہونا چاہا -اللہ تعالی نے میری مدد فرمائیں سب آسان ہوگیا ایک تو یہ مدد کی کہ میرے دل میں ڈالا دوسرا یہ کہ رقم کا انتظام فرمادیا تیسرا یہ کہ ورثہ کا پتہ باآسانی چلوا دیا ۔حالانکہ ان کا بڑا طویل سلسلہ تھا اور پھر ان میں سے بعض بڑی بڑی دور کے فاصلہ پر تھے حتی کے حجاز وحیدرآبادو بمبئ ولاہور وغیرہ۔
(نوٹ ) واقعہ یہ تھا کہ صاحب ملفوظات کے والد ماجد نے آگے پیچھے چار نکاح کیے تھے یہ تحقیق نہ تھا کہ سب کےمہر ادا یا معاف ہوئے یا نہیں اگر یہ مہر واجب رہے ہو تو مرحوم کے ترکہ میں سے ہر وارث کو جتنا ملا ہے اسی نسبت سے اس وارث کے ذمہ مہر اس کی تقسیم کے متعلق یہ ملفوظ ہے ہوگیا

(ملفوظ 67)خواب کسی واقعہ میں موثر نہیں ہوتا

(ملفوط ۶۷) ایک صاحب کے خط کے سلسلہ میں انکے سوال کا جواب دیتے ہوئے فرمایا کہ خواب کسی واقعہ میں مؤثر نہیں ہوتا بلکہ واقعات کا اثر ہوتا ہے خواہ وہ واقعہ ماضی کا ہو یا مستقبل کا۔ خواب کو اس میں دخل نہیں ہوتا بلکہ واقعات کو اس میں دخل ہوتا ہے غرض واقعات کا وہ اثر ہوتا ہے کہ خواب میں مؤثر (ہوتے ہیں) پھر جس واقعہ کا وہ اثر ہوتا ہے نہ وہ واقعہ یقینی نہ خواب کا اس (پر) ارتباط یقینی۔ مگر اس باب میں لوگوں نے بڑی گڑبڑ کر رکھی ہے بڑی چیز وحی ہے مگر افسوس آج کل خواب کے مقابلہ میں اس کی بھی وقعت نہیں کی جاتی اگر خواب کسی کو نظرآجائے جیسی اس کی وقعت ہوتی ہے ویسی وحی کی وقعت نہیں ہوتی ایک مرتبہ مجھ سے ماموں صاحب نے فرمایا تھا کہ میرے پاس ایک چیز ہے جو سینہ بسینہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ہم تک چلی آرہی ہے وہ میں تم کو دینا چاہتا ہوں میں نے ادب سے مگر صاف عرض کردیا کہ اگر وہ شریعت کے مطابق ہے تو میں لینے کو حاضر ہوں ورنہ مجھ کو ضرورت نہیں۔ تو وحی جس کا دوسرا نام شریعت ہے ایسی چیز ہے۔خوابوں میں یا خلاف شریعت درویشی میں کیا رکھا ہے اصل چیز وحی ہے اور اس کا بیداری سے تعلق ہے پھر فرمایا کہ اب یہ صاحب اس جواب سے کہ خواب میں کیا رکھا ہے یہ سمجھیں گے کہ ملا ہے مگر سمجھیں اختیار ہے ملا ہی ہونا تو بڑی چیز ہے مجھ سے تو جب کوئی خواب کی تعبیر پوچھتا ہے میں اکثر یہ شعر لکھ دیتا ہوں

نہ شبنم نہ شب پر ستم کہ حریث خواب گویم

جو غلام آفتابم ہمہ ز آفتاب گویم

(میں نہ رات ہوں نہ شب پرست ہوں کہ خواب کی باتیں کروں

جب میں آفتاب کا غلام ہوں تو ساری باتیں آفتاب کی کہتا ہوں)

