(۱۳۵) – طریق میں مقصود کا تعین ضروری ہے

ایک سلسلـۂ گفتگو میں فرمایا کہ اس طریق میں سب سے پہلے مقصود کا تعین ضروری ہے اور یہ موقوف ہے سمجھنے پر، جس چیز کو آدمی سمجھے گا نہیں اس کی طلب ہی کیا کریے گا، اس لئے اول سمجھ لینے کی ضرورت ہے مگر آج کل بیعت کو ایک رسم کے درجہ میں سمجھ کر اختیار کیا جاتا ہے یا بڑی دوڑ دوڑے تو برکت کے خیال سے۔ سو بیعت سے بڑھ کر برکت تو تلاوتِ قرآن میں ہے۔ نفلوں میں قرآن پڑھا کرو، نفلیں پڑھا کرو۔ لیکن واقع میں ہمارے یہاں تو بیعت سے یہ مقصود ہی نہیں بلکہ یہاں تو کام میں لگانا مقصود ہے، فوج تھوڑا ہی بھرتی کرنی ہے یا نام کرنا تھوڑا ہی مقصود ہے۔

ہاں ایسے پیر بھی بکثرت ہیں کہ جہاں رجسٹر بنے ہوئے ہیں اور مریدوں کے نام درج ہوتے ہیں، ان سے فیس اینٹھی جاتی ہے اور سالانہ اور ششماہی وصول ہوتا ہے اور لنگر بازی بھی ایسی ہی جگہ ہو سکتی ہے جہاں ایسے پیر اور ایسے مرید اور ایسی آمدنی ہو۔ یہاں یہ باتیں کہاں؟ اول تو ہم ویسے ہی غریب، پھر جو آمدنی بھی ہو تو اس میں بھی چھان بین ۔ غالباً   ہفتہ میں ایک بار منی آڈر واپس ہو جاتا ہے، میں خدا نخواستہ دیوانہ یا پاگل تھوڑا ہی ہوں کہ مال اور جاہ دونوں کا اپنا نقصان کروں۔ مال کا نقصان تو یہ کہ پھر خفا ہو کر شاید نہ دیں اور جاہ کا نقصان یہ کہ غیر معتقد ہو جائیں۔ مگر میں اس کو خیانت سمجھتا ہوں کہ اصولِ صحیح کے خلاف کروں۔ ایسا کرنے سے اپنا بھلا تو بیشک ہو جائے گا لیکن خدمت کرنے والوں کا اس میں کیا نفع ہوا؟ اور تو جہل ہی میں مبتلا رہے، ان بدنصیبوں کا تو دین ہی برباد ہوا۔ مگر بجائے پابندیٔ اصول کے آج کل بزرگی کی چند علامتیں ٹھہر گئی ہیں۔ یعنی نفلیں بکثرت پڑھنا، تسبیح ہاتھ میں رکھنا، گھٹنوں سے نیچا کرتہ اور ٹخنوں سے اونچا پاجامہ پہننا، بس ختم ہوئی اندر خواہ کیسا ہی گندا ہو۔ اسی کو ایک حکیم فرماتے ہیں

از بروں چوں گورِ کافر پر حلل

از بروں طعنہ زنی بر بایزید

و اندروں قہرِ خدائے عزوجل

و زد رونت ننگ میدارد یزید

(ظاہر میں تو ایسے جبہ قُلہ سے مزین ہو کہ جیسے کافر کی قبر سجی ہوئی ہو۔ اور باطنی حالات ایسے ہیں کہ جو خدائے عزوجل کے قہر کے موجب ہیں۔ ظاہری حالات تو ایسے کہ حضرت بایزید رحمۃ اللہ پر بھی طعن کرتے ہو اور تمہارے باطن سے یزید کو بھی شرم آتی ہے)

اور اسی کو حاظ صاحب فرماتے ہیں۔

سبحہ بر کف توبہ بر لب دل از ذوقِ گناہ

 معصیت را خندہ می آید بر استغفار ما

(ہاتھ میں تسبیح لب پر توبہ اور دل میں گناہوں کی لذت بھری ہوئی ہے تو ہماری توبہ سے گناہ کو بھی شرم آتی ہے)



یاد رکھو کہ محض صورت بنانے سے بدون اصلاح کے کچھ نہیں ہوتا اور اسی کی آج کل مطلق فکر نہیں اور فکر تو جب ہو جب کہ طریق کی حقیقت سے باخبر ہوں۔ اس لئے میں سب سے اول یہی سبق دیتا ہوں کہ پہلے مقصود کو معلوم کرو اس کے تعین کے بعد آگے چلو پھر آخر تک کوئی گنجلک اور الجھن پیدا نہ ہوگی ورنہ عمر بھر جہل یا پریشانی میں گرفتار رہیں گے، ایسے لوگوں کے بکثرت خطوط بھی آتے ہیں اور بعضے یہاں آ کر زبانی گفتگو بھی کرتے ہیں مگر تقریباً سب کے سب اسی جہلِ عظیم میں مبتلا ہیں، میں مقصود کا طریق بتلاتا ہوں مگر اِدھر اُدھر سے پھر پھرا کر نتیجہ میں وہی بیعت۔ بھائی بیعت کوئی فرض ہے، واجب ہے جو اس قدر اس پر اصرار ہے۔ میں نے اسی وجہ سے کہ حقیقت سے آگاہ ہو جائیں اب چند روز سے ایک اور قید کا اضافہ کیا ہے یہاں پر آؤ اور زمانہ قیام میں مکاتبت مخاطبت کچھ نہ کرو۔ مجلس میں خاموش بیٹھے ہوئے باتیں سنا کرو تاکہ طریق کی حقیقت تم کو معلوم ہو جائے مگر اس پر بھی بعض ایسے ذہین اور زندہ دل لوگ ہیں کہ خاموش پیٹھے رہنے کی شرط پر آتے ہیں اور پھر گڑبڑ کرتے ہیں۔ ان واقعات کر دیکھ کر میں تو یہ کہا کرتا ہوں کہ یا تو لوگوں میں عقل کا قحط ہے یا مجھ کو عقل کا ہیضہ اور قحط اور قحط زدہ اور ہیضہ زدہ میں مناسبت نہیں ہوتی اس لئے ایسوں سے صاف کہہ دیتا ہوں کہ کہیں اور جا کر تعلق پیدا کر لو مجھ سے تم کو مناسبت نہیں اور یہ طریق بے حد نازک ہے اس میں بدون مناسبت ہرگز نفع نہیں ہو سکتا۔ پھر میری اس صفائی پر بھی اگر کوئی بُرا بھلا کہے، بُرا مانے تو کہا کرے، مانا کرے، مجھ سے کسی کی غلامی نہیں ہو سکتی۔ اگر کسی کو مجھ سے تعلق ہے یا آئندہ تعلق پیدا کرنا چاہتا ہے تو اس کو اس کا مصداق بن کر رہنا چاہئے جس کو عارف شیرازی فرماتے ہیں۔

یا مکن با پلیباناں دوستی

یا مکش بر چہرہ نیل عاشقی

یا بنا کن خانہ بر انداز پیل

یا فروشو جامہؐ تقوے بہ نیل

(یا تو ہاتھی والے سے دوستی مت کرو یا پھر گھر ایسا بناؤ جس میں ہاتھی آ سکے۔ یا تو عاشقی کا دعوی مت کرو اور کرتے ہو تو اس ظاہری اور تقوی کو جس کا حاصل اپنی نمائش ہے چھوڑ دو)

(ملفوظ ۱۳۴) بیعت میں تعجیل طرفین کے مصلحت کے خلاف ہے

ایک نووارد صاحب نے حاضر ہوکر حضرتِ والا سے بیعت کی درخواست کی، فرمایا کہ بیعت میں تعجیل سے کام لینا مصلحت کے خلاف ہے۔ سوچ سمجھ کر دیکھ بھال کر بیعت ہونا مناسب ہے اور میں جس طرح اوروں کے لئے مشورہ دیتا ہوں کی بدوں دیکھے بھالے کسی سے بیعت نہ ہونا چاہئیے اسی طرح اپنے لئے بھی اس ضابطہ کی پابندی کرتا ہوں کہ جلدی بیعت نہیں کرتا۔ اس میں طرفین کی مصلحت ہے اور وہ مصلحت دنیوی نہیں ہے بلکہ دینی ہے اور جب دینی ہے تو دنیا تو دین کی باندی لونڈی ہے وہ کہاں جدا ہو سکتی ہے، وہ خودبخود حاصل ہوجائے گی۔ اس لئے میں اس معاملہ میں آپ کو خیر خواہانہ مشورہ دیتا ہوں کہ آپ عجلت سے کام نہ لیں۔

یہ فرما کر کہ دریافت فرمایا کہ جو کچھ میں نے کہا وہ آپ نے سن لیا اب جو رائے قائم کی ہو مجھ کو اس سے مطلع کردیں۔ عرض کیا کہ حضرت نے جو کچھ فرمایا بالکل ٹھیک فرمایا میں اسی مشورہ کے مطابق عمل کروں گا، مقصود تو حضرت کی تعلیم پر عمل کرنا ہے۔ اس پر حضرتِ والا نے فرمایا ماشاءاللہ فہمِ سلیم اسی کو کہتے ہیں۔ اب میں آپکو خوشی سے تعلیم کروں گا۔ اب یہ بتلائیں یہاں پر کے روز کے قیام کی نیت سے آئے ہو؟ عرض کیا کہ تین روز کی نیت سے۔ فرمایا کہ یہ وقت تو ضروری تعلیم کے لئے کافی نہیں اس کی دوسری صورت یہ ہے کہ آپ وطن واپس پہنچ کر بذریعہ خط مجھ کو اطلاع دیں اور اِس وقت کی گفتگو کا خلاصہ اُس میں تحریر کردیں اور اپنے فرصت کے اوقات لکھ دیں میں جو مناسب ہوگا جواب میں لکھ دوں گا۔ نیز اپنے امراضِ باطنی کو ایک ایک لکھ کر الگ الگ علاج کی درخواست کریں ایک دم سب امراض نہ لکھیں۔ جب ایک مرض کے متعلق تعلیم سے فراغ ہو جائے پھر دوسرے کو لکھیں۔ صحیح طریقہ علاج کا یہ ہے۔

پھر فرمایا کہ بعض عنایت فرما مجھ کو بدخُلق اور سخت گیر کہتے ہیں سو دیکھ لیجئیے ان صاحب کے ساتھ کونسا بدخُلقی اور سخت گیری کا برتاؤ کیا؟ میں نے سیدھی سادی بات کہی انہوں نے معقول جواب دیا، چلو چھٹی ہوئی۔

پھر ان صاحب سے فرمایا کہ یہ بات اور آپ یاد رکھیں کہ اس زمانۂ قیام میں مجلس کے اندر خاموش بیٹھے رہیں، مکاتبت مخاطبت کچھ نہ کریں اس سے ان شاء اللہ بڑا فائدہ ہوگا۔ عرض کیا کہ میں ان شاء اللہ تعالیٰ حضرت کی تعلیم کے سر مو خلاف نہ کروں گا۔ حضرتِ والا نے جوش کی حالت میں فرمایا کہ ان شاء اللہ تعالیٰ آپ کی منزلِ مقصود تک ضرور رسائی ہوگی محرومی نہ ہوگی، میں دعا بھی کروں گا۔ آپ کی سلامتِ طبع سے مجھ کو بڑی مسرت ہوئی بس میں آنے والوں سے صرف اتنی ہی بات چاہتا ہوں کہ ضروری ضروری اور سیدھی اور صاف بات کریں اور اپنے کام میں لگیں ایچ پیچ کرکے اپنا وقت ضائع نہ کریں اور نہ میرا۔

(ملفوظ ۱۳۳) مسئلہ بتلانے سے ڈر معلوم ہونا

ایک سلسلۂ گفتگو میں فرمایا کہ میں سب میں زیادہ آسان تصوف کو سمجھتا ہوں اور سب میں زیادہ مشکل فقہ کو سمجھتا ہوں مگر آجکل اکثر لوگوں کو فقہ ہی میں زیادہ دلیری ہے۔ اس کا سبب جہل یا کم علمی ہے مجھ کو تو مسئلہ بتلانے سے ڈر معلوم ہوتا ہے۔

(ملفوظ ۱۳۲) شریعت میں ایک حکم بھی خلاف فطرت نہیں ہے۔

ایک سلسۂ گفتگو میں فرمایا کہ اگر فطرتِ سلیمہ ہو تو ایک حکم بھی شریعت کا خلافِ فطرت نہیں ہے۔ چونکہ اکثر لوگوں کی فطرت سلیمہ نہیں اسلئے ایسے لوگوں کو وہ احکام فطرت اور عقل کے خلاف معلوم ہوتے ہیں جیسے بخار کے مریض کا ذائقہ فاسد ہوجانے کی وجہ سے اسکو زردہ پلاؤ قورمہ متنجن فیرنی بریانی سب کا ذائقہ بُرا معلوم ہوتا ہے، وہ کسی کو میٹھا، کسی کو کڑوا، کسی کو پھیکا بتلاتا ہے اور یہ ہی چیزیں کسی تندرست کو کھلائی جائیں وہ انکو خوشذائقہ اور عمدہ بتلائے گا۔

