فرسٹ کلاس میں سفر کرتے ہوئے ایک صاحب کا واقعہ ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ فرسٹ کلاس سکنڈ کلاس کے درجوں میں بعض اوقات بڑے بڑے شریر لوگ سفر کرتے ہیں ایک صاحب مجھ سے اپنا واقعہ بیان کرتے تھے کہ ایک مرتبہ میں کسی بڑے درجہ میں لکھنو جا رہا تھا ایک انگریز بھی اس میں سوار ہوا جس وقت اسٹیشن سے گاڑی چھوٹ لی چلتی چلتی گاڑی میں مجھے آ چٹپا اور گھوسم گھوسا ہونے لگا یہ شخص بھی تنومند تھے کہتے تھے کہ کبھی وہ اوپر اور میں نیچے اور کبھی میں اوپر اور وہ نیچے اور اس قدر چالاک اور شریر کہ جہاں اسٹیشن آیا چپکے سے سیدھا ایک طرف جا بیٹھے جس سے معلوم ہوتا تھا کہ کچھ نہیں جانتا اور جہاں اسٹیشن سے گاڑی چلی اور پھر آ چٹپا اور پھر گھوسم گھوسا ہونے لگا شاید اس روز سے ان درجوں میں بیٹھنے سے میں نے توبہ کر لی ہو گی ـ
ملفوظاتِ حکیم الامت جلد نمبر 1
ملفوظ 369: دل سے سارے خطرات کو نکالنے کی کوشش کی ایک عجیب مثال
دل سے سارے خطرات کو نکالنے کی کوشش کی ایک عجیب مثال ایک مولوی صاحب کے سوال کے جواب میں فرمایا کہ اگر سارے جہاں کے خطرات ہمارے قلب میں رہیں مگر ان کے اقتضاء پر عمل نہ ہو نیز وہ ہمارے لائے ہوئے نہ ہوں تو کوئی حرج نہیں ـ اور یہ غیر محقق صوفی تو نظام حیدر آباد بننا چاہتے ہیں جیسے جس وقت نظام حیدر آباد کی سواری چلتی ہے تو وہ تمام سڑک روک دی جاتی ہے جس پر سے ان کا موٹر گذرتا ہے ـ میں مرتبہ حیدر آباد میں ہی تھا معلوم ہوا کہ فلاح سڑک سے موٹر گذرنے والا ہے وہ سڑک پہلے سے بند تھی ـ اسی طرح یہ صوفی چاہتے ہیں کہ تمام سڑکیں صاف ہو جائیں جب ہم چلیں ،
باقی ہم غریب لوگ تو غریب آدمی بھنگی چماروں سب میں ملے جلے جا رہے ہیں مگر گاڑی کے وقت انشاء اللہ اسٹیشن پر سب ایک ہی جگہ ہوں گے غریب آدمیوں کے ساتھ گذرنے کے مناسب یاد آ گیا کہ میں ریل کے تیسرے درجہ میں سوار ہونے کو ترجیح دیتا ہوں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ تیسرے درجہ میں بے تکلف سفر ہوتا ہے نہ اس درجہ میں خصوصیت کے ساتھ کوئی ایسا شخص ہوتا ہے کہ جس کی وجہ سے تکلیف کیا جائے بلکہ ہر قسم کے ہر مذاق کے لوگ ہوتے ہیں کوئی کوٹ پتلون والے بھی دھوتی بند بھی پاجامہ والے بھی کوئی ہنس رہا ہے کوئی رو رہا ہے کوئی گا رہا ہے کوئی بجا رہا ہے ایک عجیب و غریب منظر ہوتا ہے بخلاف فرسٹ کلاس سکینڈ کلاس انٹر کلاس کے کہ سب منہ چڑھائے بیٹھے رہتے ہیں ایک سے ایک کلام نہیں کر سکتا ـ ایک صاحب نے عرض کیا کہ حضرت تیسرے درجہ میں بعض گنوار ایسے ہوتے ہیں کہ وہ ننگے ہوتے ہیں گھٹنے اور زانو کھلے ہوتے ہیں فرمایا پھر کیا ہوا اگر بلا قصد نظر پڑ بھی جائے تو ہم کو کوئی گناہ تھوڑا ہی ہوتا ہے خود اس ننگے کو ننگ آنا چاہیئے ـ ایک مرتبہ میرے بھائی اکبر علی مرحوم نے مجھ سے کہا کہ اب تمہاری ہستی ایسی نہیں کہ تم ریل کے تیسرے درجہ میں سفر کرو میں نے کہا کہ فلاح وزیر اعظم انگریز سے کسی نے سوال کیا تھا کہ آپ تیسرے درجہ میں کیوں سفر کیا کرتے ہیں کیا عجیب جواب دیا بڑے دماغ کا آدمی تھا دنیا کے کاموں میں ایک خاص ملکہ رکھتا تھا کہتا ہے کہ چونکہ چوتھا درجہ نہیں ہے اسلئے تیسرے درجہ میں سفر کرتا ہوں اسکے بعد تجربات کی بناء پر بھائی صاحب کی رائے بھی بدل گئی تھی اور وہ خود بھی تیسرے درجہ میں سفر کرنے لگے تھے ایک بات یہ ہے کہ تیسرے درجہ میں وہ لوگ ہوتے ہیں جو ہماری رعایت کرتے ہیں اور سکینڈ فرسٹ میں وہ ہوتے ہیں جن کی ہمیں رعایت کرنی پڑتی ہے بڑی ہی کلفت ہوتی ہے جیسے کوئی قید کر دیتا ہے تو ان صوفیوں کے اور ہمارے سفر میں بس فرق یہ ہے کہ ہمارا سفر بے تکلف اور با نمک بامزہ اور ان کا سفر با تکلف اور بے نمک بے مزہ ـ
ملفوظ 368: ایک شاہ صاحب کا جنت سے استغناء ظاہر کرنا
ایک شاہ صاحب کا جنت سے استغناء ظاہر کرنا ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ جاہل فقراء بھی عجیب و غریب پڑیں ہانکتے ہیں کچھ خبر نہیں ہوتی کہ ہم کیا منہ سے نکالتے ہیں کلمہ کفر ہے یا شرک ہے جو منہ میں آیا کہہ دیا ـ ایک شاہ صاحب کانپور میں میرے پاس آئے اور مجھ سے دس روپیہ کی ضرورت ظاہر کی اور ایک سلسلہ گفتگو میں فرماتے کیا ہیں کہ ہمیں کیا پرواہ ہے جنت کی ـ میں نے کہا کہ شاہ صاحب توبہ کرو دس روپیہ پر تو رال ٹپکی جاتی ہے اور جنت سے استغناء ذرا دس روپیہ ہی سے استغناء فرما کر دکھا دیجئے گا اور میں نے کہا کہ وجہ اس کی یہ ہے کہ دس روپیہ تو آپ نے دیکھے ہیں اور جنت دیکھی نہیں اگر جنت کی ادنی سے ادنی چیز بھی نظر آ جائے بیہوش ہو کر گر جاؤ مر جاؤ کیا جنت سے استغناء ظاہر کرتے پھرتے ہو شاہ صاحب چپکے چپکے سنتے رہے کچھ بولے نہیں یہ حالت ہے جہل کی ـ
ملفوظ 367: طریق اور مقصود میں فرق
طریق اور مقصود میں فرق ملحوظ رکھنا ایک مولوی صاحب کے سوال کے جواب میں فرمایا کہ لوگ طرق کو مقاصد سمجھ گئے یہ بڑی غلطی ہے اور فرمایا اس پر ایک حکایت یاد آ گئی جو ایک عزیز سے سنی تھی کہ ایک شخص تھے ان کو اس میں کمال تھا کہ وہ آنکھ میں سرمہ تلوار سے ڈال دیتے تھے ایک مجمع میں اپنے لڑکے کو کھڑا کیا کہ اس کی آنکھ میں تلوار سے سرمہ ڈالوں گا اس شخص نے تلوار کی دھار پر سرمہ لگایا اور پنیترے بدلتا ہوا آیا اور اس صفائی سے ہاتھ آنکھوں پر چلایا کہ دونوں آنکھوں میں سرمہ لگ گیا اور تلوار پر سرمہ نہیں رہا وہ لڑکا بھی ذرا نہیں جھچکا وہ بھی مشتاق معلوم ہوتا تھا لیکن ظاہر ہے کہ اصل مقصود سرمہ لگانا ہے اور یہ خاص ہیئت محض ایک طریق ہے اگر کوئی اسی کو مقصود سمجھنے لگے تو عجب نہیں کہ کبھی دھوکا کھائے اسی طرح بعضے نا واقف تلوار سے سرمہ دالتے ہیں جس میں خطرہ بھی ہے اور میں سلائی سے ڈالتا ہوں جس میں کوئی خطرہ نہیں ـ دیکھئے اگر یہ طرق مقاصد میں داخل ہوتے تو سلف زیادہ مستحق تھے کہ وہ ان پر عمل کرتے اور دوسروں کو تعلیم فرماتے مگر اس کا کہیں بھی پتہ نہیں ـ میں ایک اور مثال عرض کرتا ہوں اگر کوئی شخص لندن جانا چاہے تو ہوائی جہاز کی ضرورت ہے اور کوئی جلال آباد جانا چاہے جو یہاں سے دو یا ڈھائی میل جگہ ہے تو کیا اس کو بھی ہوائی جہاز کی ضرورت ہے نہیں وہ چھکڑے سے بھی جا سکتا ہے مقصود اس سے بھی حاصل ہو سکتا ہے اور بلا خطر ـ بلکہ موٹر ہوا ریل ہوئی