پھر خواب کے غیر مؤثر ہونے پر اور واقعہ مؤثرہ کے وقوع اور اتباط کے غیر یقینی ہونے پر بطور تفریح کے فرمایا کہ اگر کوئی شخص خواب میں یہ دیکھے کہ میں جنت میں ہوں تو اس سے کوئی قرب نہیں بڑھا ہاں اس سےظناً (گمان) یہ معلوم ہوتا ہےکہ نیک کام کررہاہےاسی لئے حضورﷺ نے خواب کو مبشرات میں سے فرمایا ہے اور خواب تو کیا چیز ہے حضورﷺ کو تو غیر مومن لوگوں نے بیداری میں دیکھا ہے مگر کیا ہوا بعضےاشد کافر رہے تو خواب ہی میں دیکھ کر کونسا قرب بڑھ سکتا ہے یا کونسے قرب کی دلیل ہے۔ایک صاحب کےاس سوال پرکہ کیا کافر بھی حضورﷺ کو خواب میں دیکھ سکتا ہے؟ جواباً فرمایا کہ جب بیداری میں اس کا دیکھنا ممکن ہےتو خواب میں کیا امتناع( ممانعت،تحریم) ہے۔ایک صاحب نے سوال کیا کہ اگر کوئی مومن حضورﷺ کو خواب میں دیکھے فرمایا کہ علامت اچھی ہے بڑی نعمت ہے خدا کی۔ عرض کیا کہ یہ کیسے معلوم ہو کہ یہ حضورﷺ ہی ہیں فرمایا کہ علم ضروری کے طور پر اگر قلب گواہی دےدے کہ یہ حضورﷺ ہیں تو بس کافی ہے عرض کیا کہ اکثر لوگوں نے حضورﷺ کو خواب میں دیکھا مگر مختلف ہئیت میں، فرمایا کہ دیکھنے والے کی مثال آئینہ کی سی ہے جیسا آئینہ ہوتا ہے اس میں ویسی ہی چیز نظر آتی ہے کسی آئینہ میں لمبا منہ نظر آتا ہے کسی میں چوڑا تو یہ اختلاف مرایا( جس چیز میں دیکھا گیا ہے) کا ہے مرئ(دیکھی ہوئی چیز) کا نہیں یہ تو توجیہ ہے اس کی کہ حضورﷺ کی صورت مبارک دیکھنے والے کے آئینہ میں نظر آئی کبھی دیکھنے والا اور حضورﷺ کو کسی خاص صورت میں دیکھتا ہے اور وہاں وہ صورت اس شخص کی ہوتی ہے اور حضورﷺ کی ذات مبارکہ آئینہ ہوتا ہے یہ شخص غلطی سے اس کو حضورﷺ کی صورت مبارکہ سمجھتا اور وہ خود اس کی صورت ہوتی ہے چنانچہ ایک صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ میں نے حضورﷺ کہ خواب میں اس شکل سے دیکھا کہ حضورﷺ روضہ مبارک میں بیٹھے ہوئے حقہ پی رہے ہیں (نعوذ باللہ) میں نے کہا کہ تم کو اپنی صورت حضورﷺ کے آئینہ میں نظر آئی ہے وہ شخص حقہ پیتے تھے اسیطرح مولانا شاہ اسحاق صاحب دہلوی نے خواب میں دیکھا کہ ایک چوراہہ ہے اس میں حضورﷺ کی لاش مبارکہ بے کفن رکھی ہے لوگ آتے ہیں اور اس سے پاؤں لگاتے ہوئے چلے جاتے ہیں( نعوذ باللہ) انہوں نے فرمایا کہ معلوم ہوتا ہے کہ اب اس ملک حضورﷺ کی شریعت کی پامالی ہونے والی ہے اس بناء پر وہ ہندوستان سے ہجرت فرماگئے تو یہاں بھی اسلام حضورﷺ کی صورت مبارکہ میں نظر آیا۔