ملفوظ (۱۳۱) غیر ضروری سوال کا جواب ارشاد نہ فرمانا

ایک سلسلہؑ گفگتو میں فرمایا کہ لوگوں کو بیٹھے بٹھلائے کوئی نہ کوئی مشغلہ ضرور چاہئیے اور کچھ نہیں تو یہ ہی سہی کہ فضول سوال کر کر کے مولویوں ہی کو تختہؑ مشق بنائیں۔ جو چیزیں قابلِ اہتمام اور ضروری ہیں ان کا تو کہیں نام و نشان نہیں نہ ان کی فکر بس غیر ضروری میں ابتلا ہو رہا ہے۔ اب ضروری غیر ضروری کی تفسیر سمجھو۔ جس چیز کا اپنے سے تعلق نہ ہو بس وہ ٖغیر ضروری ہے، پس جو چیز ضروری ہو آدمی اسکا حکم معلوم کرے۔

آج ہی خط آیا ہے، اس میں لکھا ہے کہ آجکل جو یہود اور نصرانی ہیں انکی عورتوں سے نکاح بغیر مسلمان کئے ہوئے کیسا ہے؟ جائز ہے یا ناجائز ؟ میں نے جواب میں لکھا ہے کہ جو شخص نکاح کررہا ہے اس سے کہو کہ وہ خود مسئلہ دریافت کرے اور جس عورت سے نکاح کرنا ہے اس کے عقیدے اس سے معلوم کرکے لکھو، تب ہم مسئلہ بتائیں گے۔ پھر فرمایا کہ اب جھلائے گا اور دل میں کہے گا یہ پیسے بھی بیکار ہی گئے اگر اور جگہ یہ سوال جاتا تو ایک رسالہ تصنیف کرکے جواب میں روانہ کیا جاتا۔ یہاں سے یہ روکھا اور ضابطہ کا جواب گیا تو بیچارہ کیا خوش ہوسکتا ہے، گالیاں ہی دیگا۔ خیر دیا کرے میں نے تو اس میں آئیندہ کے لئے بھی تعلیم دیدی ہے کہ غیر ضروری چیزوں میں آدمی کو اپنا وقت برباد کرنا نہ چاہئیے۔ ارے پہلے آدمی ضروری باتوں سے تو فراغ حاصل کرلے۔ اور وہ ضروری بات یہ ہے کہ پہلے اپنی اصلاح کی فکر کرے۔ معلوم ہوتا ہے ان سائل صاحب کی کسی سے گفتگو ہوئی ہوگی اس پر یہ تحقیقات شروع کردی تاکہ جواب دکھلا کر دوسرے تو رسوا کریں۔ عام مذاق یہی ہورہا ہے کہ دوسروں پر تو اگر مکھی بھی بیٹھی ہو تو اعتراض ہے اور اپنے جسم میں کیڑے پڑے ہوئے ہوں اس کی بھی فکر نہیں۔

اس قسم کے بہت سوال آتے ہیں، یہاں سے جواب بھی ایسے ہی جاتے ہیں جس پر گالیاں ہی دیتے ہیں۔ ایک شخص کا خط آیا تھا، لکھا تھا کی یہ چھوٹی قومیں کیوں ذلیل ہیں۔ میں نے لکھا کہ دنیا میں یا آخرت میں۔ جواب آیا کہ شافی جواب نہ ملا اور کچھ اعتراض بھی لکھے تھے۔ میں نے لکھ دیا جہاں سے شفاء ہو وہاں سے سوال کرلو بیہودہ اپنا تابع بنانا چاہتے ہیں۔

(ملفوظ 130) تشبہ بالکفار سے احتراز کا حکم

ایک صاحب نے عرض کیا کہ حضرت بعض لوگ تہمند ( تہ بند) ایسا باندھتے ہیں کہ ران کھل جاتی ہے فرمایا کہ اس کا حکم تو ظاہر ہے مستور بدن کھل جانے پر گنہگار ہوگا، گھٹنوں سے ناف تک مرد کے لئے بدن ڈھانپنا واجب ہے۔ عرض کیا کہ کیسا لباس پہننا سنت ہے اسکی کوئی ہیئت اور مقدار خاص ہے؟ فرمایا کہ یہ تو کوئی ضروری نہیں کہ شلوار ہو تو اس میں اتنا کپڑا ہو، پاجامہ ہو تو وہ اتنے کپڑے کا ہو۔ رہا ہیئت سو سلف سے بزرگوں کا جو طرز چلا آرہا ہے اُسی کی مشابہت رکھنا چاہئیے۔ باقی یہ کوئی ضروری بات نہیں کہ عصاء اتنا بڑا ہو کہ نہ اتنا بڑا ہو ، عمامہ اتنا ہو۔ اور ضروری نہ ہونے کی وجہ یہ کہ حضور ﷺ جو چیزیں استعمال فرماتے تھے وہ بنا بر عبادت نہیں تھیں بلکہ وہ عادت شریفہ تھی۔ جس میں آرام ملا اس کو اختیار فرمالیا۔ صاف تشبہ بالکفار سے احتراز کا حکم فرماتے تھے۔ غرض جس چیز کا حضور ﷺ نے اہتمام نہ فرمایا ہو امتی کا اسکو اختیار کرنا تو علامت محبت کی ہے مگر اسکا خاص اہتمام نہ کرے کیونکہ وہ سنت قرباتِ مقصودہ کے درجہ میں نہیں ہے۔

یہ ہی وہ باتیں ہیں کہ جن میں فرق کرنا صرف مجتہد کا کام ہے اور ہر شخص مجتہد ہے نہیں، اسوجہ سے لوگوں کا بدعت میں زیادہ ابتلا ہوگیا۔ سنت اور بدعت میں فرق کرنا محقق ہی کا کام ہے، غیر محقق تو ٹھوکریں ہی کھائیگا۔ اور غیر منقولات کا تو ذکر ہی کیا ہے، حضرت امام صاحب تو عباداتِ منقولہ میں بھی اس مقصودیت و عدم مقصودیت کا فرق کرتے ہیں۔ امام صاحب کی نظر کا عمق اس قدر ہے کہ دوسرے وہاں تک نہ پہنچ سکے۔ اسی وجہ ہے حنفیہ پر اعتراض ہے کہ منقولات میں بھی رائے لگاتے ہیں۔ امام صاحب کا منقولات میں مقصود اور غیر مقصود کا فرق نکالنا بڑا ہی لطیف اور باریک علم ہے، کوئی کیا سمجھ سکتا ہے۔