یہ سب خطرہ کی چیزیں ہیں اسپیشل جو جاتا ہے تو وہ دھا ئیں دھائیں کرتا چلا جاتا ہے اگر خدا نہ کرے ٹکرا جائے تو پھر خیر نہیں اور اکثر ایسے واقعات ہوتے رہتے ہیں اسلئے چھکڑا ہی رحمت ہے دوسری بات یہ ہے کہ ہوائی جہاز موٹر اسپیشل یہ تو بعید منزل کے لیے ہیں اور میں جس منزل کے طے کرا نے کےلیے عرض کر رہا ہوں وہ تو جلال آباد سے بھی قریب ہے اور ایسی قریب ہے کہ اس سے زیادہ قرب کسی چیز کو بھی نہیں حق تعالی فرماتے ہیں ونحن اقرب الیہ من حبل الورید ( اور ہم انسان کے اس قدر قریب ہیں کہ اسکی رگ گردن سے بھی زیادہ قریب ہیں 12)
ملفوظ 366: بزرگوں کے یہاں لذائذ کا استعمال
بزرگوں کے یہاں لذائذ کا استعمال فرمایا کہ خاصان حق کی ہر بات میں حکمتیں ہوتی ہیں چنانچہ بزرگوں سے جو لذیذ کھانے ثابت ہیں ان میں مختلف حکمتیں ہوتی ہیں حسب استعداد ناظرین کے کبھی معلوم ہو جاتی ہیں ـ امام مستغفری نے ایک حکایت لکھی ہے کہ حضرت غوث اعظم کی خدمت میں ایک عورت اپنے لڑکے کو سپرد کر گئی کچھ روز کے بعد آ کر دیکھا کہ لڑکا نہایت لاغر اور دبلا ہو رہا ہے اس کو بے حد رنج ہوا وہ حضرت کی خدمت میں اس کے متعلق کچھ عرض کرنے آئی کیا دیکتی ہے کہ حضرت مرغ کا گوشت کھا رہے ہیں اور بھی جل بھن گئی ـ عرض کیا کہ حضرت آپ تو مرغ کھائیں اور میرے بچے کو سکھا دیا ـ آپ نے سن کر جو ہڈیاں کھائی ہوئی مرغ کی آپ کے سامنے رکھی تھیں ان کی طرف انگلی سے اشارہ کر کے فرمایا کہ قم باذن اللہ وہ مرغ بن کر چل دیا ـ اس وقت حضرت نے اس عورت سے فرمایا کہ جس وقت تیرا بیٹا اس قابل ہو جائے گا اس کو بھی مرغ کھلایا جائے گا یہاں سائل کی استعداد ناقص تھی اس کے فہم کے موافق جواب دیا ـ دوسرا واقعہ حضرت غوث پاک کا اور ہے ایک سودا گر خلیفہ کے پاس بہت قیمتی کپڑا لایا جس کو خلیفہ نہ خرید سکا ـ یہ سودا گر خلیفہ وقت کے جواب دیدینے پر بہت مایوس ہوا اور خلیفہ وقت کے پاس سے حضرت کی زیارت کو خانقاہ میں حاضر ہوا ـ حضرت نے سودا گر سے آنے کی وجہ دریافت کی اس نے بیان کیا کہ اس لئے آیا تھا مگر ناکامیاب رہا ـ حضرت نے اسکی مایوسی دیکھ کر فرمایا کہ ہم خریدیں گے خادم کو حکم دیا کہ اس کی قیمت دیدی جائے اور اس میں ہمارا چوغہ تیار کراؤ وہ کپڑا حرید لیا گیا اس کی اطلاع خلیفہ وقت کو ہوئی اس کو سخت ناگوار ہوا کہ اس فقیر نے ہمیں بھی ذلیل کیا یہ سودا گر جہاں جائے گا کہتا پھریگا کہ خلیفہ وقت میرا کپڑا نہ خرید سکا اور ایک فقیر نے خرید لیا وزیر سے کہا کہ ان سے باز پرس کرو وزیر دانش مند تھا عرض کیا کہ جلدی نہ کیجئے ـ میں جا کر پہلے دیکھتا ہوں اس کے بعد دیکھا جائے گا وزیر خانقاہ میں حاضر ہوا دیکھا کہ حضرت اس کپڑے کا چوغہ پہنے بیٹھے ہیں وزیر کو بھی ناگوار ہوا کہ واقعی خلیفہ وقت کی بھی رعایت نہ کی اس میں خلیفہ وقت کی بڑی اہانت ہوئی مگر وزیر کی پھر جو نظر پڑی دیکھا کہ ایک دامن میں چوغہ کے ٹاٹ یا کمبل کا ٹکڑا بھی لگا ہوا ہے ـ وزیر نے حضرت کی خدمت میں عرض کیا کہ حضرت یہ کیا فرمایا کہ قطع کرنے کے وقت کپڑے میں کمی رہ گئی تھی ـ میں نے کہا کہ ٹاٹ یا کمبل کا ٹکڑا