امام صاحب کا اس کے متعلق مسلک یہ ہے کہ جس چیز کو حضور ﷺ نے مقصود سمجھ کر نہ کیا ہو اسکو مقصود سمجھ کر کرنا نہ چاہئیے کہ اس میں تغیّر ہے مشروع کی۔ باقی بے سمجھے اعتراض کردینا کون سا مشکل کام ہے مگر آدمی سمجھنے کی طرف بھی توجہ کرے کہ آخر کہنے والا کہہ کیا رہا ہے اور اسکا منشاء کیا ہے؟ اور جو اعتراض سمجھ کر ہوتا ہے اس کی نوعیت اور شان ہی جدا ہوتی ہے اور بے سمجھے جو اعتراض ہوتا ہے اس کی نوعیت اور شان جدا۔ جس کو ہر شخص نہیں سمجھ سکتا۔ سو ایسا شخص تو اعتراض ہی کر لے گا اور کیا کرے گا۔ خصوص یہ زمانہ تو اس قدر پُر فتن اور پُر آشوب ہے کہ ہر شخص قریب قریب آشوبِ چشم ہی کا مریض بنا ہوا ہے، نظر کام ہی نہیں کرتی الا ماشاءاللہ مگر جن پر حق تعالٰی کا فضل ہے اور انکو فہمِ سلیم اور عقلِ کامل عطاء فرمائی گئی ہے وہ بیشک سمجھ سکتے ہیں۔

(ملفوظ 129) طریق کی روح

ایک سلسلۂ گفتگو میں فرمایا  کہ یہ بدعتی، خصوص ان میں یہ جاہل صوفی، نہایت بددین ہوتے ہیں۔ بعضے تو کھلم کھلا فسق و فجور میں مبتلا ہوتے ہیں اور باوجود اپنی اس حالت کے دوسروں پر بہتان اور الزام رکھتے ہیں کہ یہ بزرگوں کے مخالف ہیں۔ کوئی ان سے پوچھے کہ تم بہت متبع ہو یہ کہتے ہوئے شرم نہیں آتی؟ ایک شخص مجھ سے بیان کرتے تھے کہ لکھنؤ میں ایک مزار پر سماع ہو رہا تھا ڈھولک سارنگی کھڑک رہی اور بج رہی تھی، نماز کا وقت آگیا ایک سارنگی نواز نمازی تھا وہ مع سارنگی مسجد میں آگیا۔ ایک شخص نے اعتراض کیا کہ ارے مسجد میں آلات معصیت لایا۔ اس جلسہ میں ایک صوفی مولوی صاحب بھی تھے تو جواب میں کہتے ہیں کہ آپ جو آلۂ زنا لئے ہوئے مسجد میں آئے ۔ کیا بیہودہ جواب ہے، کیا منفصل اور متصل چیز میں فرق نہیں ہے؟ عقلاً بھی اور نقلاً بھی۔ حتیٰ کے عین نجاست بھی اگر اپنے معدن میں ہو اس پر نجاست کا حکم نہیں کیا جاتا مثلاً پیشاب پاخانہ ہے، کس کے اندر نہیں مگر نجاست کا حکم نہیں کیا جاتا دوسرے یہ کہ جس چیز کو ان بزرگ نے آلۂ معصیت کہا وہ آلۂ معصیت ہی نہیں۔ آلۂ معصیت وہ ہے جو معصیت کے لئے وضع کیا جائے اور وہ معصیت کے لئے وضع نہیں کیا گیا چنانچہ ظاہر ہے یہ انکے دل میں وقعت ہے دین کی۔

باقی  بعضے اہلِ انصاف بھی ہوتے ہیں۔ چنانچہ ایک صوفی منش کانپور کے رہنے والے الہٰ آباد میں ملے مجھ سے کہنے لگے کہ آپ  چشتی ہیں؟ میں نے کہا جی ہاں۔ کہا پھر سماع کے مخالف کیوں ہو؟۔ میں نے کہا کہ پہلے آپ میرے سوال کا جواب دیں یہ بتلائیے کہ اس طریق کی روح کیا ہے؟ واقف شخص تھے کہنے لگے کہ مجاہدہ اور ٹھیک جواب دیا۔ میں نے کہا کہ بالکل صحیح ہے، اب یہ بتلائیے کہ مجاہدہ کی حقیقت کیا ہے؟  کہا کہ نفس کے خلاف کرنا۔ میں نے کہا کہ یہ بھی بالکل ٹھیک ہے۔ اب آپ سچ بتلائیں کہ آپ کا سماع سننے کا جی چاہتا ہے۔ کہا کہ چاہتا ہے۔ میں نے کہا اور ہمارا بھی جی چاہتا ہے۔ مگر تم جی چاہا کرتے ہو اور ہم جی چاہا نہیں کرتے تو صاحبِ مجاہدہ تم ہوئے یا ہم؟ صوفی تم ہوئے یا ہم؟ درویش تم ہوئے یا ہم؟ سمجھدار آدمی تھے سمجھ گئے اور بہت مسرت ظاہر کی اور یہ کہا کہ آج حقیقت کا انکشاف ہوا، ایک عرصہ تک غلطی میں مبتلا رہا اور مجھ کو بہت کچھ دعائیں دیں۔ واقعی اگر آدمی میں فہم ہو تو سب کچھ سمجھ سکتاہے بشرطیکہ خلوص ہو بد نیتی نہ ہو، مگر آجکل تو بدنیت شریر فساق فجار مفسد زیادہ ہیں ۔ پہلے بدعتی لوگ بھی اللہ اللہ کرنے والے ہوتے تھےوہ اس قدر آزاد  بیباک نہ ہوتے تھے۔ میں ایسوں سے بھی بکثرت ملا ہوں اور قریب قریب ان سب سے دعائیں لی ہیں۔ باقی اب تو بکژت بددین ہیں۔

ایک صوفی جاہل کی حکایت ایک دوست سے سنی ہے کی ایک عورت مجلسِ سماع میں گارہی تھی۔ عین سماع کے اندر اس کو ایک تنہا مکان میں لیجا کر اس سے منہ کالا کیا اور فارغ ہو کر پھر آکر بیٹھ گیا اور اپنے فعل کی توجیہ کرتا ہے کہ “جب آگیا جوس نہ رہا ہوس” دونوں جگہ چھوٹا سین استعمال کیا  اتنا جاہل تھا پیٹ پھر کے اور معتقدین ہیں کہ اس پر بھی معتقد ہیں۔  اب بتلائیے  یہ باتیں بھی اگر قابل ملامت نہیں تو کیا قابل تحسین ہیں۔ اس پر اگر کوئی کچھ کہتا ہےتو اس کو بزرگوں کا دشمن اور وہابی بتلاتے ہیں۔ ہاں صاحب یہ ہیں سنی حنیفی چشتی نامعقول بزرگوں کو بدنام کرنے والے۔ میں چونکہ انکی نبضیں خوب پہچانتا ہوں، ان کے ڈھونگ اور مکر و فریب سے مخلوقِ خدا کو آگاہ کرتا ہوں  (اس لئے) مجھ پر آئے دن عنایتیں فرماتے رہتے ہیں مگر اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ اب طریق  بے غبار ہو گیا ، اب اہلِ عقل اور دانشمند لوگ انکے پھندوں میں نہیں پھنس سکتے۔ باقی بدفہموں اور کوڑ مغزوں کا تو کسی زمانہ میں بھی اور کسی سے بھی علاج نہیں ہو سکا حتیٰ کہ انبیاء علیہم السلام بھی ایسوں کی اصلاح نہ کوسکے تو کسی کو کیا منہ ہے کہ وہ وعویٰ اصلاح کا کرسکے۔

اس چودہویں صدی میں مجھ جیسے دیہاتی شخص کی ضرورت تھی جو انکے دجل اور مکر کو مخلوق پر ظاہر کرے۔ یہ دین کے دشمن، دین کے ڈاکو اپنی اغراض ِ نفسانی کو پورا کرنے والے پیٹ بھرنے والے اس روپ میں مخلوقِ خدا کر گمراہ اور بددین بنانے والے بہت دنوں پردہ میں رہے مگر الحمد اللہ اب انکا تمام تارپود بکھر گیا۔ لوگوں کو معلوم ہوگیا، حق و باطل میں امتیاز اظہر من الشمس وا بین من الامس ہو گیا۔ گو مجھ کو بُرا بھلا بھی کہیں اور مجھ پر قِسم قِسم کے الزامات اور بہتان بھی باندھیں مگر ان کی توروٹیوں میں کھنڈت پڑہی گئی اور لوگوں کی نظروں میں کِرکِری ہو ہی گئی۔ یہ ہی وجہ ہے کہ مجھ پر جھلاتے ہیں ، غراتے ہیں۔ مگر میں نے بھی بفضل ایزدی ان کے منہ سے شکار نکال دیا۔ یہ فخراً  بیان نہیں کرتا بلکہ حق تعالیٰ جس سے چاہیں اپنا کام لے لیں۔ میں بھی تحدث بالنعمۃ کے طریق پر اظہار کرتا ہوں اور اس ملامت پر بھی دل  میں مسرور ہوں اور مکرر بلا کسی ملامت کے خوف کے کہتا ہوں اور حق تعالیٰ نے اظہارِ حق کرنے والوں کی شان بھی یہی بیان ہے۔

لاَ یَخَافُونَ  لَومَۃَ لَائِم

تو ایسے دھوکہ دینے والے لوگ دین کی راہ میں راہزن  ہیں ۔ بددین ہیں۔ فاسق و فاجر ہیں۔ بہروپئیے ہیں۔ ان سے اپنے دین کو محفوظ رکھو ورنہ پچھتاؤگے اور آخرت میں سوائے ندامت اور کفِ افسوس ملنے کے اور کوئی نتیجہ نہ ہوگا۔ حق تعالیٰ سب کو فہمِ سلیم نصیب فرمائیں۔

(ملفوظ 128) جہل اور حسد کے مفاسد

ایک سلسلۂ گفتگو میں فرمایا اللہ بچائے جہل اور حسد  سے یہ دونوں بڑی ہی بُری بلا ہیں،  آدمی کو اندھا بنادیتی ہیں، حق ناحق کی کچھ تمیز نہیں رہتی، جو جی میں آیا کرلیا جو منہ میں آیا بک دیا۔ بہشتی زیور پر اسی کی بدولت اعتراض کئے گئے بعض مقامات میں تو اس کو جلایا گیا ۔ میں نے سن کر کہا کہ یہ امام غزالی علیہ الرحمۃ کی سنت ہے جو مجھ کو نصیب ہوئی ان پر بھی الزامات لگائے گئے اور اس کا سبب احیاء العلوم کتاب تھی اس وقت کے بہت علماء نے آپ پر کفر کا فتوٰی دیا، احیاء العلوم جلائی گئی۔ وجہ یہ کہ احیاء العلوم میں ہر طبقے کے لوگوں کی غلطیاں بیان کرکے اصلاح کی گئی تھی، ان کو متنبہ کیا گیا تھا بس یہی آپ کی دشمنی کا سبب تھا۔ ایسے لوگ ہمیشہ مصلح کے درپے ہوتے آئے ہیں اس لئے کہ وہ مصلح ایسے لوگوں  کےڈھونگ اور مکر و فریب سے لوگوں کو آگاہ کرتا ہے بس یہی دشمنی ہے پھر جب آدمی کسی کے درپے  ہوجاتا ہے تو پھر اس کی نظر میں دوسرے کے کمالات بھی عیب بن جاتے ہیں۔ اور بیچارے علماء اور بزرگ تو کیا چیز ہیں اور کس شمار میں ہیں، انبیاء علیہم السلام سے دشمنی کا سبب صرف یہی ارشاد و ہدایت ہے اور نہ کیا وہاں کوئی ملک یا باغ یا مکانات کی تقسیم ہورہی تھی یا نعوذ باللہ انبیاء مال و جاہ کے طالب تھے؟ حضور ﷺ کے سامنے تو خود کفار عرب نے جاہ و مال پیش کیا اور خدمت میں جا کر عرض کیا کہ اگر آپ کو حکومت کی ضرورت ہے تو ہم سب آپ کو اپنا بادشاہ اور سردار بنانے کو تیار ہیں، اگر مال کی ضرورت ہے تو ہم سب اپنی جائیداد اور نقد سب پیش کرنے کو تیار ہیں، اگر خوبصورت لڑکیاں آپ چاہتے ہیں تو تمام عرب میں سے جن کو آپ پسند کریں نکاح کرسکتے ہیں مگر ہمارے لات و عزیٰ کو برُا نہ کہیئے۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ مجھ کو ان میں سے کسی چیز کی ضرورت نہیں نہ اس کی خواہش، میں کلمۃ الحق کا ضرور اعلان کروں گا اور تم سے صرف یہ چاہتا ہوں کہ تم ایک پیدا کنندہ پر ایمان لاؤ اپنی حاجت اس سے طلب کرو اسی ہی کی بندگی اور عبادت کرو، وہی قابلِ پرستش ہے۔ غرض مصلحین سے مخالفت کوئی نئی بات نہیں، ہمیشہ سے اہلِ حق کے ساتھ اہلِ باطل یہی برتاؤ کرتے آئے ہیں۔ مجھ کو اس کی کوئی شکایت نہیں جو چاہیں کریں جو جی میں آئے کہیں مگر میں اپنے مسلک اور طرزِ اصلاح کو نہیں چھوڑ سکتا اور یہ کچھ اصلاح ہی پر موقوف نہیں جب چار آدمیوں میں کسی کی شہرت ہوئی ہر چہار طرف سے بغض و حسد، عداوت و دشمنی کی بوچھاڑ پڑنے لگتی ہے۔ اسی کو  فرماتے ہیں