لگا دو ـ مقصود تو کپڑا سے بدن ڈھانکنا ہے ـ وزیر نے جا کر خلیفہ وقت سے بیان کیا کہ یہ قصہ ہے جس شخص کی نظر میں وہ کپڑا اور ٹاٹ یا کمبل ایک ہے اس سے تعرض کرنا خدا کے قہر کو خریدنا ہے یہاں تاجر کو نفع پہنچانا ایک ظاہری حکمت تھی ـ تیسرا واقعہ حضرت غوث پاک ہی کا اور ہے ایک بادشاہ نے آپ کے پاس بہت قیمتی چینی آئینہ بطور ہدیہ کے بھیجا حضرت اسکو شانہ وغیرہ کرنے کے وقت دیکھا کرتے تھے ـ ایک روز خادم کو حکم دیا آئینہ لاؤ وہ لیکر چلا اتفاق سے ہاتھ سے چھوٹ گیا گر کر چور چور ہو گیا خادم نے آ کر عرض کیا “” از قضا آئینہ چینی شکست ،، آپ نے فی الفور جواب میں فرمایا “” خوب شد اسباب خود بینی شکست،، عجیب بات فرمائی یہاں اس کے ساتھ قلب کا تعلق نہ ہونا ظاہر فرمایا کہ یہ بھی ایک سبق ہے اسباب خود بینی شکست فرمایا کہ حضرت مولانا محمد قاسم صاحبؒ کے پاس ایک گاؤں کا شخص ایک ٹوپی لایا جس پر گوٹ تو سرخ قند کی تھی اور باریک باریک گوٹے کی دھاری سلی ہوئی تھی آپ نے اپنی ٹوپی اتار کر وہ ٹوپی اوڑھ لی جب وہ چلا گیا تب کسی بچہ کو دیدی اور فرمایا کہ یہ خوش ہوگا میری ٹوپی اوڑھ لی ـ تو یہ حضرات اپنے ہی دل خوش کرنے کو نہیں پہنتے ـ بلکہ کبھی دوسروں کے دل خوش کرنے کو بھی پہنتے ہیں پس ان حضرات کو خوش پوشا کی اور خوش لباسی صرف اپنے ہی حظ کے لیے نہیں ہوتی حکمتیں ہوتی ہیں ـ چنانچہ ایک حکمت یہ ہے کہ ان کو یہاں کی نعمتوں میں مشاہدہ ہوتا ہے وہاں کی نعماء کا ـ ان کے استحضار کے لیے ان کا استعمال کرتے ہیں ـ حضرت حاجی صاحبؒ نے یہ نکتہ بیان فرمایا تھا اور اس سے بڑھ کر یہ کہ منعم کے مشاہدہ کے لیے استعمال کرتے ہیں عجب نہیں حضرت کا مقصود اصلی یہی مراقبہ ہو کیونکہ حضرت پر توحید کا بہت زیادہ غلبہ تھا وحدۃ الوجود تو حضرت کے سامنے ایسا معلوم ہوتا تھا کہ مشاہد ہے عینی ہے ایک مرتبہ سورۃ طہٰ سنتے رہے اس آیت پر پہنچ کر انہ لا الہ الاھو لہ الاسماء الحسنی حضرت پر اس کا غلبہ ہو گیا بطور تفسیر کے فرمایا کہ پہلے جملہ پر سوال وارد ہوا کہ جب سوا اللہ کے کوئی نہیں تو یہ حوادث کیا ہیں جواب ارشاد ہوا لہ الاسماء الحسنی یعنی اسی اسماء و صفات کے مظاہر ہیں اسی کو کسی نے کہا ہے ؎ ہرچہ بینم در جہاں غیر تو نیست ٭ یا توئی یا خوئے تو یا بوئے تو کسی کا قول ہے ؎ گلستان میں جا کر ہر اک گل کو دیکھا ٭ نہ تیری سی رنگت نہ تیری سی بو ہے ماموں صاحب نے جن پر توحید وجودی غالب تھی اس پر فرمایا کہ شاعر ظاہر بین تھا اگر عارف ہوتا تو یوں کہتا ؎ گلستان میں جا کر ہر ایک گل کو دیکھا ٭ تیری ہی سی رنگت تیری ہی سی بو ہے
ملفوظ 365:میر منصب علی کا شیعہ سے سنی ہونا
میر منصب علی کا شیعہ سے سنی ہونا ایک مولوی صاحب نے عرض کیا کہ حضرت کسی شخص پر حق کا واضح ہو جانا خدا ہی کے قبضہ میں ہے انسان کی قدرت سے باہر ہے فرمایا کہ ہاں حق تعالی حق کو قلب پر وارد اور واضح کر دیتے ہیں عادت اللہ یہی ہے پھر یہ شخص بہ تکلف رد کر دیتا ہے ـ