شش مہاؤ خش مہاؤ رشک مہا – برعرت ریزو چو آب از مشک مہا

(نظریں اور غصے اور رشک تیرے سر پر اس طرح گریں گے جیسے مشک سے پانی گرتا ہے۔)

مگر مصلح کو حق تعالیٰ توفیق و ہمت دیدیتے ہیں جس سے وہ یہ سمجھ جاتا ہے کہ یہ حالت تو ہوتی ہی رہتی ہے لیکن جب اوکھلی میں دیا سر پھر موسلوں کا کیا ڈر؟ اس لئے ان باتوں کا اس پرکوئی اثر نہیں ہوتا وہ کسی کی پرواہ نہیں کرتا اس کو اپنے خیال سے کوئی نہیں ہٹا سکتا۔ کہنے کی بات نہ تھی مگر تحقیق کی ضرورت سے کہتا ہوں کہ وہ مامورہوتا ہے اس کا منصب ہوتا ہے اگر وہ اس میں ذرا ڈھیل سے کام لے اسکی گردن ناپ دی جائے اسلئے وہ معذور ہے۔ ارشاد خلق اس کے سپرد ہے اس کا فرضِ منصبی ہے اور وہ کسی چیز کا طالب نہیں ہوتا وہ تو صرف ایک ہی چیز کا طالب ہے ایک ہی چیز اس کے پیشِ نظر ہے وہ چیز کیا ہے ؟ تعلق مع اللہ۔ اسی بنیاد پر اسکے سب اقوال و افعال منبی ہیں۔ اب اس کے بعد اگر تمام عالم اس کو اس سے ہٹائے وہ نہیں ہٹ سکتا اور ہٹنے  کی وجہ ہی کیا اس کی فناء اور استغناء کی تو یہ شان ہے جس کو فرماتے ہیں۔

ما ہیچ نداریم غم ہیچ نداریم – دستار نداریم غم پیچ نداریم

ہمارے پاس کچھ نہیں ہے لہٰذا ہم کو کسی چیز کی فکر بھی نہیں ہے۔ نہ ہم پگڑی رکھتے ہیں نہ اس کی پینچ کی فکر ہم کو ہے۔

اس کے قلب میں ایک ایسی چیز رکھ دی گئی ہے کہ وہ سب ماسوا کو فنا کردیتی ہے جس سے اس کی یہ شان ہوتی ہے۔

ایذل آں بہ کہ خراب از مٹے گلگوں باشی     – بے زور گنج بصد حشمت قاروں باشی

اے دل یہی مناسب ہے کہ شرابِ محبت سے مست ہو اور بے مال و دولت کے قارون سے بھی زیادہ عزت والے ہو۔

(ملفوظ 127 ) مناظرہ کو پسند نہ فرمانے کا سبب

ایک صاحب کے سوال کے جواب میں فرمایا کہ جب مخالف میں فہم نہیں ہوتا تو خطاب میں بڑی ہی کلفت ہوتی ہے تو اسی وجہ سے آج کل مناظرہ کرنے کو پسند نہیں کرتا کہ اکثر غیر فہیم مخاطب سے سابقہ پڑتا ہے مگر ضرورت اسی سے مستثنی ہیں چنانچہ حضرت مولانا محمد قاسم صاحب رحمتہ اللہ علیہ نے بضروت اہل زیغ( کج فہموں) سے  تحریری گفتگو بھی فرمائی ہے سرسید کے جواب میں بھی رسالہ تحریر فرمایا ہے ۔ سر سید نے اپنی ایک تحریر میں کسی شخص کے اس استفسار کے جواب میں کہ کسی عالم کو تمہارے سمجھانے کے لیے آمادہ کیا جائے یہ شعر لکھا تھا ۔

حضرت ناصح جو آئیں دیدہ دل فرش راہ
کوئی ہم کو یہ سمجھادے کہ سمجھائیں گے کیا

جب مولانا کو وہ تحریر دکھلائی گئی تو مولانا نے جواب کے ساتھ اسی غزل کا یہ شعر لکھا