فرمایا کہ حق واضح ہونے پر یاد آیا کہ یہاں ایک شخص میر منصب علی تھے ان کا گھرانا کڑ شیعی تھا یہ بھی شیعی تھے پھر سنی ہو گئے تھے مجھ سے خود کہتے تھے کہ ان میں بعضے لوگ ایسی شرارتیں کرتے ہیں کہ بچپن میں ہم سے کہا گیا تھا کہ خلفاء ثلثہ کے نام سڑک پر لکھا کرو تاکہ لوگ اس پر سے راستہ چلیں ـ ایک صاحب نے عرض کیا کہ حضرت روشنائی سے فرمایا نہیں انگلی سے ریت میں یا مٹی پر اور کہتے تھے کہ ہم لکھتے پھرا کرتے تھے ـ حق واضح ہونے کا قصہ اس طرح بیان کرتے تھے کہ ایک بار انکو شبہ ہوا اپنے مذہب میں اور یہ حالت ہوئی کہ کبھی سنیوں کے طریقہ پر نماز پڑھتے اور کبھی شیعوں کے طریقہ پر ـ عجب کشمکش کی حالت میں تھے اسی تغیر میں ایک مرتبہ پیران کلیر جانا ہوا وہاں پر حضرت مخدوم علاؤالدین صابرؒ کا مزار ہے وہاں حاضر ہو کر عرض کیا کہ میں نے سنا ہے کہ آپ مقبولین میں سے ہیں میں آپ سے عرض کرتا ہوں کہ آپ دعا فرمائیں کہ مجھ پر حق واضح ہو جائے اگر ایسا نہ ہوا تو قیامت کے روز آپ کو پیش کر کے الگ ہو جاؤں گا کہ ان سے عرض کیا تھا انہوں نے تونہ نہ کی یہ کہہ کر چل دیئے پھر خیال ہوا کہ شاید خواب وغیرہ میں کوئی بات معلوم ہو جائے گی اس کے یہ قائل نہ تھے لوٹ کر پھر مزار پر آ ئے اور عرض کیا حضرت خواب میں اگر کوئی بات نظر آئی میں نہیں مانوں گا ـ میں یہ چاہتا ہوں کہ بلا کسی سبب ظاہر کے قلب مطمئن ہو جائے اور سکون و اطمینان میسر ہو جائے وہاں سے جو لوٹے ہیں قلب میں یہی واضح ہوا کہ مذہب سنی حق ہے اپنے سنی ہونے کا اعلان کر دیا ـ ایک صاحب نے یہ خبر نانوتہ ان کی والدہ کو پہنچائی کہ تمہارے بیٹے سنی ہو گئے وہ ایسی سخت تھی کہ اول تو اس کو یقین نہیں آیا اور کہا کہ میرا بیٹا ایسا نہیں کہ وہ سنی ہو جائے اس شخص نے کہا کہ تم بیٹھی یہی کہے جانا وہ سنی ہو چکے ان کی والدہ نے اپنے اطمینان کی غرض سے سفر کیا اور تحقیق کے لیے یہاں آئیں بیٹے کو بلوایا اور کہا کہ مجھ کو ایک بات معلوم کرنا ہے اوپر کوٹھے پر الگ چلو آ گے ان کو کیا اور پیچھے خود ہوئی کہ کبھی بھاگ نہ جائیں برداشت نہ کر سکی زینہ ہی میں سوال کر بیٹھی کہ میں نے سنا ہے کہ تم سنی ہو گئے انہوں نے کہا کہ یہ بات صحیح ہے میں سنی ہو چکا ـ
یہ سن کر اس عورت کو اس قدر صدمہ اور رنج ہوا کہ زینہ ہی میں بیہوش ہو کر گر گئی اور لڑھکتی ہوئی نیچے آ کر پڑی جب ہوش آیا بولی کمبخت میں دودھ نہ بخشوں گی ایسا کہنے کی عورتوں کو عادت ہوتی ہے انہوں نے جواب میں کہا کہ تو کیا دودھ نہ بخشے گی میں ہی نہیں بخشوں گا مجھ کو ایسا نا پاک دودھ پلایا کہ اس کے اثر سے میں اتنے زمانہ تک گمراہ رہا ـ ماں نے کہا کہ تو مجھ سے مر گیا میں تجھ سے مر گئی انہوں نے کہا میں بھی سب سے مر گیا اور مجھ سے سب مر گئے حق کو نہیں چھوڑ سکتا تمام عمر ان کی ماں نے صورت نہیں دیکھی ـ دیکھو ! ان میر صاحب نے بھی دعا کی تھی کہ بلا کسی تدبیر کے حق واضح ہو جائے حضرت ساری تدبیریں ایک طرف اور خدا سے تعلق اور دعا کرنا ایک طرف اس کو لوگوں نے بالکل چھوڑ ہی دیا مگر دعا خشوع کے ساتھ ہونا چاہیے اس کے لیے فقہاء نے لکھا ہے کہ دعا میں کسی خاص دعا کی تعیین نہ کرے اس سے خشوع جاتا رہتا ہے ـ ایک مولوی صاحب نے عرض کیا کہ اب غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ عدم تعیین میں بڑی حکمتیں ہیں فرمایا جی ہاں صوفیہ اور فقہاء یہ دونوں جماعتیں حکماء ہیں دین کو جس قدر انہوں نے سمجھا ہے اور کس نے نہیں سمجھا ـ اصل محققین صوفیہ اور فقہاء ہی ہیں ـ ایک مرتبہ مجھ کو خیال ہوا باوجود ان کے حکماء اور محقق ہونے کے پھر ان میں لڑائی کیوں ہوتی ہے ـ میں نے تو یہی فیصلہ کیا کہ غیر محققین میں لڑائی ہوتی ہے اور دونوں جماعتوں کے محققین میں کبھی لڑائی نہیں ہوتی یہ تو جامع ہوتے ہیں تو کیا کوئی اپنے سے بھی لڑا کرتا ہے ـ
ملفوظ 364: ہدیہ اور حضرت حاجی صاحبؒ کا معمول
ہدیہ اور حضرت حاجی صاحبؒ کا معمول ایک مہمان پنجاب سے حاضر ہوئے ان کا حضرت والا سے بیعت کا تعلق تھا ـ بعد مصافحہ کرنے کے عرض کیا کہ کچھ پکی ہوئی مچھلی اور روغنی روٹی بطور ہدیہ پیش کرتا ہوں ـ حضرت والا نے دیکھ کر فرمایا اس قدر زائد لانے کی کیا ضرورت تھی تھوڑا لے آ تے عرض کیا کہ حضرت یہ تو تھوڑا ہی ہے بطور مزاح فرمایا کہ اب یہ اعتراض ہے کہ تھوڑا کیوں لائے زائد کیوں نہیں لائے یہاں پر تو دونوں شقوں پر اعتراض ہے ـ اس سلسلہ میں حضرت والا نے فرمایا کہ ایسے ہدایا میں سے ضرور کھانا چاہیئے اس میں ایک نور ہوتا ہے ـ ہمارے حضرت حاجی صاحبؒ کا معمول تھا کہ ایسی چیز میں ضرور کچھ تھوڑا بہت کھا لیتے تھے حضرت کا رنگ تو عجیب تھا یہ معلوم نہ ہوتا تھا کہ حضرت لذئذ سے بچے ہوئے ہیں آپ کھاتے تھے اور بہت قلیل یہ بڑی مشکل بات ہے کہ کھائے اور کم کھائے اس سے یہ آسان ہے کہ بالکل نہ کھائے مگر حضرت کا یہ معمول تھا کہ کیسی ہی کوئی چیز آ گئی مثلا انگور وغیرہ بس ایک دانہ اٹھا کر نوش فرما لیا اور باقی کو تقسیم کرا دیا ـ یہ بہت دقیق زہد تھا ـ حضرت صاحبؒ ایسی چیزوں کی نسبت یوں بھی فرمایا کرتے تھے کہ جو چیز حب فی اللہ کی وجہ سے آئے اسے ضرور کھائے اس میں نور ہوتا ہے ـ چنانچہ ایک بزرگ دوسرے بزرگ کی ملاقات کو چلے راستہ میں خیال آیا کہ بزرگ کی خدمت میں جا رہا ہوں کچھ ضرور چاہیئے پاس کچھ نہ تھا اکثر ایسا ہوتا ہے کہ درختوں کی پتلی پتلی کچھ شاخیں خشک ہو کر نیچے زمین پر خود بخود گر جاتی ہیں ان بزرگ نے خیال کیا کہ یہی لے چلو ـ حضرت کے یہاں ایک وقت روٹی ہی پک جائے گی لکڑیاں جمع کر اور سر پر رکھ کر حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ حضرت یہ کچھ لکڑیاں لایا ہوں فرمایا بہت اچھا ـ اب ان بزرگ کی قدر دانی کو ملاحظ فرمائیے خادم کو بلایا اور فرمایا کہ یہ لکڑیاں لے کر حفاظت سے رکھو اور جب ہم مر جائیں ان لکڑیوں سے ہمارے غسل کا پانی گرم کیا جائے اس کی وجہ سے ہمیں امید اپنی نجات کی ہے ان کی برکت سے انشاء اللہ بخشش ہو جائے گی غرض ایسی چیز میں نور ہوتا ہے جو حب فی اللہ کی وجہ سے آتی ہے واقعی دنیا کی راحت بھی اہل اللہ ہی کو میسر ہے کیونکہ جب اس خیال سے اس کا استعمال رغبت سے کریں گے راحت ہی راحت ہے میں تو بطور اشارہ کے ایک تاویل یہ بھی کیا کرتا ہوں ولمن خاف مقام ربہ جنتن ( اور جو شخص اپنے رب کے سامنے کھڑے ہونے سے ہر وقت ڈرتا رہتا ہے اس کے لیے جنت میں دو باغ ہوں گے ) کی کہ ایک آخرت میں جنت اور ایک دنیا میں جنت ـ یہاں کی جنت راحت ہے ایک مولوی صاحب عرض کیا کہ حضرت یہاں کیسی جنت ـ فرمایا کہ ہاں میرا مطلب یہ ہے کہ دنیا دار جو تصنع اور جاہ کی وجہ سے تشویش میں پڑتے ہیں یہ حضرات اس سے بری ہیں خلاصہ یہ ہے کہ فضولیات میں پڑنے سے جو دنیا داروں کو گرانی ہوتی ہے وہ ان حضرات کو نہیں ہوتی یہ جنت ـ