بے نیازی حد سے گزری بندہ پر درکب تلک
ہم کہیں گے حال دل اور آپ فرمائینگے کیا

پھر فرمایا کہ پہلے مجھے مناظرے کا بہت ہی شوق تھا ویسے ہی اب نفرت ہے اس زمانہ شوق میں ایک عیسائی لیکچرار دیوبند میں آیا کرتا تھا میں اس وقت مدرسہ میں پڑھتا تھا ایک مرتبہ وہ آکر مدرسے کے قریب تقریر کرنے لگا طلبہ کا اور اہل قصبہ کا بڑا مجموع ہوگیا وہ عیسائی کھڑا ہوا اور ایک ہاتھ میں انجیل لے کر حاضرین کو دکھا کر پوچھا کہ یہ کیا ہے۔مقصود یہ تھا کہ اگر یہ جواب ملا کے یہ انجیل ہے تو یہ چونکہ مسلمان انجیل کو مانتے ہیں تو ان پر  حجت ہو جائے گی۔ اب اس پر مستقل گفتگو ہو گی کہ مجیب کہے گا کہ یہ منسوخ ہے وہ کہے گا غیر منسوخ ہے۔ ابھی  جواب نہیں دیا گیا تھا کہ حکیم مشتاق احمد صاحب رکن مدرسہ آگئے اور طلبہ سے کہا کہ تم ہٹو یہ تمہارا کام نہیں ہے ایسے جاہلوں سے مناظرہ کرنا ہمارا کام ہے ۔اس کے بعد اس سے فرمایا کہ میاں میں تمہارا جواب دوں گا ۔پوچھو کیا پوچھتے ہو اس نے بڑے زور سے کہا کہ میرے ہاتھ میں کیا ہے وہی انجیل ہاتھ میں لے رہا تھا انہوں نے فرمایا کہ یہ ہے کدو اس نے اس پر برہم ہو کر کہا کہ تم بڑے گستاخ ہو فرمایا گستاخی کی کون سی بات ہے ہماری تو یہی سمجھ میں آیا تم سے کہہ دیا اس کی یہ توجیہ ہو سکتی ہے کہ تحریف کے بعد یہ کتاب اللہ نہیں جیسے کدو کتاب اللہ نہیں تو آج کل مناظروں میں اس قسم کے سوال اور جواب ہوتے ہیں اب صورت میں سوائے تضییع اوقات کے اور کچھ نہیں ہوتا جب تک مخاطب میں فہم نہ ہو گفتگو کرنا لا حاصل ہے اور یہ تو مناظرہ ہے جو اکثر فضول ہوتا ہے میں تو مسائل کے جواب میں بھی سائل کی حیثیت کے موافق جواب دیتا ہوں گو اس سوال کا جواب نہ ہو چنانچہ ایک بار ایک صاحب نے مجھ سے مسئلہ پوچھا تھا کہ ایک شخص کا انتقال ہوا ایک بھتیجا ایک بھتیجی چھوڑے ، میراث کا کیا حکم ہے میں نے جواب دیا کہ بھتیجا میراث پائے گا، بھتیجی کو کچھ نہ ملے گا۔  اس پر اس نے سوال کیا کہ اس کی کیا وجہ وہ پٹواری تھے میں نے کہا کہ بستہ پٹوارگیری کا تو طاق میں رکھو طالب علمی شروع کرو تین برس کے بعد سمجھنے کی قابلیت پیدا ہوگی اس کی کیا وجہ اب بتلائیے ایسے بدفہم اور بدعقل لوگوں کا بجز اس کے کیا علاج؟

(ملفوظ 126) کامل کی صحبت اکسیر ہے

 ایک صاحب کے سوال کے جواب میں فرمایا کہ میرے یہاں تو الحمدللہ طالب کی حالت کو دیکھ کر اور اس کی ہر بات اور مصلحت پر نظر کر کے تعلیم ہوتی ہے یہی وجہ ہے کہ بعض بدفہم سمجھتے ہیں کہ ٹالتا ہے اور یہ اس لیے کہ خوگر تو دوسرے طرز کے ہیں وہ رنگ نہیں دیکھتے ہیں تو شبہات کرتے ہیں۔ آج تک بے چاروں نے بزرگی کی اور قسمیں سنی ہیں جو باتیں یہاں ہیں وہ کہاں کانوں میں پڑی ہیں۔ یہاں عرفی بزرگی اور ڈھونگ اور کود پھاند شور وغل اینٹھ مروڑ اچھلنا کودنا کچھ نہیں صرف دو ہی چیزیں ہیں یعنی اعمالِ واجبہ کی ظاہری اور انکی باطنی (اصلاح)  بس یہاں صرف یہی ہے اور یہی اصل بھی ہے اور اس کی تحصیل کے لیے مجاہدات اور ریاضات کئے جاتے ہیں کہ اعمالِ واجبہ کاقلب میں رسوخ ہوجائے بس صرف یہی مقصود ہے اسی کیلئے ضرورت ہے شیخ کامل کی تاکہ اس کی صحبت اور تعلیم پر عمل کرنے سے یہ اعمالِ واجبہ راسخ ہوجائیں ۔ کامل ہی کی صحبت اس کیےلئے شرط اور اکسیر ہے کیونکہ وہ اس راہ سے گزر چکا ہے وہ اس راہ کا واقف کار ہے اسکے پاس جاؤ اس سے تعلق پیدا کرو ان شاءاللہ لوہے سے سونا بن جاؤ گے پتھر سے لعل ہوجاؤ گے مولانا اسی کو فرماتے ہیں۔

گرتو سنگ خارہ ومرمر شوی – چوں بصا حبدل رسی گوہر شوی
نفس نتواں کشت الاظل پیر – دامن آن نفس کش راسخت گیر
(اگر تم سنگ خارا یا سنگ مرمر بھی ہو۔ اگر صاحب دل کے پاس پہنچ جاؤگے تو موتی بن جاؤگے پیر کے سایہ کے بغیر نفس نہیں مرتا۔لہذا اس نفس کو مارنے والے کا دامن خوب مضبوط پکڑلو)

لیکن اس اثر کیلئے ایک اور بھی شرط ہے وہ یہ کہ اس صحبت کے کچھ آداب ہیں ان کو پورا کرو جن کا خلاصہ مولانا فرماتے ہیں۔

قال رابگذار مرد حال شو – پیش مردے کاملے پامال شو

پامالی کی تفسیر یہ ہے کہ تم اپنے حالات سے اس کو آگاہ کرو اور اپنا کچا چٹھا بیان کرڈالو اس پر وہ مناسب تعلیم دےگا کبھی آپریشن کی ضرورت بھی ہوگی۔ڈانٹ ڈپٹ بھی ہوگی سب کچھ سننا پڑے گا اور اگر کہیں اس پر دل میں کدورت اور ناگواری پیدا ہوئی تو بس محرومی رہے گی اسی کو مولانا فرماتے ہیں۔

گر بہتر زخمے تو پر کینہ شوی –  پس کچا بے صیقل آئینہ شوی

اس راہ میں قدم رکھنے سے قبل سب باتوں کے لئے تیار رہنے کی ضرورت ہے اس طریق میں فنا و ذلت کو سر رکھ کر ہر قسم کی جاہ اور عزت کو خیرباد کہہ کر آنا چاہیے پھر کامیابی ہی کامیابی ہےاور یہ سب اس راہ میں قدم رکھنے سے پہلے ہونے کی ضرورت ہے جس کو فرماتےہیں

دررہ منزل لیلی کہ خطر ہاست بجاں – شرط اول قدم آنست کہ مجنوں باشی

(وصل لیلی کی راہ میں جان کو بہت سے خطرات تو ہیں ہی مگر اول قدم رکھنے کی شرط یہ ہے کہ مجنون بنو)

اور ایک دو دن کے لئے نہیں بلکہ ساری عمر کے تیاری کر کے قدم رکھنے کی ضرورت ہے اسی کو فرماتے

اندریں رہ می تراش ومی خراش – تادم آخردمے فارع مباش

(راہ سلوک میں بہت تراش خراش ہیں لہذا آخر دم تک ایک دم کے لیے فارغ نہ ہو بلکہ کام میں لگے رہو )

اگر کسی قدم پر پہنچ کر بھی بھاگ نکلا اور برداشت نہ کر سکا تو بس ناکامی ہے تو ایسی حالت میں اس راہ میں قدم رکھنا ہی عبث اور فضول ہے اسی کو فرماتے ہیں۔

توبیک زخمے گریزانی زعشق –  توجزنامے چہ میدانی زعشق
(تو ایک زخم کھاکر عشق سے بھاگتا ہے تو بجز نام کے عشق کی حقیقت کو جانتا ہی نہیں )

اور جس نے اس راہ میں صدق اور خلوص سے قدم رکھا تو اس کے لئے سب آسان کر دیا جاتا ہےاگرچہ وہ ہم کو مشکل معلوم ہو کیوں کہ مشکل ہمارے لئے ہے۔ان کے لیے تو سب آسان ہے اور وہ صرف ہمارے صدق خلوص اور طلب کو دیکھتے ہیں پھر سب کا م وہ خود ہی کر دیتے ہیں بس ہمت سے چل کر کھڑے ہونے کی ضرورت ہے اسی کو مولانا فرماتے ہیں

گرچہ رخنہ نیست عالم راپدید – خیرہ یوسف دارمی باید دوید
(اگرچہ بظاہر دنیا کے علائق سے نکلنے کے لیے کوئی راہ نظر نہیں آتی مگر تجھ کو چاہیے کہ حضرت یوسف علیہ الصلاۃ و السلام کی طرح چلنا شروع کر دے ان شاء اللہ مدد خداوندی تیری دستگیری فرمائے گی)

مطلب یہ ہے کہ تمام حجابات اور جو چیزیں اس راہ میں منزل مقصود تک پہنچنے میں موانع ہیں وہ سب کو دفع فرمادیتے ہیں کیونکہ وہ حقیقی موانع ہی نہیں ورنہ ان کے ہوتے ہوئے عبدوصول کا مکلف نہ ہوتا محض خیال ہی خیال ہے اسی کو فرماتے ہیں۔

اے خلیل اینجا شرارودود نیست – جزکہ سحر و خدعہ نمرود نیست
(اے خلیل الله یہاں آگ اور دھواں کچھ نہیں ہے یہ صرف نمرود کا جادو اور دھوکہ ہے)

اور اگر بفرض محال مشکلات بھی ہوں تو وہ ہمارے ہی نزدیک تو مشکلات ہیں ان کے نزدیک کیا مشکل اور کیا دشوار سب آسان ہے اسی فرماتے ہیں

تو مگو مارا بداں شہ بارنیست – باکریماں کارہا دشوار نیست
(یہ مت کہو کہ ہماری اس شان تک رسائی کہاں ہے کیوں کہ کریموںکا کوئی کام دشوار نہیں ہے وہ تو خود تم کو اپنی طرف جذب فرما لیں گے)

اور یوں تو دشوار کا آسان ہونا درحقیقت ان کی قدرت اور تصرف سے ہے کسی اسباب ہی کی ضرورت نہیں ۔مگر بظاہر عالم اسباب میں تسلی طالب کے لئے اس کا ایک سبب عادی بھی ہے اور اور وہ عشق و محبت ہے کہ طالب صادق کو اول یہ عطاء ہوتی ہے پھر اس عشق ومحبت کی بدولت سخت سے سخت دشوار کام سہل معلوم ہونے لگتا ہے جو عاشق ہو گا وہ کبھی مایوس ہو کر نہیں بیٹھتا دیکھئے ایک مردار کتیا فاحشہ کے عشق میں انسان کیسے کیسے مشکلات کا مقابلہ کرتا ہے اور وہ تو محبوب حقیقی ہے ان کی تلاش میں ان کی راہ میں تو جس قدر مشکلات کا بھی سامنا ہو اور دشوار گذار گھاٹیوں کو طے کرنا پڑے ان حقیقت ہی کیا ہے مجنون ہی قصہ دیکھ لیجئے کہ لیلیٰ کے عشق میں کیا کچھ گوارا نہیں کیا حضرت ادہم اس عشق ہی کی قوت سے موتی کی تلاش میں سمندر  سینچنے پر تیار ہوگئے تیار کیا معنی سینچنا شروع کر دیا ظاہر ہے کہ اگر اپنی ساری عمر بھی ختم کر دیتے تب بھی سمندر کو نہ سینچ سکتے تھے مگر ہمت کی برکت سے اس طرف سے امداد ہوئی سب آسان ہوگیا تو جب ان مجازی عاشقوں کے ساتھ یہ معاملہ ہے تو کیا اپنے عاشق صادق کی نصرت اور امداد نہ فرمائیں گے یہ کیسے ہو سکتا ہے اور کیا اس عشق حقیقی کا درجہ اس مجازی سے بھی کم ہے اسی لیے فرماتے ہیں

عشق مولے کے کم لیلی بود –  گوئے گشتن بہر او اولی بود
(حق تعالی کا عاشق لیلیٰ کے عاشق سے کب کم ہونا چاہیے مرضی حق کے آگے مثل گیند کے ہو جانا زیادہ اولیٰ ہے کہ بلے نے جدھر پھینک دیا ادھر ہی چلی جاتی ہے )

مگر کامیابی کی شرط وہی ہے جو اوپر عرض کی گئی ہے کہ

دررہ منزل لیلی کہ خطرہاست بجاں – شرط اول قدم آنست کہ مجنوں باشی

اور یہ عشق ہی وہ چیز ہے کہ سب کو فنا کردیتا ہے سوائے محبوب کے اور کسی چیز کو باقی نہیں چھوڑتا اسی کو فرماتے ہیں۔

عشق آں شعلہ است کوچوں بر فروخت – ہرچہ جز معشوق باقی جملہ سوخت

گلزار ابراہیم میں اسی کا ترجمہ ہے۔

عشق کی آتش ہے ایسی بدبلا – دےسوا معشوق کے سب کوجلا

باقی اس محبت کے پیدا کرنے کا طریقہ میں پہلے بیان کر چکا ہوں کے اہل اللہ کی محبت اہل اللہ کی محبت اختیار کرو ان کی محبت و صحبت کی برکت سے ان شاءاللہ دل میں عشق و محبت کی آگ پیدا ہو جائے گی اور بدون اس کے تو کامیابی مشکل ہے ان کی صحبت سے وہ کیفیت قلب میں پیدا ہوجائے گی کہ اس کے بعد بزبان حال یہ کہنے لگو گے

نشود نصیب دشمن کہ شود ہلاک تیغت – سردوستان سلامت کہ توخنجر آزمائی
(آپ کی تلوار سے ہلاک ہونا خدا کرے دشمن کے نصیب میں نہ ہوں دوستوں کا سر سلامت ہے جب چاہیں خنجر آزمائی فرما لیں)