ملفوظ 363: علماء کو عوام کا تابع نہیں بننا چاہئیے
علماء کو عوام کا تابع نہیں بننا چاہئیے ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ علماء کو عوام اور جہلاء کا تابع بن کر نہیں رہنا چاہیے اس سے دین کی عظمت و احترام ان لوگوں کے قلوب سے نکل جانے کا اندیشہ ہے آج جو عوام کی ہمت اور جرات بڑھ گئی کہ وہ اہل علم کو حقیر سمجھتے ہیں اس کا سبب یہ اہل علم ہی ہوئے ہیں مجھے جو عوام کی حرکت یا ان کے کسی فعل پر اس قدر جلد تغیر ہو جاتا ہے اس کا سبب زیادہ تر وہ فعل نہیں ہوتا ـ بلکہ اس کا منشا اس کا سبب ہوتا ہے یہ خیال ہوتا ہے کہ اس کی کیا وجہ ہے کہ اہل دنیا جو مال کی وجہ سے بڑے ہیں یا حکام جو جاہ کی وجہ سے بڑے ہیں یہ عوام ان کے ساتھ یہ بے فکری کا برتاؤ کیوں نہیں کرتے جو اہل علم سے کرتے ہیں ان کے سامنے جا کر کیوں بھیگی بلی بن جاتے ہیں ـ
یہ سب علماء کے ڈھیلے پن کی بدولت ہے ـ میں کہا کرتا ہوں کہ نہ تو ڈھیلے بنو اور نہ ڈھیلے ( کلوخ ) ہو جس سے دوسرے کے چوٹ لگے توسط کے درجہ میں رہو نہ تو اس قدر کڑوے بنو کہ کوئی تھوک دے اور نہ اس قدر میٹھے کہ دوسرا نگل ہی جائے آجکل تو یہاں تک نوبت آ گئی ہے کہ بعض علماء مسائل کے جواب میں عوام کے مذاق کی رعایت کرنے لگے مجھ کو تو اس طرز پر بے حد افسوس ہے یہ اہل علم کی شان کے بالکل خلاف ہے ـ مسائل کے جواب کے وقت اہل علم کی یہ شان ہونی چاہئیے جیسے حاکم کے اجلاس پر ہونے کے وقت شان ہوتی ہے ـ فرمایا کہ اس پر یاد آیا کہ کانپور میں ایک کوتوال صاحب نے ایک معمولی مولوی صاحب سے جو ان کے بچوں کی تعلیم پر ان کے ملازم تھے سوال کیا کہ نبی میں اور ساحر میں فرق کیسے معلوم ہو ـ مولوی صاحب نے جواب دیا کہ آپ کوتوال ہیں جس وقت کسی معاملہ کی تحقیق کے لیے اپنے علاقہ میں جاتے ہیں تو ان لوگوں کے اطمینان کا کیا ذریعہ ہے کہ آپ کوتوال ہیں ممکن ہے بھروپیہ یا ڈاکو ہو اور اس وردی میں چلا آیا ہو ـ اب کوتوال صاحب چپ ہیں کچھ نہیں بولتے ـ وااقعی ان متکبروں کا دماغ اسی طرح سیدھا کرنا چاہئیے ـ ایسے جاہلوں کے سامنے دب کر جواب دینا مفید نہیں ہو سکتا ـ یہ مولوی صاحب تھے بڑے جری نہ کسی انگریز سے ڈرے نہ ہندوستانی سے ـ ایک مرتبہ یہی حضرت ایک انگریز لفٹنٹ گورنر کے پاس پہنچے اور جا کر کہا کہ کیا کچھ تمہاری حکومت میں علماء کا حق نہیں رہا کیا یہ تمہاری رعایا نہیں اس نے جواب میں کہا کہ ضرور ہے فرمایئے کہ آپ چاہتے کیا ہیں کہ روزگار چاہیئے اس انگریز نے جواب دیا کہ روزگا بہت ! مگر آپ کے علم کی شان کے خلاف ہے اس کے لیے تو یہی زیبا ہے کہ آپ کسی مسجد میں بیٹھ کر درس و تدریس کا کام کریں جس سے خدا کے دین کی خدمت ہو اور خدا تمہاری ضروریات کا کفیل ہو گا انہوں نے جواب میں کہا کہ میں آپ کا بہت شکر گزار ہوں ـ آپ نے مجھ کو نیک مشورہ دیا اور اس انگریز نے خدمت گار کو اشارہ کیا کہ وہ فورا ایک کشتی میں پچاس لاکھ روپیہ رکھ کر لایا اس انگریز نے خود اپنے ہاتھ میں کشتی لے کر ان کے سامنے پیش کئے کہ یہ آپ کی نذر ہے انہوں نے کہا کہ میں آپ کی نصیحت پر یہیں سے عمل شروع کرتا ہوں ـ اس پر حضرت والا نے فرمایا کہ کے لیتے اس نے یہ بھی تو کہا تھا کہ خدا کفیل ہوگا تو یہ خدا ہی نے تو پیش کرائے تھے اور مسجد ہی کے بیٹھنے کی نیت کا ثمرہ تھا ـ ایک بزرگ خلوت نشین تھے لفٹنٹ گورنر ملاقات کو گئے جا کر سلام کیا جب رخصت ہونے لگے عرض کیا کہ حضور کی زندگی کا کیا ذریعہ ہے بزرگ نے فرمایا کہ کل جواب دونگا ـ اگلے روز لفٹنٹ گورنر پھر بزرگ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ایک ہزار روپیہ کی تھیلی ہمراہ لے گئے اور پیش کی اور عرض کیا کہ حضور آج جا رہا ہوں اور کل کے جواب کا انتظار ہے بزرگ نے فرمایا یہ کل کا جواب ہے تم میرے مرید نہیں حتی کہ مسلمان بھی نہیں میرا تم سے تعلق کیا پھر کیوں دیتے ہو حق تعالی اسی طرح عطا فرماتے ہیں گزر ہوتی ہے تو جس طرح ان بزرگ نے خدا کا عطیہ سمجھ کر لے لیا تھا ـ اسی طرح مولوی صاحب کو بھی خدا کی عطا سمجھ کر لے لینا تھا ـ
ملفوظ 362: امراض باطنی سے بچنے کی بڑی تدبیر
امراض باطنی سے بچنے کی بڑی تدبیر ایک مولوی صاحب کے سوال کے جواب میں فرمایا کہ بڑی تدبیر معاصی اور امراض باطنی سے بچنے کی بھی یہ ہے کہ کسی کامل کی طرف رجوع کر لے اس کی بتلائی ہوئی تدابیر پر استقامت کے ساتھ عمل کرے اس تدبیر سے انشاء اللہ تعالی چند روز میں تمام رذائل سے پاک ہو جائے گا اور اعمال صالحہ کی توفیق ہو جائے گی ـ اسی کو فرماتے ہیں ؎ عاشق کہ شد کہ یار بحالش نظر نکرد ٭ اے خواجہ درد نیست وگرنہ طبیب ہست ( ایسا کون ہے جو عاشق ہوا ہو اور محبوب نے اس کے حال پر عنایت نہ فرمائی ہو ـ میاں درد ہی نہیں ہے ورنہ طبیب تو موجود ہے 12) اور فرماتے ہیں ؎ بے عنایات حق و خاصان حق ٭ گر ملک باشد سیہ ہستش ورق ( حق تعالی کی اور خاصان خدا کی عنایت کے بغیر اگر فرشتہ بھی ہو تو اس کا بھی نامئہ اعمال سیاہ ہو 12) 21 رمضان المبارک 1350ھ مجلس خاص بوقت صبح یوم شنبہ
ملفوظ 361: کلام الہی کی عظمت و جلال
کلام الہی کی عظمت و جلال آیت ماکنت تدری ماالکتب ولا الایمان الآیتہ ( آپکو نہ یہ خبر تھی کہ کتاب اللہ کیا چیز ہے اور نہ یہ خبر تھی کہ ایمان کا انتہاء کمال کیا ہے 12) کے متعلق ایک مولوی صاحب کے سوال کے جواب میں فرمایا کہ جی ہاں یہ تو ٹھیک ہے کہ حضورؐ کے متعلق یہ فرمانا کہ ایمان کی بھی خبر نہ تھی اس سے بڑا اندیشہ اس غلط فہمی کا ہو سکتا ہے کہ ایمان کوئی مہتم بالشان چیز نہیں جب نبی بھی اس سے ایک زمانہ میں بے خبر رہ چکے ہیں مگر چونکہ خدا کا کلام ہے بے دھڑک فرماتے ہیں کہ کوئی ہمارا کیا ۔۔۔ کرے گا – پھر اسی کے ساتھ یہ بھی ہے کہ جانتے ہیں اگر کوئی گڑبڑ ہو گی تو ہم خود سنبھال لیں گے ـ

You must be logged in to post a comment.